بجٹ میں معاشی ناہمواریوں کے شکار طبقاتنظر انداز
آکسفیم انڈیا کی چشم کشا رپورٹ کے باوجود حکومت معاشی نا انصافی کے خاتمے کے عزم سے عاری
نور اللہ جاوید، کولکاتا
بجٹ میں اقلیتوں و دلتوں کی ترقی کے لیے فنڈ میں کٹوتی۔ ملک کی دس فیصد امیر ترین آبادی پر مہربانیاں جاری
حکومت طاقتور طبقے کے دباو میں! غذائی سبسیڈی میں کٹوتی سے ملک میں غذائی بحران پیدا ہونے کا اندیشہ
مراعات یافتہ طبقہ سبسیڈی اور فلاحی اسکیموں کے خلاف کیوں ہے؟
مرکزی بجٹ سے محض دو ہفتے قبل آکسفیم انڈیا کی رپورٹ میں معاشی ناہمواریوں کی بھیانک تصویر دکھائی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ بھارت معاشی و اقتصادی ناہمواری کی گہری کھائی میں اس طرح سے گرگیا ہے کہ اگر جنگی پیمانے پر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ خلیج مزید گہری ہو سکتی ہے اور اس کی وجہ سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محروم طبقات میں بے چینی، ناراضگی بھی پھیل سکتی ہے۔ اس وقت ملک جن حالات سے گزر رہا ہے مزید اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دس فیصد امیر ترین ملک کے ستر فیصد ذرائع، وسائل اور دولت پر قابض ہیں اور ملک کی پچاس فیصد آبادی کے پاس ملک کی محض دس فیصد دولت ہے۔ آکسفیم انڈیا کی معاشی ناہمواریوں سے متعلق یہ کوئی پہلی رپورٹ نہیں ہے بلکہ ہر سال ملک و بیرون ممالک کی آزاد تنظیمیں اور ادارے اس طرح کی رپورٹیں شائع کرتی رہتی ہیں۔ جنوری کے دوسرے ہفتے میں شائع ہونے والی آکسفیم انڈیا کی یہ رپورٹ اس لحاظ سے کافی اہم ہے کہ یہ ڈیووس میں منعقدہ ’ورلڈ اکنامک فورم‘ جیسے بین الاقوامی پلیٹ فارم سے شائع کی گئی جس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہے۔ بھارت کے روایتی میڈیا کی جانب سے جو اب ’گودی میڈیا‘ کے نام سے مشہور ہے، اس پر اس رپورٹ کے تعلق سے کافی بحثیں ہوئی اور سیاسی لیڈروں بالخصوص راہل گاندھی نے اس رپورٹ کے حوالے حکومت کے سامنے سخت سوالات رکھے اور اس صورتحال کے لیے مودی حکومت کی معاشی و اقتصادی پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھیرایا۔
ملک میں معاشی ناہمواریوں میں سال بہ سال اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ ملک کی دولت محض چند ہاتھوں میں مرکوز کیوں ہو گئی ہے؟ سماجی ناہمواریوں کی وجہ سے بھارت کو کن چیلنجوں کا سامنا ہے؟ ان سوالوں پر ہم نے ’’ہفت روزہ دعوت ‘‘ کے 26 جنوری کے شمارے میں ’’آکسفیم کی رپورٹ 2023 میں نئے بھارت کی اصل تصویر‘‘ کے عنوان سے شائع کی تھی۔ جنہوں نے یہ رپورٹ نہیں پڑھی ہے وہ ہفت روزہ دعوت کی ویب سائٹ www.dawatnews.net پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ آکسفیم انڈیا نے اپنی اس رپورٹ میں ’’سروائیول آف دی ریچسٹ‘‘ کے عنوان سے معاشی ناہمواریوں کے خاتمے کے لیے کئی تجاویز پیش کی تھیں۔
اس رپورٹ کی اشاعت کے محض دو ہفتے بعدہی گزشتہ نو سالوں سے برسراقتدر بی جے پی حکومت سے امید تھی کہ وہ اپنی حکومت کے مکمل آخری بجٹ میں بھارت میں امیروغریب کے درمیان بڑھتے ہوئے عدم مساوات کی خلیج کو کم کرنے کے لیے اسکیموں کا اعلان کرے گی، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے کسی لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا اور 2023-24 کا بجٹ سماجی و معاشی ناہمواریوں کے خاتمے کا آئینہ دار ہوگا۔ مگر مودی حکومت کے آخری مکمل بجٹ میں دلت، قبائل، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی ترقی اور دیگر سماجی اسکیموں بالخصوص منریگا جیسی اسکیم جو دیہی علاقوں میں روزگار فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، ان کے فنڈس میں کٹوتی کی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس لابی کے اثرات سے متاثر ہوچکی ہے جو فلاحی اسکیموں کو مفت اور ریوڑی قرار دیتے ہوئے انہیں بند کرانے کے لیے مسلسل مہم چلا رہی ہے۔ چنانچہ حکومت نے آکسفیم انڈیا کی سفارشات پر نظر التفات کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی ہے۔ دوسری جانب مرکزی بجٹ کی تعریف کرنے والے گروپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’یہ بجٹ حقیقی نظریاتی بجٹ ‘ ہے۔ جرأت مندانہ اس لیے ہے کہ آخری بجٹ ہونے کے باوجود حکومت ’’پاپولسٹ رجحانات‘‘ کے سامنے نہیں جھکی ہے۔ یعنی ووٹروں کو لبھانے کے لیے متعدد فلاحی اسکیموں کا اعلان نہیں کیا ہے۔ دراصل یہ نریندر مودی کی مبینہ جادوئی شخصیت کا اثر ہے کہ حکمراں جماعت خود اعتمادی سے اس قدر لبریز ہے کہ ملک کے حالات کو بہتر بنائے بغیر اور ان کی مشکلات کو حل کیے بغیر ہی اسے انتخابات میں کامیابی کا یقین کامل حاصل ہو گیا ہے۔ حکومت کی اس خود اعتمادی کی وجوہات کیا ہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے مگر اس وقت ملک میں کیا ہو رہا ہے جب ملک کے سب سے بڑے صنعت کار اڈانی کا کاروباری امپائر اچانک سوالوں کی زد میں آگیا ہے۔ 26 جنوری کو ہنڈنبرگ کی رپورٹ کے بعد بھارت کا شیئر بازار لرزہ براندام ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں اڈانی کے شیئرز میں جس طرح گراوٹ آئی ہے اس نے ملک کے سرکاری بینکوں ایس بی آئی، پنجاب بینک، کنارا بینک، انڈین بینک اور ملک کی سب سے انشورنس کمپنی ایل آئی سی جنہوں نے بڑے پیمانے پر اڈانی گروپ کی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے وہ ہر دن نقصان میں جا رہے ہیں۔ ایس بی آئی کے پاس ملک کی ایک تہائی آبادی کا روپیہ جمع ہے۔ ایل آئی سی جس کا نعرہ ’’زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی‘‘ ہے، وہ اب ہوا ہوائی ہونے کو ہے۔ 2022ء تک کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے وعدہ کرنے والے نریندر مودی کسانوں اور یومیہ مزدوری کرنے والوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے میں تو ناکام رہے مگر اپنے دوست اڈانی کی آمدنی میں گزشتہ بو سالوں میں 85 فیصد اضافہ کردیا ہے۔ پورٹ سے لے کر ائیرپورٹ تک تعلیمی ادارے سے لے کر بجلی، پانی، گرین انرجی اور سیاحت کو ان کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے مودی حکومت پر جانبداری کے الزامات لگ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں بھی عام ووٹرس بالخصوص حاشیہ پر پہنچ چکے افراد کو بجٹ میں نظر انداز کردیا جانا کسی دیدہ دلیری سے کم نہیں ہے اور یہ کام نریندر مودی ہی کرسکتے ہیں۔
فلاحی اسکیموں کے خلاف مورچہ بندی کیوں ہے؟
سوال یہ ہے کہ حاشیہ پر پہنچ چکے افراد کے لیے حکومتوں کی فلاحی اسکیموں کو ریوڑی اور مفت خوری سے تعبیر کرنا کہاں تک درست ہے؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سوشل اسکیمیں سماج میں تبدیلی لانے میں کوئی کردار ادا کرتی ہے بھی یا نہیں؟ سنٹر فار پالیسی ریسرچ نے اکاؤنٹیبلٹی انیشی ایٹو، سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے تحت 2008ء سے 2023ء کے درمیان سماجی شعبے میں فلاحی اسکیموں کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں حکومت کے فلاحی اسکیموں کا اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پندہ سالوں میں ملک نے سماجی شعبے میں اہم تبدیلیاں دیکھی ہیں جن میں مختلف فلاحی اسکیموں کا اہم کردار ادا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ بھارت کی معیشت سست رفتاری کی شکار ہے، افراط زر بلند، بے روزگاری کی شرح میں اضافہ اور قرضوں کا بوجھ ہے۔ ایسے میں حاشیہ پر پہنچ چکے افراد کو خصوصی رعایت اور مراعات فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس رپورٹ میں سبسیڈی اور فلاحی اسکیموں میں کٹوتی کا ذکر کرتے ہوئے اس کے اثرات پر بھی تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔
دراصل ملک میں ایک لابی ہے جو سبسیڈی، فلاحی اسکیموں کے خلاف مسلسل مہم چلا رہی ہے۔اس کی بھر پور کوشش ہے کہ غریب اور پسماندہ افراد کی تعلیمی، اقتصادی اور روزگار سے جوڑنے والی سبسیڈیاں اور اسکیمیں بند کردی جائیں۔یہ معاملہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے سامنے زیر سماعت ہے۔ اس سے قبل اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے تجویز دی تھی کہ حکومت اور ادارے مثلا نیتی آیوگ، فائنانس کمیشن، لاء کمیشن آف انڈیا، ریزرو بینک آف انڈیا اور اپوزیشن پارٹیاں سیاسی وعدوں کو ریگولیٹ کرنے کے ممکنہ طریقوں پر غور کرے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت کارپوریٹ سیکٹر کو ٹیکس میں چھوٹ، بڑے کسانوں اور صنعت کاروں کو قرضوں کی معافی، بینکوں کے غیر فعال اثاثوں کی سرمایہ کاری، صنعتوں کو رعایتی نرخوں پر اراضی اور قانون سازوں کو خصوصی رعایتیں ملک کے خزانے پر جب بوجھ نہیں بنتے تو پھر سوشل اسکیم اور پسماندہ افراد کو راحت پہنچانے والی اسکیمیں ملک کے خزانے پر بوجھ کیوں ہیں؟ جب کہ آکسفیم انڈیا نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ ٹیکس دہندگان میں ملک کی اسی پچاس فیصد آبادی کی سب سے زیادہ حصہ داری ہے جن کے پاس ملک کا سرمایہ محض دس فیصد ہے ۔یعنی جن کے پاس ملک کا سرمایہ نوے فیصد ہے وہ ٹیکس ادا کرنے میں پیچھے ہیں۔آکسفیم انڈیا نے ’’سروائیول آف دا ریچسٹ‘‘ کے عنوان سے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کا وہ دس فیصد طبقہ جس کے پاس ملک کا چالیس سرمایہ ہے اس پر تین فیصد اضافی ٹیکس عائد کردیا جائے تو تعلیمی ڈھانچے کے لیے درکار فنڈ کا مسئلہ حل ہو جائے گا مگر بجٹ میں اس طبقے پر ٹیکس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لیے ایندھن، کھانے پینے کی اشیا اور دیگر ناگزیر اشیا پر ٹیکس میں چھوٹ دے کر عام لوگوں کو راحت دی جاسکتی تھی مگر حکومت نے موٹی تنخواہ پانے والوں کے انکم ٹیکس دے کر سماج پر اثرانداز ہونے والے طبقات کو رعایت دی ہے۔
بھارت چین کے بعد دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ ملک کی کل آبادی 135.26 کروڑ ہے اور یہ دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے، جس کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) 72.2 لاکھ کروڑ امریکی ڈالر ہے۔ جغرافیائی اور ثقافتی لحاظ سے بھارت کو امیر ملک سمجھا جاتا ہے۔ یہاں قدرتی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں۔ جغرافیائی رقبہ وسیع ہے۔ قدرتی وسائل کافی ہیں، آب و ہوا سازگار ہے، جنگلات کی دولت بھی بے شمار ہے، توانائی کے ضروری وسائل بھی بہت ہیں اور انسانی طاقت بھی کافی ہے۔ ان سب کے باوجود، ہندوستانی آبادی کا صرف ایک چھوٹا فیصد متاثر کن اقتصادی ترقی سے مستفید ہو رہا ہے۔ ملک میں زیادہ تر لوگ اب بھی مکمل غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور ضروری ذرائع سے محروم ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق اگر کوئی شخص 1.90 ڈالر یومیہ یا اس سے کم پر زندگی گزار رہا ہے، تو وہ انتہائی غربت کا شکار ہے۔ اس وقت ہندوستان میں تقریباً آٹھ سو ملین افراد اس زمرے میں آتے ہیں۔ ایسے افراد کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے فوری مدد کی ضروری ہے۔ چنانچہ سماجی تحفظ کے لیے فلاحی اسکیموں پر بحث میں باریکیاں ہیں، اور کوئی ایک اقدام ایک یا دوسرے کے طور پر درجہ بندی کارآمد نہیں ہوسکتا ہے۔۔ کسی پاپولسٹ پالیسی کو معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔ یہ سبجیکٹیو ہے اور اسے مخصوص شعبے یا آبادی کے تناظر میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقیاتی اسکیموں میں وسائل کا رساو یا بدانتظامی ایک مستقل مسئلہ ہے۔ بدعنوانی اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ بے توجہی سماجی تحفظ پر مبنی فلاحی اقدامات کو ختم کرنے کی یہ واحد دلیل نہیں ہو سکتی۔
مرکزی بجٹ میں پسماندہ افراد نظرانداز
’’امرت کال‘‘ کا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے نرملا سیتارمن نے اپنی بجٹ کی تقریر کے آغاز میں ’’خوشحال اور جامع بھارت کا وژن پیش کیا مگر بے روزگاری کے خاتمے، دیہی علاقوں میں مزدوری کرنے والوں کی اجرت میں اضافہ، عدم مساوات کے خاتمہ اور کورونا کے اثرات سے نکالنے کے لیے کسی اقدام کا اعلان نہیں کیا۔ 2021ء میں نیتی آیوگ کے ترقیاتی نگرانی اور تشخیص (Development Monitoring and Evaluation) کے شعبے نے اپنی رپورٹ میں ملک کے تمام طبقات کی شمولیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائب، پسماندہ طبقات، صفائی عملہ، معلنہ قبائل اور غیر معلنہ قبائل کا تعلق معاشرے کے غریب ترین طبقات سے ہے اور انہیں شدید معاشی اور سماجی ناانصافی کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایس ٹی، ایس سی اور مسلمانوں کے معاشی اثاثے اوسط گھرانوں سے کم ہیں۔ ایک طرف پائیدار ترقی کے لیے 2030ء کا ہدف مقرر کیا گیا ہے مگر دوسری طرف محرومیوں کا شکار افراد کو ترقیاتی اسکیموں میں شامل کرنے کی کوششوں کا فقدان ہے۔ پسماندہ طبقات کو بااختیار بنانے پر توجہ دینے والی اہم وزارتوں کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ سماجی انصاف اور بااختیار بنانے، قبائلی امور، اقلیتی امور اور خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارتوں کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ معذور افراد کو بااختیار بنانے کے محکمے اور خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کے لیے مختص رقم رواں سال کے بجٹ کے تقریباً برابر ہی ہے۔ اس کے برعکس سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کے محکمے کے بجٹ میں تقریباً 7.57 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس وزارت کے ذریعہ دلتوں، بزرگوں، ڈینوٹیفائیڈ اور خانہ بدوش قبائل (ڈی ٹی این ٹی) اور دیگر پسماندہ طبقات کی ترقی کے لیے کام کیا جاتا ہے۔ قبائلی امور کی وزارت کے بجٹ میں اضافہ بنیادی طور پر ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکولوں کے بجٹ میں اضافہ کی وجہ سے ہوا ہے جو پہلے دو ہزار کروڑ روپے تھا اور اب اس کو چھ ہزار کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور اسکیم میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے ۔
ملک میں پائیدار ترقی کے لیے غریبوں اور پسماندہ طبقات کی ترقی لیے مرکزی حکومت کی چھ بڑی بنیادی اسکیمیں ہیں جن میں منریگا سب سے اہم ہے۔ گزشتہ مالی سال میں ان اسکیموں کے لیے 99,214 کروڑ روپے بجٹ مختص کیا گیا تھا مگراس بار اس میں کمی کرتے ہوئے 86.144 کروڑ کردیا گیا ہے۔منریگا کے لیے گزشتہ مالی سال میں 89,400 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا مگر اس میں کمی کرتے ہوئے ساٹھ ہزار کروڑ کردیا گیا ہے۔منریگا دیہی علاقے میں روزگار فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ منریگا کے بجٹ میں کمی اور شہری علاقوں میں بے روزگار افراد کے لیے اسی طرح کی کوئی اسکیم نہ لانا جس کی مانگ کئی حلقوں سے کی جارہی تھی، روزگار کے مواقع پید کرنے اور دیہی علاقوں میں اجرتوں میں اضافے کے لیے سازگار ثابت نہیں ہوگا۔ اس مالی سال میں آٹھ کروڑ سے زیادہ لوگوں نے منریگا کے تحت روزگار حاصل کیا ہے، فنڈ میں کٹوتی کی وجہ سے لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوجائیں گے اور اس کی وجہ سے معیشت میں مزید بحران پیدا ہوگا۔ مرکز اور حکومت بنگال کے درمیان تصادم کی وجہ سے منریگا کے تحت کام کرچکے ایک کروڑ افراد کو معاوضہ نہیں ملا ہے۔ یہ صرف بنگال تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسری ریاستوں میں منریگا کے تحت مزدوروں کو ادائیگی روک دی گئی ہے۔ معاشی بدحالی اور بے روزگاری کے وقت یہ غیر انسانی رویہ ہے۔
غیر منظم مزدوروں کے لیے بیمہ یوجنا کو جس میں گزشتہ بجٹ میں دس لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے، روک دیا گیا ہے۔ تاہم، ایمپلائز پنشن سکیم (EPS) 1995 کے لیے مختص میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے لیے 9,167 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔جبکہ گزشتہ بجٹ میں 8,485 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔ آتم نربھر بھارت روزگار یوجنا کے لیے مختص رقم میں نمایاں کمی کی گئی تھی۔ 2022-23 کے بجٹ میں 6,400 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے جبکہ اس سال صرف 2,272 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پردھان منتری شرم یوگی ماندھن اسکیم کو اس بجٹ میں بھی 350 کروڑ روپے ملے ہیں۔ پردھان منتری کرم یوگی ماندھن جسے گزشتہ بجٹ میں پچاس کروڑ ملے تھے، اس بار صرف تین کروڑ ملے ہیں۔ غیر منظم کارکنوں کے لیے قومی ڈیٹا بیس کے لیے مختص رقم میں بھی دو سو کروڑ روپے کی کمی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایس سی، ایس ٹی اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے ‘کوچنگ اور گائیڈنس کے لیے 25 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں اور نیشنل کریئر سروسز کو باون کروڑ روپے ملے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے کورونا وبا کے دوران طلبا کو ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کے لیے اسکولنگ پر عوامی اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا ہے جبکہ بھارتی حکومت نے ایسا نہیں کیا ہے۔ بلکہ 2022-23 کے لیے 63,449 کروڑ روپے کا بجٹ تخمینہ بھی پورا ہونے کی امید نہیں ہے۔ اس میں 964,3 کروڑ روپے کی کمی ہے اور آنے والے سال کے لیے بجٹ کا تخمینہ صرف 5,356 کروڑ روپے ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے اخراجات میں 3,267 کروڑ روپے کا اضافہ متوقع ہے۔ بنیادی اسکیموں میں صرف تیرہ فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جو کہ بہت بڑا اضافہ نہیں ہے۔ کئی بنیادی اسکیمیں جیسے قومی تعلیمی مشن، قومی صحت مشن، قومی گزر بسر مشن، آجیوکا، پی ایم آیوشمان بھارت اور راشٹریہ کرشی وکاس یوجنا میں یا تو اضافہ نہیں کیا گیا ہے یا ان میں کمی کی گئی ہے۔ یہ وہ اسکیمیں ہیں جن سے غریب اور پسماندہ طبقات کو فائدہ ہوتا ہے۔
سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں زیادہ تر لوگ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور غیر منظم شعبوں میں مزدوری کر کے زندگی گزارتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں پہلے تو روزگار نہیں ہے یا اجرت بہتر نہیں ملتی چنانچہ دیہی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ ممبئی، دلی، بنگلورو، یا کولکاتہ جیسے میٹروپولیٹن شہروں کو جاکر روزگار کی تلاش کرتے ہیں۔ ان شہروں میں ان میں سے زیادہ تر کچی آبادیوں میں غربت اور مایوسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ مناسب خوراک، پینے کے پانی کی مناسب فراہمی، کوڑا کرکٹ کی نکاسی اور بجلی کے بغیر رہتے ہیں جو حفظان صحت کے ناقص حالات، ہیضہ، ٹائفائیڈ اور پیچش کا سبب بنتے ہیں، خاص طور پر جب بچے اس کا شکار ہوتے ہیں تو وہ فوت بھی ہو جاتے ہیں۔غربت اور اس سے متعلقہ مسائل کے خاتمے کے لیے فوری توجہ کی ضرورت تھی مگر بجٹ میں اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔
فوڈ سبسڈی میں نوے ہزار کروڑ روپے کی کمی کی گئی ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں بھارت 121 ممالک میں 107ویں نمبر پر ہے۔ ایک بڑی اکثریت کو غذائیت سے بھرپور خوراک تک رسائی نہیں ہے۔ ایسے میں پی ایم پوشن اسکیم کا خرچ بھی کم کر دیا گیا ہے۔ بجٹ میں بھوک کے بحران سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کرنی چاہیے۔اگرچہ اگلے سال تک کے لیے مفت خوراک کے مد میں توسیع کردی گئی ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں ہے کیوں کہ غذائی سیکورٹی ایکٹ کے تحت دو روپے فی کلو گیہوں، اور تین روپے فی کلو چاول فراہم کیا جانا تھا۔اس طرح دیکھا جائے تو مہینہ میں صرف پندرہ سے بیس روپے کی سبسیڈی دی جا رہی ہے۔ سبسڈی میں کمی کے نتیجے میں کم خریداری ہوگی اور اس کا براہ راست اثر کسانوں کی آمدنی پر پڑے گا۔ بجٹ میں کسانوں کے مفادات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کھاد کی سبسڈی میں پچاس ہزار کروڑ روپے کی کمی کی گئی ہے۔ یوریا اور غذائیت پر مبنی سبسڈی دونوں ختم کردی گئی ہیں۔اس کی وجہ سے کاشت کاری پر زیادہ لاگت آئے گی اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔
وزارت اقلیتی امور کے بجٹ میں کٹوتی
وزارت اقلیتی امور کی وزارت نے بجٹ میں 38 فیصد کی بڑی کٹوتی کی ہے۔2022-23 میں وزارت اقلیتی امور کے لیے 5,020.50 کروڑ روپے تھا جسے کٹوتی کرتے ہوئے 3,790 کروڑ روپے کردیا گیا ہے جبکہ گزشتہ سال صرف 2,216.66 کروڑ روپے استعمال ہوئے۔ یعنی کل تخمینہ بجٹ کا محض 48 فیصد ہی استعمال ہو سکا۔ اقلیتوں کے لیے تعلیم کو بااختیار بنانے کے لیے کل مختص رقم جو 2022-23 میں 2,515 کروڑ روپے تھی اس میں کمی کرتے ہوئے 1986 کروڑ روپے کر دی گئی ہے۔
پری میٹرک اسکالرشپس کو اس سال سب سے زیادہ نقصان پہنچا جو کہ 1,425 کروڑ روپے سے کم کرکے 433 کروڑ روپے کردی گئی ہے۔ تاہم میٹرک کے بعد کے اسکالرشپس کے فنڈز میں 515 کروڑ روپے سے 1,560 کروڑ روپے اضافہ کیا گیا ہے۔ وزارت اقلیتی امور میں وراثت کا سموردھن (پی ایم وکاس) کے نام سے ایک 540 کروڑ روپے کی نئی اسکیم کووزارت کے بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ اسکل ڈیولپمنٹ اور روزی روٹی کے لیے مختص، بشمول USTAD، نئی منزل اسکیمیں اور اسکیم فار لیڈرشپ ڈیولپمنٹ آف میناریٹی ویمن، تقریباً غائب ہو چکی ہیں۔اقلیتی طلباء کے لیے پیشہ ورانہ اور تکنیکی کورسز کے لیے میرٹ پر مبنی اسکالرشپ ان متعدد اسکالرشپ اور ہنر مندی کے پروگراموں میں شامل تھی جس کی فنڈنگ میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ حکومت نے ان پروگراموں کے بجٹ کو 365 کروڑ روپے سے گھٹا کر 44 کروڑ روپے کر دیا ہے۔ اسی طرح اقلیتوں کے لیے مفت کوچنگ اور اس سے منسلک اسکیموں کے بجٹ کو بھی تقریباً ساٹھ فیصد کم کرکے اناسی کروڑ روپے سے تیس کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ حکومت نے UPSC، SSC اور ریاستی پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ منعقدہ ابتدائی امتحانات پاس کرنے میں طلباء کی مدد کرنے کے پروگراموں کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی ہے جبکہ گزشتہ بجٹ میں آٹھ کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔
***
***
بجٹ میں بھوک کے بحران سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کرنی چاہیے۔اگرچہ اگلے سال تک کے لیے مفت خوراک کے مد میں توسیع کردی گئی ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں ہے کیوں کہ غذائی سیکورٹی ایکٹ کے تحت دو روپے فی کلو گیہوں، اور تین روپے فی کلو چاول فراہم کیا جانا تھا۔اس طرح دیکھا جائے تو مہینہ میں صرف پندرہ سے بیس روپے کی سبسیڈی دی جا رہی ہے۔ سبسڈی میں کمی کے نتیجے میں کم خریداری ہوگی اور اس کا براہ راست اثر کسانوں کی آمدنی پر پڑے گا۔ بجٹ میں کسانوں کے مفادات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کھاد کی سبسڈی میں پچاس ہزار کروڑ روپے کی کمی کی گئی ہے۔ یوریا اور غذائیت پر مبنی سبسڈی دونوں ختم کردی گئی ہیں۔اس کی وجہ سے کاشت کاری پر زیادہ لاگت آئے گی اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023