چاہ بہار سمجھوتہ بھارت کے لیے نہایت ہی اہم

بھارت اور ایران کے معاشی تعلقات ترقی کی راہ پر گامزن

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

چین کی گوادر پورٹ سے رسائی کئی مسائل کو جنم دے سکتی ہے
حال ہی میں مرکزی حکومت نے چاہ بہار بندرگاہ سمجھوتہ کو بہت اہم نقوش راہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معاہدہ صنعت و تجارت کو مہمیز دینے کے لیے زمینی سرحدوں سے گھرے ہوئے افغانستان اور مغربی خطے کو جوڑنے کا کام کرے گا۔ یہ چاہ بہار سمجھوتہ وسطی ایشیا اور یوریشیا کے بڑے حصوں تک بھارت کے جڑاو اور اثرات کو بڑھانے میں بے حد اہم واسطہ ہے۔ دس سالوں کے لیے اس بندرگاہ کے انتظامی امور کی ذمہ داری ہمارے ملک کو ملنا محض ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کا پیش خیمہ ہی نہیں ہے بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ یوکرین، روس اور فلسطین و اسرائیل کے جنگی حالات میں بھارت کی اہمیت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ حالانکہ اس ڈیل میں بھارت طویل عرصے سے معاونت کرتا آرہا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت کسی غیر ملکی بندرگاہ کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے۔ چاہ بہار کے متصل پڑوس میں ہی چین بیلٹ روڈ منصوبے کے ساتھ توازن قائم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس منصوبے کی وساطت سے ایران کے علاوہ ہمارا ملک براہ راست اور بآسانی وسطی ایشیائی ریاستوں، افغانستان اور یوریشیا کی ریاستوں تک اپنے دائرہ اثر کو بڑھا سکتا ہے جو پاکستانی اکڑ کے باعث اور بھارت کے ساتھ خراب تعلقات کے ہونے کی وجہ سے کھٹائی میں پڑتا رہا ہے۔ واضح رہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے چند ماہ قبل ہی چاہ بہار کے راستے ایران کے ساتھ تجارتی سمجھوتہ کیا ہے۔ اس طرح ایران عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے پر بھی زور دے رہا ہے اس کے لیے زمینی سڑک اور ریلوے کے مشترکہ توسیع کا پروگرام بھی بنارہا ہے۔ اس لیے چاہ بہار منصوبہ عرب ممالک سے تعلقات کا براہ راست اور بہت خاص ذریعہ بن سکتا ہے۔ بھارت اس پر کئی سالوں سے بڑی رقم بھی خرچ کرتا آرہا ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک نے ٹرمینل کی تعمیر اور ترقی کے لیے 85 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی کیا۔ سابق میں امریکہ نے ایران کو سبق سکھانے کے لیے کئی طرح پابندیاں بھی لگادی تھیں جس کی وجہ سے بندرگاہ کا کام تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔ اس کے بعد بھارتی معاونت بھی دھیمی پڑگئی مگر 2016 میں وزیر اعظم مودی نے اپنے سفر ایران کے دوران سمجھوتہ پر دستخط کرتے ہوئے اس پروجیکٹ کو تیزی سے بڑھانے کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد وزیر خارجہ کے دورہ ایران کے بعد یہ معاہدہ انجام کو پہنچا۔ آج بھی ایران کے تعلقات مغربی ممالک اور امریکہ کی اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور غیر انسانی حمایت کی وجہ سے بے انتہا کشیدہ ہیں کیوں کہ ایران اسرائیل کے ناپاک و ناجائز وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔ مگر بھارت اپنی آزاد خارجہ پالیسی کے تحت مثبت طور پر اپنے تعلقات بہتر رکھنے کے منشا کے مد نظر ایران و روس کے ساتھ اچھے اور دوستانہ رویے پر کار بند ہے۔ اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ چاہ بہار پروجیکٹس پر بین الاقوامی تناو کا اثر کم ہی ہوگا۔ اب اس بندرگاہ سے بحر ہند کے خطہ اور بھارتی بازار تک وسطی ایشیا کی رہنمائی کے ساتھ بھارتی سرمایہ کاروں اور تاجروں کو اچھا موقع ملے گا۔چاہ بہار سمجھوتہ ایران اور بھارت دونوں کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ پاکستان کے ساتھ ہمارے خراب تعلقات کی وجہ سے افغانستان اور وسطی ایشیا سے بھی ہمارے تعلقات منجمد ہوکر رہ گئے ہیں۔ چند ماہ قبل ہی جب بھارت انسانی امداد کی شکل میں پچاس ہزار ٹن اناج افغانستان بھیجنا چاہتا تھا تب پاکستان حسب عادت بہت دنوں تک راہ داری فراہم کرنے سے گریز کر رہا تھا جب کہ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان ایک مسلم ملک ہونے کی وجہ سے اس کا دوست ہے ۔ایسے میں ہمارے لیے ایک متبادل راستہ ضروری ہوگیا تھا۔ ہمارا ملک پہلے سے ہی روس اور ایران کے ساتھ انٹرنیشنل نارتھ ساوتھ کوریڈور کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ اسی ضمن میں چاہ بہار منصوبہ بھی تشکیل پایا جس پر 2003 سے مسلسل کام ہو رہا ہے ۔ بھارت نے اس بندرگاہ میں شہید بہشتی ٹرمینل کی تعمیر کی ہے اور بہیترے کمپنیاں اس منصوبے سے جڑی ہوئی ہیں مگر کام زیادہ تیزی سے نہیں ہو پا رہا تھا۔ کیونکہ ایران پر مغربی ممالک اور امریکہ نے کئی طرح کی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکہ جیسا چاہے کہے بھارت چاہ بہار کو لے کر بے حد سنجیدہ ہے۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان اصولی سمجھوتہ ہے جس کے تحت فریقین کے درمیان گفتگو ہو سکتی ہے جس کے ذریعے بھارت اپنے مسئلے کو پیش کرسکے گا اور امید ہے کہ امریکہ کو بھی اس مسئلہ کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ اس پر بھارت کو کسی کے دباو میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ بھارت کے لیے اپنے ملک کا مفاد زیادہ اہم ہے اور وسطی ایشیاء کے ساتھ تال میل کے لیے انٹرنیشنل کوریڈور انتہائی ضروری ہے۔ چاہ بہار اس کا ایک حصہ بن سکتا ہے۔ جبکہ امریکہ کا دباو اسے ختم کرنے تلا رہے گا لیکن ہمیں اپنے موقف پر قائم رہنا ہوگا۔ فی الحال افغانستان میں امن و امان اور استحکام ایک اہم موضوع ہے جس میں بھارت اپنا تعاون پیش کرسکتا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک طویل عرصے سے چین اور روس کے درمیان بطور پنڈولم جھولتے رہے ہیں۔ انہیں بھی اب ایک تیسرے ملک کی ضرورت ہے۔ وہ بھارت سے اپنے تعلقات بڑھانے کے ساتھ ساتھ ترکی اور امریکہ سے بھی قربت بڑھا پائیں گے۔
یہ بات عجیب لگتی ہے کہ سمجھوتہ ہونے کے ساتھ امریکی خارجہ محکمہ کا بیان آیا کہ جو ملک بھی ایران سے معاشی تعلقات رکھے گا اسے بھی ممکنہ پابندیوں کے دائروں میں لایا جا سکتا ہے۔ وہ اس سے اچھی طرح واقف ہے کہ افغانستان کو امداد کی ضرورت ہے تاکہ وہ مصائب اور عدم استحکام سے فی الفور نجات پائے۔ یہ وسطی ایشیاء خود امریکہ کے لیے کافی اہم ہے اور اس علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا کر اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ مل کر وسطی ایشیاء میں اپنا پاؤں پسار سکتا ہے اس لیے چاہ بہار سمجھوتہ میں اگر رکاوٹ پیدا کرے تو یہ اس کی نا سمجھی ہوگی۔ امریکہ اپنی اس شاخ کو ہرگز نہیں کاٹے گا جس پر وہ خود بیٹھا ہوا ہے۔ امریکہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ چاہ بہار کا منصوبہ پورے خطہ کے لیے مفید ہے۔ اسی وجہ سے اس نے اسے پابندیوں سے دور رکھا ہے۔ جنگی حالات میں جو اسرائیل و فلسطین کے درمیان جاری ہیں اگر امریکہ ایسا کرتا ہے تو اس سے ہمارے ملک کو نقصان تو ہوگا ہی مگر امریکہ کو کسی طرح کا فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن امریکہ حسب عادت بیان بازی کرتا رہے گا لیکن بعد میں اسے سمجھ آجائے گی کہ چاہ بہار کیوں اہم ہے۔ اب ہمیں واضح کرنا چاہیے کہ روس و ایران، جن پر مغربی ممالک اور امریکہ نے بے حساب پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اگر ان ممالک کو کسی وقت اپنا مفاد نظر آئے گا تو امریکہ ضرور رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اکثر پابندیوں کی زد میں دیگر ممالک بھی آتے ہیں جو ایک چیلنج ہی ہے جس سے ہمیں خبردار رہنا چاہیے۔ حکومت نہیں کہتی کہ اسے پریشانیوں کا سامنا ہے مگر نجی کمپنیوں کو اپنے نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔ بھارت اور ایران کے درمیان یہ ایسا سمجھوتہ ہوا ہے جسے پاکستان اور چین کے لیے جھٹکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت نے یہ سمجھوتہ چاہ بہار میں واقع شہید بہشتی بندرگاہ کے لیے کیا ہے۔ یہ بندرگاہ ایران کی دوسری بڑی بندرگاہ ہے۔ یہ سمجھوتہ انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹیڈ اور پورٹس اینڈ مری ٹائم آرگنائزیشن آف ایران کے درمیان ہوا ہے۔ بھارت کے وزیر جہاز رانی سربانند سونو وال نے ایران پہنچ کر اپنے ایرانی ہم رتبہ کے ساتھ اس اہم سمجھوتہ پر دستخط کیے۔ پاکستان اور چین مل کر ایرانی سرحد کے قریب گوادر پورٹ کو ترقی دے رہے ہیں۔ بھارت اور افغانستان کو جوڑنے والے چاہ بہار پورٹ کو گوادر پورٹ کے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ خبر رساں ایجنسی رائٹر کے مطابق آئی پی جی ایل تقریباً 120 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ اس کے علاوہ 250 ملین ڈالر کی مالی مدد بھی دے گی جیسا کہ اوپر کی سطور میں واضح کیا گیا ہے کہ بھارت اس بندرگاہ کے ذریعہ افغانستان اور وسطی ایشیا تک اپنی رسائی کو سہل کرنا چاہتا ہے اور اس بندرگاہ سے بھارت کا لاجسٹک اور سیاسی و معاشی مفاد وابستہ ہے۔ چاہ بہار، بحر عرب میں چین کی موجودگی کو چیلنج کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، کیونکہ پاکستان میں گوادر پورٹ بذریعہ سڑک چاہ بہار سے 400 کلو میٹر دور ہے جبکہ بذریعہ آبی شاہراہ یہ محض سو کلو میٹر ہے۔ اس طرح گوادر اور چاہ بہار سمجھوتہ پر چین اور بھارت کے درمیان ٹکراو ہے کیونکہ گوادر میں چینی موجودگی بھارت کے لیے کبھی بھی مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024