ڈاکٹر سلیم خان
ایک دن گِدھ نے اچانک طوطے کو دھر دبوچا تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے سوال کیا ’بھیا آج مجھ پر کیوں مہربان ہوگئے ؟‘‘
گِدھ بولا اچھا تو اب مجھے کسی پر مہربانی کرنے کے لیے تم سے اجازت لینی ہوگی؟ تم آخر اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟
طوطا گھبرا گیا ۔ وہ بولا گستاخی معاف حضور میں کون ہوتا ہوں آپ کو اجازت دینے یا روکنے والا لیکن یہ کسی اور کا نہیں میرا اپنا معاملہ ہے ۔
تمہارا ہے تو کیا ہوا ؟ میں مہربانی ہی تو کررہا ہوں کوئی ایذا رسانی تھوڑی کررہا ہوں ؟
جناب عالی، اس طرح دھردبوچنا ایذا رسانی نہیں تو اور کیا ہے؟
یار تم کمال کی مخلوق ہو۔ ابھی ابھی تو تم نے خود کہا تھا مجھ پر مہربان کیوں ہورہے ہو؟ اور اب اسے ایذارسانی کہنے لگے ۔ یار تم تو جنگل کے راجہ زعفرانی سمراٹ شیر ببر سے بھی بڑے جھوٹے لگتے ہو ۔
دیکھو بھیا کسی اور سے موازنہ کرکے مجھے گالی نہ دو ۰۰۰۰کیا سمجھے؟
اچھا توتم ہمارے عظیم شہنشاہ کو گالی دے رہے ہو؟ میں تم کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کروا دوں گا۔ کیا سمجھے ؟
طوطا اس دھمکی سے ڈر گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے باغی بھیڑیوں اور کتوں کا انجام گھوم گیا ۔ وہ بولا بھائی نہ تو میں نے کسی کو گالی دی اور نہ بغاوت کی ۔ تم میرے منہ میں اپنے الفاظ کیوں ڈال رہے ہو؟
میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ مجھے تو لگتا ہے تم نے ظلِ الٰہی کی جو تو ہین کی ہے اس کا علاج کرنا پڑے گا۔
بھیا دیکھو اول تو میں نہ بیمار ہو ں اور نہ تم حکیم ہو اس لیے مجھے چھوڑو اور اگر خدمتِ خلق کا اتنا ہی شوق ہے تو کسی مریض کو پکڑ کر علاج معالجے کے لیےڈاکٹر شاہ کے پاس لے جاو۔
اچھا تمہاری یہ مجال کہ مجھے یہ سکھا رہے ہو کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے؟ تم آخر اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟
طوطے کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر آج اس مردہ خور گدھ کو ہوکیا گیا ہے؟ وہ ہر بات کا الٹا مطلب نکال لیتا ہے۔کہیں یہ غلط سنگت میں تو نہیں پڑگیا ۔ اس نے سوال کیا کہ بھیا یہ بتاو کہ آج کل تم کن لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہو؟
گِدھ بولا اس سے تمہیں کیا غرض؟ کیا تمہارا تعلق سی بی آئی سے ہے؟
جی نہیں ! میں تو ایک شریف آدمی ہوں۔ میرا کسی سی بی آئی یا ای ڈی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اچھا تو کیا ان اداروں میں سارے بدمعاش بھرے پڑے ہیں ۔ میں یہ سب ان کے گرو گنٹال کو بتا دوں گا تب جاکر تمہیں آٹے دال کا بھاو پتہ چلے گا ۔
طوطا زچ ہوکر بولا میرے بھائی یہ بتاو آخر تم چاہتے کیا ہو؟ مجھ پر اپنی گرفت ڈھیلی کیوں نہیں کرتے ۔
گدھ نے کہا میرے عزیز طوطے سچ بتاوں مجھے بہت بھوک لگی ہے۔تین دن سے ایک بوٹی اگر پیٹ میں گئی ہو تو حرام ہے ۔ اب برداشت نہیں ہوتا۔
طوطے نے کہالیکن بڑے بھائی میں تو ابھی زندہ ہوں ۔ تمہاری جگہ کوئی بلی ہوتی تو میں حفظِ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی پُھر ہوجاتا لیکن تم کوئی درندے تھوڑی ہو اسی لیے بے فکر بیٹھا رہا ۔
گِدھ بولا اچھا تو مجھے بھیگی بلی سے بھی زیادہ بے ضرر سمجھتے ہو؟ میں آسمان کا بادشاہ ہوں۔ تم نے بلی سے موازنہ کرکے میری توہین کی ہے ۔
طوطا پھر پھنس گیا۔ وہ بولا جی نہیں جناب میں نے آپ کی تعریف کی ہے ۔ بلی تو ہم جیسے بے ضرر لوگوں پر ہاتھ صاف کرکے ہمیں اپنا تر نوالہ بناتی ہے۔ اس کے برعکس تم بھیڑیے جیسے درندے پر بھی نظر بد نہیں ڈالتے ۔ میرے بس میں ہوتو میں عالمی امن کا انعام آپ کے نام کردوں ۔
گِدھ اپنی اس قدر تعریف سن کر قدرے پسیج گیا اور بولا طوطے تمہاری چونچ سے پھول برستے ہیں لیکن میں تم کو اندر کی بات بتاؤں مردہ بھیڑیے کا گوشت شیر سے بھی زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔
آپ نے درست فرمایا موت کے بعد بھی بھیڑیے کے اندر سے اس کی خونخواری نہیں جاتی ۔ اسی لیے اس کا گوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہوگا لیکن میں تو ابھی زندہ ہوں ۔ آپ سے گفتگو کا شرف حاصل کررہا ہوں؟
گدھ بولا دوسری مرتبہ تم مجھے یہ اطلاع دے رہے ہو تم نے مجھے بیوقوف سمجھ رکھا ہے کیا؟
جی نہیں سرکار میں ایسی گستاخی کیسے کرسکتا ہوں!
تو کیا تم نہیں جانتے کہ زندہ اور مردہ کے درمیان فرق مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔
مجھے پتہ ہے اسی لیے تو پوچھ رہا ہوں ۔ یہی حرکت اگر کوئی الوّ کرتا تو میں اس کو نظر انداز کردیتا ۔
طوطے کی لن ترانی پھر سے اس کو مہنگی پڑی۔ گدھ نے کہا تم تفریق و امتیاز کرتے ہو۔ تم نےجنگل میں نافذ مساوات کا قانون توڑا ہے ۔
ارے بھیا بھکتوں کی طرح الو کو تو خود اپنے احمق ہونے پر ناز ہے ۔ اس لیے اسے بے وقوف کہنا اس کی تعریف ہے ۔ وہ اسے سن کر اسی طرح خوش ہوجاتا ہے جیسے لومڑی کو شیر کی چمچی کہنے پر وہ خوشی سے جھوم اٹھتی ہے ۔
تم زیادہ باتیں نہ بناو۔ الو کی اہانت کے لیے تمہیں سزا مل کر رہے گی ۔
اچھا تو مجھے بندر کی عدالت میں لے چلو ۔ اس کے انصاف کا ترازو اگر تمہارے حق میں جھک جائے تو میں ازخود پھانسی کے پھندے پر لٹک جاوں گا ۔
دیکھو میاں طوطے یہ اگلے زمانے کی باتیں ہیں جب ترازو میں دو پلڑے ہوا کرتے تھے اور ادھر ادھر جھکا کرتا تھا ۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔
زمانہ بدل گیا ؟ میں نہیں سمجھا ۔ کیا بندر نے اپنا ترازو توڑ دیا ہے؟
جی نہیں اب اس کے ترازو میں صرف ایک پلڑا ہوتا ہے۔ زمین کے چرندوں اور درندوں کے معاملے میں وہ شیر کی جانب اور آسمان کے پرندوں کی بابت وہ میرے آگے سجدہ ریز رہتا ہے۔
طوطے نے کہا تب تو میں نے غلط پیشکش کردی ۔ ایسا کرو کہ بندر کے پاس جانے کے بجائے تم خود ہی میرا فیصلہ کردو ۔
گِدھ خوش ہوکر بولا یہ ہوئی نا بات! یعنی تم نے ازخود اپنے آپ کو میرا تر نوالہ بنانے کے لیے پیش کرہی دیا ۔ سمجھ دار معلوم ہوتے ہو۔
طوطے نے سر جھکا کر کہا بندہ حاضر ہے لیکن میرے مرنے کا انتظار کرنے کے بجائے کوئی مردہ تلاش کریں تو اس میں آپ کی بھلائی ہے ورنہ!
ورنہ کیا ؟ تم میرا کیا کرلوگے ؟
میں کچھ نہیں کروں گا۔ میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ کہیں میری موت سے قبل بھوک سے آپ کے ساتھ کچھ اونچ نیچ نہ ہوجائے ؟
اونچ نیچ کیا ہوتی ہے؟ میں نہیں سمجھا کھل کر بتاؤ
یہی کہ بھوک سے لوگ مر بھی تو جاتے ہیں میں نہیں چاہتا کہ آپ کے ساتھ کچھ ایسا ویسا ہوجائے۔
ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔ تمہاری پیشکش کے مطابق پہلے میں تم کو موت کی سزا دوں گا اور پھر چٹ کرجاؤں گا۔
یہ سن کر طوطے کے چودہ طبق روشن ہوگئے ۔ وہ بولا ایک بات بتاوں ۔ میرا زندہ رہنا آپ کے حق میں میرے مرنے سے بہتر ہے۔
بھوکے گِدھ کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف تھا ۔ اس نے پوچھا وہ کیسے جلدی بتاو؟
طوطے نے کہا ’ایسی بھی کیا جلدی ہے؟‘ دھیرج رکھو ابھی بتاتا ہوں۔
دیکھو بھیا میری بھوک بہت بڑھ گئی ہے اب صبر کرنا مشکل ہورہا ہے۔
طوطا بولا تم مجھے اپنا اقبال بنالو یقین رکھو تمہاری شبیہ بدل جائے گی ۔
میری شبیہ کو کیا ہوگیا ؟ میں تو فلک کا بادشاہ ہوں ۔
یہ تمہاری خام خیالی ہے۔ تم اپنے آپ کو غیر طبعی یا اوتار سمجھ لو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عوام سے پوچھو کہ وہ تمہیں کیا سمجھتے ہیں؟
گدھ نے سوال کیااچھا تو یہ بتاو میاں مٹھو کہ لوگ مجھے کیا سمجھتے ہیں ؟
جان کی امان پاوں تو بتاوں کہ لوگ آپ کو لاشوں کا سوداگر اور مردہ خور کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
اچھا ایسی بات ہے تو میں انہیں نہیں چھوڑوں گا ۔
دیکھو میاں گِدھ تم کتنوں کو ماروگے اور اگر تم نے ماردھاڑ شروع کردی تو تمہاری یہ شبیہ اور بھی بدنما ہوجائے گی نیز لوگوں کے دلوں تمہارے تئیں نفرت میں اضافہ ہو جائے گا ۔
جی ہاں یہ بات تو تم نے سمجھ داری کی کہی ۔ اب یہ بتاو کہ میں کیا کروں؟
میں کہہ چکا ہوں لیکن تم بھول گئے ۔ تم مجھے اپنا اقبال بنالو ۔
ارے بھیا کوئی کسی اور کو اپنا اقبال کیسے بنا سکتا ہے؟ ہر ذی روح کو خود اپنا اقبال بلند کرنا پڑتا ہے اور پھر میں تو فطرتاً مردہ خور ہوں ۔ اس کے بغیر میرا گزر بسر ہی نہیں ہوسکتا۔
مجھے پتہ ہے اس کے باوجود تمہاری شبیہ ایک مسیحا کی بنائی جاسکتی ہے اور آج کل یہ ایک پیشہ ورانہ فن ہے۔
یہ سن کر گِدھ کی بھوک مرگئی ۔ وہ بولا لیکن اس کے لیے مجھے کیا کرنا پڑے گا ۔
طوطا سمجھ گیا کہ اس کا جادو چل گیا ہے۔ وہ بولا کچھ نہیں تم کو دو شعبے قائم کرنے پڑیں گے ۔ ایک آئی ٹی سیل اور دوسرا نشر و اشاعت کا شعبہ۔
اچھا تو اس میں کیا ہوگا؟
بھائی ایک جھوٹ گھڑے گا اور دوسرا پھیلائے گا ۔
لیکن جھوٹ گھڑنے اور پھیلانے سے میرا کیا بھلا ہوگا؟
ارے بھیا سمجھتے کیوں نہیں وہ دونوں مل کر تمہارے بارے میں جھوٹ گھڑ گھڑ کر پھیلائیں گے ۔
اچھا کس کی یہ مجال! میں اسے قتل کرنے کے بعد کھا جاوں گا ۔
طوطا بے تکلف ہوکر بولا یہ ہوئی نا الو والی بات ۔ جھوٹ ہمیشہ اپنے خلاف نہیں ہوتا وہ اپنے حق میں بھی ہوسکتا ۔
میں نہیں سمجھا ؟ تم مجھے پہیلیاں بجھوا رہے ہو۔
جی نہیں دیکھو اپنا آئی ٹی سیل اور میڈیا ڈیپارٹمنٹ تمہارے متعلق اچھی اچھی باتیں ایجاد کرکے پھیلا دے گا اور……..
اور کیا ؟ جلدی بتاو۔
اور تمہارے مخالفین سے متعلق دنیا بھر کے جھوٹ پھیلا کر انہیں بدنام کر دے گا۔
لیکن اس سے میرا کیا فائدہ ہے؟
یہی کہ اس جھوٹ کے تناظر میں لوگ جب تم دونوں کا موازنہ کریں گے تو تم اچھے لگو گے اور کیا؟
لیکن وہ لوگ میرے مخالفین کے بارے میں کیا افواہ پھیلائیں گے؟
بھئی ہم کسی کو احمق کے طور پر مشہور کردیں گے۔ کسی کو غیر سنجیدہ بتا دیں گے اور پھر بھی بات نہ بنے تو اسے سماج کے دشمن کی حیثیت سے پیش کرکے اس کو ملک و قوم کی خاطر باعثِ ننگ و عار بلکہ خطرہ ثابت کر دیں گے۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر اس سے میرا کیا فائدہ ہوگا؟
اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جب تم ان پر حملہ کروگے یا انہیں معتوب کروگے تو لوگ تمہارے احسان مند ہوجائیں گے۔
کیا مطلب میرے ظلم و جبر کے باوجود میری تعریف کریں گے ؟
جی ہاں یہی ہوگا لوگ تمہارے اس قدر گرویدہ ہوجائیں گے کہ تم خودان پر بھی ظلم ڈھاوگے تو بھی برا نہ مانیں گے۔
ارے یہ کیونکر ممکن ہے؟ کیا لوگ اتنے بے وقوف ہیں؟
جی نہیں۔ تمہارا میڈیا سیل ان کو سمجھائے گا کہ تم نے انہیں ایک بہت بڑے موذی درندے بچالیا ہے۔ تم ان کے سب سے بڑے محافظ ہو ۔
گِدھ خوش ہوکر بولا مٹھو میاں کیا یہ واقعی ممکن ہے؟
طوطے نے کہا کیوں نہیں ۔ ایک بار آزما کر دیکھیں اگر ناکام ہوگیا تو بندر کے پاس جائے بغیر……
گِدھ نے کہا یار لیکن تمہاری ننھی سی جان اکیلے یہ کام کیسے کر پائے گی ؟
بھائی میں نے شعبہ قائم کرنے کی بات کی تھی۔ ہم اپنے آئی ٹی سیل میں شاطر لومڑی کو رکھ لیں گے اور نشرو اشاعت کے شعبے میں بےشمار کوؤں کی خدمات حاصل کرلیں گے ویسے بھی آج کل ان کے پاس کوئی کام دھام نہیں ہے اس لیے ہمارے لیے کائیں کائیں کرتے رہیں گے۔
یار مجھے یقین نہیں آتا ہے کہ کوؤں کی کائیں کائیں سے عوام کی رائے بدل جائے گی۔
ارے بھیا یہ آزمایا ہوا نسخہ ہے ۔ ایک جھوٹ کو ہزار مرتبہ بولا جائے تو لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں ۔
گِدھ بولا لیکن میں نے سنا ہے جھوٹ کی ہانڈی بار بار کاٹھ پر نہیں چڑھتی ۔
تم نے درست سنا لیکن اس میں ایک لفظ بھول گئے ۔
اچھا وہ کیا؟
وہ لفظ ’ایک‘ ہے۔ یعنی ایک جھوٹ کی ہانڈی بار بار کاٹھ پر نہیں چڑھتی بلکہ بیچ چوراہے پر پھوٹ جاتی ہے مگر ہم اس کے پھوٹنے سے قبل نیا جھوٹ ایجاد کرکے پھیلا دیں گے تاکہ لوگ اس میں الجھ جائیں اور پرانی ہانڈی کے پھوٹنے کی جانب کسی کی توجہ ہی نہ جائے ۔
لیکن یہ سب ہوگا کہاں؟
اپنی جھوٹ کی فیکٹری یعنی آئی ٹی سیل کے اندر اور کہاں ؟یہی تو اس کا مقصدِ وجود ہوگا۔
گِدھ بولا یار تمہاری بات تو معقول لگتی ہے لیکن وہ اقبال والا معاملہ اب بھی سمجھ میں نہیں آیا ۔
ارے تم نے علامہ اقبال کا نام نہیں سنا۔ ہندو پاک سے آگے ایران و یوروپ بھی ان کا لوہا مانتا ہے۔
ارے لیکن ان کی رحلت کو نصف صدی گزر گئی ۔ اب وہ کہاں سے آئیں گے؟
ان کو آنے کی کیا ضرورت؟ میں تمہارا اقبال بن جاوں گا اور تمہیں شاہین سے بھی زیادہ عظیم ثابت کردوں گا ۔ یہ میری گارنٹی ہے۔
یار سوچ لو تمہاری گارنٹی بھی کہیں………..
جی نہیں ایسا نہیں ہوگا نشستوں کی کمی سے قطع نظر آج بھی سینتیس فیصد لوگ ہمارے گاہک کو مسیحا مانتے ہیں۔
ہاں یار یہ تو کمال ہے کہ بیالیس فیصد لوگ اسے بارہ فیصد پریہ درشنی کو عظیم سمجھیں اور ان کے والدِ محترم کو تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔
جی ہاں بھیا کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی؟ لیکن سچائی یہی ہے ۔ مانو نہ مانو یہ ہم جیسوں کا کمال ہے ۔
گِدھ نے کہا اچھا تمہاری ساری باتیں بجا ہیں لیکن میں اپنی بھوک کا کیا کروں؟
تم اپنی بھوک مٹانے کے لیے لاشوں کی تلاش میں یوکرین کی جانب نکل جاؤ۔وہاں جنگ چل رہی ہے اس لیے کوئی کمی نہیں ہوگی۔
گدھ خوش ہوکر بولا چلو اس بات پر تمہاری جان بخشی جاتی ہے۔
طوطے نے چین کی سانس لے کر کہا جی ہاں میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں ویسے میں اپنا کام شروع کردیتا ہوں ۔
جی ہاں مجھے یقین ہے کہ بہت جلد میرے ساتھ لگا مردہ خوری کا لقب مٹ جائے گا ۔
طوطا بولا فکر کی کوئی بات نہیں۔ اب تو تمہاری حرام خوری بھی لوگوں کو خوش نما نظر آئے گی ، جاؤ جلدی جاؤ تمہیں بہت دور جانا ہے۔
چلو خدا حافظ
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024