پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
صرف ایک ادارے کی غفلت پورے ملک کی معیشت کو کمزور کرسکتی ہے
’سیبی‘ یعنی سیکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا کی سب سے بڑی ذمہ داری شیئر بازار کو عمدہ طریقے سے نظم کرنے اور چلانے کی ہے۔ لیکن آج کے حالات میں سیبی اسی ذمہ داری کو ٹھیک سے ادا نہیں کر پا رہی ہے کیونکہ اڈانی گروپ کے معاملہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیبی نے شیئر بازار کے تئیں اپنی ذمہ داری کو صحیح طور سے نبھایا ہوتا تو اڈانی گروپ کی شیئروں کی قیمت دو سو سے چار سو گنا نہیں بڑھ پاتی اور نہ سپریم کورٹ کو سیبی سے اور نہ ہی حکومت سے جواب دہی طلب کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس مسئلہ پر بند لفافے میں کسی طرح کی کمیٹی کی تشکیل کرنے پر حکومت کے مشورے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اب سپریم کورٹ ریٹائرڈ ججز و دیگر ماہرین کی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ دراصل اپریل 1988 میں حکومت کے مشورے اور تجاویز سے سیبی کا قیام عمل میں آیا تھا اور 1992 جنوری میں سیبی ایکٹ پاس ہونے پر یہ ایک قانونی ادارہ بن گیا۔ اس ایکٹ کے مطابق سیبی بورڈ کا مقصد شیئروں اور مالی منفعت کو سرمایہ کاروں کے جائز حق میں مفید بنانا اور بازار کے اصول کو منظم کرتے ہوئے اسے ترقی کی طرف لے جانا تھا لیکن سیبی نے اس ذمہ داری کو کما حقہ نبھانے کی کوشش نہیں کی۔ سیبی سے پہلے یہ ذمہ داری کنٹرول آف کیپیٹل ایشوز (سی سی آئی) نبھاتی تھی یہ ادارہ کسی بھی کمپنی کے شیئرز کے آئی پی او کی قیمت کے تعین میں بہت سختی کیا کرتا تھا مگر سیبی کے قیام کے بعد یہ سختی برقرار نہ رہ سکی اور اس نے کمپنیوں کو کھلی چھوٹ دے دی کہ اگر سرمایہ کار کمپنی کے آئی پی او کا کم ازکم نوے فیصد شئیرز خریدنے کو تیار ہو تو وہ کمپنی کسی بھی قیمت میں اپنی آئی پی او کو لاسکتی ہے۔ اس کا براہ راست اثر یہ ہوا کہ کمپنیاں سرمایہ کاروں کو کمپنی کے بہتر مستقبل کا سبز باغ دکھا کر اونچی قیمتوں میں اپنے شیئرز کے آئی پی او لانے لگیں اور سرمایہ کاروں کو فائدہ یا نقصان زیادہ ہونے لگا۔
دراصل سیبی کی ذمہ داری اور اس کا مقصد ہے کہ سرمایہ کاروں کے مفاد کا تحفظ ہو۔ اس ذمہ داری کو یقینی بنانے کے لیے سیبی کو آئی پی او اور ایف پی او کے شیئرز کی قیمت کے تعین میں اپنا کردار نبھانا ہوتا ہے اور اسے یقینی بنانے کے لیے پوری طرح کوشش کرنی ہوتی ہے۔ محض یہ میچیول فنڈ اور شیئروں میں سرمایہ بازار کے خطرات کے تحت ہے اس لیے سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کرنے سے قبل آفر میں دیے گئے ہدایات یعنی ٹرمس اور کنڈیشنس کو ہوشیاری سے دیکھ لینا چاہیے۔ ایسا کہہ کر سیبی اپنی ذمہ داری سے دستبردار ہرگز نہیں ہوسکتی ہے۔ عوام الناس آفر کے کاغذات کی پیچیدگیوں اور ان میں دیے گئے اعداد کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ یہ مان کر چلتے ہیں کہ اگر سیبی نے اجازت دی ہے تو ان کے ذمہ دار اتھاریٹی کی شکل میں ان تمام امور کا صحیح صحیح تجزیہ کرکے ہی اجازت دی ہوگی۔ اس لیے سیبی کا شیئرز کی قیمت کے تعین کے عمل سے اپنے کو دور رکھنا یا اس پر دھیان نہ دینا غلط ہے۔ دوسری طرف شیئرز کی قیمتیں بہت زیادہ اتار چڑھاو کا شکار رہتی ہیں۔ ویسے شیئر بازار کے ایک دن کا کاروبار تقریباً سوا چھ گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ اس دوران موجودہ صورتحال میں چالیس فیصد کی تنزلی یا چالیس فیصد کے اضافہ کا امکان ہوتا ہے تو یہ ایک خطرناک حالت ہے۔ واضح رہے کہ اچھی اور بری خبروں کی وجہ سے شیئر بازار میں بڑھوتری یا تنزلی آتی رہتی ہے۔ اس لیے نظم میں تبدیلی ضروری ہے کہ ایک دن میں زیادہ سے زیادہ دس فیصد کی تنزلی یا اچھال کو ہی قابل برداشت سمجھا جائے۔ پھر مسلسل کئی ایام تک کسی شیئر کے یکطرفہ اچھال پر قدغن بھی لگنی چاہیے کیونکہ اگر کسی شیئر کی قیمت دس کاروباری دنوں تک دوگنی ہو جاتی ہے تو اس شیئر کے کاروبار کو دو دن تک روک دینا ہوگا اور سییبی اس کا صحیح طور پر تجزیہ کرکے اس کی اجازت سے کاروبار کو بحال کرنے کا مجاز ہو گا۔ اس کے علاوہ تیسرا ضروری اور خاص نکتہ یہ ہے کہ ملک کے دو خاص اسٹاک ایکسچینجز این ایس ای اور بی ایس ای کو صحیح طور سے منظم کرنے اور چلانے کی ضرورت ہے۔ این ایس ای میں بی ایس ای سے زیادہ کام ہوتا ہے۔ کئی کمپنیوں کے شیئرز دونوں اسٹاک ایکسچینجز کی فہرستوں میں درج ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ این ایس ای میں بڑی بڑی کمپنیوں کو لسٹیڈ رکھا جائے اور بقیہ کمپنیوں کو بی ایس ای میں رہنے دیا جائے۔ ملک میں کل 5323 لسٹیڈ کمپنیاں ہیں اور ان کا مارکیٹ کیپٹلائزیشن 269 لاکھ کروڑ روپے ہے جس میں سے دس بڑی کمپنیوں کا مارکیٹ کیپٹلائزیشن 76 لاکھ کروڑ روپے ہے جو کل کا اٹھائیس فیصد ہے۔ این ایس ای میں نفٹی میں درج پچاس کمپنیوں کا مارکیٹ کیپٹلائزیشن 142 لاکھ کروڑ روپے ہے جو کل کے نصف سے تھوڑا ہی زیادہ ہے ۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ سو سب سے بڑی کمپنیوں کے کاروبار پچاس نفٹی میں اور پچاس دیگر کا کاروبار این ایس ای میں رہے اور بقیہ 5223 کمپنیوں کا کاروبار بی ایس ای میں ہی رہے۔ اس طرح دونوں اسٹاک ایکسچینج کا دائرہ کار مختلف رہے گا اور دونوں کے کام کی خصوصیات بھی مختلف ہونے سے دونوں کا انتظام، کنٹرول اور طریقے سے چلانے میں بھی آسانی ہوگی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ شیئرز کی قیمت کے تعین کو لے کر سیبی کی تساہلی اور کھلی چھوٹ کی وجہ سے کمپنیوں نے اپنے آئی پی او میں اونچی قیمتوں میں شیئرز کو فروخت کرکے سرمایہ کاروں کو بہت پریشان کیا ہے۔ مثلاً اسٹارٹ اپ کی بالائی لہر میں تین کمپنیوں نے گزشتہ ڈیڑھ سے دو سالوں کے بیچ اپنے آئی پی او کو اونچے نرخوں میں فروخت کرکے سرمایہ کاروں کو کافی خسارہ میں مبتلا کیا ہے۔ ان کمپنیوں میں نائیکا، زومیٹو اور پے ٹی ایم وغیرہ شامل ہیں اور ان کے طریقہ کار میں کافی یکسانیت بھی ہے۔ تینوں کمپنیوں کے پیڈ ایپ شیئرز کی قیمت محض ایک روپیہ ہے۔ تینوں کمپنیوں کے کل شیئرز کی حالیہ قیمت نائیکا کے چالیس ہزار کروڑ روپے۔ زومیٹو کے چوالیس ہزار کروڑ روپے اور پے ٹی ایم کے اکتالیس ہزار کروڑ روپے ہے۔ لسٹنگ کے وقت ان تینوں کی الگ الگ قیمت ایک لاکھ کروڑ روپے سے زائد تھی۔ زومیٹو کی لسٹنگ جون 2021 میں نائیکا کی اکتوبر اور پے ٹی ای کی نومبر 2021 میں ہوئی۔ ابتدائی طور پر پے ٹی ایم کا کاروبار خسارہ میں ہے۔ نائیکا کو معمولی فائدہ ہوا ہے اور زومیٹو نے گزشتہ سہ ماہی میں کچھ کمایا ہے۔ نائیکا کے شیئر کی قیمت اصل ویلو سے فی الوقت چھبیس گنا ہے۔ ان تینوں کمپنیوں میں عوام کے کل شیئرز میں سے حصہ پے ٹی ایم میں پچیس فیصد، نائیکا میں تیس فیصد اور زومیٹو میں چونتیس فیصد ہے۔ ان تینوں کمپنیوں کے آئی پی او میں غلط طریقے سے فائدہ حاصل کرنے سے بھارت میں اسٹارٹ اپ کے آئی پی او آنے کا سلسلہ مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے اور نومبر 2021 کے بعد بھارت میں اسٹارٹ اپ کا کسی طرح کا بڑا آئی پی او نہیں آیا مگر آئی پی او آنے کے بعد ان تینوں کمپنیوں کے شیئرز میں مسلسل تنزلی آتی گئی۔ اس سے ان کمپنیوں میں سرمایہ لگانے والوں کو بہت نقصان ہوا ہے۔ پے ٹی ایم کے شیئر کا ایشو ویلیو 2080 روپے تھا مگر سترہ فروری 2023 کو بازار بند ہونے کے بعد اس کی قیمت محض 629 روپے رہ گئی تھی۔
ہمارے ملک میں شیئر بازار کے منتظمین کا حال بے حال ہے۔ کمپنیوں کے شیئر تین سو سے تین ہزار پر پہنچ جاتے ہیں اور سیبی خواب و خرگوش میں پڑا رہتا ہے۔ پھر کوئی رپورٹ آتی ہے تو انہی شیئرز کی قیمت آسمان سے پاتال میں پہنچ جاتی ہے لیکن سیبی پھر بھی نیند سے بیدار ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اب سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو ایک کمیٹی بنانے کی ہدایت دی ہے۔ کلی طور پر کمیٹی مشورہ دے گی کہ شیئرز مارکٹ کی ریگولیٹری میکانزم میں ردوبدل کرکے اسے کیسے متحرک کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ ہنڈنبرگ ریسرچ نے اڈانی گروپ کو لے کر ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں منی لانڈرنگ سے لے کر شیئر مینوپولیشن کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس منفی رپورٹ کی وجہ سے اڈانی کی شیئرز میں تنزلی اتنی آئی کہ شیئرز پچاسی فیصد تک گر گئے۔ کمی صرف اڈانی کے شیئرز میں ہی نہیں آئی ہے بلکہ اڈانی کے نیٹ ورتھ میں بھی بڑی تنزلی آئی ہے۔ گوتم اڈانی کا نیٹ ورتھ ایک ماہ میں 1130 ارب ڈالر سے گرکر 131 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ معاملات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے ہنڈنبرگ رپورٹ کی جانچ کے لیے چھ رکنی کمیٹی کی تشکیل کا حکم دے دیا ہے جس کی سربراہی ریٹائرڈ جج جسٹس اے ایم سپرے کیل کریں گے۔ دوسری طرف کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے سوال کیا کہ اڈانی گروپ کے شیئرز میں لگاتار فروخت کے سبب ایل آئی سی کے شیئرز کی قیمت میں حیرت انگیز طور سے باون ہزار کروڑ روپے کی گراوٹ آئی۔ اس طرح قومی معیشت پر اثر پڑنا فطری بات ہے۔ ملک کے معاشی ساکھ کو جو بھی خطرہ لاحق ہے اس سے ملک کا شیئر مارکیٹ بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ نئے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار تذبذب کے شکار ہیں۔ سیبی بھی حرکت میں آتا دکھائی نہیں دے رہا ہے کیونکہ اڈانی کی وزیر اعظم سے دیرینہ قربت ہے۔
***
***
ہمارے ملک میں شیئر بازار کے منتظمین کا حال بے حال ہے۔ کمپنیوں کے شیئر تین سو سے تین ہزار پر پہنچ جاتے ہیں اور سیبی خواب و خرگوش میں پڑا رہتا ہے۔ پھر کوئی رپورٹ آتی ہے تو انہی شیئرز کی قیمت آسمان سے پاتال میں پہنچ جاتی ہے لیکن سیبی پھر بھی نیند سے بیدار ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اب سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو ایک کمیٹی بنانے کی ہدایت دی ہے۔ کلی طور پر کمیٹی مشورہ دے گی کہ شیئرز مارکٹ کی ریگولیٹری میکانزم میں ردوبدل کرکے اسے کیسے متحرک کیا جاسکے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023