عدالتی فیصلے کے عنوانات میں کسی بھی شخص کی ذات یا مذہب کا ذکر نہیں کیا جانا چاہیے: سپریم کورٹ
نئی دہلی، اکتوبر 12: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز کہا کہ عدالتوں کو فیصلے کے عنوانات میں کبھی بھی فریقین کی ذات یا مذہب کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔
جسٹس ابھے ایس اوکا اور پنکج متھل پر مشتمل بنچ نے یہ تبصرہ راجستھان حکومت کی طرف سے پانچ سالہ بچی کے ساتھ عصمت دری کرنے کے مجرم گوتم نامی شخص کی سزا کو کم کرنے کے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کرتے ہوئے کیا۔
بنچ نے سوال کیا کہ راجستھان ہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے عنوانات میں مجرم کی ذات کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟
سپریم کورٹ نے کہا کہ جب عدالت اس کے کیس کو نمٹاتی ہے تو ملزم کی کوئی ذات یا مذہب نہیں ہوتا۔ ’’ہم یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ ہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کے کاز ٹائٹل میں ملزم کی ذات کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟‘‘
بنچ نے مزید کہا کہ فیصلہ سنائے جانے کے بعد عنوان سے ذات کا ذکر ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کے عنوان میں ترمیم کی جائے گی۔
جہاں ٹرائل کورٹ نے گوتم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، وہیں ہائی کورٹ نے سزا کو کم کر کے 12 سال قید کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اس کی کم عمری کو مدنظر رکھا تھا اور اس حقیقت کو بھی کہ وہ ایک غریب درج فہرست ذات کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور عادی مجرم نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی نوٹ کیا تھا کہ وہ 8 مئی 2014 سے جیل میں ہے۔
سپریم کورٹ نے تاہم کہا کہ ملزم کی ذات ایسے معاملات میں نرمی کا مظاہرہ کرنے کی وجہ نہیں ہو سکتی۔
بنچ نے یہ بھی کہا کہ ایسے جرائم میں ملزم کی مالی حالت کا عام طور پر عدالت کے ذہن پر وزن نہیں ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے نوٹ کیا ’’اس معاملے میں، متاثرہ کا خاندان بھی اسی معاشی طبقے سے ہے جو ملزم کا طبقہ ہے۔‘‘
تاہم عدالت نے اس حقیقت کو مدنظر رکھا کہ جرم کے وقت اس شخص کی عمر صرف 22 سال تھی اور وہ 2014 سے جیل میں ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر اسے 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں کہا کہ ’’ملزم سزا کے دوران معافی کا حق دار نہیں ہوگا۔ پہلے دی گئی معافی غیر متاثر رہے گی۔‘‘
بنچ نے مزید کہا کہ جب بھی کوئی بچہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنتا ہے، حکومت یا قانونی خدمات کی اتھارٹی کو اس بچے کی کونسلنگ کا بندوبست کرنا چاہیے۔ اس نے کہا ’’اس سے متاثرہ بچوں کو صدمے سے باہر آنے میں مدد ملے گی، جو انھیں مستقبل میں بہتر زندگی گزارنے کے قابل بنائے گی۔‘‘