اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کے بارے میں سوشل میڈیا پوسٹس پر کولہاپور میں فرقہ وارانہ کشیدگی، مسجد پر پتھراؤ اور مسلمانوں کی دکانوں میں توڑپھوڑ کی اطلاعات

نئی دہلی، جون 7: مہاراشٹر کے کولہاپور شہر میں بدھ کی صبح ہندوتوا گروپوں کی طرف سے مسلم حکمرانوں اورنگزیب اور ٹیپو سلطان سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹس کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے بلائے گئے بند کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔

شہر کے چھترپتی شیواجی مہاراج چوک میں مظاہرین کے ایک گروپ کے ذریعے مبینہ طور پر مسلمانوں کی دکانوں اور گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کے بعد تشدد پھوٹ پڑا۔

پولیس سپرنٹنڈنٹ مہیندر پنڈت نے کہا کہ مبینہ طور پر قابل اعتراض سوشل میڈیا پوسٹس کے لیے دو کیس درج کیے جانے کے بعد منگل کو پانچ افراد کو حراست میں لیا گیا۔

پنڈت نے کہا ’’ایک ہجوم لکشمی پوری تھانے کے باہر جمع ہوا تھا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کر رہا تھا۔ جب یہ واپس آرہا تھا تو کچھ شرپسندوں نے پتھراؤ کیا اور اس کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا۔‘‘

پولیس اہلکار نے بتایا کہ بدھ کو احتجاج ختم ہونے کے بعد دوبارہ پتھراؤ کیا گیا۔ پولیس نے ہجوم پر قابو پانے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔

اہلکار اب تشدد کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں اور یہ جانچ رہے ہیں کہ آیا کوئی زخمی ہوا ہے۔

سوشل میڈیا صارفین نے ٹویٹر پر ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہندوتوا کے حامیوں کے ہجوم نے ایک مسلمان پھل فروش پر حملہ کیا۔ کچھ صارفین نے ایسی ویڈیوز بھی پوسٹ کیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ایک مسجد پر پتھر پھینکے گئے اور فرقہ وارانہ تقریریں کی گئیں۔ لیکن پولیس نے ابھی تک ان واقعات کی تصدیق نہیں کی ہے۔

کولہاپور کے کلکٹر راہل ریکھاور نے کہا کہ شہر میں حالات قابو میں ہیں اور اضافی پولیس فورس کو لایا گیا ہے۔ انھوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ حکام کے ساتھ تعاون کریں۔

کولہاپور کے سرپرست وزیر دیپک کیسرکر نے کہا کہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے جنھوں نے ٹیپو سلطان کی تصویر کو قابل اعتراض آڈیو پیغام کے ساتھ استعمال کیا۔

مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے نے ریاست میں پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے کہا ’’قانون کو ہاتھ میں لینے والے کو بخشا نہیں جائے گا۔ میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہوں اور ضروری ہدایات دی گئی ہیں۔‘‘

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار نے بھارتیہ جنتا پارٹی پر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کی حوصلہ افزائی کا الزام لگایا۔

انھوں نے ٹویٹر پر لکھا ’’احمد نگر اور کولہاپور میں فرقہ وارانہ جھڑپیں فون پر بھیجے گئے کچھ پیغامات کی بِنا پر ہوئی ہیں۔ اس طرح کے پیغامات پر سڑکوں پر نکلنے اور انھیں مذہبی رنگ دینے کا کیا مطلب ہے؟‘‘