کارپوریٹ کمپنیوں کے.طویل اجلاسوں میں آخر کیا ہوتا ہے؟

وقت کی بربادی ۔ انسانی صلاحیتوں کا ضیاع۔ فیوچرفورم کا سروے

زعیم الدین احمد حیدرآباد

میں اکثر سوچتا ہوں کہ کارپوریٹ کمپنیوں میں جو گھنٹوں میٹنگیں ہوتی ہیں، آخر ان میٹنگوں میں کیا گفتگو ہوتی ہوگی۔ ہمارے کئی دوست ہیں جو مختلف کارپوریٹ کمپنیوں میں ملازم ہیں، وہ اکثر و بیشتر یہ کہتے ہیں کہ وہ اجلاس میں مصروف ہیں، ابھی بات نہیں ہو پائے گی۔ شاید آپ لوگ بھی اس طرح کے تجربے سے گزرے ہوں گے، آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ اکثر کارپوریٹ کمپنیوں میں کام کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ وہ اجلاس میں مصروف ہیں اب بات نہیں ہوسکتی، بعد میں بات ہوگی۔ یعنی وہ لوگ ہمیشہ اجلاسوں میں مصروف رہتے ہیں، ایک اجلاس ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہوجاتا ہے، اگر آپ کچھ بات کر بھی لیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میرے پاس صرف دس پندرہ منٹ ہیں ان ہی لمحوں میں بات ہوسکتی ہے پھر مجھے اجلاس میں شریک ہونا ہے، گویا وہ لوگ اجلاسوں میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ کسی سے گفتگو کا کوئی موقع ہی نہیں رہتا۔
آخر اتنے اجلاسوں کا انعقاد کیوں ہوتا ہے؟ ان میں کیا گفتگو ہوتی ہے؟ ایک ختم ہوتی نہیں کہ دوسری شروع ہو جاتی ہے، کیا واقعی اتنے اجلاسوں کی ضرورت ہوتی ہے یا یہ اجلاس برائے اجلاس ہوتے ہیں؟ بڑے منظم انداز میں کام کرنے والی کارپوریٹ کمپنیاں اتنی دیر تک میٹنگیں کیوں کرتی ہیں؟ اتنی لمبی لمبی میٹنگوں کا کیا فائدہ ہے؟ کیا یہ وقت کا ضیاع نہیں ہے؟ کیا اتنے بار اجلاس منعقد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟ کیا یہ اجلاس واقعی فائدہ بخش ہوتے ہیں؟ میرے ذہن میں ہمیشہ گھومنے والے میرے انہی سوالات کا جواب مجھے ایک خبر پڑھنے سے مل گیا۔ فیوچر فورم نام کا ایک ادارہ ہے جو بنیادی طور پر کارپوریٹ کمپنیوں سے متعلق مختلف موضوعات پر تحقیقات کرتا ہے۔ یہ ادارہ کئی اداروں کا مجموعہ ہے، یوں سمجھیے گویا یہ ایک کنسورشیم ہے، یہ ادارہ کوئی معمولی ادارہ نہیں ہے، یہ سیلس فورس کمپنی کے ماتحت کام کرنے والا ادارہ ہے۔
فیوچر فورم نے دنیا بھر کے کارپوریٹ کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز دس ہزار ایکزیکٹیوز کا سروے کیا۔ اس کے علاوہ نان ایکزیکٹیو ملازمین کا سروے بھی کیا۔ سروے بنیادی طور پر کارپوریٹ کمپنیوں میں ہونے والی میٹنگوں سے متعلق تھا، ان کے سروے میں معلوم ہوا کہ جو ایکزیکٹیو ملازمین ہیں وہ ہفتے میں پچیس گھنٹے میٹنگ میں ہی گزارتے ہیں، ان کے ہاں ایک ہفتہ پانچ دن کا ہوتا ہے، ہفتہ اور اتوار انہیں تعطیل ہوتی ہے، پانچ دن میں پچیس گھنٹے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ہر دن پانچ گھنٹے میٹنگ میں ہی گزارتے ہیں، یعنی دن کے آٹھ گھنٹے کی ملازمت میں پانچ گھنٹے محض میٹنگوں میں! تعجب خیز بات ہے۔ اور جو نان ایکزیکٹیو ملازمین ہیں وہ ہر ہفتے میں بارہ گھنٹے میٹنگوں میں گزراتے ہیں، یعنی ہر روز دو سے ڈھائی گھنٹے صرف میٹنگ میں ہی گزار دیتے ہیں۔ سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ان میٹنگوں کی وجہ سے کمپنیاں کروڑوں ڈالرز کا نقصان اٹھا رہی ہیں۔ بنیادی طور پر ان اجلاسوں میں انسانی صلاحیتوں کا ضیاع ہوتا ہے، گھنٹوں میٹنگ کرنے کا مطلب صرف گفتگو ہی ہوتی ہے کوئی عملی کام تو نہیں ہوتا، اسی لیے اس کو انسانی صلاحیتوں کا ضیاع کہا گیا ہے۔ پھر دوسری بات اس تحقیق سے یہ معلوم ہوئی کہ پچاس فیصد اجلاس ایسے ہیں کہ ان کا عملی اقدامات پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا، پھر ایسی میٹنگوں کا کیا حاصل؟ سروے میں بتایا گیا ہے کہ نان ایکزیکٹیو ملازمین کی 43 فیصد میٹنگیں تو غیر ضروری ہوتی ہیں جن کا کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا، جنہیں ملتوی یا نہیں بھی رکھا جاسکتا ہے، پھر ملازمین ان میٹنگوں میں کیوں حاضر ہوتے ہیں؟
میٹنگس منعقد کرنے کی کیا وجوہات ہیں؟ وجوہات کوئی متعین نہیں ہوتیں، خاص طور پر نان ایکزیکٹیو ملازمین کی سطح پر تو وہ میٹنگ میں حاضر ہونے کے لیے مجبور رہتے ہیں۔ انہیں کوئی اختیار نہیں ہوتا، میٹنگ کی ضرورت ہو یا نہ ہو، اس کی افادیت ہو یا نہ ہو انہیں بس حاضر ہونا ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب سے ہائی بریڈ ورک یعنی آن لائن اور آف لائن دونوں طریقہ کار کا آغاز ہوا ہے میٹنگیں اور زیادہ ہونے لگیں ہیں، کیوں کہ کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو اپنے ملازمین پر یقین نہیں ہوتا کہ گھر پر وہ کام کر رہا ہے یا نہیں؟ اسی لیے وہ میٹنگ منعقد کرتے رہتے ہیں۔ چھوٹے ملازمین کے پاس کوئی دوسرا متبادل بھی تو نہیں ہوتا انہیں لازماً میٹنگ میں شرکت کرنا ہی ہوتا ہے۔ سروے میں میٹنگ کی افادیت کے بارے میں ملازمین سے دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اکثر ملازمین میٹنگوں کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں، میٹنگ شروع ہونے سے قبل وہ پر جوش تو ہوتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اس میٹنگ میں کوئی اہم بات ہوگی اور کچھ نہ کچھ تو اس میٹنگ سے فائدہ ہوگا لیکن میٹنگ کے اختتام تک ان کی رائے بدل جاتی ہے، ان کی رائے اس میٹنگ کے بارے میں یہ ہوجاتی ہے کہ اس سے ان کا وقت برباد ہوا ہے، کوئی کار آمد بات ہی نہیں ہوئی وغیرہ۔ آن لائن میٹنگوں کی تو بات ہی نرالی ہوتی ہے، میٹنگ میں ویڈیو بند کردیتے ہیں اور اپنے باس کی باتیں سنتے رہتے ہیں یا دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایک اہم بات کے لیے میٹنگ بلائی جاتی ہے اور وہ اہم بات دو چار منٹوں میں مکمل کرلی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے دو تین گھنٹے میٹنگ چلائی جاتی ہے۔ چوتھی بات، میٹنگ رکھنے کی غایت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے سے اعلیٰ عہدیدار کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم کام کر رہے ہیں، سروے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اپنے کام کو ظاہر کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ میٹنگیں رکھی جاتی ہیں۔ اعلیٰ عہدیدار کو بھی اسی بنیاد پر جانچا جاتا ہے کہ اس نے کتنی میٹنگیں رکھیں، اسی سے اس کی فعالیت طے کی جاتی ہے۔ اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ان میٹنگوں سے کتنا فائدہ ہوا، کتنی پراڈکٹیوٹی بڑھی، اس میٹنگ سے ملازمین میں کتنی فعالیت بڑھی ہے؟ ان سب باتوں سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ بس ایک ضابطہ کی تکمیل کرنی ہوتی ہے۔
یہی صورت حال فلاحی تنظیموں کی بھی ہے، اجلاسوں پر اجلاس ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر فعالیت نہیں بڑھتی ہے۔ میٹنگوں سے عملی کاموں میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ نشستًا گفتًا برخاستًا والی کیفیت ہوتی ہے۔ نہ کاموں کا جائزہ کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، کہاں ہم کو جانا ہے، منزل مقصود تک کیسے پہنچا جائے، کیا عملی اقدامات ہوں، کیسے اپنے مقصد کو حاصل کیا جائے، اس طرف توجہ نہیں ہوتی، بس ایک ضابطہ کی تکمیل کا معاملہ ہے جو کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ وقت کے صحیح استعمال کی طرف توجہ ہونی چاہیے، ایک ایک لمحہ کو کیسے کارگر بنایا جائے اس کی فکر ہونی چاہیے۔
اب سروے کے بعد کارپوریٹ کمپنیوں میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ ان غیر ضروری اور وقت برباد کرنے والی میٹنگوں کو کم کیا جائے، اس کے بجائے وقت کا استعمال پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے کیا جائے، کینیڈین ای کامرس فرم شاپی فائی کمپنی نے اس سال تین لاکھ بیس ہزار گھنٹے میٹنگوں کے لیے مختص وقت کو کم کرکے دوسرے عملی کاموں میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرز پر دیگر کمپنیوں کو اور فلاحی اداروں کو اپنے وقت کو منظم کرتے ہوئے کسی فائدہ بخش کام میں لگانا چاہیے، صرف گفتگووں میں اپنے اوقات کو برباد کرنے کے بجائے کسی مفید کام میں لگانا چاہیے۔
***

 

***

 کینیڈین ای کامرس فرم شاپی فائی کمپنی نے اس سال تین لاکھ بیس ہزار گھنٹے میٹنگوں کے لیے مختص وقت کو کم کرکے دوسرے عملی کاموں میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرز پر دیگر کمپنیوں کو اور فلاحی اداروں کو اپنے وقت کو منظم کرتے ہوئے کسی فائدہ بخش کام میں لگانا چاہیے، صرف گفتگووں میں اپنے اوقات کو برباد کرنے کے بجائے کسی مفید کام میں لگانا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 مئی تا 13 مئی 2023