چَوکنّا رہیں، محفوظ رہیں
فڈیکس فراڈ؛ انٹرنیشنل کورئیر سروس کے نام پر دھوکہ دہی کا ایک نیا طریقہ
زعیم الدین احمد حیدرآباد
ڈیجیٹل اریسٹ مجرموں کی اصطلاح ہے نہ کہ حکومتی اداروں کی!احتیاط ضروری
دھوکے باز، دھوکہ دینے کے نت نئے طریقے ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ دور جدید میں ٹکنالوجی نے دھوکہ دہی کو مزید آسان بنا دیا ہے، کبھی بینک کے ملازم کے نام پر کوئی فون کرتا ہے اور آپ کے بینک کی تفصیلات حاصل کر کے دھوکہ دیتا ہے، کسی کو آن لائن ٹریڈنگ کے نام پر دھوکہ دیا جاتا ہے اور کسی کو’ لکی ڈرا ‘کے نام پر دھوکہ دیا جاتا ہے۔ نت نئے طریقے ایجاد کرتے ہوئے دھوکہ دے کر معصوم عوام کے پیسے لوٹ لیے جاتے ہیں، اسی قبیل کا ایک نیا دھوکہ دینے کا طریقہ سامنے آیا ہے، وہ ہے فڈیکس فراڈ۔ یہ فڈیکس فراڈ آخر کونسی بلا ہے؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ فڈیکس ایک مشہور بین الاقوامی کورئیر سروس ہے، جیسے بلیو ڈاٹ، ڈی ٹی ڈی سی وغیرہ۔ فڈیکس چونکہ بین الاقوامی کورئیر سروس ہے وہ لوکل کورئیر سروس نہیں کرتی اسی لیے اس کے نام پر دھوکہ دینا شاید آسان ہوگیا ہے۔ اس کی شروعات ایک فون کال سے ہوتی ہے، ایک انجان نمبر سے فون آتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ کے نام پر ایک پارسل آیا ہوا ہے جو کہ انٹرنیشنل پارسل ہے۔ یہ جھوٹ اتنے پر اعتماد انداز میں کہا جاتا ہے کہ فون ریسیو کرنے والا یقین کر بیٹھتا ہے۔ یہ کورئیر سروس کی دھوکہ دہی دو طرح کی ہوتی ہے، پہلی دھوکہ دہی پارسل کو چند روپے دے کر چھڑوانے کی اور دوسری دھمکانے کی۔ پہلی دھوکہ دہی میں پھنسے والے افراد لالچ میں پھنس جاتے ہیں، اس میں کہا جاتا ہے کہ آپ کے نام پر پارسل آیا ہوا ہے، اسے چند روپے دے کر چھڑوانا ہوگا، اس اکاؤنٹ میں اتنی رقم ڈپازٹ کردیں تو آپ تک یہ پارسل ڈلیور ہو جائے گا، اس دھوکے میں کم ہی لوگ پھنستے ہیں۔ لیکن دوسری دھوکہ دہی میں دھمکایا جاتا ہے، ہوتا یوں ہے کہ اس میں فڈیکس کورئیر سروس کے نام سے کال آتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم فڈیکس کے افسران بات کر رہے ہیں، آپ کے نام پر پارسل آیا ہوا ہے اور اس پارسل میں غیر قانونی اشیاء پائی جاتیں ہیں، جیسے کبھی کہا جاتا ہے کہ اس میں ڈرگس ہے یا ہتھیار ہے وغیرہ وغیرہ۔ لازمی بات ہے کہ ان باتوں سے آدمی گھبرا جاتا ہے، جیسے ہی فرد گھبراہٹ کا شکار ہو جاتا ہے فوری دوسرا وار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ہم اس معاملے میں کیس رجسٹر کر رہے ہیں، اس کیس سے متعلق بات کرنے کے لیے ہم آپ کی کال سی بی آئی یا ین آئی اے یا پھر آر بی آئی کے آفسر کو ملا رہے ہیں، اب آدمی اور بھی گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتا ہے، اگر وہ یہ کال کٹ کر دے گا تو اسے ویڈیو کال آئے گی، جیسے ہی ویڈیو کال اٹھائے گا تو اس کے سامنے پولیس کی وردی میں ایک شخص نمودار ہوگا اور اس سے پوچھ تاچھ کرنا شروع کردے گا۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہتا ہے، اسی کو ڈیجیٹل قید یعنی ڈیجیٹل اریسٹ کہا جاتا ہے۔ جو کوئی اس جال میں پھنس جاتا ہے اسے اپنے کمرے سے باہر نکلنے نہیں دیا جاتا، اسے دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر وہ باہر نکلے گا تو اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے گھر کے اطراف سویلین کپڑوں میں این آئی اے کے اہلکار گردش کر رہے ہیں، اتنی خطرناک قسم کی دھمکیوں کے بعد بہادر سے بہادر آدمی بھی ایک بار کے لیے ہل جائے گا، پریشان ہو جائے گا، عام قسم کے لیے لوگوں کا تو کیا کہنا۔ یہ ساری بات چیت اسکائپ پر ہوتی ہے۔ وکٹم کو بتایا جاتا ہے کہ آپ پر ایف آئی آر درج ہو چکی ہے، اس کی جھوٹی کاپی بھی اسے بتائی جاتی ہے، وہ یقین کرنے لگ جاتا ہے کہ حقیقت میں میرے خلاف کیس درج ہوچکا ہے۔ پریشانی اور گھبراہٹ کے عالم میں وہ جو چاہے کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ تو پولیس، نہ سی بی آئی، نہ این آئی اے اور نہ ہی آر بی آئی اس کی طرح کوئی کال کرتے ہیں کہ آپ پر ایف آئی آر درج ہوئی ہے اور ڈیجیٹل اریسٹ میں ہیں۔ ڈیجیٹل اریسٹ کی کوئی اصطلاح سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔ پولیس کو یا آر بی آئی یا پھر سی بی آئی کو پوچھ تاچھ کرنا ہو تو راست طور پر کریں گے ایسا کوئی طریقہ حکومتی محکمہ جات اختیار نہیں کرتے ہیں۔ یہ بات ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے کہ پولیس کبھی ویڈیو کال کے ذریعے کوئی پیغام یا ایف آئی آر کی اطلاع نہیں دیتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی کورئیر کمپنی کا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ پارسل درج شدہ پتے پر پہنچائے، اس پارسل میں کیا ہے یہ دیکھنا اس کا کام نہیں ہے، جس وقت پارسل لیا جاتا ہے اسی وقت یہ درج کرنا ہوتا ہے کہ اس میں کیا شئے پیک کی ہوئی ہے۔ کسی بھی کورئیر کمپنی کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ سی بی آئی یاا ین اے آئی یا پھر آر بی آئی کو کال ملائے اور ان سے بات کروائے۔
جب پوری طرح سے شکار ان کے جال میں پھنس جاتا ہے تو اس سے کیس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے موٹی رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے، پیسے پوچھے جاتے ہیں، دھمکایا جاتا ہے کہ نہ دینے کی صورت میں اس پر جو مقدمہ درج کیا گیا اس پر کارروائی شروع کردی جائے گی۔ اسے یہ بھی دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر اپنے رشتے داروں کو اس کی اطلاع دے گا تو معاملات بگڑ جائیں گے۔ یہ ویڈیو کال ایک دو منٹ نہیں بلکہ گھنٹوں تک جاری رہتی ہے۔ اس طرح کے معاملے میں معصوم عوام خوف و ہراس میں اپنے اکاؤنٹ کی ساری تفصیلات ان کو دے دیتے ہیں اور ان کے مطالبے کے مطابق پیسے ٹرانسفر کر دیتےہیں۔ اگر ان کے اکاؤنٹ میں پیسے نہیں ہوتے ہیں، تو یہ دھوکے باز ان کے اکاؤنٹ کی معلومات کے تحت انہی لوگوں سے لون دلواتے ہیں۔ بینکوں کا معاملہ یہ ہے کہ ہر اکاؤنٹ پر پری اپرووڈ لون ہوتا ہے، یعنی اس اکاؤنٹ پر لون لیا جاسکتا ہے، فراڈیوں کو اس کی اطلاع ہوتی ہے اور وہ اسی کا فائدہ اٹھا کر اس سے لون لینے لگواتے ہیں جس کے بعد وہ رقم اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروالیتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک کیس حیدرآباد میں پیش آیا جب ایک شخص کو فڈیکس کورئیر سروس کے نام سے کال آئی، اسے دھمکایا گیا اور لون کے ذریعے اٹھارہ لاکھ روپے ٹرانسفر کرالیے گئے، اس نے فوراً پولیس کے سائبر کرائم کو اطلاع دی تو وہ رقم ہولڈ کرلی گئی، مسئلہ یہ ہے کہ سائبر کرائم کو اس معاملے کی اطلاع ایک گھنٹے کے اندر دینی ہوتی ہے، یا تو پولیس اسٹیشن جا کر اطلاع دینی ہوگی یا پھر ایک ٹول فری نمبر 1930 بھی ہے اس پر بھی اطلاع دی جاسکتی ہے، تب ہی وہ لوٹی گئی رقم کو ٹرانسفر ہونے سے روک سکتے ہیں۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر اطلاع نہیں دی گئی تو پھر وہ بھی کچھ کرنے قاصر ہیں، کیوں کہ کسی بینک اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر ہوتی ہے تو ٹرانسفر ہونے کے بعد بند کرلیا جاتا ہے، یعنی اکاؤنٹ ڈی ایکٹیویٹ کردیا جاتا ہے۔
اس سے بچنے کی کیا تدابیر ہوسکتی ہیں؟ پہلی بات تو یہ کہ اگر آپ نے کوئی چیز منگوائی ہے تو اس کی ساری معلومات اس کورئیر سروس کے آفیشل ویب سائٹ پر دستیاب رہتی ہیں، آپ کے پارسل کا اسٹیٹس معلوم کیا جاسکتا ہے، اس کا کوڈ ہوگا، کہاں تک وہ پہنچا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ نے کوئی چیز نہیں منگوائی ہے تو سمجھ جائیں کہ یہ جھوٹی کال ہے اور فوری طور پر اس کال کو کاٹ دیں۔
یہ دھوکے باز ہمیں نفسیاتی دباؤ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ہمیں ڈرگس یا پھر منی لانڈرنگ کیس کے خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب ہم نے ایسا کوئی کام کیا ہی نہیں ہے تو خوف میں مبتلا ہونے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، لہٰذا ایسے فریبیوں کی کسی بھی بات کو سیریس نہیں لینا چاہیے۔
دوسری بات یہ کہ ڈیجیٹل اریسٹ نام کی کوئی اصطلاح پولیس میں پائی نہیں جاتی، جب کبھی وہ ویڈیو کال کریں اور دھمکائیں کہ کسی کو اس کی اطلاع نہ دیں یا کسی دوسرے کو کال نہ کریں تو خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آپ اپنے قریبی دوست یا عزیز کو کال کریں تاکہ وہ سائبر جرائم کے محکمے کو اطلاع دے سکے۔
اگر کوئی فون کے ذریعے آپ پر کیس درج ہونےکی اطلاع دیتا ہے تو سمجھ جائیں کہ وہ جھوٹ ہے، کیوں کہ پولیس یا کوئی بھی سرکاری محکمہ اس طرح جرم کی اطلاع نہیں دیتا، اگر فون آیا تو آپ بلا خلاف اس کو جواب دے دیں، پریشان ہونے یا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انجان نمبرات کے کال کو یا انجان میسیجز کو جواب دینے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، اگر آپ نے کال اٹھا لی ہے تو اسے کاٹ دیں اور وہ نمبر سائبر کرائم کو دے دیں تاکہ وہ اس نمبر کو بلاک کر سکیں۔ یہ چند احتیاطی تدابیر ہیں جنہیں اختیار کرنا ضروری ہے۔
***
***
دھوکے باز ہمیں نفسیاتی دباؤ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ہمیں ڈرگس یا پھر منی لانڈرنگ کیس کے خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب ہم نے ایسا کوئی کام کیا ہی نہیں ہے تو خوف میں مبتلا ہونے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، لہٰذا ایسے فریبیوں کی کسی بھی بات کو سیریس نہیں لینا چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024