! کارپوریٹس کے لیے مراعات، عوام کے لیے معاشی مشکلات

اکنامک سروے: مونوپولی کلچر کا بڑھتا فروغ بھارت کی معیشت کے لیے ازحد مہلک

0

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

کمپنیوں کے کیپٹل اور ملازمین کے ویجس کے درمیان بڑھتی ہوئی غیر مساوات۔ایک خطرناک مستقبل کا انتباہ
پارلیمنٹ کے حالیہ بجٹ سیشن کا آغاز صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے ایک روایتی تقریر پیش کرتے ہوئے کیا۔ تقریر کیا تھی حسبِ روایت حکومت کی تعریفوں کے پل باندھے گئے، وزیر اعظم مودی کی پیٹھ تھپتھپائی گئی، اس کے علاوہ کچھ اور قابل ذکر نہیں تھا۔ ساتھ ہی نرملا سیتا رمن نے اکنامک سروے بھی پیش کیا جو بڑا دلچسپ ہے۔ اس سروے کو چیف اکنامک ایڈوائزر ٹو گورنمنٹ آف انڈیا کی نگرانی میں ترتیب دیا گیا ہے جس میں ملک کی موجودہ معاشی صورت حال کو پیش کیا گیا۔
معاشی ماہرین گزشتہ کئی سال سے ملک کی معاشی صورت حال پر تشویش کرتے چلے آ رہے ہیں کہ معاشی پالیسیاں صرف کارپوریٹ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے والی ہیں، جو بھی ماہر معاشیات، اس طرح کے بیانات دے رہے تھے، اسے کامریڈ، اربن نکسل، دیش دروہی، چین کے ایجنٹ، نہ جانے کن کن القابات سے نوازا گیا، لیکن آج اکنامک سروے جو آیا ہے اس میں بھی تو یہی بات سامنے آئی ہے کہ کارپوریٹ کمپنیوں نے جتنی کمائی مودی حکومت میں کی ہے اتنی گزشتہ پندرہ سالوں میں کبھی نہیں کی۔ بات یہی نکل کر سامنے آئی ہے کہ کارپوریٹ کمپنیوں نے لوٹ مچا رکھی ہے۔
سروے میں کیا ہے؟
مذکورہ سروے میں کُل چار بنیادی باتیں ہیں :
-1 کارپوریٹ کمپنیوں کے پرافٹس میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔
یعنی سیدھی بات یہ ہےکہ موجودہ حکومت کی کرم فرمائیاں کارپوریٹ پر کچھ زیادہ ہی ہیں، بی جے پی حکومت نے کارپوریٹ کمپنیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہےکہ جس طرح چاہو عوام کو لوٹتے رہو، اسی لیے انڈین کارپوریٹ کمپنیاں منافع کما رہی ہیں اور حکومت انہی کو مراعات پر مراعات دیے جارہی ہے ۔ 2019 میں دس فیصد ٹیکس میں چھوٹ دی گئی تھی جس سے حکومت کو ایک لاکھ پچپن ہزار کروڑ روپیوں کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کارپوریٹ طبقہ مودی حکومت کی پشت پناہی کر رہا ہے، تب ہی تو بی جے پی کے لیے اتنی بڑی تعداد میں الیکٹورل بونڈز خریدے جا رہے ہیں۔ اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ 2008 کے بعد سے کارپوریٹ انڈیا کو اتنا فائدہ نہیں ہوا، جتنا موجودہ حکومت کے دورانیے میں ہوا ہے۔ 2003 میں کارپوریٹ کمپنیوں کو جو فائدہ ہوا تھا، اس کا اگر ملک کی جی ڈی پی سے اندازہ لگایا جائے تو دو اعشاریہ ایک فیصد تھا۔ مالی سال 2024 میں کارپوریٹ کمپنیوں کا فائدہ جی ڈی پی کا چار اعشاریہ آٹھ فیصد ہوا ہے۔ یعنی بی جے پی کی حکومت میں کارپوریٹ کمپنیوں کا فائدہ دوگنا سے بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ چونکہ میڈیا بھی کارپوریٹ کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے، اسی لیے مودی کو مہا پرش اور بھارت کو وشو گرو بنا کر پیش کرتا رہتا ہے۔ مودی کے نام کی مالا جپتے ہوئے میڈیا کی زبان نہ سوکھتی ہے اور نہ ہی تھکتی ہے، تعریفوں کے پل اسی لیے باندھے جارہے ہیں کیونکہ ان کو خوب فائدہ ہو رہا ہے۔
-2 کارپوریٹ میں بڑی کمپنیاں بھی ہوتی ہیں اور چھوٹی کمپنیاں بھی، اب اس پر غور کریں کہ اکنامک سروے میں بتایا گیا ہے کہ بڑی کمپنیاں یعنی غیر معمولی اور غیر متناسب طور پر منافع کما رہی ہیں جبکہ چھوٹی اور متوسط کمپنیوں کو ڈی مونیٹازیشن اور جی ایس ٹی کے ذریعے ڈلبریٹلی نقصان پہنچایا گیا ہے تاکہ وہ اپنی بقاء کی جنگ ہی لڑتی رہیں، اور لڑتے لڑتے ہار جائیں،اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مارکیٹ مونوپولی کلچر کی طرف بڑی تیزی سے رواں دواں ہے اور بہت جلد بھارت کا بازار’ مونوپولک مارکیٹ ‘بن جائے گا۔ اکنامک سروے نے کارپوریٹ کمپنیوں کے پرافٹس کو بیان کرنے کے لیے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ہے "روبسٹ” یعنی تن و مند، موٹا فائدہ حاصل کر رہی ہیں۔
3- آپ کے ذہن میں یہ بات آ رہی ہوگی کہ جب کمپنیاں اتنے فائدے میں ہیں تو ان میں کام کرنے والوں کو بھی فائدہ ہو رہا ہوگا؟ اس میں غلط کیا ہے؟ اکنامک سروے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ کمپنیاں تو روبسٹ پرافٹس(حد سے زیادہ منافع) حاصل کر رہی ہیں لیکن ان میں کام کرنے والے ملازمین کو اس آمدنی کا کوئی حصہ نہیں دیا جا رہا ہے، کمپنیاں تو بھاری کمائی کر رہی ہیں لیکن ان میں کام کرنے والے مزدوروں و محنت کشوں کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ اکنامک سروے میں کہا گیا ہے کہ کارپوریٹس "روبسٹ پرافٹس” حاصل کر رہی ہیں اور ورکرس کو "ماڈریٹ ویجیس” ہی مل پا رہے ہیں۔ ایس بی آئی کی ایک ریسرچ ٹیم نے چار ہزار لیسٹیڈ کمپنیوں کے ملازمین کی تنخواہوں کے بڑھنے سے متعلق ریسرچ کیا تو پتہ چلا کہ کمپنیاں اپنے ملازمین پر 2023 میں سترہ فیصد خرچ کرتی تھیں، جو گھٹ کر 2024 میں تیرہ فیصد ہوگیاہے۔ یعنی کارپوریٹ کمپنیوں نے اپنے ملازمین پر کم خرچ کیا ہے، فائدے دوگنا ہوئے ہیں، لیکن ان میں کام کرنے والے ملازمین پر خرچ کو کم کیا گیا ہے۔ نیو رکروٹمنٹس یعنی نئی بھرتیاں نہیں کر رہے ہیں، ان کے ویجیس نہیں بڑھا رہے ہیں، ان کی تنخواہوں میں اضافے نہیں کر رہے ہیں، ملازمین کو نکال رہے ہیں، کم ملازمین سے زیادہ کام لیا جارہا ہے۔ اس کیفیت کو یعنی کمپنیوں کا زیادہ فائدہ اٹھانا اور ملازمین کو ویجس(مزدوری) کم دینا، اس رجحان پر اکنامک سروے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے، یہ ملک کی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، کیوں کہ ‘کیپٹل پر پرافٹ اور لیبر کے ویجس’ ان دونوں کے درمیان توازن ہونا چاہیے، عدم اعتدال کا شکار نہیں ہونا چاہیے، اگر صرف کمپنیاں ہی فائدہ لیتی رہیں اور ملازمین کے ویجس میں اضافہ نہیں ہوگا تو ڈیمانڈ کیسے بڑھے گا؟اور جب ڈیمانڈ نہیں ہوگا تو اس کا راست اثر معیشت پر پڑتا ہے، معاشی ترقی رک جائے گی، اسی کو’ ڈیمانڈ ڈریون اکنامکس‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن مودی کا اصول تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ کارپوریٹ ڈریون اکنامکس کو بڑھاوا دیا جائے یعنی کارپوریٹ کو خوب فائدے پہنچائے جائیں ، ان کے قرض معاف کیے جائیں ، ان کو رعایتیں دی جائیں ، انہیں چھوٹ دی جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ انوسٹمنٹ کریں اور مارکیٹ ترقی کرے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عام لوگوں کے ہاتھوں میں پیسہ ہوگا تو وہ خرچ کریں گے جس سےبازار میں پیسہ زیادہ آتا رہے گا اور جب پیسے کا بہاؤ ہوگا تو پھر ملک کی معاشی ترقی بھی ہوگی۔ اکنامک سروے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کیپٹل اور ویجس کے درمیان اتنی ڈسپیریٹی ہوگی تو یہ اکنامی کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اگر مزدوروں کے ویجس میں اضافہ ہوگا اور وہ سیونگس کریں گے تو ڈیمانڈ جنریٹ ہوگی، جس کے نتیجے میں کمپنیاں اپنا پروڈکشن بڑھا سکتی ہیں اور جس کی وجہ سے ان کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا، یہ فطری طریقہ ہے، اکنامک ترقی کا یہ نیچرل اسٹائیل ہے۔
4- بڑے کارپوریٹس ملازمتیں بھی پیدا نہیں کر رہے ہیں، حکومت سے مراعات تو خوب حاصل کر رہے ہیں لیکن ایمپلائمنٹ پیدا نہیں کر رہے ہیں، نفٹی لیسٹیڈ پانچ سو بڑی کمپنیوں کو دیکھا جائے تو ان کا پرافٹ مارجن ساڑھے بائیس فیصد ہے جبکہ انہوں نے محض ڈیڑھ فیصد ہی ایمپلائمنٹ جنریٹ کیے ہیں۔
اکنامک سروے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ موجودہ سرکار کی معاشی پالیسیاں بڑے کارپوریٹس، سوپر ریچ کو فائدہ پہنچانے والی ہیں اور مونوپولی کلچر کو فروع دینے والی ہیں اور بے چارے عوام معاشی مار سہہ سہہ کر نیم مُردہ چکے ہیں ۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025