
کو-لیونگ تعلقات: جدید طرزِ زندگی یا تہذیبی خودکشی؟
اخلاقی زوال کا نیا روپ اور سماجی بحران کا ایک تکلیف دہ باب
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
خاندان بکھر رہے ہیں اور رشتے مر رہے ہیں۔ اسلامی طرز زندگی مسائل کا بہترین حل
بھارتی سماج اس وقت جس خاموش لیکن شدید تہذیبی دیوالیہ پن سے دوچار ہے، اس کے اثرات ہماری روزمرہ زندگی سے لے کر خاندانی اکائیوں تک گہرائی سے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک خطرناک رجحان جس نے شہروں اور خاص طور پر میٹرو شہروں میں تیزی سے قدم جمائے ہیں، وہ کو-لیونگ ریلیشنز یا لِیو-اِن ریلیشن شپس کا تصور ہے۔ یہ تعلقات نہ صرف مذہبی اور اخلاقی اصولوں کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہیں، بلکہ سماجی اداروں کو بھی اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس نئے فتنہ کے خلاف وہ مذہبی ادارے اور فلاحی تنظیمیں جو اخلاقی زوال پر ہمیشہ سے تنقید کرتی رہی ہیں، اس باب میں یا تو سرے سے خاموش ہیں یا پھر رسمی بیانات تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
’’کو-لیونگ”کے نام پر دو یا دو سے زائد افراد، بالخصوص مخالف جنس کے غیر شادی شدہ نوجوان ایک ہی مکان یا کمرے میں رہائش پذیر ہو رہے ہیں۔ اسے آزادی، خودمختاری اور ’’لائف اسٹائل چوائس‘‘کے عنوان سے بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ رجحان بالخصوص دہلی، ممبئی، بنگلور، پونے، گڑگاؤں اور حیدرآباد جیسے شہری علاقوں میں فروغ پا رہا ہے، جہاں نوجوان تعلیم یا ملازمت کے سلسلے میں اپنے خاندان سے دور رہتے ہیں۔
ریئل اسٹیٹ کمپنیاں، اسٹارٹ اپس اور سرمایہ دار گروہ اب ’’کو-لیونگ اسپیسز‘‘کو نہ صرف قانونی بلکہ سماجی طور پر بھی قبول کرانے کے لیے پرکشش اشتہارات اور مہمات چلا رہے ہیں۔ اس کا مقصد صرف رہائش فراہم کرنا نہیں بلکہ ایک ایسی طرزِ زندگی کو فروغ دینا ہے جو خاندانی نظام کو غیر ضروری اور شادی جیسے مقدس بندھن کو بے معنی ثابت کردے۔
سی آر بی ای، انڈیا کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق صرف تین بڑے شہروں (بنگلور، پونے اور گڑگاؤں) میں کو-لیونگ اسپیسز کی طلب میں پچھلے تین برسوں کے دوران 60فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ Pew Research Center کے ایک سروے (2022) کے مطابق شہری علاقوں میں 18 سے 35 سال کے تقریباً 35فیصد نوجوان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ لِو-اِن ریلیشن شپس ایک ’’قابل قبول‘‘متبادل ہیں۔
دوسری جانب نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی 2023 کی رپورٹ بتاتی ہے کہ لِیو-اِن تعلقات سے جڑے گھریلو جھگڑوں، تشدد اور قتل کے معاملات میں 40فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار محض اتفاق نہیں بلکہ اس رجحان کے اندر چھپے ہوئے خطرات کی جانب ایک واضح اشارہ ہیں جو اس وقت سماج میں بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
اخلاقی اور نفسیاتی تباہ کاریاں
کو-لیونگ تعلقات دراصل مذہب، خاندان، رشتوں اور ذمہ داریوں سے آزادی کا اعلان ہیں۔ جہاں نہ کوئی قانونی یا شرعی بندھن ہوتا ہے نہ والدین کی اجازت، نہ کسی بزرگ کی رہنمائی اور نہ ہی معاشرتی جواب دہی کا کوئی تصور۔ ان تعلقات میں ایک طرف وقتی جذبات، جسمانی کشش اور سہولتوں کا لالچ ہوتا ہے اور دوسری طرف جذباتی استحصال، بے یقینی، بے وفائی اور مستقبل کا اندھیرا پن ہوتا ہے۔ اس طرح کے تعلقات اکثر جنسی استحصال، بے راہ روی یا اچانک تعلق کے خاتمے جیسے سانحات پر ختم ہوتے ہیں۔ نفسیاتی ماہرین بتاتے ہیں کہ ایسے افراد میں ڈپریشن، تناؤ، کمٹمنٹ فوبیا اور خودکشی کا رجحان عام ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کو ایسے تعلقات میں زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے جہاں اکثر انہیں شادی کے وعدے پر کو-لیونگ میں لایا جاتا ہے اور بعد میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔
خاندانی نظام پر مہلک ضرب
ہندوستانی سماج کا سب سے مضبوط ستون اس کا خاندانی نظام رہا ہے۔ جس میں نکاح کو ایک مقدس اور باقاعدہ بندھن سمجھا جاتا ہے جہاں نہ صرف دو افراد بلکہ دو خاندان جڑتے ہیں۔ کو-لیونگ نہ صرف اس بندھن کو کمزور کرتا ہے بلکہ نوجوانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ذمہ داری، قربانی اور وفاداری جیسے اصول اب فرسودہ ہو چکے ہیں، یہ پرانے دور کی باتیں ہیں دور جدید میں ان سب باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کیفیت کا اثر یوں ہوتا ہے کہ خاندان بکھر جاتے ہیں، بچے غیر محفوظ ہو جاتے ہیں اور سماج میں ایک ایسی نسل پیدا ہوتی ہے جو نہ ماں باپ کی عزت کرتی ہے اور نہ ہی کسی رشتے کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔
مذہبی جماعتوں اور علماء کی خاموشی
کو-لیونگ جیسے خطرناک فتنے پر مذہبی حلقوں کی خاموشی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ اگرچہ بعض علماء نے انفرادی طور پر اس سلسلے میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی ہے مگر مجموعی طور پر کسی مؤثر اجتماعی تحریک، کوئی شعور بیداری مہم یا اصلاحی لٹریچر کی کمی نمایاں ہے۔ مساجد میں خطبات کا دائرہ اب بھی نکاح و طلاق تک محدود ہے۔ اسلامی تنظیمیں، جو سیاسی و تعلیمی موضوعات پر مسلسل سرگرم رہتی ہیں اس میدان میں خاموش دکھائی دیتی ہیں۔ دوسری طرف غیر مسلم مذہبی ادارے بھی مغرب زدہ جدیدیت کے آگے ہتھیار ڈال چکے ہیں یا صرف اپنے حلقے تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
اس فتنہ کا اسلامی تناظر
اسلام میں زنا کو حرام، اخلاقی جرم اور معاشرتی سطح پر گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
’’وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا‘‘(سورۃ الاسراء، آیت 32)
ترجمہ: ’’زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یقیناً وہ بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔‘‘
اسلامی تعلیمات میں نکاح کو نہ صرف فطری جذبے کی تسکین کا ذریعہ بنایا گیا ہے، بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری، سماجی تحفظ اور روحانی ترقی کا ذریعہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نکاح میری سنت ہے، اور جو اس سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
اگر نفس مسئلہ یہ ہے تو پھر متبادل راستے کیا ہے؟ متبادل راستہ اصلاحی اقدام اور سماجی بیداری ہے
1- سہل نکاح کی مہمات: جہیز، فضول رسومات اور مہنگے تقاضوں کو ترک کر کے نوجوانوں کو نکاح کی ترغیب دی جائے۔
2- دینی تعلیم کا فروغ: اسکولوں، کالجوں اور مساجد میں دینیات، اخلاقی تربیت اور نکاح کی اہمیت پر عملی تربیت دی جائے۔
3- والدین اور تعلیمی ادارے بیدار ہوں: والدین بچوں کے ساتھ جذباتی طور پر جڑے رہیں، ان کی الجھنوں کو سمجھیں، اور وقت پر رہنمائی فراہم کریں۔
4- میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیداری: مذہبی و سماجی تنظیمیں ویب سیریز، OTT اور فلموں کے ذریعہ پھیلائی گئی بے راہ روی کے مقابلے میں معیاری، دینی و اخلاقی مواد تیار کریں۔
کو-لیونگ جیسا تصور ایک آزمائش سے کم نہیں ہے جو ہماری نوجوان نسل کو فکری و تہذیبی بحران میں مبتلا کر رہا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو وہ دن دور نہیں جب ہماری تہذیب، خاندانی نظام اور مذہبی اقدار کا وجود صرف کتابوں میں باقی رہ جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ مذہبی ادارے، اصلاحی تحریکیں، والدین اور باشعور نوجوان ایک مشترکہ جدوجہد کا آغاز کریں تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک با وقار، محفوظ اور بامقصد زندگی دی جا سکے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025