چہرہ کا پردہ؟ علماء کبار کی آراء پر مشتمل ایک اہم کتاب

کتاب کانام : چہرہ کا پردہ؟
صفحات: 196
قیمت: 200روپے
ناشر: ہدایت پبلشرز اینڈ دسٹری بیوٹرس
مرتب: مولانا رضی الاسلام ندوی
تبصرہ : سہیل بشیر کار، بارہمولہ

جس معاشرے کی بنیاد قرآن کریم پر ہو، پردہ اس کا لازمی جزو ہے۔اسلام میں پردہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔اسلام کے معاشرتی نظام میں پردہ کی اہمیت پر قرآن و حدیث میں بہت زور دیا گیا ہے۔ معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے میں پردہ کی کافی اہمیت ہے۔ البتہ کیا ہاتھ اور چہرہ پردہ میں شامل ہے، اس سلسلے میں قرنِ اول سے اختلاف رہا ہے۔دونوں طرف کے اہل علم کے پاس دلائل ہیں۔قریبی دور میں عالم اسلام کے کبار علماء مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی اور شیخ ناصرالدین البانی کے درمیان علمی معرکہ رہا۔ مولانا رضی الاسلام ندوی نے ان مباحث کو مرتب کیا ہے۔196 صفحات کی زیر تبصرہ کتاب میں مولانا کا مقدمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس مقدمہ میں مولانا نے مباحث کو بڑی ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ مقدمہ میں جہاں مذکورہ بالا علماء کبار کی آراء کو پیش کیا گیا ہے وہیں دور جدید کے دیگر علماء شیخ محمد الغزالی، مولانا شمس پیرزادہ اور پروفیسر خورشید کی رائے سے بھی قاری کو آگاہ کیا ہے۔
کتاب کو دو ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اول میں پردہ کے بارے میں مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی اور شیخ ناصرالدین البانی کی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔یہ مضامین پڑھ کر قاری ان علماء کرام کی آرا سے اچھی طرح واقف ہو جاتا ہے۔دوسرے باب میں ان تحریروں کو جمع کیا گیا ہے جو ان علماء کرام نے ایک دوسرے کے رد میں لکھی ہیں۔پہلا باب شروع ہونے سے پہلے مولانا رضی الاسلام ندوی صاحب نے 10 صفحات پر’’ چند اہم اصطلاحاتِ حدیث‘‘ کے تحت احادیث کی اصطلاحات کو مختصر مگر جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ کتاب میں چونکہ بہت سی اصطلاحات حدیث آئی ہیں لہذا قاری کو سمجھانے کے لیے مولانا نے ان کو واضح کیا ہے۔علم حدیث سمجھنے کے لیے یہ دس صفحات بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
پہلے باب کا پہلا مضمون’’ پردے کے احکام‘‘ مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی کا ہے یہ مضمون ان کی معرکۃ الآرا کتاب ’پردہ‘ سے لیا گیا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نزدیک عورت کا نامحرم مردوں کے سامنے چہرہ چھپانا واجب ہے ، البتہ وہ اسے اور دونوں ہاتھوں کو (کلائیوں تک) محرم مردوں کے سامنے کھول سکتی ہے۔ ان کے سوا پورا جسم عام حالات میں شوہر کے علاوہ دیگر تمام مردوں کے سامنے چھپانا واجب ہے ۔مولانا نے اپنے مضمون میں قران کریم کی آیات سے استدلال کیا ہے، چونکہ مولانا کا قلم گزشتہ صدی کی موثر ترین ’آواز‘ تھی، لہذا قاری ان کی رائے سے متاثر ہوے بغیر نہیں رہتا۔
پہلے باب کا دوسرا مضمون ’’لباس اور ستر کے احکام‘‘ بھی مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی کا ہی ہے، اس مضمون میں مولانا نے مردوں اور خواتین کے ستر کے بارے میں بحث کی ہے، مولانا کے نزدیک چہرہ اور ہاتھ کے سوا عورت کے لیے تمام جسم کو تمام لوگوں سے چھپانا لازم ہے،مولانا کے نزدیک اس حکم میں باپ، بھائی اور تمام رشتہ دار مرد شامل ہیں اور شوہر کے سوا کوئی مرد اس سے مستثنیٰ نہیں ہے، اس باب میں لباس کے بارے میں بھی اچھی بحث ہے۔کتاب کا تیسرا مضمون ’’پردہ اور قرآن مجید‘‘ مولانا امین اصلاحی کا ہے، یہ مضمون دراصل اس سے پہلے کتابچہ کی شکل میں شائع ہوا ہے۔اس مضمون میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات میں جو پردہ کا حکم ہے؛ اس میں چہرہ بھی شامل ہے، اس مضمون میں مولانا نے گھر سے باہر اور گھر کے اندر پردہ پر بہترین بحث کی ہے۔کتاب کے پہلے باب کا چوتھا مضمون مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کا ہی ہے۔یہ مضمون مولانا کی کتاب ’’اسلامی معاشرہ میں عورت کا مقام‘‘ سے لیا گیا ہے۔اس کتاب میں مولانا کہتے ہیں کہ عورت کا اصل میدان اس کا گھر ہے، اس سلسلے میں وہ قرآن کریم کی آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ خواتین کو کسی مجبوری کے بغیر گھر سے باہر نکلنا نہیں چاہیے، یہ دونوں مضامین پڑھ کر قاری محسوس کرتا ہے کہ مولانا امین احسن اصلاحی کے ہاں مولانا مودودی سے پردہ کے بارے میں زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔اس باب کا پانچواں مضمون عظیم محدث شیخ ناصرالدین البانی کا ہے، اپنے مضمون ’’مسلمان عورت کا پردہ‘‘ میں شیخ صحیح احادیث سے ثابت کرتے ہیں کہ دور نبوی میں بہت سی صحابیات چہرہ کا پردہ نہیں کرتی تھیں ،مختلف روایات سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ پردہ کے احکام نازل ہونے کے بعد بھی بہت سی صحابیات چہرہ کا پردہ نہیں کرتی تھیں۔ شیخ محمد ناصرالدین البانی کہتے ہیں ’بجز اس کے جو ظاہر ہو جائے‘ سے مراد چہرہ اور دونوں ہاتھ (کلائیوں تک) ہیں۔ عورت کے لیے نامحرم مردوں کے سامنے ان کا کھولنا جائز ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عورت اپنے قریبی رشتہ دار مردوں کے سامنے اپنا سر ، گلا اور سینے کااوپری حصہ بھی کھلا رکھ سکتی ہے ۔ قرآن (النور : 31) میں اس کی اجازت دی گئی ہے ۔شیخ ان روایات کو بھی پیش کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دور نبوی میں ایسی بھی خواتین تھیں جو چہرہ کا پردہ کرتی ہے لہذا ان کے نزدیک دونوں صورتیں جائز ہیں۔
کتاب کے دوسرے باب میں کل پانچ مضامین ہیں۔پہلے مضمون ’’مولانا مودودی کی کتاب پردہ پر تنقیدی نظر‘‘ میں مولانا امین احسن اصلاحی نے مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی کے پردہ والے مباحث کے ایک حصہ پر تنقید کی ہے، مولانا مودودی نے اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے ’’ہم کہتے ہیں کہ آپ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کو ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی مقید نہ کیجیے۔ ایک مومن عورت، جو خدا اور رسول کے احکام کی سچے دل سے پابند رہنا چاہتی ہے اور جس کو فتنے میں مبتلا ہونا منظور نہیں ہے، وہ خود اپنے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے فیصلہ کرسکتی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کھولے یا نہیں؟ کب کھولے اور کب نہ کھولے؟ کس حد تک کھولے اور کس حد تک چھپائے؟ اس باب میں قطعی احکام نہ شارع نے دیے ہیں، نہ اختلاف احوال و ضروریات کو دیکھتے ہوئے یہ مقتضائے حکمت ہے کہ قطعی احکام وضع نہ کیے جائیں۔ جو عورت اپنی حاجات کے لیے باہر جانے اور کام کاج کرنے پر مجبور ہے، اس کو کسی وقت ہاتھ بھی کھولنے کی ضرورت پیش آئے گی اور چہرہ بھی۔ ایسی عورت کے لیے بہ لحاظ ضرورت اجازت ہے اور جس عورت کا یہ حال نہیں ہے اس کے لیے بلاضرورت قصداً کھولنا درست نہیں۔“مولانا امین احسن اصلاحی مولانا مودودی کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں، آپ کے نزدیک چہرہ کے پردہ کے بارے میں بالکل ہی کوئی رعایت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں وہ اس اندیشہ کو بھی پیش کرتے ہیں کہ کہیں ماڈرنسٹ اس اقتباس کو غلط طریقے سے استعمال نہ کریں۔مولانا امین احسن اصلاحی اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں:’’مقصد کے اعتبار سے بھی آپ کا مضمون کچھ بے فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ جن تجدد نوازوں یا میقان ابیض کے مریضوں کو آپ نے اس میں مخاطب کیا ہے، ان کے لیے آپ کی تمام حصار بندیوں کے باوجود کافی فسحت باقی ہے۔ ہندوستان کے تجدد نواز آپ کے اس فتوے پر قانع ہوجائیں گے کہ عند الضرورة چہرہ کھولنے کے باب میں شارع نے کوئی قطعی حکم نہیں دیا ہے، اس معاملہ میں تمام تر قاضی و مفتی خود عورت ہیں۔ آپ نے اس منزل تک ان کو پہنچا دیا۔ اب جو قبا میں چند بند رہ گئے ہیں، ان کا فیصلہ ان شاءاللہ زمانہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی کشاکش اور نسوانی فقاہت کی مقراض تیز کر دے گی ۔ (صفحہ 136) اس باب کے دوسرے مضمون’’ مولانا اصلاحی کی تنقید کا جواب ‘‘ میں مولانا مودودی نے مولانا امین احسن اصلاحی کی تنقید کا جواب دیا ہے۔مولانا مودودی کا جواب تنقید کی اعلی مثال ہے، دونوں مضامین پڑھ کر قاری صحیح تنقید کا اعلیٰ نمونہ پاتا ہے، اس باب کے تیسرے مضمون ’’مولانا مودودی کی کتاب ’پردہ‘ پر استدراک ‘‘ شیخ ناصرالدین البانی کا مضمون ہے جس میں انہوں نے دکھایا ہے کہ مولانا نے چہرہ کے پردہ کے بارے میں جن احادیث سے استدلال کیا ہے وہ کس قدر ضعیف ہیں، ساتھ ہی انہوں نے ان احادیث کو بھی پیش کیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا جائز ہے۔ساتھ ہی عورت اپنے قریبی رشتہ دار مردوں کے سامنے اپنا سر، گلا اور سینے کا اوپر حصہ بھی کھلا رکھ سکتی ہے۔ علامہ موصوف احادیث کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی سورہ النور آیت 31 سے استدلال کرتے ہیں، اس باب کے چوتھے مضمون ’’شیخ البانی کے استدراک کا جواب‘‘ مولانا مودودی کا وہ مضمون ہے جو انہوں نے شیخ کی تنقید کے جواب میں لکھا ہے۔مولانا نے سب سے پہلے لکھا ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ روایتیں ضعیف ہیں لیکن یہ کثرت سے روایت ہوئی ہیں لہٰذا ان سے ضعف دور ہو جاتا ہے۔دوسری بات یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک روایت ضعیف لازم جھوٹی اور موضوع ہو؛ اس کے بعد مولانا نے ایک ایک روایت کے ضعف پر تفصیل سے لکھا ہے۔
کتاب کا آخری مضمون علامہ ناصرالدین البانی کا ’’مولانا مودودی کی توضیحات پر جواب الجواب‘‘ ہے، یہ مضمون مولانا مودودی کی طرف سے تنقید کے جواب میں لکھا گیا ہے، مضمون میں شیخ پہلے حدیث کا اصول بیان کرتے ہیں کہ ضعیف روایتیں قابل استدلال نہیں ہوتی۔اس مضمون میں شیخ نے مولانا کی طرف سے دیے گیے نکات کا پانچ عنوانات کے تحت جواب دیا ہے۔الغرض یہ کتاب اہم ترین مباحث پر مشتمل ہے۔ رب العزت جزائے خیر عطا فرمائے مولانا رضی الاسلام ندوی کو جنہوں نے جید علماء کرام کی اس موضوع پر آرا کو ایک جگہ جمع کیا۔اعلیٰ طباعت پر مبنی اس کتاب کی قیمت صرف 200روپے ہے۔یہ کتاب ’’ ہدایت پبلشرز اینڈ دسٹری بیوٹرس‘‘ نے شائع کی ہے کتاب واٹس ایپ نمبر 9891051676 سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
***

 

***

 معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے میں پردہ کی کافی اہمیت ہے۔ البتہ کیا ہاتھ اور چہرہ پردہ میں شامل ہے، اس سلسلے میں قرنِ اول سے اختلاف رہا ہے۔دونوں طرف کے اہل علم کے پاس دلائل ہیں


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 فروری تا 24 فروری 2024