چاند پر کمندیں

چندریا ن۔3کی کامیابی نے نوجوانوں میں نئے حوصلوں کو جنم دیا ہے

زعیم الدین احمد حیدرآباد

بالآخر چندریان-3 نے کامیابی کے ساتھ چاند پر اپنے قدم رکھ دیے۔ اس کے لیے سب سے پہلے (ISRO) کے سائنس دانوں کو ڈھیر ساری مبارکبادیاں پیش کرتا ہوں۔ بھارتی سائنس دانوں نے واقعی بڑی محنت، انتھک جدوجہد اور کوششوں کے بعد اس مشن میں کامیابی حاصل کی۔ آخر کار ان کی شبانہ روز محنتیں رنگ لائیں اور چاند کے قطب جنوبی پر بھیجا جانے والا پہلا خلائی مشن کامیابی کے ساتھ قمری مدار پر محفوظ انداز میں اتر گیا۔ اسی کے ساتھ ان سائنس دانوں کی کاوشوں نے ملک کا نام ان چنندہ 4 ممالک کی فہرست میں درج کرادیا جنہوں نے چاند پر اپنا خلائی مشن کامیابی کے ساتھ روانہ کیا ہے، اور دنیا کا وہ واحد ملک بنا دیا جس نے چاند کے قطب جنوبی کی مدار پر اپنا خلائی مشن روانہ کیا ہے۔ درحقیقت چندریان-3 چاند کی سطح پر بھیجا جانے والا چندریان-2 کا فالو آن مشن ہے۔ یہ لینڈر اور روور کنفیگریشن پر مشتمل ہے۔ اسے LVM3 کے ذریعہ SDSC SHAR، سری ہری کوٹا سے روانہ کیا گیا۔ پروپلشن ماڈیول 100 کلومیٹر قمری مدار تک لینڈر اور روور کو لے جائے گا۔
چندریان۔3 کو 14 جولائی 2023ء کو روانہ کیا گیا تھا۔ لینڈر اور روور 23 اگست 2023ء کو ہندوستانی معیار وقت کے مطابق 18:02 پر چاند کے قطب جنوبی علاقے میں اتارا گیا۔ ہندوستان وہ پہلا ملک بن گیا جس نے اپنا خلائی جہاز چاند کے قطب جنوبی پر روانہ کیا اور دیگر ممالک میں چوتھا ملک بن گیا جس نے اپنا خلائی مشن چاند پر کامیابی کے ساتھ اتارا۔ اسرو نے بنیادی طور اس کے تین مقاصد بیان کیے ہیں:
چاند کی سطح پر محفوظ اور آسان انداز میں اپنے خلائی جہاز کو اتارنا یعنی لینڈ کروانا۔
روور کی چاند پر چہل قدمی کے ذریعے سے اس کی صلاحیتوں اور مظاہروں کا مشاہدہ کرنا۔
چاند کی ساخت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے چاند کی سطح پر دستیاب مواد پر تجربات کرنا اور مشاہدہ کرنا۔
چاند پر خلائی جہاز کا اطمینان سے اترنا واقعی ہمارے ملک کے سائنس دانوں کا حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ اس سے قبل بھی چاند پر خلائی جہاز روانہ کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ چاند کی سطح پر کامیابی سے نہیں اتر سکا تھا۔ اس کامیابی پر پوری دنیا نے ہندوستانی سائنس دانوں کی کھل کر تعریفیں کیں اور ان کی صلاحیتوں کا لوہا مان لیا۔ ہندوستان نے خلائی تحقیقات کے میدان میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں، ہمارا ملک ان چند ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جنہوں نے خلائی تحقیقات کے میدان میں بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔ چندریان-3 کی کامیابی نے ہندوستانی سائنس دانوں کے حوصلوں کو بلند کیا اور مستقل میں کیے جانے والے خلائی تحقیقات کو مزید اونچائیوں تک پہنچانے کی ہمت بھی فراہم کی ہے۔ جہاں اس کامیابی نے سارے ملک میں خوشی و مسرت کی ایک لہر دوڑا دی وہیں خلائی تحقیقات میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں میں نئی امنگیں اور نئے حوصلوں کو جنم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ وہ چیزوں کو دیکھتا ہے ان پر غور و فکر کرتا ہے اس پر تحقیق کرتا ہے۔ کائنات میں غور و فکر انسان کا شروع ہی سے محبوب مشغلہ رہا ہے۔ قرآن میں بڑے اصرار کے ساتھ لوگوں کو کائنات، اس کے مظاہر اور خود اپنے نفس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ انسان اس وسیع و عریض کائنات کو دیکھے اور تحقیق کرے کہ خدا نے کس عمدگی کے ساتھ، کس حکمت و دانائی کے ساتھ اس کی تخلیق کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی آخرالزماں حضرت محمد (ﷺ) کے بعد ہی کائنات پر اور سائنسی علوم پر بڑے پیمانے پر غور وفکر اور تحقیق کا آغاز ہوا، ورنہ اس سے قبل تو انسان کائنات میں موجود ستاروں اور سیاروں کو خدا بنائے بیٹھا تھا، اسلام نے لوگوں پر یہ واضح کیا کہ یہ تمہارے معبود نہیں ہیں بلکہ معبود وہ ہے جس نے ان کو اور تم کو بنایا ہے، اسی نے ان ستاروں و سیاروں تمہارے لیے مسخر کیا ہے، اسی نے اس کائنات کا نظام منظم کیا ہے۔ اسلام کے بعد ہی کائنات کی بناوٹ و سجاوٹ اور اس کے نظام کارکردگی پر تحقیقات کا آغاز ہوا۔ خود ہمارے وطن عزیز میں بھی ان ستاروں اور سیاروں سے متعلق بڑے عجیب و غریب توہمات پائے جاتے تھے اور آج بھی پائے جاتے ہیں۔ آج بھی اس دور جدید میں جبکہ سائنس نے ان ستاروں پر تحقیق کر کے ان کی ہیئت و ماہیت سے متعلق یہ واضح کر دیا کہ یہ سیارے اور ستارے ہمارے کرہِ ارض ہی طرح ہیں اور یہ نظام شمسی ہے جس میں ہمارا کرہ ارض بھی شامل ہے، اسی کائنات کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے، اور یہ ثابت کیا کہ یہ خدائی میں کسی بھی حیثیت میں، کسی بھی درجے شریک نہیں ہیں۔ اتنی زبردست سائنسی ترقی و تحقیق کے باوجود انسان اپنے خالق حقیقی تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ ہمارے لیے بھی لمحے فکریہ ہے کہ اتنی سائنسی ترقی کے باوجود لوگ اس حقیقی خالق کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ انسانوں نے سائنسی میدان میں بے پناہ ترقی تو کی ہے لیکن اس ترقی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ خود اپنے افکار دنیا میں ترقی نہ کرسکا۔
اس حیرت انگیز سائنسی ترقی کے باوجود انسان اپنے حقیقی خالق کو پہچاننے میں ابھی تک ناکام ہے۔ یقیناً ہمارے لیے خوشی و مسرت کا موقع ضرور ہے کہ ہمارے ملک کے سائنس دانوں نے چاند پر کامیابی کے ساتھ اپنا خلائی جہاز روانہ کیا، وہ بھی چاند قطب جنوبی حصے پر کہ جہاں روشنی نہیں پہنچتی ہے۔ بے شک اس مشن سے بہت سے فائدے ہوں گے، وہاں پانی کے سالمات موجود ہونے کی تحقیق ہوگی، وہاں اس بات کی بھی تحقیق ہو گی کہ کیا مستقبل میں انسان یہاں آباد ہوسکتا ہے وغیرہ۔ لیکن وہیں ہمیں اس بات کا افسوس بھی ہے کہ ہم بحیثیت مسلم امت اس قوم کو اس کے خالق حقیقی کی طرف بلانے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر خلائی تحقیقات کا کام مسلم امت کرتی تو اس کے اور بھی فوائد ہوتے، کیوں کہ ان کی تحقیق میں صرف مادی پہلو ہی نہ ہوتا بلکہ خدا کی خلاقی کو واضح کرنے کا عنصر بھی شامل ہوتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کارنامے نے ملک کے لاکھوں نوجوانوں کی تحقیقی امنگوں و آرزؤں کو جگایا ہے، وہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم امت کے نوجوان بھی سائنسی علوم میں، خاص طور پر خلائی تحقیقاتی علوم میں آگے آئیں، سائنسی تحقیق و جستجو کے میدان کافی وسیع ہوتے ہیں اس میں اپنی طبع آزمائی کریں، کیوں کہ غور و فکر، تدبر، تحقیق، جستجو ایک مسلمان کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔
***

 

***

 قرآن میں بڑے اصرار کے ساتھ لوگوں کو کائنات، اس کے مظاہر اور خود اپنے نفس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ انسان اس وسیع و عریض کائنات کو دیکھے اور تحقیق کرے کہ خدا نے کس عمدگی کے ساتھ، کس حکمت و دانائی کے ساتھ اس کی تخلیق کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی آخرالزماں حضرت محمد (ﷺ) کے بعد ہی کائنات پر اور سائنسی علوم پر بڑے پیمانے پر غور وفکر اور تحقیق کا آغاز ہوا، ورنہ اس سے قبل تو انسان کائنات میں موجود ستاروں اور سیاروں کو خدا بنائے بیٹھا تھا، اسلام نے لوگوں پر یہ واضح کیا کہ یہ تمہارے معبود نہیں ہیں بلکہ معبود وہ ہے جس نے ان کو اور تم کو بنایا ہے، اسی نے ان ستاروں و سیاروں تمہارے لیے مسخر کیا ہے، اسی نے اس کائنات کا نظام منظم کیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023