!بنیادی ، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم تینوں فنڈز کی کمی کے شکار

‘وشو گرو’ بننا ہے تو ترقی یافتہ ممالک کی طرح تعلیم و صحت پر زیادہ خرچ کرنا ہوگا

شہاب فضل، لکھنؤ

تعلیم کے شعبہ کے لیے درکار بجٹ میں کمی سماجی عدم مساوات کو مستحکم کرنے کی کوشش
ترقی محض سڑک اور عمارتیں بنانے سے نہیں بلکہ تعلیم میں سرمایہ کاری سے ہوتی ہے ؛ پروفیسر اے کے سنگھ
اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ سے چند کلومیٹر دور بادشاہ کھیڑا کے پرائمری اسکول میں 145 بچے ہیں ، جنہیں پڑھانے کے لیے محض ایک استاد ہے ۔مزید ستم یہ کہ پہلی سے پانچویں جماعت تک کے بچے ایک ہی کمرے میں بیٹھتے ہیں ۔بچے کیا سیکھتے ہوں گے، کیا پڑھتے ہوں گے آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔یہ اسکول اترپردیش میں حکومتی سطح پر ابتدائی اور ثانوی تعلیم کی صورت حال کا ایک نمونہ پیش کرتا ہے جس میں تدریس اور علم کی ترسیل کے بجائے سارا زور انرولمنٹ یعنی تعلیمی سال کی ابتدا میں بچوں کے اندراج اور ان کا داخلہ کرنے پر ہے۔ رجسٹر میں بچے کا نام درج ہوجائے اور ریکارڈوں میں یہ بات آجائے کہ سرکاری اسکولوں میں اتنے بچے پڑھتے ہیں ۔ نہ تعلیمی ڈھانچہ کو درست کرنے کی فکر ہے نہ اساتذہ کی معقول بھرتی پر توجہ ہے اور نہ لرننگ آؤٹ کم یعنی بچے کی قابلیت اور اس نے کیا سیکھا اس سے کوئی سروکار ہے۔
یہ صرف ابتدائی تعلیم تک ہی محدود نہیں بلکہ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے بھی ڈھانچہ جاتی اور تدریسی وسائل کی کمی کے شکار ہیں، دوسری طرف بڑھتی ہوئی ضروریات کی تکمیل کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتیں خاطر خواہ بجٹ دینے سے گریز کررہی ہیں۔ اس کا نمونہ مرکزی حکومت کے حالیہ عبوری بجٹ 2024-25 میں بھی دیکھنے کو ملا جس پر ماہرین تعلیم اور انسانی ترقی کے اشاریے پر نظر رکھنے والے ادارے اور افراد حیران و ششدر ہیں کہ آخر حکومت تعلیم پر عوامی صرفہ اور بجٹ کو کم کیوں کررہی ہے اور اس کے پیچھے منشا کیا ہے ۔
تعلیم کے لیے بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرے جیسا کیوں ثابت ہورہا ہے؟ اس سلسلہ میں یہ ذکر ضروری ہے کہ گزشتہ 22 جولائی کو پارلیمنٹ میں پیش شدہ اقتصادی سروے 2023-24 سے انکشاف ہوا کہ مرکز اور ریاستوں کے مشترکہ اخراجات میں تعلیم کا حصہ پچھلے 14 برسوں میں سب سے کم رہا ہے۔تازہ مثال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے 2023-24 کے نظرثانی شدہ تخمینہ میں 57244 کروڑ روپے رکھے گئے تھے، جسے 2024-25 کے بجٹ میں گھٹا کر 47,620 روپے کردیا گیا ہے ۔ یہ تخفیف 16.8 فیصد ہے۔
بجٹ میں یہ کٹوتیاں نہ صرف ملک کے مستقبل کو بلکہ بھارت کے نوجوانوں کے مستقبل کوبھی خطرے میں ڈالتی ہیں اور اس کی سب سے بڑی مار پسماندہ ، کمزور اور حاشیہ پر رہنے والے طبقات پر پڑتی ہے۔ حق تعلیم ایکٹ (آر ٹی ای) کی تعمیل ملک کے صرف 13 فیصد اسکولوں نے کی ہے، حالانکہ مذکورہ ایکٹ سب کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا آئینی انتظام ہے۔
تعلیم وصحت کے شعبے نظرانداز
کم بجٹ، ملک میں تعلیم کی عمومی صورت حال اور حکومتی رویے کے سلسلہ میں جب جماعت اسلامی ہند کے مرکزی تعلیمی بورڈ کے ایکزیکیٹیو ممبر جناب مجتبیٰ فاروق سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے کہاکہ سرکار کا عمومی رویہ قومی سطح پر سوشل سیکٹر خاص طور سے تعلیم و صحت کے شعبہ جات کو نظرانداز کرنے کا ہے۔تعلیم کے لیے بجٹ بڑھانا چاہیے مگر مرکزی حکومت مطلوبہ ضروریات کی تکمیل کے بجائے بجٹ گھٹارہی ہے۔ تعلیم کی نجی کاری سے جمہور عوام کا بہت نقصان ہورہا ہے اور کارپوریٹرائزیشن سے کمزور و محروم طبقات مزید محروم ہورہے ہیں اور ان کے گرد دائرہ تنگ ہوتا جارہا ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ 1966ء میں کوٹھاری کمیشن نے بھارت کے تعلیمی نظام کو درست کرنے کے لیے 23 بنیادی امور سے متعلق سفارشات کی تھیں ۔ اس کے نتیجہ میں ملک میں قومی تعلیمی پالیسی کا نفاذ ہوا ۔ایک اہم سفارش اس میں یہ بھی تھی کہ ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی 6 فیصد رقم تعلیم پر خرچ کی جائے تاکہ الگ الگ محاذوں پر جو خلاء ہے اسے پُر کیا جاسکے اور جامع بہتری کی راہیں ہموار ہوں۔انہوں نے کہا کہ ابھی جو بجٹ تعلیم پر خرچ کیا جارہا ہے وہ بمشکل تمام 2.9 فیصد ہے جو 6 فیصد کے ہدف سے بہت کم ہے ۔اس میں فوری اصلاح کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے مزید کہاکہ حکومت کی پالیسیاں کارپوریٹ کو پروموٹ کرنے والی ہیں۔ ایک طرف مفت اور لازمی تعلیم کی بات ہوتی ہے اور حکومت سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو ادا کرے گی، لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ جب تک تعلیم اور صحت پر بجٹ بڑھایا نہیں جائے گا عوام کو نہ بنیادی تعلیم ملے گی اور نہ معیاری تعلیم ۔ اس کے علاوہ انہوں کہا کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کررہی ہے اور یہ عمل نجی کاری کو دعوت دینے کے مترادف ہے جو ملک کے عوام کے لیے خطرناک مضمرات لیے ہوئے ہے۔
کمزور طبقات کو تعلیمی عدم مساوات کا سامنا
جناب مجتبیٰ فاروق کے مطابق ناکافی فنڈنگ کے نتیجے میں معاشرے کے غریب اور کمزور طبقات، مثلاً خواتین، اقلیتیں، دلت اور دیگر غریب لوگوں کو تعلیمی عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسکولوں کا بنیادی ڈھانچہ خراب ہے، چنانچہ عوام کا ایک بڑا طبقہ اچھی اور جدید ترین تعلیم سے محروم ہے کیونکہ وہ پرائیویٹ اسکولوں میں نہیں جا سکتے جہاں تعلیم مہنگی ہے۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ عدم مساوات جو پہلے سے موجود تھی وہ اتنی وسیع ہو جاتی ہے کہ آنے والی نسلیں تک اس کا شکار رہتی ہیں ۔ وقتی عدم مساوات نسل در نسل عدم مساوات بن جاتی ہے، جو آئین میں مذکور سماجی انصاف کے تقاضوں کا مذاق ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم میں اپنی سرمایہ کاری کو بڑھائے تاکہ جی ڈی پی کا 6 فیصد مختص کرنے کی قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی سفارش سے ہم آہنگ ہو سکے۔
لکھنؤ یونیورسٹی کے سبکدوش ماہر اقتصادیات پروفیسر اے کے سنگھ نے ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوٹھاری کمیشن کی سفارشات کے باوجود بھارت میں تعلیم کی صورت حال میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ سبھی حکومتوں نے تعلیم اور صحت کو نظرانداز کیا ہے۔ بنیادی ، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم تینوں فنڈز کی کمی کے شکار ہیں۔ انہیں بجٹ کم دیا جارہا ہے ۔ابتدائی سطح پر لرننگ نہیں ہورہی ہے۔ ثانوی تعلیم میں بھی معیار پر توجہ نہیں ہے جس کی وجہ سے جدید تقاضوں کے مطابق ملازمت کے لیے درکار ہنر اور صلاحیتوں سے ہمارے طلباء و طالبات محروم ہوتے ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا بجٹ بھی حکومت نے کم کردیا ہے۔ حکومت کوئی ہائیر ایجوکیشن ریگولیٹری ایجنسی بنانا چاہتی ہے۔ اس طرح کی تبدیلیوں سے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک کہ حکومت تعلیم کے شعبہ کوخاطر خواہ فنڈ نہیں دیتی۔
انسانی ترقی میں سرمایہ کاری ضروری
پروفیسر سنگھ کے بقول گزشتہ سال تعلیم کے بجٹ کے دس ہزار کروڑ روپے خرچ نہیں ہوئے۔ ایک تو سرکار بجٹ کم دیتی ہے اوپر سے اگر مختص کی گئی رقم خرچ بھی نہیں کی جائے گی تو صورت حال کیسی ہوگی اس کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ترقی صرف ایکسپریس وے، ایئرپورٹ اور عمارتیں تعمیر کرنے سے نہیں بلکہ انسانی وسائل میں سرمایہ کاری سے ہوتی ہے۔ تعلیم سب سے بڑا انویسٹمنٹ ہے ۔ ہمارے حکم راں اور پالیسی ساز اگر اس بات کو نہیں سمجھتے یا جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں تو پھر بھارت کو وشو گرو بنانے کی باتیں محض پانی کا بلبلہ اور خوبصورت نعرے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ تعلیم اور صحت کی اہمیت کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسے یوں ہی نظرانداز کیا جاتا رہا تو بھارت کے عوام کی محرومیاں جاری رہیں گی اور ملک میں مسائل بڑھتے جائیں گے ۔
پروفیسر سنگھ نے ترقی یافتہ ملکوں کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ وہ تعلیم و صحت پر ہم سے کئی گنا زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ ہمیں بھی اسے ترجیحی بنیادوں پر اپنانا چاہیے ۔ مثال کے طور پر برطانیہ اور امریکہ اپنی جی ڈی پی کا تقریباً 6 فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ تفاوت عالمی معیارات پر پورا اترنے اور اپنے تعلیمی نتائج کو بہتر بنانے کے لیے بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم بڑھانے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
تعلیم کے لیے جی ڈی پی کی 6 فیصد رقم دینے سے گریز کیوں!
انہوں نے بتایا کہ اقتصادی سروے 2023-24 نے واضح کردیا ہے کہ تعلیم پر سرکاری خرچ 2.7 فیصد ہے، دوسری طرف قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں 6 فیصد خرچ کرنے کی تجویز موجود ہے ۔تو پھر یہ تضاد اور تفاوت کیوں جب کہ یہ بالکل واضح ہے کہ کم خرچ سے تعلیم کا معیار متاثر ہوتا ہے؟ حکومتی تعلیمی اداروں کو ویسے بھی وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے ۔ رواں بجٹ کا موازنہ اگر پچھلے بجٹ سے کریں گے تو اعداد و شمار کی حد تک اضافہ نظر آئے گا مگر افراط زر، تعلیمی انفراسٹرکچر، اساتذہ کی تنخواہوں اور ریسرچ کی فنڈنگ کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے کے لیے یہ رقم ناکافی ہے۔
دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں سے مقابلہ کی مشکلات
اعلیٰ تعلیم میں تحقیق و ترقی (آر اینڈڈی) کی اہمیت کے باوجود، بجٹ نے اس شعبے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں کی ہے۔ ماہرین نے تحقیقی اخراجات میں اضافے اور تحقیق کے عمل میں آسانی پیدا کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی ہے۔ صرف تین ہندوستانی یونیورسٹیاں عالمی سطح پر سرفہرست دو سو اداروں میں شامل ہیں، جس سے بہتر تعلیمی معیار اور تحقیقی فنڈ میں اضافہ کی ضرورت کا اظہار ہوتا ہے۔ خاطر خواہ سرمایہ کاری کے بغیر، ہندوستانی ادارے بین الاقوامی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے جدوجہد کریں گے، جس کا منفی اثر یہ ہوگا کہ اعلیٰ دماغ بھارت سے باہر جانے پر مجبور ہوں گے جیسا کہ ہوبھی رہا ہے ۔
سنٹر فار فائنانشل اکاؤنٹیبلٹی (سی ایف اے) نے مرکزی بجٹ پر اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ مختص کی گئی رقم اعلیٰ تعلیم میں بامعنی ترقی اور جدت طرازی کے لیے ناکافی ہے۔ سوشل سائنسز کے لیے ریسرچ فنڈنگ کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے ، جس سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ابھر کر سامنے آئے گا۔
پروفیسر اے کے سنگھ نے زور دے کر کہاکہ بہتر فنڈنگ ہی مزید تحقیقی مراکز کے قیام، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے اور پسماندہ کمیونٹیز کو ضروری مدد فراہم کرنے کے قابل بنائے گی، اس کے ساتھ ہی معیاری تعلیم تک مساوی رسائی کو بھی یقینی بنائے گی۔
’وشو گرو‘ بننا ہے تو تعلیم پر زیادہ خرچ کرنا ہوگا
جماعت اسلامی ہند کے مرکزی تعلیمی بورڈ کے سکریٹری جناب سید تنویر احمد سے جب حالیہ بجٹ کے سلسلے میں گفتگو کی گئی تو انہوں نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ اگر بھارت کو’وشو گرو‘ بننا ہے تو تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دینی ہوگی اور اس کی ابتدا بجٹ میں کٹوتی سے نہیں بلکہ اضافہ کرنے سے ہوگی ، جس میں ابتدائی، ثانوی ، اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم سبھی کا خیال رکھا جائے اور جدید دور کے تقاضوں کو سمجھا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ہم تعلیم کے شعبہ کو جو بجٹ دے رہے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ تو قرضہ جات کے سود کے لیے ادا کررہے ہیں جو کہ بہت افسوسناک ہے اور ماہرین تعلیم کو اس سلسلہ میں زیادہ پرزور طریقہ سے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے ۔ تعلیم کو انکلوزیو بنانا ہوگا، معاشرے کے سبھی طبقات کی تعلیم تک رسائی کو آسان بنانا ہوگا، وظائف کی تعداد اور رقم دونوں بڑھانی چاہیے تاکہ سماج کا ہر طبقہ تعلیم کے فوائد حاصل کرسکے۔
نجی کاری کی طرف بڑھتے قدم کو حکومت روکے۔ انہوں نے کہاکہ سوشل جسٹس بھارت کے آئین کی روح ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت تعلیم کی نجی کاری کی طرف بڑھتے ہوئے قدم کو روکے ورنہ اقلیتی طبقات، پچھڑے لوگ، دلت و قبائلی عوام جدیداور معیاری تعلیم کے ثمرات سے محروم رہ جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ان طبقات کی آبادی تقریباً تیس کروڑ ہے جس میں سے صرف ایک فیصد لوگ ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرپاتے ہیں ۔یہ صورت حال افسوسناک ہے ۔حکومت اگر اپنا بجٹ نہیں بڑھائے گی تو ملک کا بہت بڑا خسارہ ہوگا ۔
انہوں نے یہ بھی کہاکہ تعلیم میں مسلمانوں کی شمولیت کو بڑھانے کے لیے اسکیمات ہونی چاہئیں۔ انہوں نے بطور خاص پری میٹرک، پوسٹ میٹرک اور میرٹ کم مینس وظیفوں کے لیے تازہ بجٹ میں رقومات مختص کیے جانے کو ایک مثبت قدم بتایا، تاہم وظیفہ کی رقم اور وظائف کی تعداد بڑھانے کا بھی مطالبہ حکومت سے کیا ۔ان وظائف کو داخلہ کے عمل سے لِنک ہونا چاہیے جیسا کہ کرناٹک، تلنگانہ اور کسی حدتک مہاراشٹر میں ہے ۔پورے ملک میں اس نظام کو نافذ ہونا چاہیے تاکہ طلباء و طالبات کو داخلہ ملتے ہی وظیفہ کی رقم بھی مل جائے اور اس کے لیے انہیں الگ سے درخواست نہ دینی پڑے۔
مرکزی تعلیمی بورڈ کے سکریٹری نے تعلیم کو سنٹرلائز کرنے کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا ۔انہوں نے نیشنل ٹسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کے تحت ملک گیر سطح پر ہونے والے امتحانات اور نیٹ وغیرہ کی مثالیں دیتے ہوئے کہاکہ سنٹرلائزیشن کے نقصانات سامنے آرہے ہیں ۔تعلیم ریاستوں کا بھی موضوع ہے اس لیے سنٹرلائزیشن کسی بھی طور سے مناسب نہیں ہے اور اس کے منفی اثرات ، فوائد کی بہ نسبت زیادہ ہیں۔
اکیڈمک فار ایکشن اینڈ ڈیولپمنٹ اور دہلی ٹیچرز ایسوسی ایشن (اے اے ڈی ٹی اے) نے مرکزی بجٹ کے التزامات پر سخت تنقید کا اظہار کرتے ہوئے اس پر سرکاری یونیورسٹیوں کے لیے فنڈنگ میں شدید تخفیف کے رجحان کو جاری رکھنے کا الزام لگایا۔ یونیورسٹیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ سیلف فائنانس کورسیز شروع کریں اور اپنی آمدنی بڑھائیں۔ اس قدم سے غریب طلباء و طالبات کے لیے اعلیٰ تعلیم کی راہیں مشکل ہوں گی ۔تنظیم کا استدلال ہے کہ بجٹ میں کمی ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے تاکہ سرکاری اداروں کو کمزور کیا جا سکے اور فنڈز کو نئے اقدامات جیسے کہ مصنوعی ذہانت کے سنٹرز آف ایکسیلنس اور آئی سی ٹی کے ذریعے تعلیم کے قومی مشن کی طرف موڑ دیا جائے۔
حکومت کی فنڈنگ میں تخفیف ، نجی کاری، آن لائن تعلیم کی طرف تبدیلی یا محض ناموں کی تبدیلی پر اکتفا بھارت کے تعلیمی نظام تک سب کی رسائی کو مشکل بنائیں گی اور اس سے بھارت کے مستقبل کا مکمل معیار بھی گرسکتا ہے ۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024