
کینیڈا کی سیاست میں مسلمانوں کی تاریخ ساز پیش قدمی
پارلیمنٹ میں مسلم اراکین کی کامیابی، فلسطین کے مسئلے نے الیکشن کا رخ بدلا
اوٹاوا: (دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)
کینیڈا کے 2025کے عام انتخابات محض اقتدار کی جنگ نہیں تھے، بلکہ یہ انسانی ضمیر اور اخلاقی بصیرت کی ایک کسوٹی بن گئے۔ اس بار جو سیاسی نقشہ ابھرا اس میں ایک نمایاں اور روشن پہلو مسلمانوں کی پارلیمانی نمائندگی کا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار 13مسلم امیدوار کامیاب ہو کر ایوانِ زیریں تک جا پہنچے۔
اس تعداد میں پچھلے پارلیمانی دور کے مقابلے میں دو کا اضافہ ہوا ہے، مگر اس کا اثر علامتی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ خاص طور پر شہری علاقوں جیسے گریٹر ٹورنٹو ایریا (GTA) میں جہاں مسلم آبادی 14فیصد کے قریب ہے، وہاں یہ سیاسی بیداری ایک نئی تاریخ لکھ رہی ہے۔
انتخابی مہم کے دوران جو مسئلہ مسلسل مرکزِ گفتگو رہا وہ ہے ’مسئلہ فلسطین کا تھا‘۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور انسانی بحران نے صرف مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ با ضمیر کینیڈین شہریوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ مساجد، کمیونٹی سنٹروں اور سوشل میڈیا پر یہی سوال گونجتا رہا کہ کیا ہمارا امیدوار مظلوم کے ساتھ کھڑا ہے یا خاموش تماشائی ہے؟
اسی پس منظر میں کینیڈین مسلم پبلک افیئرز کونسل (CMPAC) کی MuslimsVote.ca مہم نے 45امیدواروں کی اخلاقی بنیادوں پر حمایت کی۔ دریں اثناء، "Vote Palestine” پلیٹ فارم پر 300 سے زائد امیدواروں نے دستخط کیے۔ متعدد کامیاب مسلم امیدوار اسی پلیٹ فارم سے جڑے رہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف ووٹ نہیں بلکہ ایک اصولی مؤقف کی جیت تھی۔
کامیاب ہونے والے مسلم امیدوار پاکستان، لبنان، ترکی، ایران، صومالیہ اور دیگر ملکوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ گویا یہ کامیابی محض افراد کی نہیں بلکہ کینیڈا کی کثیر الثقافتی شناخت کی گواہی ہے۔
وزیرِ اعظم مارک کارنی کی قیادت میں لبرل پارٹی 168نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری لیکن اکثریت سے صرف چار سیٹیں کم رہ گئی۔ حیرت انگیز طور پر کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ پیئر پوئیلیور اپنی سیٹ ہی نہیں بچا سکے۔
یہ انتخابات کینیڈا کے بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی منظرنامے کی جھلک تھے، جن میں مسلم برادری کی شرکت محض نمائندگی سے آگے بڑھ کر قومی پالیسی کے رخ کو موڑنے کی صلاحیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
کینیڈا کے 2025انتخابات میں کامیاب ہونے والے 13مسلم اراکینِ پارلیمنٹ:
-1 عبدالحق ساری (لبرل – بوراسا، کیوبک)
یتیم بچوں کی فلاح و بہبود اور شہری تحفظ کے سرگرم کارکن، 58.5 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
-2 سمیر زبیری (لبرل ۔ پیری فونڈز—ڈولارڈ، کیوبک)
انسانی حقوق کے علم بردار، مسلسل دوسری بار کامیابی، تقریباً 60 فیصد ووٹ۔
-3 شفقت علی (لبرل ۔ برامپٹن—چنگاکوسی پارک، اونٹاریو)
کاروباری شخصیت اور کمیونٹی کارکن، صحت اور مہنگائی پر توجہ، 48.7 فیصد ووٹ۔
-4 اسلم رانا (لبرل ۔ ہیملٹن سینٹر، اونٹاریو) پاکستانی نژاد سول انجینئر، پائیدار انفراسٹرکچر کے حامی۔
-5 فارس السُّود (لبرل ۔ میسیساگا سنٹر، اونٹاریو)۔
نئے چہرے، کنزرویٹو امیدوار کو 53.7 فیصد ووٹ سے شکست دی۔
-6 اقرا خالد (لبرل :میسیساگا۔ایرن ملز، اونٹاری)
اسلاموفوبیا اور روہنگیا نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنے والی رکن۔
-7 سیما آجان (لبرل ۔ اوک وِل ویسٹ، اونٹاریو)
پارلیمنٹ کی پہلی ترک نژاد رکن، ترک برادری کے لیے سنگِ میل۔
-8 یاسر نقوی (لبرل ۔ اوٹاوا سنٹر، اونٹاری)
سابق اٹارنی جنرل، شہری ترقی اور انصاف کے نظام میں بہتری پر زور۔
-9 سلمی زاہد (لبرل ۔ سکاربورو سنٹر—ڈان ویلی ایسٹ، اونٹاریو)
کینسر سروائیور، غزہ پر جنوبی افریقہ کے مقدمے کی حمایت کرنے والی بہادر آواز۔
-10 کریم بردیسی (لبرل ۔ تایائیکو’پارک ڈیل۔ہائی پارک، اونٹاریو) لبرل جماعت کے نمائندہ مسلم رکن ہیں۔
-11 علی احساسی (لبرل – وِلوڈیل، اونٹاریو) ایرانی نژاد ایم پی، عالمی انصاف اور جینو سائڈ کے خلاف سرگرم۔
-12 احمد حسین (لبرل ۔ یارک ساؤتھ ویسٹن ایٹو بیکو، اونٹاری)
صومالی نژاد سابق وزیر برائے امیگریشن، انسانی ہمدردی کے فروغ میں معروف۔
-13 طلیب نور محمد (لبرل ۔ وینکوور گرانویل، برٹش کولمبیا) ہارورڈ تعلیم یافتہ، ڈیجیٹل پالیسی اور بین الاقوامی اُمور کے ماہر۔
ان انتخابات میں جہاں 13مسلم امیدوار پارلیمنٹ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے، وہیں کئی مسلم امیدوار ایسے بھی تھے جنہوں نے سخت مقابلہ کیا مگر معمولی فرق سے ہار گئے۔ ان میں رحیمہ میاں(سسکاچیوان) نے مقامی آبادی اور حقوقِ نسواں کے لیے بھرپور آواز بلند کی، جبکہ روخان سرور اور ملالئی حلیمی جیسے افغان نژاد امیدواروں نے مہاجرین، نوجوانوں اور تنوع کی نمائندگی کرتے ہوئے نمایاں ووٹ حاصل کیے۔ غادہ جربی اور فاطمہ بدران جیسی متحرک خواتین امیدواروں نے قیادت، سائنسی شعور، اور مساوی پالیسی سازی کے ایجنڈے کے ساتھ نمایاں موجودگی درج کرائی۔ نجام نقوی، مبارک احمد، شہناز منیر، ذیشان خان اور دیگر کئی مسلم پس منظر رکھنے والے امیدوار اگرچہ جیت نہ سکے، لیکن ان کی مہمات نے اقلیتوں کی سیاسی شمولیت، سماجی انصاف اور کثرت پسندی کے جذبے کو نمایاں طور پر اجاگر کیا۔ ان تمام ’’رنرز اپ‘‘ امیدواروں کی کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ کینیڈا میں مسلم سیاسی بیداری تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں یہ آوازیں مزید مضبوط ہو سکتی ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025