چھوت چھات ابھی بھی باقی ہے
ٹمل ناڈو اور مدھیہ پردیش میں امتیازی سلوک کے حالیہ واقعات لمحہ فکریہ
ابو حرم ابن ایاز عمری
وشو گرو بننے کا دعوی کرنے والے ملک میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
اسلام کے ضابطہ حیات میںہی امن عالم مضمر ہے
1947 میں جب ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تب یہاں عوام کے ذریعہ، عوام کے لیے اور عوام کی حکومت کا نظریہ اختیار گیا تھا۔ اونچ نیچ اور ذات پات کا جو نظام صدیوں سے یہاں رائج تھا اس کی شدت سے مخالفت کی گئی تھی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دستور ہند کی تمہید کے اہم حصے کے طور پر تمام بھارتیوں کے درمیان بہ اعتبار حیثیت اور مواقع ’’مساوات‘‘ کا تذکرہ کیا گیا اور بھارتی آئین میں آرٹیکل 14 کے اندر Equality Before The Law یعنی قانون کے سامنے سب برابر ہیں جیسی بہترین باتیں بیان کی گئی ہیں۔ لیکن افسوس کہ ملک کے آزاد ہونے اور اس قسم کے عمدہ قوانین بنانے کے پچھتر سال بعد بھی اس ملک کے اندر ذات پات اور بھید بھاؤ کے زہریلے اثرات ختم نہیں ہوئے ہیں اور آج بھی اونچ نیچ کی بنیاد پر مخصوص طبقات کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
چنانچہ پچھلے دنوں تمل ناڈو کے ضلع پدوکوٹائی میں پیش آنے والے واقعہ میں متھی مروگن نامی شخص کو اس کے طبقہ کے لوگوں کے ساتھ مندر میں جا کر پوجا کرنے سے صرف اس لیے روک دیا گیا کیونکہ وہ سب نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے یعنی ’دلت‘ تھے۔ چنانچہ اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت کے حکم پر پوجا سے روکنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ متھی مروگن نے عدالت میں اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ صرف ایک مخصوص کمیونٹی میں پیدا ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو برتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسے اور اس کی برادری کے لوگوں کو جو شیڈول کاسٹ میں آتے ہیں مندر میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ اس نے مزید کہا کہ تہواروں کے دوران بھی کسی دلت یا شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے فرد کو مندر میں داخلے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ مروگن نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں ’امن کمیٹی‘ کا فیصلہ بھی نہیں مانا گیا یعنی ان لوگوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک اس وقت ہو رہا ہے جب گاؤں کی امن کمیٹی کے اجلاس میں باقاعدہ ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایس سی برادری کے لوگوں کو بھی مندر جانے، پوجا کرنے اور تہواروں میں شرکت کرنے کی اجازت ہوگی لیکن اس کے باوجود اس قسم کے اقدمات سامنے آتے ہیں۔
مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ نے عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھوت چھات کے رواج کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی خاموش رہ سکتا ہے۔
اس سارے معاملے کی سماعت کے دوران جسٹس پی ٹی آشا نے کہا کہ اگر آزادی کے پچھتر سال بعد بھی کسی خاص کمیونٹی کو نیچ جان کر انہیں مندروں میں جانے سے روکا جا رہا ہے تو پھر ہمارا سر شرم سے جھک جانا چاہیے۔
فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے یہ حکم دیا کہ پدوکوٹائی ڈسٹرکٹ کلکٹر اس بات کا خیال رکھیں کہ مروگن اور اس کی برادری کو دوسروں کی طرح مندر میں پوجا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ عدالت نے ریونیو ڈویژنل افسر کو بھی ہدایت دی کہ وہ دوبارہ مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں مداخلت کریں اور ضروری کارروائی کریں۔
متھی مروگن کی درخواست پر سماعت کے دوران یہ بات بھی زیر غور رہی کہ مروگن کو ’ارولمیگھو سری منگلا نائیکی اماں مندر‘ میں ایک اہلکار کے طور پر مقرر کیا جائے اور اس کی برادری کو مندر کی تقریبات میں شرکت کی اجازت دی جائے۔
اس واقعہ کے بعد یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ آج بھی ہمارے ملک میں ذات پات اور چھوت چھات کی جڑیں کس قدر گہری ہیں۔ یہی ایک واقعہ نہیں بلکہ ایسے کئی واقعات وقتاً فوقتاً ملک کے مختلف حصوں میں پیش آتے رہتے ہیں جس کی ایک اور مثال مدھیہ پردیش کے ضلع سیہور کے آملہ گاؤں میں بھی دیکھنے میں آئی جب ’بھنڈارا‘ میں سورنا اور دلت برادریوں کے لیے الگ الگ خیمے لگائے گئے اور انہیں الگ کھانے پیش کیے گئے۔ گاؤں والوں نے اس حرکت پر اعتراض کیا اور آئین بچاؤ کے نعرے لگائے۔
ذرائع کے مطابق یہ معاملہ آملہ گاؤں کا ہے جہاں پوجا کی ایک رسم بھنڈارا کے دوران دلتوں اور سورنوں کو الگ الگ کھانا کھلایا گیا۔ گاؤں کے دلتوں نے الزام لگایا ہے کہ انہیں علیحدہ خیموں میں بٹھا کر کھانا کھلایا گیا جبکہ سورنا سماج کے لوگوں کو الگ الگ خیموں میں کھانا دیا گیا۔ اس امتیازی سلوک پر دلتوں میں کافی غصہ پیدا ہوگیا، یہاں تک کہ بات پولیس تک پہنچ گئی کیونکہ کئی لوگوں نے پولیس کو اس کی اطلاع دی تھی اور آملہ چوکی پولیس معاملے کی تفتیش کرنے موقع پر پہنچ بھی گئی لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ اسے وہاں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جبکہ جیون سنگھ نامی ایک دلت نوجوان نے بتایا کہ مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانے سے اس لیے روکا گیا کہ میں ایس سی برادری سے تعلق رکھتا ہوں۔ آملہ گاوں میں جہاں بھنڈارا منعقد کیا جا رہا تھا، اس میں ایس سی ذات میں آنے والے بالائی، چمار اور باسود جیسے لوگوں کو ان کے نچلی ذات سے تعلق کی بنا پر الگ الگ بٹھا کر کھانا کھلایا جا رہا تھا، چند لوگوں نے جب انہیں روکنے والوں سے یہ سوال کیا کہ کیا ہم تمہاری طرح ہندو نہیں ہیں؟ تو انہوں نے سیدھا جواب دینے کے بجائے کہا کہ تم لوگوں کو آنا ہو تو آؤ ورنہ مت آؤ۔ دلت نوجوانوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ اعلیٰ ذات کے لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ اگر ہم، تم لوگوں سے چندہ یا اناج لیں گے تو بھنڈارے کی توہین ہو جائے گی اور وہ بھی ہماری وجہ سے ہم جیسے اچھوت بن جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھنڈارا میں اکٹھے کھانا کھانا چاہتے ہیں مگر ہمیں تو مندر میں جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اگر ہم مندر جائیں تو پنڈت کو پہلے ہی قدم سے ناریل اور اگربتیاں دینی پڑتی ہیں۔
اس سارے معاملے کو دیکھنے کے باوجود چوکی انچارج نے کہا کہ ذات پات یا چھوت چھات جیسی کوئی چیز ہمیں نظر نہیں آئی ہے۔ انچارج اویناش بھوپلے کا کہنا ہے کہ وہاں بہت سے خیمے ہیں، کچھ لوگ نشے میں ہیں اور ایسی باتیں پھیلا رہے ہیں۔
اگرچہ پولیس نے یہ کہہ کر اس معاملے کو ختم کر دیا کہ اسے کچھ واضح ثبوت نہیں ملے یا کچھ لوگ نشے کی حالت میں اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں مگر ایک بات تو صاف نظر آتی ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کچھ نہ کچھ تو سچائی ضرور ہوگی جس کو یا تو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا پھر کسی اور طریقے سے معاملے کو دبانے کی کوششیں کی جاتی ہیں جبکہ قانون کی نظر میں ملک کے سارے شہری یکساں حقوق کے حامل ہیں۔ کسی کو بھی کسی خاص برادری کا ہونے کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی قطعی اجازت نہیں ہے، اس کے باوجود اس قسم کے واقعات کا رونما ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے کہ کیوں آج بھی لوگوں کی ذہنیت برتری کی جانب آمادہ ہے اور اپنے جیسے انسانوں کو ذات کا ٹھپہ لگا کر حقیر سمجھ لیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے؟ اس قسم کے اکا دکا واقعات ہی روشنی میں آتے ہیں ورنہ ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں جو ڈر یا بے عزتی کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں نہیں آتے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس قسم کے واقعات کا مستقل حل نکالے اور مجرموں کو سخت سزا دے، کیونکہ ذات پات اور چھوت چھات کے ساتھ ملک ترقی نہیں کرسکتا۔
ان واقعات اور حادثات کو دیکھنے کے بعد جب ہم اسلامی تعلیمات پر نظر ڈالتے ہیں تو دل شکر کے جذبات سے بھر جاتا ہے کہ خدا نے ہمیں دین اسلام کی نعمت سے سرفراز کر کے ہم پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کتنی پاک و صاف اور ہر طرح کے تعصب و تنگ نظری سے پاک ہیں کہ اس کی نظر میں سارے انسان برابر ہیں۔ کسی کو بھی کسی پر ذات برادری، رنگ روپ یا زبان کی وجہ سے کوئی فوقیت یا امتیازی مقام حاصل نہیں ہے، عزت اگر ہے تو نیکی اور تقوی کی بنا پر ہے نہ کہ محض پیدائشی طور پر؟ حجۃ الوداع کے موقع پر عالم انسانیت کے حقوق کا منشور بیان کرتے ہوئے اللہ کے آخری رسول حضرت محمد (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے سوائے تقوی کے اور جو جتنا تقوی میں بہتر ہوگا اس کا مقام اللہ کے نزدیک اتنا ہی زیادہ اونچا اور بلند ہوگا۔ لہٰذا اگر اسلامی تعلیمات کو ملک عزیز کے ہم وطنوں کے سامنے صحیح طریقے سے پیش کیا جائے تو امید ہے کہ برادران وطن اس پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور بعید نہیں کہ وہ ایک دن اسلام کی آغوش میں پناہ لیں گے۔ اس کار عظیم کو انجام دینے کے بعد ہی اس سر زمین سے ذات پات اور چھوت چھات کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ملک اور ساری دنیا میں امن و امان کی اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔
***
***
اسلام کی تعلیمات کتنی پاک و صاف اور ہر طرح کے تعصب و تنگ نظری سے پاک ہیں کہ اس کی نظر میں سارے انسان برابر ہیں۔ کسی کو بھی کسی پر ذات برادری، رنگ روپ یا زبان کی وجہ سے کوئی فوقیت یا امتیازی مقام حاصل نہیں ہے، عزت اگر ہے تو نیکی اور تقوی کی بنا پر ہے نہ کہ محض پیدائشی طور پر؟ حجۃ الوداع کے موقع پر عالم انسانیت کے حقوق کا منشور بیان کرتے ہوئے اللہ کے آخری رسول حضرت محمد (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے سوائے تقوی کے اور جو جتنا تقوی میں بہتر ہوگا اس کا مقام اللہ کے نزدیک اتنا ہی زیادہ اونچا اور بلند ہوگا۔ لہٰذا اگر اسلامی تعلیمات کو ملک عزیز کے ہم وطنوں کے سامنے صحیح طریقے سے پیش کیا جائے تو امید ہے کہ برادران وطن اس پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور بعید نہیں کہ وہ ایک دن اسلام کی آغوش میں پناہ لیں گے۔ اس کار عظیم کو انجام دینے کے بعد ہی اس سر زمین سے ذات پات اور چھوت چھات کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ملک اور ساری دنیا میں امن و امان کی اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023