پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
جسمانی حرکات سے عاری طرز زندگی اورخورد و نوش میں بد احتیاطی صحت کے لیے خطرناک
بھارت میں سستے علاج کے لیے ریسرچ پر سرمایہ کاری ضروری
کینسر کو لا علاج مرض کہا جاتا ہے اور یہ عالمی سطح پر صحت کے لیے سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے نیز، سال بہ سال مریض اور اس مرض سے ہونے والے اموات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ایک دہائی سے کینسر کے مرض میں بڑی سرعت سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تو بچے، جوان، بزرگ سبھی عمر کے افراد میں کینسر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ طبی ماہرین مانتے ہیں کہ جس طرح طرز زندگی اور خورد و نوش میں بد احتیاطی دیکھنے کو مل رہی ہے وہی اس مرض کی بڑی وجہ ہے۔ وقت کی تنگی اور سستی کی وجہ سے لوگ جنک فوڈ پر زیادہ اکتفا کرنے لگے ہیں۔ ورزش کی جانب لوگوں کی طبیعت مائل نہیں ہوتی ہے۔ حالات ایسے ہی رہیں تو چند سالوں میں ہی کینسر کے مرض میں زبردست اضافہ ہو سکتا ہے، شعبہ صحت پر کافی دباؤ بڑھے گا، بچاؤ کے لیے لوگوں کو بہتر انتظام کرنا ہوگا جس میں سب سے اہم عوام کے اندر بیداری لانا تاکہ اس کا تدارک ہو سکے۔
طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ بھارت میں کینسر کے معاملوں کی رفتار مغربی ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اب آبادی میں اضافہ اور پہلے کے مقابلے میں لوگوں میں بدلتے رہن سہن کی وجہ سے بھی نئے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انڈین کانگریس (آئی سی سی) کے افتتاح کے موقع پر پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں سالانہ چودہ لاکھ نئے کینسر سامنے آئے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق 2040 تک یہ تعداد بڑھ کر بس لاکھ ہوسکتی ہے۔ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں کینسر کے سب سے زیادہ معاملات شمال مشرق کی ریاستوں میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ میزورم کے شہر آئزوال میں مردوں کے فی ایک لاکھ کی آبادی پر کینسر کے تقریباً 270 معاملات کو نپٹایا جا رہا ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ کینسر کے تدارک کے لیے ضروری ہوگا کہ کم عمری سے ہی اس کے لیے ضروری احتیاط برتی جائے اور اس کے لیے لازمی ہے کہ چند بری عادات کو ترک کیا جائے۔ یاد رہے کہ جن عادات کی وجہ سے کینسر کے معاملات سب سے زیادہ سامنے آرہے ہیں ان میں شراب اور تمباکو نوشی بڑے عوامل ہیں، کیونکہ شراب اور تمباکو جسم کے نظام مدافعت کو برباد کرکے مرض کو جگہ بنانے میں معاون ہوتے ہیں۔ اس لیے سگریٹ نوشی اور تمباکو کے استعمال سے پھیپھڑے، سر، گردن، پیشاب، کی نلیوں کے ساتھ چودہ طرح کے کینسر کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ اس طرح شراب نوشی سے چھاتی، جگر، کھانے کی نلیوں کے علاوہ مختلف طرح کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ آج کل کی جسمانی حرکات سے عاری طرز زندگی کینسر کے خطرات میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے جس سے آنت، پروسٹیٹ، لنگس میں کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بہت زیادہ ذہنی تناو کی حالت براہ راست کینسر کا سبب نہیں بنتی ہے لیکن یہ جسم کے چند ہارمون کو بڑھا دیتی ہے جس سے کینسر ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ اگر ورزش کو ہم روزانہ کا معمول بنالیں تو کینسر کے خطرات کو کم کرسکتے ہیں ساتھ ہی طرز زندگی میں بہتری اور جنک فوڈ کو چھوڑ دینے سے پیٹ، بریسٹ کینسر اور آنت کے کینسر کے خطرات کو تیس فیصد تک کم کر سکتے ہیں۔
بھارت کے طبی سائنس ریسرچ پریشد (آئی سی ایم آر) نے ایک تحقیق میں پایا ہے کہ آئندہ دو سالوں تک ملک میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں سات فیصد تک اضافہ کا اندیشہ ہے اور موت سے ہم کنار ہونے والوں کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ بائیس سالوں میں ملک میں ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی موت اس مرض سے ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود ملک میں اسے نوٹیفائیل مرض میں شامل نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے نیشنل کینسر رجسٹری کا دعویٰ ہرگز مناسب نہیں ہوگا کیونکہ اس کے پاس صحیح اعداد و شمار نہیں ہیں۔ جھارکھنڈ، اڈیشہ اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں کینسر کو نوٹیفائیل ڈیسیزیز کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ حکومت بہار کے وزیر نے بھی اس معاملے میں قدم اٹھانے کا اعلان کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مرض کتنا خطرناک ہے۔ صرف سال میں ایک بار یوم کینسر بیداری منایا جانا کافی نہیں ہوگا ہمارے ملک کی ہر ریاست میں کینسر کی تشخیص اور اس کے بہتر علاج و معالجہ کا نظم ہونا چاہیے۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا مرکزی حکومت اس مرض کی سنگینی کو سمجھ کر اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کر رہی ہے؟ کینسر کے تیسرے اسٹیج پر آنے کے بعد کسی مریض کو بچانے کا انتظام ہمارے ملک میں نہایت ہی کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں طبی نظام بہتر ہونے کی وجہ سے ستر فیصد معاملے ابتدائی حالت میں ہی پکڑ میں آجاتے ہیں۔ بھارت جو اپنے آپ کو شعبہ طب کا امام سمجھتا ہے تو یہاں ایسا کیوں نہیں ہے؟ یہی وجہ ہے کہ 90 فیصد معاملے ہمارے یہاں آخری مرحلے میں ہی گرفت میں آتے ہیں جبکہ اس وقت ڈاکٹروں کے لیے تشخیص کر کے علاج کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارے یہاں کینسر کے متعلق تحقیقی کام کافی نچلی سطح پر ہے۔ پارلیمنٹری کمیٹی کی سفارشوں کو بھی مرکزی حکومت نے اب تک قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کے وزراء منوہر پاریکر، ارون جیٹلی، اننت کمار اور وی پی سنگھ جیسے لوگوں کی موت کی وجہ کینسر ہی بنی کیونکہ ان کا کینسر آخری وقت میں تشخیص کیا گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں اسکریننگ کا نظم بہتر نہیں ہے اور نہ ہی لوگوں کے اندر بیداری ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنرل ہسپتالوں میں کینسر کے مکمل علاج کا بندوبست نہیں ہے۔ علاج و معالجہ کے سلسلے میں نئی تکنیک کا استعمال تو بالکل ہی نہیں ہے۔ ضلعی ہسپتالوں میں کیمیوتھراپی کا اتہ پتہ نہیں ہے۔ کینسر کی دواؤں کی بڑی قیمتیں مریض کے لیے اور ان کے خاندان کے لیے آفت ناگہانی سے کم نہیں ہوتیں جن کے پاس پیسہ نہیں ہے ایسے کینسر کے مریضوں کی موت تو معمول کی بات ہے۔
جب تک ہمارے یہاں کینسر کے ریسرچ پر سرمایہ کاری نہیں ہوگی سستا علاج، ہرگز ممکن نہیں ہو گا۔ آج ہمارے ملک میں پھیپھڑے یا اس طرح کے چند دیگر کینسر کے معاملات میں بہتر ریسرچ ہوئی ہے۔ ڈاکٹرز کینسر کے علاج کی قدیم اور اچوک طریقہ علاج کیموتھراپی کے متوازی ٹارگیٹیڈ تھراپی اور ایمیونیو تھراپی جیسے سسٹمس سے یا تو مریض کا مکمل طریقے سے علاج کر رہے ہیں یا ان کی زندگی کو مہلت دے کر مدد کر رہے ہیں۔ اس طرح کینسر کے سائیڈ ایفیکٹ کو کم ترین سطح پر لایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ملک میں میڈیکل ریسرچ میں بڑی تنزلی آئی ہے۔ حکومت نے اس کا بجٹ بھی کم کردیا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں طبی تحقیق کے بجٹ میں 6.87 فیصد کی کمی کردی گئی تھی۔ یاد رہے کہ کینسر کی دوائیں کافی مہنگی ہوتی ہیں مگر ان تمام مسائل کا ریسرچ کے ذریعے حل نکالا جا سکتا ہے۔ کئی مریض ایسے ہیں جو ٹاٹا میموریل ہاسپٹل میں سالہا سال سے علاج کروارہے ہیں۔ وہاں ریسرچ کا کام بھی جاری ہے۔ بعض مریضوں پر ہونے والے کلینکل ٹرائل کے بعد ڈاکٹروں نے یہ پروٹوکول تیار کیا ہے جو کم آمدنی والے مریضوں کو بھی اتنی ہی سہولتیں فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں جو ہر ماہ پانچ لاکھ کی دوائیں لینے سے ملتیں۔ گاگا میموریل ہاسپٹل کے ڈاکٹرس کے بورڈ نے چند ہی ماہ میں نو ڈوز ایمنیو تھراپی کا ٹرائل کرکے مریضوں کو بڑی راحت دی ہے۔ ریسرچ سے واضح ہوا ہے کہ چند خاص کیسنر میں ایمبنیوتھراپی کا ڈوز کم کرنے سے ویسا ہی فائدہ ہو رہا ہے جو مکمل خوراک دینے سے ہوتا ہے اور یہ اس وجہ سے ممکن ہوسکا ہے کہ ہمارے ملک کے ہاسپٹل میں کلینکل ٹرائل ہوا تھا جو ریسرچ کا ہی نتیجہ تھا، اس لیے اب ضروری ہے کہ ملک میں میڈیکل ریسرچ میں زیادہ سے زیادہ بجٹ مختص کرنے اور اس کے لیے ضروری انفراسٹرکچر فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی بیداری کا کام بھی ہوتو لوگوں کا زیادہ سے زیادہ بھلا ہوگا۔
***
***
آج کل کی جسمانی حرکات سے عاری طرز زندگی کینسر کے خطرات میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے جس سے آنت،پروسٹیٹ، لنگس میں کینسر کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بہت زیادہ ذہنی تناو کی حالت براہ راست کینسر کا سبب نہیں بنتا ہے لیکن یہ جسم کے چند ہارمون کو بڑھادیتا ہے جس سے کینسر ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ اگر اکسر سائز کو ہم روزانہ کا معمول بنالیں تو کینسر کے خطرات کو کم کرسکتے ہیں ساتھ ہی طرز زندگی بہتری اور زنک فوڈ کو چھوڑ دینے سے پیٹ، بریسٹ کینسر، آنت کے کینسر کا خطرہ تو تیس فیصد تک کم کرسکتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023