مسعود ابدالی
بھارت کی طویل اور صبر آزما کوششیں کبھی ناکام ،کبھی کامیاب تو کبھی مکمل تاریخ رقم کرنے کے درپے
چندریان کے نام سے بھارت کا تسخیرِ ماہتاب پروگرام گزشتہ دنوں ابلاغِ عامہ پر چھایا رہا۔ چندرا(چاند) اور یانا (گاڑی) سے اسے چاند گاڑی کہا جاسکتا ہے لیکن یہ دراصل تسخیرِ ماہتاب کے پورے منصوبے یا Indian Lunar Exploration Programکا عنوان ہے۔ چاند کی سطح پر اترنے والی گاڑی یا Soft lander کو وِکرم کا نام دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر وکرم سارا بھائی بھارتی خلائی پروگرام کے بانی قراردیے گئے ہیں جن کے نام سے چاندگاڑی کو موسوم کیا گیا۔ وکرم آزمائش و پیمائش کے آلات کی حامل ایک اعلیٰ معیار کی موبائل تجربہ گاہ یا roverسے لیس ہے۔ اس روور کو Pragyan (دانش) کا لقب عطا ہوا ہے۔
بھارت میں چاند کی تسخیر کا کام 1999 میں شروع ہوا اور 2000 میں بھارتی خلائی تحقیقاتی ادارے ISRO نے چندریان پروگرام کی ذمہ داری سنبھال لی۔ اسرو 1969 میں قائم ہوئی تھی۔ اگست 2015 میں بھارتی یوم آزادی پر وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے تسخیر ماہتاب منصوبے کے لیے چارکروڑ چالیس لاکھ ڈالر جاری کیے تھے ۔ اسی سال نومبر سے چندریان پروگرام کا آغاز ہوا اور چاند کے قطب جنوبی کے جائزے کو ہدف قرار دیا گیا۔
قطب جنوبی پر برف اور پانی کے آثار ہیں جبکہ فلکیاتی تصاویر میں ایک بڑا غار دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں موجود پہاڑ کی طرح ابھری چٹانیں سارا سال غسلِ آفتابی کا لطف اٹھاتی ہیں اور ان سے پڑنے والے سائے نے غار کو تاریک و مہیب بنادیا ہے۔ سائنسی تخمینے کے مطابق 21 کلومیٹر چوڑے اس غارکی گہرائی سوا چار کلومیٹر کے قریب ہے۔ سائنسدانوں کو اس غار سے گہری دلچسپی ہے۔ اس کی ماہیت اور ساخت کے تجزیے سے سطحِ ماہتاب اور اس کے نیچے پانی یا دوسرے مائعات کی موجودگی اور معدنیات کے علاوہ غار کی وجہِ تشکیل جاننے میں مدد ملے گی کہ کیا زلزلے اور آتش فشاں سرگرمیوں نے چٹانوں کو ابھار کر غار کوجنم دیا ہے؟ علمائے فلکیات یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ چاند کی سطح کیسی ہے، اور کیا زمین کی طرح یہاں بھی پرتیں ہیں جن کی حرکت سے ارتعاش پیدا ہوتا ہے؟ ان معلومات کے حصول کے لیے حساس ترین آلات پر مشتمل آلہ Map Impact Probe (MIP) کو چندریان منصوبے کا حصہ بنادیا گیا۔
بائیس اکتوبر 2008 کو چندریان-1 نے چاند کی جانب سفر کا آغاز کیا، چندریان پر دوسرے سامان کے ساتھ مایع و معدنیات کا سراغ لگانے کے لیے امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے NASA کا جدید ترین Imaging Spectrometerبھی لدا تھا جسے Moon Mineralogical Mapper (MMM) کا نام دیا گیا۔ دس نومبر کو خلائی جہاز چاند کے مدار میں داخل ہوا اور چار دن بعد جب یہ راکٹ قمری سطح سے 100 کلومیٹر قریب پہنچا تو غار کے قریب MIPگرادیا گیا۔ تجربات کے دوران ایم آئی پی اور ایم ایم ایم دونوں سے ملنے والے اشاروں (سگنل) نے چاند کے قطبِ جنوبی پر منجمد پانی کی تصدیق کردی ۔ منصوبے کے مطابق قمری سطح کا جائزہ اور تجربات دو سال جاری رہناتھا لیکن نو ماہ بعد 28 اگست 2009 کو زمینی مرکز سے رابطہ منقطع ہوگیا۔اگرچہ کہ مشن وقت سے پہلے ختم ہوگیا لیکن یہ بھارت کی بڑی کامیابی تھی۔ خاص طور سے چاند پر پانی کی تصدیق نے تسخیر ماہتاب کو ایک نئی جہت عطا کی۔
چندریان دوم کی روانگی کا ہدف 2012 طے کیا گیا لیکن سیاسی مداخلت بلکہ سیاست بازی نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ اسروحکام کی خواہش تھی کہ چندریان دوم کو اسرو اور امریکی ادارے NASAکا مشترکہ منصوبہ بنایا جائے۔ بھارت کے صدر ڈاکٹر عبدالکلام بھی امریکہ سے تعاون کے حامی تھے لیکن وزیر اعظم منموہن سنگھ کا جھکاو روس کی طرف تھا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اسرو 2007 میں خلائی تحقیقات کے روسی ادارے ROSCOSMOS سے معاہدہ کرچکا ہے جس کا احترام ضروری ہے۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد روسیوں سے مل کر کام کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ بھی طے پایا کہ اس بار MIPگرانے کے بجائے خلائی جہاز سے ایک چاند گاڑی یا Lander سطح پر اتاری جائے گی اور موبائل تجربہ گاہ یا Roverسے آزمائش و پیمائش اور دوسرے تجربات کیے جائیں گے۔
معاہدے کے مطابق خلائی جہاز اور Rover، فضائی تحقیقات کا بھارتی ادارہ اسرو فراہم کرے گا جبکہ Lander روس کے ROSCOSMOS کی ذمہ داری ہوگی۔ دومُلّاوں کے بیچ میں مرغی حرام کے مصداق چاند گاڑی کی ہئیت اور وزن پر اتفاق نہ ہوسکا اور 2013 میں معاہدہ ختم ہوگیا۔ اسرو نے landerکی تیاری کا کام خود شروع کیا اور چاند گاڑی بنانے میں خاصا وقت لگنے کے ساتھ اخراجات بھی ساڑھے چار کروڑ سے بڑھ کر دس کروڑ ڈالر ہوگئے۔ اس دوران ہندو ستان میں حکومت بھی تبدیل ہوچکی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ترجیحِ اول بھارت کا ملائم چہرہ یا soft image تھا لہذا اسرو کو رقم کے حصول میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور طویل تاخیر کےبعد 22 جولائی 2019 کو چندریان-2 چاند پر کمند کا عزم لیے روانہ ہوگئی۔ بیس اگست کو خلائی جہازچاند کے مدار میں داخل ہوا اور landerکو چاند کی سطح پر اتارنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ سب کچھ ٹھیک جارہا تھا لیکن چھ ستمبر کو جب landerچاند کی سطح سے صرف دو کلومیٹر کی بلندی پر تھا۔ اس کے خلائی مرکز سے رابطے میں خلل پیدا ہوا اور یہ چاند کی سطح پر گرکر تباہ ہوگیا یا یوں کہیے کہ لب بام سے صرف چند ہاتھ پہلے کمند ٹوٹ گئی۔
اس ناکامی کے باوجود اسرو کے ماہرین پر عزم رہے اور چندریان سوم کی تیاری شروع کردی گئی اور خلائی جہاز کی روانگی کے لیے وسط 2021 کا ہدف طے ہوا لیکن نامراد کورونا نے دوسرے امور کی طرح چندریان کی تیاریوں کو بھی تلپٹ کردیا۔ اس سال 14 جولائی کو چندریان سوم نے اپنے سفر کا آغاز کیا اور 23 اگست کو Lander وِکرم چاند کے قطب جنوبی پر اترگیا۔ گویا امریکہ، روس اور چین کے بعد بھارت چاند پر اترنے والا تیسرا جبکہ قطب جنوبی پر چاند گاڑی اتارنے والا پہلا ملک بنا۔
آزمائش و پیمائش کے لیے پرگیان ، وکرم سے پھسلتی ہوئی اتری اور 8 میٹر دورجاکر اس روباٹ Robotنے پیمائش کا کام شروع کیا۔قمری رات شروع ہونے پر 3 ستمبر کو وکرم جی سلا دے گئےیعنی Sleeping Modeپر ڈال دیے گئے۔
یہاں قمری دن اور رات پر چند سطور قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش ہیں:
چندا ماما کا اپنے محور کے گرد ایک مکمل چکر ایک قمری دن ہے۔ چاند کی حرکت کچھ اس طرح ہے کہ اس کا ایک رخ ہمیشہ زمین کی طرف رہتا ہے اور یہ زمین کے گرد اپنا چکر 29 دن 12 گھنٹہ 44 منٹ میں مکمل کرکے سورج اور زمین کےدرمیان آجاتا ہے اور اس گردش کی تکمیل نئے قمری مہینے کا آغاز ہے۔ یعنی چاند کا ایک دن زمین کے 29.530588 دنوں کے برابر ہے۔ یہ فرق اس لیے ہے کہ سورج کے گرد زمین کی گردش سیدھی ہوتی ہے, چنانچہ یہ اپنا یومیہ چکر 24 گھنٹے میں مکمل کرلیتی ہے لیکن چاند کو زمین کا چکر لگانا پڑتا ہے اور جیسے جیسے زمین سورج کے گرد اپنے مدار میں حرکت کرتی ہے چاند بھی زمین کا چکر لگاتے ہوئے سورج کے گرد گھومتا ہے جس کی وجہ سے چندا ماموں اپنا چکر ساڑھے 29 دن میں مکمل کرتے ہیں یعنی چاند پر 14 دن روشنی (قمری دن) اور 14 دن تاریکی یا قمری رات رہتی ہے۔
چاند پر دن اور رات کے درجہ حرارت میں بھی بڑا فرق ہے۔ وہاں دن کو اوسط درجہ حرارت 132.22سنٹی گریڈ (270F) رہتا ہے جبکہ رات کو پارہ منفی 137.8ڈگری سنٹی گریڈ (-280F) تک گرجاتا ہے۔
وکرم اور پرگیان پر نصب آلات اس قدر کم درجہ حرارت پر کام نہیں کرتے اس لیے قمری شب شروع ہوتے ہی وکرم کو sleep mode پر ڈال دیاگیا لیکن قمری صبح کے آغاز پر 17 ستمبر کو جب زمینی مرکز سے بیداری کا سگنل بھیجا گیا تو وکرم سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اسرو کے مطابق اسی عالم خوابیدگی میں 3 اکتوبر کو دوسری قمری (Lunar)رات شروع ہوچکی ہے لیکن زمینی مرکز سے کوششوں کے باوجود وکرم سے کوئی جواب نہیں آیا۔ تادم تحریر اسرو نے تصدیق نہیں کی لیکن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وکرم جی نیند کے عالم ہی میں فریز ہوکر چل بسے۔
دوسری طرف چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ چندریان چاند پر پہنچی ہی نہیں اور تسخیر ماہتاب بالی ووڈ کے طلسم ہوشربا کا کمال ہے۔ چینیوں نے اپنے دعوے کے حق میں دلیل یہ دی ہے کہ عالمی خلائی مرکز (International Space Station)نے چندریان کی پرواز کا نوٹس نہیں لیا۔ خلائی مہمات کو نصرت و اعانت فراہم کرنے کے لیے قائم کیے جانے والا یہ خلائی مرکز امریکہ، روس، کینیڈا، جاپان اور یورپی یونین کے زیرانتظام چلتاہے۔ کیا چاند گاڑی غیر مرئی (stealth)چادر اوڑھے ہوئے تھی؟ کسی آزاد ذریعہ نے چینیوں کے دعوے کی تصدیق نہیں کی لیکن جھوٹ و فریب کے اس دور میں سب کچھ ممکن ہے۔ بہت ممکن ہے کہ چینیوں کا دعویٰ محض سامانِ دل لگی ہو لیکن سوشل میڈیا پر کسی منچلے نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ ’’منفی 270 ڈگری درجہ حرارت میں وکرم ، پرگیان اور مودی جی کا خواب تینوں منجمد ہوگئے‘‘۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
وکرم اور پرگیان پر نصب آلات اس قدر کم درجہ حرارت پر کام نہیں کرتے اس لیے قمری شب شروع ہوتے ہی وکرم کو sleep mode پر ڈال دیاگیا لیکن قمری صبح کے آغاز پر 17 ستمبر کو جب زمینی مرکز سے بیداری کا سگنل بھیجا گیا تو وکرم سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اسرو کے مطابق اسی عالم خوابیدگی میں 3 اکتوبر کو دوسری قمری (Lunar)رات شروع ہوچکی ہے لیکن زمینی مرکز سے کوششوں کے باوجود وکرم سے کوئی جواب نہیں آیا۔ تادم تحریر اسرو نے تصدیق نہیں کی لیکن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وکرم جی نیند کے عالم ہی میں فریز ہوکر چل بسے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023