شہریت ترمیمی قانون : یہ ملک کی سالمیت و اتحاد کے لیے بہت خطرناک ہے
ہم امت شاہ کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس بات سے ڈریں کہ کوئی ایسا قانون نہ بننے پائے جس سے ہندوستانی سماج کے تانے بانے بکھرنے لگیں۔
متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کو حکمران بی جے پی نے بالآخر اکثریت کے بل پر دونوں ایوانوں سے منظو کروالیا، اور صدر جمہوریہ نے اس پر مہر توثیق ثبت کردی۔ ہفت روزہ دعوت کے صحافی افروز عالم ساحل نے جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جناب ملک معتصم خان سے خاص سے اس سلسلے میں تفصیی گفتگو کی۔ یہاں اس انٹرویو کے چند اقتباسات پیش ہیں۔
سخت مخالفت کے باوجود پارلیمنٹ سے آخر شہریت ترمیمی قانون منظور ہوگیا۔ اس قانون کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
حال ہی میں منظور کیا گیا شہریت ترمیمی قانون ہمارے ملک، سماج اور یہاں بسنے والے باشندوں اور خصوصی طور پر اقلیتوں اور مسلمانوں کے لیے دستور میں ودیعت کردہ ضمانتوں پر حملہ ہے ، اور یہ دستور میں دیے گئی تحفظات کو ڈھا دینے کے مترادف ہے۔ لہذا یہ ایک انتہائی نقصان دہ قانون ہےجسے برسر حکومت پارٹی اپنی نفرت پر مبنی سیاست چمکانے کے لیے، تقسیم کی سیاست کے لیے، ظلم کی ایک شکل پیدا کرنے کے لیے، خوف کا ماحول تیار کرنے کے لیے اور اپنے فرقہ پرست اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے لائی ہے۔ اس لیے ہم اس قانون کو دستور کی بنیادوں کے لیے بہت ہی برا شگون سمجھتے ہیں ۔ یہ ملک کی سالمیت و اتحاد کے لیے بہت خطرناک ہے۔
لیکن امت شاہ تو کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
یہ طفل تسلیاں ہیں۔ ایسی باتیں تو امت شاہ گجرات سے پہلے بھی کہتے تھے۔ بابری مسجد کی شہادت سے پہلے بھی ایسی ہی باتیں کہی گئیں۔ کشمیر سے جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تب بھی یہی کہا گیا۔ ہمیں امت شاہ سے کوئی امید نہیں ہے ، اور نہ ہم ان سے ڈر رہے ہیں۔ ہم صرف مملکت ہندوستان کے دستور کی بنیادی قدروں کے خلاف بنائے گئے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ڈرنا تو انھیں چاہیے جو ملک کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ ان کے اقتدار کو اکثریت حاصل ہے چنانچہ طاقت کے نشے میں ، عددی قوت کے دم پر، وہ ایسا کام نہ کریں جس سے ملک اور سماج بکھر جائے۔ ہم خوف زدہ نہیں ہیں، البتہ ہم امت شاہ کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس بات سے ڈریں کہ کوئی ایسا قانون نہ بننے پائے جس سے ہندوستانی سماج کے تانے بانے بکھرنے لگیں۔
اگر کسی کو شہریت دی جا رہی ہے تو اس میں پروبلم کیا ہے؟
مسئلہ اس قانون میں موجود قواعد وضوابط سے ہے۔ جو لوگ بھی ملک میں موجود ہیں، اگر ان کے پاس دستاویز نہیں ہیں، وہ کسی بھی علاقے میں رہتے ہوں، کسی بھی مذہب کے کیوں نہ ہوں، اگر ان کو شہریت دی جاتی ہے تو یہ مسئلہ اعتراض کا نہیں ہے۔ پڑوسی ملکوں میں اگر کہیں ظلم ہوا ہے یا کوئی آسمانی آفت آئی ہے، جس کے نتیجے میں لوگ مجبور و مظلوم ہیں یا ضرورت مند ہیں اور وہ شہریت چاہتے ہیں تو انہیں شہریت دی جائے۔ شہریت کے لیے پہلے سے ملک میں قانون موجود ہے۔ لیکن اس کو ملکی اور مذہبی بنیاد پر کرنا سخت نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اس کی ہم شدید مخالفت کرتے ہیں۔
لیکن دونوں ایوانوں سے منظور ہو کر صدر جمہوریہ کے دستخط سے اب قانون بن چکا ہے؟
قانون کو عددی طاقت کی بنیاد پر بدل دیا جانا دستور کے خلاف ہے، ہندوستانی ضمیر کے مغائر ہے، دستور کی بنیادی اقدار پر حملہ ہے، اور ملک کے نظریے کے خلاف ہے۔ ایسے قانون کو منسوخ ہونا چاہیے۔ ملک بھر میں اس کی مخالفت میں احتجاجات ہورہے ہیں۔ لوگ سڑکوں پر ہیں، ناراض ہیں، ملک کے دانش ور ناراض ہیں۔ ایک خوف کا ماحول ہے۔ پورے ملک میں افرا تفری پھیلی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے یہ قانون ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے خوش آئند نہیں ہے، اس سے جمہوریت کو زک پہنچے گی۔ اس تناظر میں میں ہم اس قانون کو واپس لینے کی مانگ کرتے رہیں گے۔ سپریم کورٹ میں درخواستیں ڈالی جا چکی ہیں، امید ہے وہاں سے یہ قانون ردہو جائے گا۔
قانون بن جانے کے بعد بھی اس کی اتنی مخالفت کیوں؟ آخر مخالفت کی وجہ کیا ہے؟
دستور میں انصاف، آزادی، بھائی چارہ اور مساوات کی بات کی گئی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کسی کو شہریت عطا کرنے میں مذہب کو بنیاد بنا رہی ہے ۔ پڑوسی ممالک میں تو سری لنکا بھی ہے، وہاں کی تمل برادری پر بھی بہت ظلم ہوا ہے۔ وہ ہمارے ملک میں پناہ گزین کی حیثیت سے موجود ہیں، لیکن یہ قانون ان کو شہریت دینے کی بات نہیں کرتا۔ ہمارے پڑوس میں میانمار بھی ہے، جہاں کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں پر بہت ظلم کیا ہے۔ وہ بھی ہمارے ملک میں آئے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں تبت، نیپال، بھوٹان اور چین بھی ہیں۔ ان ممالک سے بھی لوگ ظلم کا شکار ہو کر ہمارے ملک میں آتے ہیں، اگر ان کو بھی اس قانون میں شہریت عطا کرنے کی بات کی جاتی تو ہم اس قانون کی تائید کرتے۔ لیکن حکمرانوں کی نیت خراب ہے اور اس قانون کے مشتملات بھی۔ یہ مشتملات اس ملک کے دستور کی بنیادوں کے خلاف ہیں۔ اس سے سماج انتشار کی طرف بڑھے گا۔ اور پھر یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اس قانون کا تعلق این آر سی سے جڑا ہوا ہے۔
ملک کا نوجوان مایوس ہے، ایسے میں اس ملک کے نوجوانوں کو آپ کا پیغام کیا ہوگا؟
ان سنگین حالات میں نوجوانوں کا متاثر ہونا ایک فطری امر ہے۔ انھیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ملک میں آج بھی با ضمیر لوگ موجود ہیں جن کے ساتھ مل کر ہمیں حوصلے کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ شعور کی بیداری، معلومات کا حصول اور لوگوں کا ذہن بنانا ہوگا۔ سماج میں ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو دوریاں بڑھا دی گئی ہیں، ان کو ختم کرنا ہوگا۔ نفرت کی سیاست کی جگہ محبت کی سیاست کو قائم کرنا ہوگا۔ فرقہ پرستی کے بجائے انسانیت دوستی کے ماحول کو لانا ہوگا۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ مشکل کام ہے، لیکن ہمیں کرنا یہی ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں پولیس کی لاٹھیاں بھی کھانی پڑسکتی ہیں۔ لیکن ہم حالات بدل سکتے ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ہمیشہ اچھے دن رہیں، ایسا ممکن نہیں ۔ ہندوستانی سماج کے بھی اچھے دن آئیں گے۔ ایک نہ ایک دن بی جے پی کے اچھے دن ضرور ختم ہوں گے اور ہمارے اچھے دن ضرور آئیں گے۔