کورونا کے بعد ’’خسرہ کی وبا‘‘بھارت کے لیے بڑا خطرہ

سب سے زیادہ خسرہ سے متاثرہ دس ممالک میں بھارت بھی شامل

نوراللہ جاوید

کورونا کے دوران بچوں کو ویکسین دینے کی شرح میں کمی ؛اصل سبب ۔ویکسین میں اضافے سے وبا کا مقابلہ کیا جاسکتاہے
کورونا وبا کی تباہ کاریوں کے بعد بھارت کو دو اور وباوں کا سامنا ہے اور وہ ہیں خسرہ اور روبیلا۔ اس وقت ملک کی کئی ریاستوں مہاراشٹر، ہریانہ، بہار اور جھار کھنڈ میں یہ وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس کا شکار پہلے مہینے سے پانچ سال کے بچے ہوتے ہیں جب کہ حاملہ خواتین روبیلا کا شکار ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت جو دنیا بھر میں استعمال ہونے والی ویکسین کا 80 فیصد پیدا کرتا ہے اس کے باوجود یہاں خسرہ اور روبیلا کا خطرہ کیوں پیدا ہو گیا ہے؟ یہ دونوں بیماریاں کیا ہیں اور ان کی علامات کیا ہیں اور بچے اور حاملہ خواتین کس طرح اس کا شکار ہوتی ہیں؟ ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ خسرہ اور روبیلا کے بارے میں بھارتی سماج میں بہت ساری غلط روایات پائی جاتی ہیں اور متاثرہ بچوں کے والدین ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے مقامی ناتجربہ کار معالج یا جھاڑ پھونک کرنے والوں کے پاس جاتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں مرنے کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ویکسین کے بارے میں بھی ہمارے سماج میں کئی ساری غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں ویکسین دینا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ملک میں اس وقت خسرہ کے شکار بچوں کی تعداد 18 ہزار کے قریب ہے۔ مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے کیوں کہ دیہی علاقوں میں اس کا شکار بچوں کو ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا جاتا ہے اس لیے وہ اس سروے کا حصہ نہیں بن پاتے ہیں۔
ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے یونیسیف جو پوری دنیا میں بچوں کی صحت کی بہتری کے لیے حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے صحافیوں اور مذہبی شخصیات کے ساتھ مل کر پروگراموں کا انعقاد کرتی ہے کیوں کہ سماج میں کسی خبر کو عام کرنے اور ماحول بنانے میں صحافیوں کا اہم رول ہوتا ہے۔ 16تا17 دسمبر کو ممبئی میں یونیسیف نے ملک بھر سے آئے ہوئے 60 صحافیوں کے ساتھ مل کر ’’خسرہ، روبیلا اور معمول کے ویکسین پروگرام پر میڈیا ورک شاپ‘‘ کا انعقاد کیا جس میں سینئر صحافیوں، یونیسیف سے وابستہ ماہرین اور محکمہ صحت کے سینئر افسران نے خسرہ اور روبیلا کی وبائی حقیقت، میڈیا کے کردار اور مذہبی شخصیات کے متاثر کن پہلوؤں پر بات کی اور ساتھ ہی صحافیوں کو وبا اور اس سے متاثرہ افراد کی موت سے متعلق رپورٹنگ کرنے اور عوام تک پہنچانے کے کئی اہم گوشوں اور طریقہ کار پر بھی تفصیلی معلومات فراہم کیں۔ کہا گیا کہ وبا کے دنوں میں احتیاط کے ساتھ رپورٹنگ کرنے کا تقاضا سب سے زیادہ بڑھ جاتا ہے کیوں کہ سنسنی خیز خبر عوام کو حالات سے باخبر کرنے سے زیادہ انہیں مزید خوف زدہ کر سکتی ہے۔
خسرہ کیا ہے؟
خسرہ ایک وائرل بیماری ہے جو کھانسی اور منہ کے ذریعہ پھیلتی ہے۔ بخار، خارش اور کھانسی اس بیماری کی علامات ہیں۔ اس کی وجہ سے بچوں کے فوت ہو جانے کا شدید اندیشہ رہتا ہے۔ تاہم خسرہ اور روبیلا کی ویکسین لیے ہوئے بچے اور حاملہ خواتین اس سے متاثر ہو بھی جاتے ہیں تو 94 فیصد معاملات میں وہ جلد از جلد صحت مند بھی ہو جاتے ہیں ۔
خسرہ مدافعتی نظام کو متاثر کرتا ہے جب کہ روبیلا میں حاملہ خواتین اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ خسرہ سے متاثرہ بچے چند ہفتوں میں صحت مند ہو جاتے ہیں مگر صحت یابی کے بعد بھی ایسے بچوں میں دل، پھیپھڑے اور دماغ کی نشو ونما متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ورک شاپ میں مرکزی وزارت صحت میں امیونائزیشن کی ایڈیشنل کمشنر ڈاکٹر وینا دھون نے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے چند مہینوں تک ملک میں لاک ڈاؤن رہا۔ چوں کہ یہ صورت حال اچانک پیدا ہو گئی تھی اس لیے ملک میں ویکسین کے پروگرام بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے۔ ہم جہاں سالانہ ویکسین پروگراموں میں 95 فیصد بچوں کو کوریج کرتے تھے اس میں 85 فیصد گراوٹ آ گئی ہے۔15 فیصد بچے ویکسین پروگراموں سے محروم رہ گئے۔ ملک میں ہر سال نوزائیدہ بچوں کی تعداد سالانہ 2.6 کروڑ ہے۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ہماری بھر پور توجہ کورونا ٹیکہ پر مبذول ہو گئی اس لیے ایم آر ویکسین میں گراوٹ کی وجہ سے اس وبا نے بھارت میں ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت اس بیماری سے متاثرہ بچوں کی تعداد اٹھارہ ہزار ہے اور اس کا شکار سب سے زیادہ پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہو رہے ہیں۔ اس وبا سے متاثر ہونے والے بچوں کو مستقبل میں کئی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خطرات کا مقابلہ زیادہ سے زیادہ ویکسین کی رسائی کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ہمارے سامنے خسرہ اور روبیلا کی شکل میں ایک نیا چیلنج ہے اور اس کے پھیلنے کی شرح بہت ہی تیز ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ کی بات یہ ہے کہ اس کاشکار زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ہند کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھر میں استعمال ہونے والی ویکسین کی 80 فیصد خوراک کی پیداوار ہندوستان میں ہوتی ہے اس لیے ہمیں خوف زدہ ہونے کے بجائے ویکسین کی خوراک کو زیادہ سے زیادہ بچوں تک فراہم کر کے اس وبا سے ملک کو پاک کرنا ہے اس کے لیے ہم نے 14 مہینے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اگلے 14 مہینے میں ہم ایک بار پھر 95 فیصد بچوں کو کوریج کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہدف کیسے مکمل ہو گا، کیا اس کے لیے صرف سرکاری انتظامات کافی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں مسز دھون بتاتی ہیں کہ اس کے لیے میڈیا اور مذہبی شخصیات اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میڈیا میں صحت سے متعلق کوریج کا اضافہ کرنا ہو گا، دوسری طرف مذہبی شخصیات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سماج میں جو غلط باتیں پھیل گئی ہیں اس کے خاتمے کے لیے کوشش کریں کیوں کہ ان کا عوام پر اثر زیادہ ہوتا ہے۔
ماہر ڈاکٹر اشیش چوہان نے ملک بھر میں ویکسین کی شرح سے متعلق اعداد و شمار کے متعلق بتایا کہ خسرہ اور روبیلا کی ویکسین کئی سال قبل ملک میں تیار ہو گئی تھی لیکن کورونا وبا کے دوران ویکسین فراہم کرنے کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور اس کے بعد ساری توجہ کورونا کی ویکسین فراہمی پر مبذول ہو گئی جس کے نتیجے میں خسرہ ویکسین فراہم کرنے کی شرح میں گراوٹ آئی ہے۔ ہر سال ملک میں 2.9 کروڑ خواتین حاملہ ہوتی ہیں جب کہ 2.6 کروڑ بچے پیدا ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعداد کو ویکسین فراہم کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے باوجود ہم 85 فیصد بچوں کو ویکسین فراہم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں مگر جو 15 فیصد بچے چھوٹ جاتے ہیں وہ دوسرے ممالک کی تعداد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں اس لیے ہم دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر اشیش چوہان نے مزید کہا کہ اب تک ہم نے جو کیسز دیکھے ہیں ان میں زیادہ تر وہ بچے خسرہ کا شکار ہو رہے ہیں جنہوں نے ایم آرو ویکسین نہیں لیا ہے یا پھر صرف ایک ہی خوراک لی ہے۔ پہلی خوراک چھ مہینے میں دی جاتی ہے جب کہ دوسری خوراک سولہ مہینے بعد دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جن بچوں نے ویکسین لی ہے اگر وہ متاثر ہو بھی جاتے ہیں تو ایسے بچوں میں اموات کی شرح نہیں کے برابر ہے اور ان میں سائیڈ افیکٹ بھی نہیں ہوتا ہے۔
سینئر صحافی اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر پنکج پچوری نے وبا کی رپورٹنگ سے متعلق رہنما اصول پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی خبر یا پھر اسٹوری صرف ایک سورس کے ذریعہ نہیں دینی چاہیے بلکہ کم سے کم دو سورسیز اور اس شعبہ سے وابستہ ماہرین کی رائے کے بعد ہی وہ اسٹوری لکھی جانی چاہیے۔
***

 

***

 ایم آر ویکسین سے متعلق اہم اور بنیادی حقائق
(1) خسرہ اور روبیلا کی ویکسین مکمل طور پر محفوظ ہے۔ گزشتہ چالیس سالوں سے دنیا کے مختلف ممالک میں اس کا استعمال ہو رہا ہے۔ چوں کہ یہ ویکسین جلد کے اوپری حصہ میں دی جاتی ہے اس لیے اس کا کوئی سائیڈ افیکٹ بھی نہیں ہے لیکن کبھی کبھی معمولی بخار آجاتا ہے جو پریشانی کا باعث نہیں ہے جب کہ دوسرے ویکسینوں میں بخار اور درد تین دنوں تک بھی رہ سکتا ہے۔
(2) دنیا بھر میں لاکھوں بچوں کو ہر سال ایم آر ویکسین دیا جاتا ہے۔ یہ ویکسین بہت ہی زیادہ مؤثر ہوتی ہے اور یہ یونیورسل امیونائزیشین پروگرام (Universal Immunization Programme) کے تحت دی جاتی ہے۔ یہ ویکسین سنٹرل ڈرگس اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن سے منظور شدہ ہوتی ہے۔
(3)ایم آر ویکسین کی 85 فیصد پیداوار بھارت میں ہوتی ہے۔
(4)ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سفارش کے مطابق ایم آر ویکسین کی پہلی خوراک نو مہینے سے بارہ مہینوں کے اندر اور دوسری خوراک سولہ تا چوبیس مہینوں کے اندر دی جانی چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 ڈسمبر تا 31 ڈسمبر 2022