
بجٹ سماجی انصاف اور مساوی ترقی جیسے بنیادی مسائل سے نمٹنے میں ناکام
سپلائی سائیڈ سے ڈیمانڈ سائیڈ کی طرف منتقلی کا موقع گنوا دیاگیا: امیر جماعت اسلامی ہند
نئی دلی: (دعوت نیوز ڈیسک)
امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے مالی سال 26-2025کے لیے مرکزی بجٹ پر مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ عدم مساوات اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل کے حل کے کئی مواقع گنوا چکا ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے بجٹ کے کچھ مثبت پہلوؤں کو تسلیم کیا، مثلاً انکم ٹیکس میں چھوٹ، ریبیٹ کی حد کو 12 لاکھ روپے تک بڑھانا اور متوسط طبقے کے لیے ٹیکس سلیب میں اصلاحات، جو عوام کے ہاتھ میں زیادہ پیسہ چھوڑ کر معیشت میں بہتری لا سکتی ہیں۔ اسی طرح حکومت کا مالی نظم و ضبط برقرار رکھنا، ایک لاکھ کروڑ روپے کے ریونیو خسارے کے باوجود مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 4.4 فیصد تک محدود رکھنا ایک مستحسن اقدام ہے۔ علاوہ ازیں، کاروباری قوانین کو آسان بنانے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام کو بھی انہوں نے سراہا، جو سرمایہ کاری اور کاروبار میں سہولت پیدا کر سکتی ہے۔
تاہم، انہوں نے بجٹ کو درپیش سنگین سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے میں ناکام قرار دیا۔ انہوں نے روزگار کے بحران، نوجوانوں میں بے روزگاری، جی ڈی پی فی کس آمدنی کی جمود زدہ حالت اور زراعت کے سست روی کا شکار ہونے جیسے مسائل پر توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں دولت کی منصفانہ تقسیم اور مساوی ترقی کے لیے ٹھوس پالیسی اقدامات کی کمی واضح ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ جماعت اسلامی ہند نے وزارتِ خزانہ کو تجاویز پیش کی تھیں جن میں سپلائی سائیڈ اکنامکس (یعنی کاروباری ترقی اور ٹیکس مراعات پر زور دینے) کے بجائے ڈیمانڈ سائیڈ ماڈل (جس میں عوام کی قوتِ خرید میں اضافہ، صارفین کے اخراجات میں تحریک اور فلاحی منصوبوں کو بہتر بنانے پر توجہ دینے ) کی طرف منتقلی کی سفارش کی گئی تھی، لیکن بدقسمتی سے ان تجاویز کو نظر انداز کر دیا گیا۔
انہوں نے بجٹ میں ایک لاکھ کروڑ روپے کی مجموعی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سماجی فلاح و بہبود کے شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور غریب طبقہ مزید مشکلات کا شکار ہوگا۔ جماعت اسلامی ہند نے دیہی روزگار اسکیم (MNREGA) کے بجٹ میں کٹوتی کو واپس لینے، شہری روزگار اسکیم متعارف کروانے، صحت کے لیے جی ڈی پی کا 4 فیصد اور تعلیم کے لیے 6 فیصد مختص کرنے کا مطالبہ کیا تھا، مگر یہ تمام نکات بجٹ میں شامل نہیں کیے گئے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود، درج فہرست ذاتوں اور قبائل کی بہبود اور زرعی قرضوں میں راحت کے فقدان پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ سماجی انصاف اور مساوی ترقی جیسے بنیادی مسائل سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے۔
ریونیو کے شعبے میں جماعت اسلامی ہند نے ضروری اشیاء پر جی ایس ٹی کو 5فیصد تک محدود رکھنے، لگژری ٹیکس عائد کرنے، بڑی کارپوریشنز پر ونڈ فال ٹیکس لگانے اور ریاستوں کا مرکزی محصولات میں حصہ 50یصد کرنے کی تجاویز دی تھیں لیکن بجٹ میں ان پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
مزید برآں، امیر جماعت اسلامی ہند نے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے مختص غیر پیداواری اخراجات کی زیادتی پر بھی تشویش ظاہر کی اور کہا کہ یہ رقم عوامی فلاح پر خرچ ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے زور دیا کہ قرضوں کے جال سے بچنے کے لیے معیشت کو ایکویٹی پر مبنی مالیاتی ماڈل اور سود سے پاک نظام کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ روایتی بینکاری میں ایکویٹی بیسڈ، سود سے پاک بینکنگ ونڈو متعارف کروائی جائے تاکہ اقتصادی اور قرضوں سے متعلق چیلنجوں کا بہتر حل نکالا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ایسے عملی اقدامات پر غور کرنا چاہیے جو عوام کے حقیقی مسائل حل کر سکیں۔
جناب سعادت اللہ حسینی نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ بجٹ کو ایک سیاسی ہتھیار کے بجائے عوامی بہبود کا ذریعہ بنائے اور خاص طور پر کمزور طبقات کے لیے اسے زیادہ سے زیادہ مفید بنائے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025