
چوتھی اور آخری قسط :بھارت میں مساجد اور مسلم شناخت : مذہبی، سماجی اور تاریخی تناظر میں
ہندو مندروں کی تباہی کا بیانیہ- تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ
دعوت نیوز نیٹ ورک
مسلم حکمرانوں کی وسعت قلبی۔ منادر کی تعمیر کے ناقابل تردید شواہد موجود
کیا مسلم حکم رانوں نے مندروں کی تعمیر پر روک لگائی تھی؟
اس گفتگو کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا ہندو اور ان کی عبادت گاہوں پر مسلمانوں کا تسلط تھا؟ کیا ماضی میں ایسا ہوا کہ ہندوؤں کو مندر بنانے کی اجازت نہ دی گئی ہو اور بہت سے تعمیر شدہ مندروں کو منہدم کردیا گیا ہو؟ جبکہ اسی دور میں اسلامی عمارتیں بڑی تعداد میں بنائی گئیں جو آج بھی موجود ہیں۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ دہلی پر مسلمانوں کی فتح کے بعد شمالی ہندوستان میں بہت سے مندر بنائے گئے جن کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ نیز، اس دور میں بنائی جانے والی اسلامی عمارتوں کے بارے میں تو بتایا جاتا ہے لیکن ان مندروں کے بارے میں نہیں بتایا جاتا جنہیں مسلم دور حکم رانی میں بنایا گیا۔ اس کے برعکس ایسی اسلامی عمارتوں کو زیادہ اجاگر کرکے بتایا جاتا ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مندروں کی باقیات سے بنائی گئی ہیں۔ اس سے ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں منفی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ اس منفی سوچ کو ختم کرنے کے لیے ہم مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں اور مندروں کی تعمیر والے شہروں کا جائزہ پیش کریں گے۔
بہار: یہاں سو سے زیادہ ایسے تحریری شواہد موجود ہیں جو ریاست بہار میں مغلیہ دور حکم رانی سے پہلے کی اسلامی یادگاروں سے متعلق ہیں۔ لیکن ان سو یادگاروں میں سے اب صرف ایک یادگار ہی موجود ہے۔ دوسری طرف چودھویں صدی کے تقریبا چھ مندروں کے دستاویز اب بھی موجود ہیں۔ یہ علمی دلائل پہلے سے موجود ہیں لیکن ان پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔
چھوٹے مندروں کی تعمیر، ہندو مذہبی معمول کا حصہ تھا
یہاں پر ہم دو قصبوں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جن میں کا پہلا ہے’’عنبر‘‘۔ یہ راجستھان میں راجا مان سنگھ کی جاگیر تھا۔ دوسرا قصبہ ’’راج محل‘‘ ہے۔ یہ اکبر کے بنگال کے گورنر کا دارالحکومت تھا۔ اب تو راج محل بہار میں ہے، یہ مغلیہ دور میں بنگال میں ہوا کرتا تھا۔ سولہویں اور سترھویں صدی میں ہندو، مسلم شناخت کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے اسے سمجھنا مفید ہوگا۔ عنبر، راج محل کی سترھویں صدی میں جئے سنگھ (1622-166) نے توسیع کی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی عمارتیں ہیں جنہیں ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، مگر ان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ مثال کے طور پر دہلی مین روڈ پر ایک مسجد ہے۔ یہ اکبر کے حکم پر 1569-70 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ وہ نہایت خستہ حالت میں تھی تو دوبارہ اس کی تعمیر کی گئی۔ اس مسجد کو عنبر کے اٹھارھویں صدی کے ابتدائی نقشے میں دکھایا گیا ہے۔ اسی مین روڈ پر راج محل میں ایک جامع مسجد راجا مان سنگھ نے بنوائی تھی۔ مسجد کے پیچھے راجا مان سنگھ نے ایک چھوٹا سا مندر بھی بنوایا تھا جو دور سے نظر نہیں آتا ہے۔ ان واقعات کو کس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں نکالا جائے کہ اس دور میں شمالی ہندوستان میں ہندوؤں کے لیے مندروں کی جگہ کا مطلب آج کے مقابلے میں مختلف تھا؟
لکھنو اور وارانسی کی مثالیں: لکھنو اور وارانسی یہ دو ایسے شہر ہیں جہاں مسجدوں کا بول بالا ہے۔ لکھنو میں تو مندر شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں اگرچہ کہ مندر بھی ہیں مگر دکھائی نہیں دیتے۔ وارانسی جسے ہندوؤں کا مذہبی شہر کہا جاتا ہے، یہاں چھوٹے چھوٹے مندر ہر جگہ ملیں گے۔ ان میں سے بیشتر مندر اٹھارھویں صدی کے اواخر میں بنائے گئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وارانسی میں رانی اہلیا بائی ہولکر کی تعمیر کردہ مندر وشو ناتھ مندر جو کہ وارانسی کا مرکزی تیرتھ مانا جاتا ہے، یہ مندر اورنگ زیب کے دور حکومت میں وشو ناتھ مندر کے قریب ہی تعمیر کی گئی مسجد سے بہت چھوٹا ہے۔ یہ مندر 1777 میں بنایا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب وارانسی میں ہندو سیاسی طاقت کا غلبہ تھا اور رانی اہلیا بائی کے پاس کافی وسائل موجود تھے۔ اس کے باجود مندر کا حجم بہت چھوٹا رکھا گیا۔ اگر وہ چاہتی تو ’دشا سوا میدھ گھاٹ‘ کی اندرونی گلیوں میں ایک چھوٹا سا تقریبا گمنام مندر بنانے کے بجائے ایک بڑا مندر بنا سکتی تھی جو پورے طور پر نمایاں ہوتی، مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔
شاہ جہاں اور چاندنی چوک: شاہ جہاں کے دور حکومت میں ہر شخص کی تمنا ہوتی تھی کہ اسے چاندی چوک میں رہنے کے لیے زمین کا کوئی ٹکڑا مل جائے۔ تب چاندنی چوک کو شاہ جہاں آباد کہا جاتا تھا۔ اس کے آس پاس کا علاقہ ہندو، جین سرمایہ داروں اور تاجروں کے لیے مختص تھا۔ شہر کی معاشی حالت بہت بہتر تھی۔ اس معاشی بہتری و خوشحالی میں دولت مند کھتری، ہندو تجار اور جینوں میں جگت سیٹھ خاندان کی ایک شاخ کا کلیدی رول تھا۔ چونکہ ہندوؤں اور جینوں کی معاشی حالت مضبوط تھی اس لیے انہوں نے 1639 سے 1850 کے دوران سو سے زائد مندر بنائے۔ یہ تمام مندر اب بھی موجود ہیں۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ شاہ جہاں آباد میں بنائی گئی مساجد بہت نمایاں نظر آتی ہیں جبکہ مندر کی مرئیت دبی ہوئی ہوئی ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے دبدبے کی وجہ سے مندروں کو نمایاں کر کے نہیں بنایا جاتا تھا مگر یہ اشتباہ اس وقت زائل ہوجائے گا جب آپ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں جے پور میں بنائے گئے مندروں و مسجدوں کو دیکھیں گے۔ اس دور میں وہاں کے راجا ہندو ہوتے تھے۔ اس کے باوجود کوئی بھی مندر نمایاں نظر نہیں آئے گا۔
اس صورت حال کا پس منظر یہ ہے کہ گرچہ جے پور کو ایک ہندو حکم راں نے بسایا تھا۔ اسے ہندوؤں کا شہر بھی کہا جاتا تھا۔ اس کے باوجود ان مذکورہ صدیوں میں شاہ جہاں آباد کے اطراف میں جتنے مندر نظر آتے ہیں اتنے مندر جے پور میں موجود نہیں تھے۔ جے پور کے اندر صرف ایک ایسا مندر بنام کالی مندر تھا جسے سوائی جئے سنگھ نے 1740 میں بنوایا تھا۔ اس میں شکھر لگا ہوا ہے۔ یہاں دکانوں کے اوپر دوسری منزل پر چڑھ کر ایک پلیٹ فارم سے دیکھیں گے تو مندر نظر آئے گا مگر وہیں پر قریب میں ہی ’سرہ دیوری بازار‘ ایک مصروف ترین سڑک ہے، یہاں سے وہ بالکل نظر نہیں آتا ہے۔ البتہ دوسرے دو شکھر والے مندر نمایاں ہیں اور دور سے نظر آتے ہیں ۔ ان دونوں مندروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی تعمیر انیسویں صدی کے آخر تک نہیں ہوئی تھی۔ یہاں کے باقی مندر بھی دہلی کی طرح احاطے کے اندر بنے ہوئے ہیں۔ ان کی مثالیں سری دیوڑی بازار میں دکانوں کے اوپر واقع رام چندر جی مندر (1854) اور تری پولیا بازار میں شری برج راج بہاری جی کا مندر (1813) سے پیش کی جا سکتی ہیں۔
مفروضے اور قیاس آرائیاں
اس آخری حصے میں ہم کچھ ایسے لٹریچر کا جائزہ پیش کریں گے جس کی برطانوی دور حکومت میں خوب تشہیر کی گئی اور یہی لٹریچر ہمارے سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کا ذریعہ بنا۔ ان خیالی باتوں کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنے سے پہلے چند سوالات پر غور کرنا ضروری ہے۔ ہندوستان کی جدید تاریخ میں کن مندروں کی بے حرمتی کی گئی اور کس نے کی اور کس مقصد سے کی؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آزادی ہند سے پہلے یہاں مذہب اور سیاست کے مابین کیا تعلق تھا؟
ایک مفروضہ یہ ہے کہ مندروں کی بے حرمتی کے شواہد بعض فارسی تاریخی کتابوں میں ملتے ہیں۔ برطانوی دور حکومت میں ان میں سے بیشتر کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ ان تواریخ کو بنام ’’ہندوستان کی تاریخ‘‘ جو اس کے اپنے ہی مورخین نے بتائی ہے، آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ پہلی بار 1849 میں کتابی شکل میں شائع ہوئی تھی۔ اس کی تدوین سر ہنری ایم ایلیٹ نے کی تھی۔ انہوں نے ان 8 جلدوں کے ترجمے کی نگرانی جان ڈاؤسن کے ساتھ مل کر کی تھی۔ برطانوی مورخین نے ہندوستان میں مسلمانوں کو مندروں کو توڑنے والا اور گئو ماس کھانے والا ظاہر کیا۔ نیز، مسلمانوں کو ملک میں ایک فوجی نو آبادیاتی بتایا جبکہ مسلمان یہاں صدیوں سے رہتے چلے آرہے ہیں۔ اس طرح کی تحریریں دہائیوں سے ملک و سماج میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کے لیے زمین تیار کرتی رہیں جس کا خمیازہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے اور ملک میں ذات برادری اور فرقہ واریت کا زہر اپنا اثر دکھانے لگا ہے۔ ’ایلیٹ‘ نے لکھا ہے کہ ’’اس کتاب سے حکم راں متاثر ہوں گے اور یہاں کے جو اصل باشندے ہیں ان کے تئیں ان کا رویہ نرم اور زیادہ سے زیادہ فائدے پہنچانے کا رجحان بنے گا‘‘۔ ایلیٹ نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ برطانوی حکومت سے پہلے یہاں جو بھی حکم راں رہے، وہ غیر قانونی تھے۔ ایلیٹ کی تحریروں اور ڈاؤسن کے تراجم کی چنندہ عبارتوں اور مذکورہ کتاب کی مشمولات کو ہندو شدت پسندوں نے اپنے لیے ناقابل تردید ثبوت مان لیا۔ ’سیتا رام گوئل‘ کی تحریروں میں ایک باب بعنوان’’ گھوڑے کے منہ سے‘‘ ہے۔ اس میں مسلم فاتحین اور حکم رانوں کی شدت پسندی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک اور مورخ ’کونراڈ السٹ‘ (Koenrad Elst) نے ان افسانوی باتوں کی تشہیر میں اہم رول ادا کیا۔ ان تحریروں کو دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تاریخ سازی مسلم حکم راں کی نوآبادیات کو بتانے کے لیے تھی یا اس سے یہ اشارہ دینا مقصود تھا کہ برطانوی حکومت ویلن بن کر مسلم حکم رانوں کے خلاف اس طرح کے رجحانات کو عام کرنے میں دلچسپی لے رہی تھی۔ اسی رجحان کے تحت انگریزوں نے مراٹھا بادشاہوں کے ادوار کی خوب منظر کشی کی ہے۔
اٹھارھویں صدی کے نصف آخر میں مہاراشٹر کے شہر پونے میں مقیم مراٹھا اشرافیہ، جنوب ایشیائی برصغیر کے تقریبا ایک تہائی حصے پر آباد مختلف زبانیں بولتے تھے۔ ان کی تہذیب و رسومات بھی الگ الگ تھیں۔ یہ دور مراٹھا کے عروج کا تھا۔ ان کے زیر کنٹرول مہاراشٹر کے علاوہ گجرات، کرناٹک، راجستھان کے کچھ حصے، ساحلی تنجاور، ناگپور کے علاقے، اڑیسہ، مدھیہ پردیش اور دہلی و آگرہ کے آس پاس کے علاقے شامل تھے۔ اگرچہ مرہٹے، خاندانوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے تھے مگر یہ برطانوی طاقت کے لیے ایک مضبوط حریف بن کر
کھڑے تھے۔ انگریزوں کے مراٹھوں پر سیاسی تسلط قائم ہوجانے کے بعد صدیوں تک مورخیں اور مصنفین مراٹھوں کے لیے ایک خاص قسم کے الفاظ جیسے ’’غدار، ڈاکو، لوٹ مار کرنے والے، انتظامی نظام سے نابلد‘‘ استعمال کرتے تھے۔
رومیلا تھاپر اور رام پنیانی کی روایات:
یہ دونوں ہی شخصیتیں علمی میدان میں احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں، ان کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ہم ان کی آراء کا ایک تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ ’’سومناتھ مندر انہدام اور رومیلا تھاپر‘‘ عنوان کے تحت انہوں نے مندر انہدام کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے مختلف فارسی ذرائع کا حوالہ دیا ہے۔ مثال کے طور پر، ترک-فارسی تاریخ میں اس واقعہ کے تعلق سے کئی فرضی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ مشرقی اسلامی دنیا کے ایک بڑے شاعر ’فرخی سیستانی‘ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ محمود غزنوی کے ساتھ سومناتھ گئے تھے۔ وہ بت شکنی کی ایک دلچسپ وضاحت پیش کرتے ہیں، حالانکہ ان کی باتوں میں سے بیشتر حصے کو جدید مورخین نے فرضی قرار دیا ہے لیکن آئیکونات کی انہدامی صورت حال کو سمجھنے میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ فرخی سیستانی کے مطابق سومناتھ کی مورتی کسی ہندو دیوتا کی نہیں بلکہ اسلام سے قبل کے کسی قدیم عربی بت کا مجسمہ تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ سومناتھ دراصل فارسی میں ’’سو- منات‘‘ تھا جو بعد میں سومناتھ سے معروف ہوگیا۔ اسلامی تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ’’لات، عزی اور منات‘‘ یہ تینوں فرضی معبود تھے جن کی اسلام سے پہلے بڑے پیمانے پر پوجا کی جاتی تھی۔ فتح مکہ کے موقع پر ان کے تصاویر اور مجسموں کو تباہ کیا گیا۔ لیکن منات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے چھپا کر گجرات لایا گیا اور ایک معبد میں نصب کر دیا گیا۔ غالباً یہی وجہ رہی ہوگی کہ مسلمان بادشاہوں اور فوجوں نے سومناتھ کے بت کو توڑنے کے لیے مذہبی جوش و جذبے سے کام لیا اور اسی وجہ سے سومناتھ پر کئی حملے ہوئے اور متعدد بار اس کی تباہی ہوئی۔ رومیلا تھاپر نے ان مفروضات کے ثبوت پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔ سومناتھ کے بارے میں ایک رائے یہ ملتی ہے کہ یہ دراصل ’’سوما ناتھ‘‘ ہے۔ سوما کا مطلب چاند اور ناتھ دیوتا کو کہا جاتا ہے۔ یعنی ’چاند دیوتا‘ اور یہ نظریہ قرین قیاس ہے۔ کیونکہ تاریخ میں چاند و سورج کی پوجا کی روایت بہت پرانی ہے۔ اب اگر رومیلا تھاپر کے مفروضے کو مان لیا جائے تو اس مندر کی تباہی کے پیچھے فرقہ وارانہ معمے کو حل کرنے میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں۔ البتہ رام پنیانی نے جو متبادل پیش کیا ہے اس کا زاویہ بالکل مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مندر انہدام کا عمل ایک خاص مقصد کے تحت تھا۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے ریاستی معبود کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی بادشاہ نے کسی سلطنت پر فتح حاصل کی تو شکست خوردہ راجا کے مندر کو منہدم کیا، یہ اپنی فتح اور مغلوب راجا کی شکست و ریخت کو اجاگر کرنے کے طور پر کیا جاتا تھا۔ یہ کام صرف مسلم فاتحین ہی نہیں بلکہ ہندو راجاؤں نے بھی کیا۔ جب ہندو راجا کسی دشمن ملک پر فتح حاصل کرتے تو وہاں کے مندروں کو تباہ کردیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جین مورخین نے سومناتھ مندر کے انہدام کو ’شیو مت پر جین مت کی اعلیٰ طاقت کے ثبوت‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’مہاویر نے جین مندروں کی حفاظت کی جبکہ شیوا اپنے ماننے والوں کی حفاظت میں بے بس تھے‘‘۔
سیاسی حریفوں کی عبادت گاہوں کو لوٹنا اور ان کی بے حرمتی کرنا، سیاسی غلبے کی علامت ہوا کرتا تھا۔ اس سے اشارہ ہوتا تھا کہ اب ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ طریقہ فاتح ہندو حکم رانوں میں بھی پایا جاتا تھا اور قرون وسطیٰ میں مسلم فاتحین میں بھی۔ یہ رواج قدیم و قرون وسطیٰ کی تاریخ میں عام تھا، رومی ہو یا فارسی یا صلیبی جنگیں، پوری دنیا نے یہی منظر دیکھا۔ دراصل یہ جنگیں دو بادشاہوں کے درمیان ہوا کرتی تھیں، دو مذاہب کے درمیان نہیں۔ چنانچہ سومناتھ کے متبادل نام اور فاتح بادشاہ اور اس کے نظریہ اور تسلط کی جنگوں کی عوامی قبولیت، وغیرہ کو پیش نظر رکھنے سے اس مسئلے کی حقیقت سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
(ختم شد)
***
تاریخی شواہد کے مطابق مسلم دورِ حکومت میں مندروں کی تعمیر کے کئی واقعات ملتے ہیں، جو اس تصور کی نفی کرتے ہیں کہ مسلمان حکمران صرف مندروں کی تباہی میں ملوث تھے۔ مختلف مسلم سلاطین نے مندروں کی حفاظت، مرمت اور تعمیر میں حصہ لیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دور میں مذہبی رواداری اور ثقافتی ہم آہنگی موجود تھی۔ یہ شواہد ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور باہمی احترام کی علامت ہیں، جو تاریخ کی ایک متوازن تصویر پیش کرتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025