کیا واقعی مسلم عورتیں پہلی بار سڑکوں پر اتری ہیں؟

افروز عالم ساحل

کیا سچ میں مسلم عورتیں پہلی بار اس طرح سے سڑکوں آئی ہیں؟ نہیں! ایسا نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں مسلم عورتوں کی تاریخ سے کبھی روشناس کرایا ہی نہیں گیا۔ کبھی کسی بتایا ہی نہیں کہ تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون میں مسلم خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں تھیں۔

سچ پوچھئے تو تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ آج سے ٹھیک سو سال قبل محمد علی جوہر کی ماں ’بی اماں‘ یعنی عبادی بانو بیگم پورے ہندوستان کا دورہ کررہی تھیں۔ ہر شہر، ہر گاؤں اور ہر محلے تک عدم تعاون اور خلافت کا پرچم لے کر جارہی تھیں، گلی سے لے کر نکڑ تک انگریزحکومت کے ذریعے لائے گئے کالے قانون ’رولٹ ایکٹ‘ کے خلاف شروع ہوئے عدم تعاون کی حکمت عملی کی تشہیر کررہی تھیں۔ پنجاب پر ہوئے ظلم کی داستان سنا رہی تھیں۔ ان کی تقریر سن کر عورتیں تلک فنڈ اور خلافت کمیٹی کے لئے اپنے گہنے و زیورات عطیہ کر دیا کرتی تھیں۔ اس طرح کئی لاکھ روپئے کا چندہ اس زمانے میں انہوں نے جمع کیا۔ ان کے جذبے سے برطانوی حکومت گھبرا گئی، ان کے جذبے کو توڑنے کے لئے ان کے دونوں بیٹوں کو جیل میں ڈال دیا۔ تو یہ اٹھ کھڑی ہوئی اور للکار کر کہنے لگیں، "دودھ ہرگزنہ بخشوں گی تم کو، میں دلاور نہ سمجھوں گی تم کو، جان بیٹا خلافت پہ دے دو”۔۔۔ اتنا ہی نہیں، انھوں نے اس دوران ملک کی آزادی اور حقوق کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کرتے ہوئے جیل میں اپنے بیٹوں کے نام پیغام بھی بھیجا۔ اس پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ "میرے بیٹو، بہادر بنو اور لڑائی کو ترک مت کرو، معافی بھی مت مانگو۔”

مولانا محمد علی جوہر کی بیوی امجدی بانو بیگم بھی کسی سے کم نہیں تھیں۔ اپنے شوہر کی طرح انہوں نے بھی ہندوستان کی آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے 1920 میں خلافت تحریک کے لئے ‘بی اماں’ کی مدد سے 40 لاکھ روپے کا فنڈ جمع کیا۔

مہاتما گاندھی نے انہیں "بہادر عورت” کا خطاب دیا۔ گاندھی جی 29 نومبر 1921 کے "ینگ انڈیا” کے شمارے میں لکھتے ہیں۔ ‘ بیگم محمد علی جوہر کے ساتھ کام کرنے پر مجھے بہت ساری چیزوں کا تجربہ ہوا۔ وہ شروع ہی سے اپنے شوہر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف خلافت تحریک کے لئے فنڈ اکٹھا کیا بلکہ وہ ہم لوگوں کے ساتھ بہار، بنگال، آسام جیسی ریاستوں کے دورے پر بھی گئیں اور لوگوں کے اندر انقلاب کا مشعل جلایا۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے شوہر سے کم نہیں تھیں۔ مدراس سمندر کے کنارے ایک عظیم جلسہ منعقد گیا تھا، جس میں بیگم محمد علی نے ایک زبردست انقلابی تقریر کی، جسے عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کی تقریر لاجواب تھی۔ ‘

گاندھی جی ہمیشہ امجدی بانو بیگم  کی تعریف کرتے نظر آئے۔ وہ ان کے بارے میں ایک جگہ اور لکھتے ہیں کہ خلافت کمیٹی کے لئے بیگم محمد علی نے جتنی  رقم جمع کر لی ہے اتنی شاید ان کے شوہر بھی نہ کر پاتے۔ میں اپنی رائے  ظاہر کر ہی چکا ہوں کہ وہ مولانا سے بہتر تقریر کرتی ہیں… ‘

آج ٹھیک سو سال بعد یہی بات آج بھی جامعہ اور شاہین باغ میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ خواتین پھر سے سڑکوں پر ہیں۔ پولیس کے ذریعے  ایک طالب علم کی پٹائی اور اس کو بچاتی ہوئی جامعہ کی لڑکیوں کا ویڈیو پوری دنیا نے دیکھا ہے۔ آج وہی لڑکیاں پورے ملک میں جبر کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت بن چکی ہیں۔ وہیں شاہین باغ کی ان دادیوں و نانیوں نے صاف کردیا ہے کہ یہ حکومت کےسامنے اور ان کے کالے قانون کے سامنے بالکل نہیں جھکیں گی۔