بجٹ 2025: اقتصادی چیلنجوں کے طوفان میں حکومت کی بصیرت اور حکمتِ عملی کا امتحان

جی ڈی پی میں گراوٹ اور تجارتی خسارہ: حکومت کے لیے دہری آزمائش

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان

امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا حل کیا ہوگا؟
قومی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بجٹ 2025میں فوری اور مؤثر اقدامات ناگزیر
بجٹ محض حکومت کے سالانہ اخراجات اور آمدنی کی تفصیل نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے مستقبل کے لیے ایک اقتصادی خاکہ ہے جو تمام اقتصادی شعبوں کی آئندہ سال کی ترقیاتی پالیسی کی سمت متعین کرتا ہے۔ بجٹ پچھلے سالوں میں ملک کے ہر شعبے میں ترقی کا جائزہ لیتا ہے اور آئندہ سال کے لیے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ مجموعی قومی ترقی کے لیے بجٹ کی اہمیت غیر معمولی ہے۔
وقت کی موجودہ ضروریات اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور قوتِ خرید میں کمی کے باعث اقتصادی کساد بازاری کے خدشات درپیش ہیں۔ مزید برآں، اقتصادی نمو کی شرح میں بھی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ فلسطین، روس اور یوکرین میں جاری جنگوں کی وجہ سے توانائی اور خوراک کے شعبوں میں بیشتر ممالک غیر یقینی حالات کا شکار ہیں۔ اس سے قبل کرونا وبا کے نتیجے میں تمام اقتصادی شعبے مندی کا شکار ہو چکے تھے۔
ملک کے اقتصادی چیلنجوں میں سب سے اہم جی ڈی پی (Gross Domestic Product) کی نمو کی شرح میں کمی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ پیداوار کے کلیدی شعبے مطلوبہ رفتار سے ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔ خدمات کے شعبے میں کچھ بہتری ضرور نظر آئی ہے لیکن زراعت کا شعبہ عمومی طور پر جمود کا شکار رہا ہے، جبکہ صنعتی شعبے میں نمو کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ زراعت اور صنعت کے شعبوں میں ایک بڑی آبادی برسرِ روزگار ہے، جب کہ خدمات کے شعبے میں یہ تناسب ان دونوں کے مقابلے میں کم ہے۔
لہٰذا، مرکزی بجٹ میں زراعت اور صنعت کے شعبوں میں نمو کی شرح کو بحال کرنے کے لیے بہتر پالیسی سازی اور مناسب بجٹ مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان شعبوں کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو حکومت 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کے خواب کو پورا نہیں کر سکے گی۔
آئندہ مرکزی بجٹ کے لیے حکومت مختلف اداروں اور اسٹیک ہولڈروں سے مشاورت کر رہی ہے۔ حالانکہ بجٹ سازی کا عمل ستمبر میں ہی شروع ہو چکا تھا، تاہم ان دنوں مشاورت کے مراحل جاری ہیں۔ حکومت نے جن اداروں اور اسٹیک ہولڈروں سے رائے لی ہے، ان میں صنعتوں کے گروپ سی آئی آئی اور فکی، کسانوں کی تنظیمیں، مزدور یونینیں، ماہرینِ معیشت، سماجی شعبے کی تنظیمیں اور مختلف ریاستوں کے وزرائے مالیات شامل ہیں۔
ملک اس وقت مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی ناہمواری جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ عوام حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ بجٹ کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، مہنگائی پر قابو پایا جائے اور معاشی ناہمواری کو کم کیا جائے لیکن موجودہ حکومت کی توجہ ترقیاتی مسائل سے ہٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ میں ‘ون نیشن، ون الیکشن’ اور وقف ترمیمی بلز پیش کیے گئے ہیں۔ اسی دوران ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی اور مساجد و مزارات کے سروے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کو مذہبی اور غیر متعلقہ معاملات میں الجھا کر بجٹ اور معاشی ترقی سے ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ترقیاتی مسائل پر بحث نہ کی جائے اور ان کی ذمہ داریوں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
2024-25کی دوسری سہ ماہی کے جی ڈی پی سے متعلق اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ ملک کی اقتصادی نمو کی شرح میں گراوٹ آئی ہے جو 8.1 فیصد سے گھٹ کر 5.4 فیصد ہوگئی ہے۔ اقتصادی نمو میں گراوٹ کی ایک اہم وجہ صنعتی شعبے کی پیداوار میں کمی ہے، جبکہ زرعی اور خدمات کے شعبوں کی پیداوار کی شرح میں کچھ بہتری ضرور دیکھنے کو ملی ہے۔ اقتصادی نمو میں گراوٹ کی وجہ سے صارفین کی قوت
خرید میں بھی کمی آئی ہے اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
مرکزی وزیر خزانہ کے مشیر وی اننتا ناگیشورن کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کمپنیاں بڑے منافع درج کر رہی ہیں لیکن روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے جا رہے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیداوار کی تقسیم میں برابری نہیں ہے یا اس پیداوار سے تمام طبقات برابر فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔
آکسفام انڈیا مساوات رپورٹ کے مطابق، ملک میں ایک فیصد لوگوں کا 40 فیصد وسائل پر قبضہ ہے، جبکہ نچلی سطح پر زندگی گزارنے والے 50 فیصد لوگوں کے پاس ملک کے تمام وسائل کا صرف 3 فیصد حصہ ہے۔ اسی طرح 2020 اور 2022 کے درمیان ملک کے ارب پتیوں کی تعداد 102 سے بڑھ کر 144 ہوگئی ہے۔ نامور ماہرِ اقتصادیات تھامس پکیٹی کے مطابق، ہندوستان میں سب سے بڑا چیلنج عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی آمدنی کی غیر برابری ہے۔ امیر لوگ مزید امیر ہو رہے ہیں، جبکہ غریب لوگ مزید غریب ہو رہے ہیں۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کو اس بجٹ میں ٹیکس پالیسی میں اصلاحات کرنی ہوں گی۔ امیر ترین افراد (سوپر رچ) پر اضافی ٹیکس نافذ کرنا، دولت اور وراثت ٹیکس کو لاگو کرنا اور اس آمدنی کا استعمال صحت، تعلیم اور روزگار کے منصوبوں میں اضافی بجٹ مختص کر کے غریب طبقے کو فائدہ پہنچانا ضروری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس سے متعلق تمام اعدادوشمار عوام کے سامنے پیش کیے جانے چاہئیں۔
صرف جی ڈی پی کی نمو کی شرح دیکھ کر یہ فیصلہ لینا کہ ملک ترقی کر رہا ہے، ایک فریب ہے۔ قومی شماریاتی آفس (NSO) کے مطابق، 2018 سے 2022 کے درمیان فی کس آمدنی میں کمی آئی ہے۔ موجودہ حکومت نے 2016 میں کسانوں کی آمدنی 2022 تک دگنا کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن 2022 میں کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کے بجائے نمایاں الٹا کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پانچ سال پہلے کسان جہاں تھا آج بھی وہیں ہے۔
لیبر فورس سروے یہ ظاہر کرتا ہے کہ مزدوری اور تنخواہوں میں پچھلے چھ سالوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شہروں میں کام کرنے والوں کی آمدنی میں گراوٹ کی وجہ سے یہ لوگ مزید مشکلات کا شکار ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث عوام کے پاس خرچ کرنے کے لیے پیسہ نہیں ہے۔
حکومتی اخراجات کا جی ڈی پی میں تقریباً 30 فیصد حصہ ہے، جسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی حکومت کے سامنے ایک اہم اقتصادی چیلنج ہے۔ حالیہ دنوں میں مہنگائی 5 فیصد سے کم ہوکر حکومت کی مقررہ گائیڈ لائن 4 فیصد کے قریب ہونی چاہیے تھی۔ آر بی آئی مانیٹری پالیسی کے ذریعے سود کی شرح میں اضافہ کرکے مہنگائی کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس معاملے میں ابھی تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
خوراک کی مہنگائی میں کمی آئی ہے لیکن دیگر بنیادی سیکٹروں میں مہنگائی کی کمی کی امید کم ہے کیونکہ پیداوار کی لاگت میں اضافہ قابو میں نہیں آیا ہے۔ اگر مہنگائی اسی طرح بڑھتی رہی تو جی ڈی پی میں اضافے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ایکسپورٹ کے شعبے میں گراوٹ یا سست رفتاری بھی ایک بڑا معاشی چیلنج ہے۔ عالمی تجارت میں کمی کی وجہ سے ایکسپورٹ میں گزشتہ کئی سالوں سے گراوٹ آئی ہے، جبکہ امپورٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے تجارتی خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا سیدھا اثر زر مبادلہ پر پڑ رہا ہے۔
روپے کی قدر میں کمی کی ایک وجہ امریکہ میں فیڈرل بینک کی مہنگائی قابو میں کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ بھی ہے۔ اس تناظر میں مہنگائی کو قابو میں رکھنا، روپے کی قدر کو مستحکم کرنا اور شرح سود کو مناسب سطح پر رکھنا آئندہ بجٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
حکومت کو موجودہ معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بجٹ خرچ میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کا انحصار ٹیکس اور غیر ٹیکس آمدنی پر ہوگا۔ کچھ آمدنی سرکاری اثاثے فروخت کرکے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تازہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ٹیکس آمدنی (جی ایس ٹی، انکم ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس) جمع کرنے میں کامیابی کی امید ہے، لیکن غیر ٹیکس آمدنی اور اثاثوں کی فروخت سے آمدنی اکٹھی کرنا مشکل لگ رہا ہے۔
موجودہ اعدادوشمار کے مطابق بجٹ کی کل آمدنی کا 35 فیصد قرضوں سے حاصل ہوتا ہے، جبکہ بجٹ خرچ کا 20 فیصد سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جاتا ہے۔ حکومت کے سامنے عوامی بچت اور سرمایہ کاری کی شرح میں کمی ایک اہم چیلنج ہے۔ عوامی بچت اور سرمایہ کاری میں کمی کی بڑی وجہ موجودہ معاشی صورتحال پر عوام اور سرمایہ کاروں کا عدم اعتماد ہے۔ لہٰذا آئندہ بجٹ میں عوام اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا انتہائی ضروری ہے۔
(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی سے وابستہ ہیں)
***

 

***

 2024-25 کی دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو 8.1 فیصد سے کم ہوکر 5.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس کی بڑی وجہ صنعتی پیداوار میں کمی ہے، جبکہ زرعی اور خدمات کے شعبے میں معمولی بہتری دیکھی گئی ہے۔ اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی نے صارفین کی قوت خرید اور روزگار کے مواقع پر منفی اثر ڈالا ہے، جس کے باعث بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔فی کس آمدنی اور کسانوں کی آمدنی میں گراوٹ، مزدوروں کی تنخواہوں میں کمی اور ایکسپورٹ سیکٹر کی سست رفتاری نے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔ امپورٹ میں اضافے کے نتیجے میں تجارتی خسارہ اور روپے کی قدر میں کمی بھی اہم چیلنجز ہیں۔حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بجٹ خرچ میں اضافہ کرے، مؤثر اقتصادی پالیسیوں کو نافذ کرے اور جی ڈی پی کی ترقی کو عوام کی فلاح و بہبود کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024