مردم شماری-مسلم شماری = ہندوستانی شہریت

شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی پر حکومت کی دروغ بیانیوں کے تناظر میں ضروری ہے کہ ان مسائل کا تاریخی پس منظر سے جائزہ لیا جائے۔ معروف وکیل اور ماہر قانون جناب اے رحمان نے اپنی زیر طبع کتاب میں اسی موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور اہم تاریخی و قانونی انکشافات کیے ہیں۔

تحریر: اے رحمان

’انماالاعمال بالنیات‘ حدیث ہی نہیں، دنیوی معاملات کا بھی آفاقی اصول ہے۔بظاہر اچھا نظر آنے والا کام بھی اگر بری نیت سے کیا جائے تو نتائج اور انجام برا ہی ہوتا ہے اور کسی نہ کسی کے لیے ضرر رساں بھی۔حکومت کے ذریعے شہری قانون میں کی گئی غیر ضروری اور غیر آئینی ترمیم نیز شہریوں کے قومی رجسٹر (NRC) کی ترتیب و تجدید کے اعلان کے خلاف قومی اور بین الاقوامی سطح پر احتجاج پورے زور پر ہے لیکن اس کے شور و غوغا کی جانب عوام کی پوری توجہ منعطف دیکھتے ہوئے مرکزی کابینہ نے راتوں رات اگلی مردم شماری اور اس سے متعلق مصارف کی منظوری دے دی اور اس کے ساتھ ساتھ قومی آبادی رجسٹر (NPR) کی تجدید (updation) کاحکم بھی صادر کر دیا، حالانکہ وزیر داخلہ نے یہ صفائی پیش کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی کہ این پی آر کا این آر سی سے کوئی تعلق نہ سمجھا جائے۔اور یہیں سے نہ صرف حکومت کی بد نیتی کا ثبوت ملتا ہے بلکہ اس خدشے کی بھی توثیق ہوتی ہے کہ شہریت کے حساس اور سنگین قانونی موضوع پر اچانک ایسی کڑی اور مفصل کارروائی کے ذریعے ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔وزیرِ داخلہ کی صفائی کا ابطال تو یوں ہی ہو جاتا ہے کہ 18 جون 2014 کو اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ہدایات جاری کی تھیں کہ این پی آر کے پروجیکٹ کو اس کے منطقی اختتام یعنی این آرسی کی ترتیب و تدوین تک پہنچایا جائے۔2014 کے بعد سے حکومت کئی مرتبہ پارلیمنٹ میں یہ بیان دے چکی ہے کہ این پی آر کے ذریعے ہر فرد کی شہریت کا تعین کر کے اس پر مبنی این آر سی کی تشکیل کی جائے گی۔ نومبر 2014 میں ریاستی وزیرداخلہ کِرن ریجوجو نے ایک سوال کے جواب میں راجیہ سبھا میں بیان دیا ( جسے وزارتِ داخلہ نے 26 نومبر 2014 کو شائع کیا) کہ ’’ این پی آرملک میں عمومی طور پر مقیم لوگوں کی شہریت کی تصدیق کے زاویئے سے این آر سی کی جانب پہلا قدم ہے۔‘‘ 31 جولائی 2019 کو شہریوں کی رجسٹریشن کے رجسٹرار جنرل نے توٹیفیکیشن جاری کر کے تازہ ترین این پی آر تیار کرنے کی ہدایت دی جس کے لیے یکم اپریل 2020 سے 30 ستمبر 2020 کا دورانیہ مقرر کیا گیا ہے۔ چند ہی روز پیشتر یعنی22  دسمبر 2019 کو وزیر اعظم مودی نے حسب عادت جھوٹ بولتے ہوئے کہا ’’این آر سی کے موضوع پر تو کہیں کوئی بات نہیں ہوئی۔ ہم نے تو سپریم کورٹ کے احکامات کی رو سے صرف آسام میں اسے نافذ کیا ہے۔‘‘ اب اس ضمن میں این پی آر اور این آرسی کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لینا ضروری ہو جاتا ہے۔

 این آرسی ملک کے اصلی اور حقیقی شہریوں (بمقابلہ محض قیام پذیر غیر شہری)کا گوشوارہ ہے جسے آزادی کے بعد1951 میں ہونے والی پہلی مردم شماری کے وقت شروع کیا گیا تھا۔ اس کی ضرورت در اصل آسام کی ملغوبہ آبادی کی وجہ سے محسوس کی گئی تھی اور حال ہی میں آسام میں ہی اس کے اطلاق سے جو بھی مسائل اور خدشات پیدا ہوئے ان کے ذکر سے پیشتر آسام کی اس صورت حال کوسمجھنا ضروری ہے جس کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ایسا کوئی گوشوارہ یا رجسٹر بنانے اور مستقل قائم رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

5مارچ 1824 کو پہلی اینگلو برمیز(برطانیہ اور برما کے مابین) جنگ چھڑی جو برطانیہ کے لیے سب سے مہنگی جنگ ثابت ہوئی اور جس کا اختتام 24فروری 1826 کو یندابوامن معاہدے (Yandabo Peace Treaty) پر ہوا جس کی رو سے منی پور اور آسام برطانوی نو آبادی ہندوستان کا حصہ ہو گئے۔1826 سے1947 تک کے عرصے میں آسام کے سلسلے میں انگریزوں کے فیاضانہ رویے کے باعث بنگال کے کسان آسام کی زر خیز زمین کے لالچ میں مستقل وہاں ہجرت کرکے آتے رہے۔انگریزی حکومت اچھی رہی ہو یا بری لیکن انگریزوں نے قانون و انتظام کے معاملات میں زیادہ تر نیک نیتی سے کام لیا۔آسام میں مشرقی بنگال سے ہونے والی ہجرت کے مد نظر انگریزوں نے وہاں این پی آر قسم کی ایک چیز بنانے کے لیے مردم شماری کرائی۔ اس وقت مردم شماری کے سپرنٹنڈنٹ C.S. Mullan نے حکومت کو بھیجی گئی اپنی رپورٹ میں لکھا تھا ’’ پچھلے پچیس سال کے واقعات و معاملات میں اہم ترین واقعہ رہا ہے مشرقی بنگال کے مہاجر کسانوں کی آسام پر یلغار جو یہاںکی زرخیز زمینوں کے لالچ میں کشاں کشاں آتے ہیں اور جن کی اس بڑی تعداد میں موجودگی آسام کے تہذیبی اور ثقافتی ڈھانچے کو یقینی طور پرتہس نہس کرے گی۔‘‘ یہ کس حد تک ہوا یا نہیں ہوا اس سے قطع نظر آزادی کے بعد خفیہ ایجنسیوں نے مرکزی حکومت ہند کو کئی مرتبہ متنبہ کیا کہ آسام میں غیر ملکی جاسوسوں اور ایسے دوسرے عناصر کی موجودگی کا امکان ہے جو وہاں حکومت مخالف کا روائیاں کر سکتے ہیں اوریا جن کی آسام میں موجودگی آبادی کے معاشرتی اور معاشی توازن(Demography) میں خلل پیدا کر ے گی۔ (ڈیموگرافی پیدائش، موت، کاروبار، نوکری، آمدنی، بیماریوں اور پیشوں وغیرہ کے تعلق سے اعداد وشمار کا مطالعہ ہے جو کسی بھی انسانی آبادی کی بدلتی ہوئی اور موجودہ صورت حال اور مسائل کے مد نظر منصوبے بنانے اور حل تلاش کرنے کے لیے نہایت ضروری رہنما ہوتا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ آبادی کے حقیقی کوائف اور اعدا د و شمار مہیا ہوں۔اس زاویئے سے مردم شماری ایک بہت اہم انتظامی عمل ہے)

لہٰذا سب سے پہلے 1951 میں ہوئی پہلی مردم شماری کے وقت آسام کے لیے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن(شہریوں کا قومی رجسٹر) تیار کرنے کے احکامات صادر کیے گئے۔ ( 1955 کے شہریت ایکٹ میں اسے لازمی قرار دیا گیا) اس وقت یہ رجسٹر کچا پکا جیسا بھی بنا بن گیا تھا لیکن نہ تو آبادی کا جائزہ لے کر مطلوبہ کارروائی کی گئی اور نہ ہی اس شہری رجسٹر کی کوئی تجدید (updation) عمل میں لائی گئی۔ 1950 کے بعد مشرقی پاکستان( جو بعد میں بنگلہ دیش کہلایا) سے خصوصاً ہندوؤں کی غیر قانونی ہجرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ تقسیم کے فوراً بعد سے ہی مشرقی پاکستان میں جو سیاسی بحران شروع ہوا تھا وہ 1971 کی ہندو پاک جنگ اور اس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوا۔ دوران جنگ اور اس کے بعد بھی جنگ متاثرہ مہاجروں کی آسام میں آمد جاری رہی اور20اکتوبر2012 کو حکومت آسام کے ہوم اور پولٹیکل ڈپارٹمنٹ نے جو قرطاس ابیض( وہائٹ پیپر) شائع کیا اس میں کہا گیا تھا کہ جنگ سے متاثر ہو کر آسام میں غیر قانونی طریقے سے آنے والے مہاجرین کی تعداد کا جو اندازہ ابتدا میں ڈیڑھ سے دو لاکھ لگایا گیا تھا وہ بعد تحقیق پانچ لاکھ ثابت ہوا ہے۔یہ صورت حال آر ایس ایس کی نظر میں تھی اس واسطے بھی کہ غیر قانونی طور سے آسام میں داخل ہونے والے مہاجرین میں ہندو بھی شامل تھے۔لیکن ان کا یہ تاثر (غالباً تعصب کی بنا پر) تھا کہ وہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے لہذٰا ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کی نیت سے وہاں این آر سی کا چرخہ چلایا گیا تاکہ وہاں موجود بے شمار مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک بدر کر دیا جائے اور جو تھوڑے سے ہندو غیر قانونی پائے جائیں ان کے بارے میں کچھ اور سوچا جائے۔لیکن آسام میں تدبیر الٹی پڑ جانے کے بعد حکومت نے جھلا کر شہریت قانون میں ترمیم،این آرسی اور این آر پی سارے گولے ایک ساتھ داغ دیئے اور آج جو ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا بیان آیا ہے کہ این آر سی اور ترمیم وغیرہ واپس نہیں لیے جائیں گے خواہ کچھ ہو جائے وہ بھی اسی جھلاہٹ کا غماز ہے۔یہ تو طے ہے کہ ایک پرانی اور گہری سازش کے تحت ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نہایت خطرناک منصوبہ بنایا گیا ہے،لیکن جہاں تک منصوبے کے ابتدائی حصے یعنی شہریت کا مسٔلہ اٹھا کر مسلمانوں کو دہشت میں مبتلا کرنے کا تعلق ہے تو وہ پورے طور پر ناکام رہا جو کہ اظہر من الشمس ہے۔ (جاری)

نوٹ: یہ مضمون صاحب مضمون کی آنے والی کتاب ’’قومیت شہریت: آئینی تشریح قانونی توضیح ‘‘ سے مقتبس ہے۔

[مضمون نگار معروف وکیل اور ماہر قانون ہیں نیز عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں]