کانگریس اور بی جے پی کا 2024 کی انتخابی مہم کا آغاز
ایک جماعت روایتی انداز میں ہے تو دوسری مرکزی و سوشل میڈیا پر حاوی
اسد مرزا
انتخابی سال 2024 کے آغاز سے کچھ ہی دن قبل، برسر اقتدار بی جے پی اور حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی، دونوں نے اپنے اپنے انداز میں اگلے عام انتخابات کے لیے مہم شروع کردی ہے۔ بی جے پی کی توجہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر مرکوز رہے گی، جب کہ کانگریس اپنی پرانی روایات کو جاری رکھتے ہوئے عوامی رابطوں پر زیادہ انحصار کرے گی۔
22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کی تقریب سے پہلے، حکم راں بی جے پی نے 28 دسمبر کو پارٹی کے آفیشل X ہینڈل کے ذریعے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ یہ شروعات ہوئی ہے ایک گانے کے ذریعے جس کے پس منظر میں پی ایم مودی کو رام مندر کی سنگ بنیاد کی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ 10 منٹ کا یہ گانا، مودی حکومت کے مختلف ترقیاتی کاموں، خلا میں بھارت کی پیش رفت اور سائنسی میدان پر توجہ مرکوز کرتا ہے، اور حزبِ اختلاف کے لیڈروں پر تنقید کرتا ہے۔وزیر اعظم کی بصری تصویر، مرکزی حکومت کے منصوبوں اور اسکیموں کی شاندار تعریف، مذہبی علامتوں کی فراخدلی اور اپوزیشن پر تنقید اس پورے گانے میں شامل ہے۔ دس منٹ کے گانے کے بول اور تھیم مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز کراتے ہیں جن میں مذہبی اور ثقافتی محاذ پر مودی حکومت کے کام، کاشی سے ایودھیا اور اجین تک ہندو دھرم اور غریبوں کے لیے اس کے مختلف منصوبوں اور مرکز میں مودی کے گزشتہ دو میقات کے دوران ان کی مختلف کامیابیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کس طرح مودی ایک نئے بھارت کو تشکیل دے رہے ہیں وہ بھی اس گانے میں شامل ہے۔ گانے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب بی جے پی کے کہ تمام مخالفین متحد ہوجائیں گے تو ’’مودی واپس آئے گا‘‘۔ویڈیو میں آرمی کی وردی اور فائٹر جیٹ میں بیٹھے ہوئے پی ایم کے کلپس ہیں۔ اس میں مودی کو عالمی میٹنگوں اور تقریبات میں حصہ لیتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے تاکہ دنیا میں ہندوستان کے بڑھتے ہوئے قد کی نشاندہی کی جا سکے۔ بطور ’وشو گرو‘۔ ویڈیو میں مزید پوچھا جاتا ہے : رام مندر کس نے بنایا؟ مودی سرکار نے! آرٹیکل 370 کس نے ہٹایا؟ مودی سرکار نے! سرجیکل اسٹرائیک کس نے کی؟ مودی سرکار نے! سڑکوں کے نیٹ ورک، ہوائی اڈوں، وندے بھارت ٹرینوں، AIIMS، IITs اور IIMs کا ذکر کرتے ہوئے گانے کے زیادہ تر بول مودی کی مصنوعی آواز میں ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ پی ایم اس گانے پر حاوی ہیں جب کہ کسی بھی دوسرے بی جے پی لیڈر کو زیادہ اسکرین پر نہیں دکھایا گیا ہے۔ پارٹی نے پچھلے مہینوں میں مودی کے نام پر راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخابات لڑے اور جیتے ہیں اور آئندہ عام انتخابات بھی مودی کے نام پر لڑے جائیں گے۔ذرائع کے مطابق یہ گانا بی جے پی کی انتخابی مہم کی شروعات ہے اور ابھی بہت سے گانے اور ویڈیو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کے ذریعے پیش کیے جائیں گے اور اس میں مودی کا ہیٹ ٹرک بنانا بھی شامل ہوگا۔
جس طریقے سے یہ گانا سوشل میڈیا پر ریلیز کیا گیا ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی 2024 کے عام انتخابات کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرے گی کیونکہ اس کے ذریعے ذہن سازی کرنا کچھ زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔
کانگریس کی انتخابی مہم:
حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے 28 دسمبر کو ناگپور میں ایک ریلی کے ذریعے اپنی پارلیمانی انتخابی مہم کا آغاز کیا، جس میں پارٹی کے صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ اس شہر کا انتخاب اس بات کی تصدیق کرنا ہے کہ کانگریس ، بی آر امبیڈکر کو کبھی فراموش نہیں کرے گی اور ان کے ترقی پسند خیالات ہمیشہ کانگریس کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ گویا ناگپور میں ریلی کرکے کانگریس نے یہ اشارہ دیا ہے کہ اول تو وہ ہمیشہ سے دلتوں کے ساتھ رہی ہے اور یہ شہر امبیڈکر کا شہر مانا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہاں پر آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر ہونے کی وجہ سے وہ آر ایس ایس کو بھی انتخابی مہم میں اپنا نشانہ بنائے گی۔
اس موقع پر کانگریس کے صدر ملکاارجن کھرگے نے کہا کہ:’’ ناگپور دراصل دو نظریات کا مرکز رہا ہے۔ ایک نظریہ ترقی پسند ہے جو بابا صاحب امبیڈکر کا ہے۔ دوسری طرف آر ایس ایس ہے جو ملک کو تباہ کر رہی ہے۔ اور ہمیں امبیڈکر کے نظریے پر چلنا ہے۔‘‘
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے بھی 2024 کی انتخابی جنگ کو سخت نظریاتی بتاتے ہوئے کہا کہ یہ تصور کہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان لڑائی سیاسی ہے، سو فیصد درست نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر آرایس ایس کے نظریہ کے خلاف لڑائی ہے۔اور آر ایس ایس کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے کانگریس ہمیشہ کوشاں رہے گی۔
کانگریس پارٹی کے یوم تاسیس کی 139ویں سالگرہ کے موقع پر ’’ہیں تیار ہم‘‘ ریلی میں اپنی تقریر کے دوران راہل گاندھی نے یہ بھی اعادہ کیا کہ پارٹی جب مرکز میں اقتدار حاصل کرلے گی، تب ملک گیر سطح پر ذات پات کی مردم شماری کرائے گی۔
اپنی تقریر میں،راہل گاندھی نے آر ایس ایس پر الزام لگایا کہ وہ ہندوستان کو ’آزادی سے پہلے کے دور‘ میں واپس لے جانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس وقت ملک میں نظریات کی جنگ جاری ہے۔عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی لڑائی ہے، یہ اقتدار کی لڑائی ہے۔ لیکن اس لڑائی کی بنیاد دراصل نظریہ ہے۔ آزادی سے پہلے، خواتین کو کوئی حقوق نہیں تھے، دلت اچھوت تھے۔ یہ آر ایس ایس کا نظریہ ہے اور ہم نے اسے بدل دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس میں داخلی جمہوریت ہے، جہاں ایک کارکن بھی اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کر سکتا ہے، اس کے برعکس بی جے پی میں لیڈران اور کارکنان صرف اعلیٰ قیادت کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نیا سال شروع ہونے سے قبل ہی ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے جس طرح اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرنے کا اشارہ دیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ 2024 کے عام انتخابات دونوں کے لیے ہی بقا کی جنگ ہیں لیکن کانگریس کے لیے کچھ زیادہ ہی مسئلہ ہے۔ اگر انہوں نے ابھی سے رائے دہندگان کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش نہیں کی تو ان کی حریف جماعت زیادہ بہتر کارکردگی کا ثبوت دے کر زیادہ پارلیمانی نشستیں جیت کر اقتدار حاصل کر لے گی۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ جس طرح بی جے پی سوشل میڈیا کے ذریعے نئے بیانیے کو عوام میں سرعت کے ساتھ پھیلانے میں ماہر ہوچکی ہے، وہ تیزی کانگریس میں نہیں ہے اور جب تک وہ اپنی ان کمیوں کو درست نہیں کرے گی تب تک اس کا اقتدار کا خواب پورا نہیں ہو گا۔
دراصل اس کے پیچھے کانگریس کی یہ ذہنیت کام کرتی رہی ہے کہ ملک کے عوام ملک کی آزادی حاصل کرنے کی بنا پر ہمیشہ اس کو اقتدار میں رکھیں گے جبکہ بی جے پی نے اپنی مختلف مہمات کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ مذہب ہندوستانی عوام کے لیے افیم کی طرح ہے، چاہے وہ ان پڑھ ہو یا پڑھا لکھا لیکن اگر آپ اپنے رائے دہندگان کو یہ باور کراسکیں گے کہ صرف بی جے پی کے ذریعہ ہی ان کا مذہب محفوظ ہے تو اس کھیل میں کانگریس بی جے پی کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتی۔اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عموماً کانگریس زیادہ تر فیصلے تاخیر سے لیتی نظر آتی ہے کیونکہ اس میں سارے سینئر رہنماؤں کی رائے شامل کرنا ضروری ہوتا ہے جبکہ بی جے پی صرف ایک فرد کی سوچ اور حکم پر کام کرتی ہے اس لیے وہ سرعت کے ساتھ اپنا بیانیہ بدلنے میں کامیاب ہوتی ہے اور ساتھ ہی عوام کو ذہنی طور پر اپنی حمایت کے لیے راغب کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ یہ تمام ایسے نکات ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
***
ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے جس طرح اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرنے کا اشارہ دیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ 2024 کے عام انتخابات دونوں کے لیے ہی بقا کی جنگ ہیں لیکن کانگریس کے لیے کچھ زیادہ ہی مسئلہ ہے۔ اگر انہوں نے ابھی سے رائے دہندگان کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش نہیں کی تو ان کی حریف جماعت زیادہ بہتر کارکردگی کا ثبوت دے کر زیادہ پارلیمانی نشستیں جیت کر اقتدار حاصل کر لے گی۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ جس طرح بی جے پی سوشل میڈیا کے ذریعے نئے بیانیے کو عوام میں سرعت کے ساتھ پھیلانے میں ماہر ہوچکی ہے، وہ تیزی کانگریس میں نہیں ہے اور جب تک وہ اپنی ان کمیوں کو درست نہیں کرے گی تب تک اس کا اقتدار کا خواب پورا نہیں ہو گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024