’بی ایس این ایل ‘کی بربادی بازیابی کا کوئی منصوبہ نہیں
عوامی شعبے کے سبسے بڑے مواصلاتی ادارہ کی تباہی کی کہانی
زعیم الدین احمد حیدرآباد
بھارت میں عوامی شعبے کا سب سے بڑا مواصلاتی ادارہ کیوں تباہی کی داستان بیان کر رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے خانگی مواصلاتی اداروں سے بھی مقابلہ نہیں کر پا رہا ہے؟ تباہی بھی ایسی کہ ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ ادارہ ماضی کی داستان کا حصہ بن جائے۔ موجودہ بی جے پی حکومت سے یہ توقع کرنا بھی غلط ہوگا کہ اس کی بازیابی کی کوئی سنجیدہ کوشش کرے گی کیوں کہ اس حکومت کا تو وطیرہ ہی یہ رہا ہے کہ عوامی شعبے کے جتنے ادارے ہیں ان سب کو بیچ دیا جائے۔ اس غریب ادارے کے کچھ اجزاء کو بیچنے کے لیے پہلے ہی بولی لگ چکی ہے۔ بعید نہیں کہ اس کے ایک ایک پرزے کو بہت جلد نیلامی کے لیے رکھ دیا جائے گا۔
2002 میں بی ایس این ایل کے میدان میں آنے سے پہلے ہی نجی مواصلاتی کمپنیاں بازار میں موجود تھے۔ یہ وہ دور تھا جب نجی مواصلاتی کمپنیاں آؤٹ گوئنگ کال کے سولہ روپے اور ان کمنگ کال کے آٹھ روپے لیا کرتے تھے تب بی ایس این ایل میدان میں آیا۔ اس نے ان کمنگ بالکل مفت اور اؤٹ گوئنگ کے محض ڈیڑھ روپے مقرر کیے۔ اس کے اس فیصلے نے نجی مواصلاتی کمپنیوں میں کھلبلی مچادی، لوگ بی ایس ین ایل کے سم کارڈز خریدنے کے لیے لمبی قطاروں میں لگ جاتے تھے، کئی کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد اس کی سم خریدنے کا موقع ملتا، دیکھتے دیکھتے یہ ادارہ ہندوستان کا اول درجے کا ادارہ بن گیا۔ لیکن وہی ادارہ اس وقت خاتمے کی دہلیز پر کھڑا ہے۔
بی ایس این ایل کے سابق عہدے داران اور مواصلاتی ماہرین نے بی ایس این ایل اور یم ٹی این ایل کی اس افسوسناک صورتحال کے لیے حکومت کی غلط پالیسیوں اور اس کے ساتھ عدم تعاون و سوتیلے رویے کو ذمہ دار گردانا ہے۔ مواصلاتی شعبے میں اپنے دوست ادارے جیسے جیو کو وسعت دلانے کے لیے حکومت نے عوامی شعبے کے اس ادارے کو قصداً تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ اتنا ہمہ گیر اور عظیم مواصلاتی جال ہونے کے باوجود وہ آج بند ہونے کے قریب ہے؟ یقیناً اس کی تباہی کے لیے حکومت کی غلط پالیسیوں کو ہی ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ عوامی شعبے کا یہ ادارہ جس نے تجارتی سطح پر ایسے دور دراز علاقوں تک، جہاں حمل و نقل کی سہولتیں نہیں تھیں، مواصلاتی نظام کو فروغ دیا، جس نے سستے موبائل کنکشن اور انٹرنیٹ کی خدمات فراہم کیں اور اس کے بنیادی ڈھانچے کا مقابلہ کوئی نجی ادارہ کر ہی نہیں سکتا تھا۔ نہ ملازمین کے معاملے میں، نہ موبائل ٹاورز کے معاملے میں اور نہ ہی دفاتر کے معاملے میں۔ بی ایس این ایل کے پاس 8.19 لاکھ کلومیٹر طویل آپٹکس فائبر تاروں کا جال بچھا ہوا ہے، جب کہ اس وقت کے سب سے زیادہ صارف رکھنے والے ادارہ جیو کے پاس محض 3.2 لاکھ کلومیٹر ہی آپٹکس فائبر تار بچھے ہوئے ہیں، بی ایس این ایل کے 67,300 ٹاورز جیو استعمال کرتا ہے جس کے لیے وہ بی ایس این ایل کو کرایہ دیتا ہے، اور دوسروں کی بہ نسبت اسے بڑی آسانی سے یہ کرایہ پر مل بھی جاتے ہیں۔ شاید یہ وزیر اعظم مودی جی کے نور نظر ہونے کی وجہ سے ممکن ہورہا ہے، اب سننے میں آ رہا ہے کہ ان ٹاورز کو بھی بیچا جانے والا ہے۔ حکومت نے بی ایس این ایل سے کہا ہے کہ وہ 2025 تک کل 13,567 موبائل ٹاورز کو بیچ کر چار ہزار کروڑ روپے جمع کرادے۔ یہ کام نیشنل مونیٹئازیشن پالیسی کے تحت ہوگا۔ بی ایس این ایل نے پہلی صورت میں دس ہزار موبائل ٹاورز کو بیچنے کا منصوبہ بنایا ہے، یہ وہی ٹاورز ہیں جنہیں جیو نے کرایہ پر لیا ہوا ہے۔ کرایہ دار کی حیثیت سے اس کا پہلا فرض بنتا ہے کہ وہ اسے خرید لے۔ جیو پر حکومت کا خاص دست شفقت رہا ہے۔ 2016 میں جب وہ بازار میں آیا ہے تب سے دوسرے مواصلاتی ادارے یا تو بند ہوئے ہیں یا خسارے میں چل رہے ہیں۔ خیر دوسرے اداروں کے پاس اتنا بنیادی ڈھانچہ نہیں تھا لیکن اول درجہ کا بنیادی ڈھانچہ تو بی ایس این ایل کے پاس ہی تھا، لیکن اس کے باوجود یہ ادارہ نقصان میں کیسے چلا گیا اور اس میدان میں نیا داخل ہونے والا جیو، جس کے پاس بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کے باوجود کیسے برق رفتاری سے ترقی کرتا چلا گیا؟
آخر کیوں بی ایس این ایل ہی پچھلے کئی سالوں سے مالی خسارے کا شکار ہے؟ بی ایس این ایل کو مالی سالوں 2015-2016 سے 2017-2018 کے درمیان 17,645 کروڑ روپے کا مجموعی نقصان ہوا ہے، اور اس کے نقصان میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مالی سال 2018-2019 میں یہ نقصان بڑھ کر چودہ ہزار کروڑ روپے سے متجاوز کرکیا، یعنی پچھلے چار سالوں میں یہ ادارہ زائد از بتیس ہزار کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار ہوگیا۔ انہی نقصانات کے پیش نظر حکومت ان اداروں کو مستقلاٌ بند کرنے پر غور کر رہی ہے۔ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ ادارہ خسارے اٹھا رہا ہے؟ جاننے کی کوشش کریں گے۔
جیو نے بازار میں آتے ہی کالنگ مفت کردی اور ڈیٹا تقریباً پچانوے فیصد سستا کردیا۔ صارفین نے دیگر مواصلاتی اداروں سے منتقل ہو کر جیو کو اپنانا شروع کردیا، جس سے جیو کی صارفین میں زبردست اضافہ ہوا اور ساتھ ہی اس کا سب سے زیادہ نقصان بی ایس این ایل کو ہوا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی یو سی IUC کے ضابطوں کی وجہ سے جیو کو نقصان ہو رہا تھا، یہاں پر بھی حکومت نے اپنے دوست کی خاطر ٹی آر اے آئی TRAI ضابطوں کو تبدیل کیا۔ یہ آئی یو سی کس بلا کا نام ہے؟ انٹر کنیکٹ یوسیج چارجیس Interconnect Usage Charges یعنی ایک آپریٹر خدمات حاصل کرنے پر، جیسے اگر آپ کا آپریٹر ائیرٹل ہے اور آپ کے دوست کا جیو، اگر آپ اپنے دوست کو فون کرتے ہیں تو ایسی صورت میں آپ اس اپریٹر کی خدمات حاصل کر رہے ہیں، اس کا خرچ اس کو دینا پڑتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ لوگ یہ کرنے لگے کہ دیگر آپریٹروں کے صارفین جیو کو مس کال دینے لگے، چوں کہ جیو پر کالنگ مفت تھی لوگ اس سے کال کرنے لگے، جس سے جیو کو کافی نقصان ہونے لگا، تب ان کے عزیز دوست سے یہ نقصان دیکھا نہ گیا اسی لیے اس کے لیے ضوابط بدلے گئے۔ یہ چارجس جو پہلے فی منٹ چودہ پیسے تھے اب اس کو گھٹا کر چھ پیسے کردیا گیا جس کا راست فائدہ جیو کو ہوا، لوگ دھڑا دھڑ جیو کی طرف منتقل ہونے لگے۔ لیکن یہاں بھی سب سے زیادہ نقصان بی ایس این ایل کو ہی ہوا۔
جیو کو مودی کا ایک اور تحفہ: ریگولیٹری ہالی ڈے Regulatory Holiday۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ادارے کو اپنے آغاز میں اس بات کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ کچھ نیا کرنا چاہتا ہو یا اپنے صارفین کو کچھ مفت دینا چاہتا ہو تو اسے صرف تین دن تک ایسا کرنے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن جیو تقریباً ایک سال تک اس سہولت کا فائدہ اٹھاتا رہا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ریلائنس اس شعبے میں اپنی طبع آزمائی کر چکا تھا اور بری طرح ناکام رہا، لیکن جب اس کے عزیز دوست نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے مواصلاتی ضوابط کو تبدیل کیا گیا، حالانکہ اصولی اعتبار سے جیو کو اتنی چھوٹ نہیں دینی چاہیے تھی۔
لیکن دوسری طرف بی ایس این ایل کو یہ مراعات حاصل نہیں تھیں۔ اس ادارے کے سربراہ کو اتنی بھی آزادی نہیں تھی کہ وہ ادارے کے لیے معمولی آلہ بھی خرید سکے، چہ جائیکہ وہ ضابطہ میں کوئی تبدیلی کرسکے۔ یہ اور دوسرے عوامل ہیں جن کی وجہ آج اس ادارے کی یہ درگت بنی ہے۔ حکومت کے لیے تو یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ وہ ادارے کو بند کر دے گی کیوں کہ اس کو یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس کو بنانے میں کتنی محنت اور عوام کا کتنا پیسہ لگا ہے۔ یہی وہ کمپنی ہے جو چند سال پہلے تک حکومت کو بھاری منافع دے رہی تھی، عوام نے جس طرح کی سرمایہ کاری کی تھی اس سے کئی گنا زیادہ اس ادارے نے منافع دیا ہے۔ ایس ڈی سکسینہ، جو بی ایس این ایل کے سابق ڈائریکٹر برائے مالیہ تھے ان کا کہنا ہے کہ "2008 میں اس ادارے میں جو سرمایہ کاری کی گئی تھی اس سے کئی گنا زیادہ رقم اس نے حکومت کو ادا کی ہے” انہوں نے فائنانشل ایکسپریس آن لائن کو بتایا کہ مواصلاتی شعبے میں یہ واحد ادارہ ہے جو پورے ہندوستان کی سطح پر مواصلاتی خدمات پیش کرتا ہے اور اس قسم کی خدمات فراہم کرنے والے ادارے کو حکومت بند کر دینا چاہتی ہے۔ یہ کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار ایک اور ماہرِ مواصلات روی وشویشورایا شاردا پرساد نے بھی کیا ہے جو کئی دہائیوں سے اس شعبے کا قریب سے جائزہ لیتے رہے ہیں۔
"میرے خیال میں، ملک میں عوامی شعبے کا ایک قومی مواصلاتی ادارہ ہونا چاہیے۔ حکمت عملی کا تقاضا بھی یہی ہے اور اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیونکہ نجی ادارے تجارتی خسارے کی بنا پر دور دراز کے علاقوں کا احاطہ نہ کریں‘‘ 2016 میں بی ایس این ایل اپنے صارف سے ایک سو اٹھارہ روپے کماتا تھا جبکہ دوسرے خانگی ادارے ایک صارف سے ایک سو چھبیس روپے کماتے تھے، تب ہی جیو نے بازار میں اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے، اس نے آتے ہیں صارفین کو اپنے جال میں پھنسایا، صارفین کو سستے داموں پر اپنی خدمات دینی شروع کر دیں۔ اسی مسابقتی دوڑ میں دوسروں کو بھی اپنی شرحیں گھٹانی پڑیں، جس سے خانگی مواصلاتی اداروں کے ساتھ بی ایس این ایل کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہاں تک کہ کئی ادارے بند ہو گئے۔ یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس مسابقت سے عوام کو تو فائدہ ہی ہو رہا تھا۔ ہاں! کچھ وقت کے لیے صارفین کو فائدہ تو ضرور ہوا ہے، لیکن آگے چل کر اس ادارے کی اجارہ داری قائم ہو گئی جیسا کہ آج ہم دیکھ بھی رہے ہیں اور بھگت بھی رہے ہیں۔ ان خانگی اداروں نے بعد میں اپنی شرحیں بڑھا دیں جس سے ان کی فی صارف آمدنی ایک سو چھتیس روپے فی ماہ ہوگئی۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ان خانگی اداروں نے اپنی آمدنی پہلے سے زیادہ بڑھالی جبکہ بی ایس این ایل ایسا نہیں کر سکا کیوں کہ اس پر حکومت کا کنٹرول تھا۔ آج بھی اس کی فی صارف آمدنی محض ترپن روپے ہی ہے، یعنی دیگر خانگی اداروں سے بی ایس این ایل ڈھائی گنا کم آمدنی پر اکتفا کر رہا ہے۔ پھر اس کے صارفین کی تعداد بھی بہت گھٹ گئی ہے کیونکہ وہ جیو کو منتقل ہوگئی ہے۔
جس بی ایس این ایل کا کاروبار سال 2006 میں چالیس ہزار کروڑ روپے تھا وہ 2022 کے آتے آتے محض 19,052 کروڑ تک رہ گیا یعنی کاروبار آدھے سے زیادہ گھٹ گیا۔ بی ایس این ایل نے اپنے پہلے آٹھ سالوں میں منافع بخش کاروبار کیا پھر اس نے 2009-2010 کے مالی سال میں پہلی مرتبہ خسارہ درج کروایا۔ اس خسارے کی ایک اہم وجہ اسی سال مواصلاتی قوانین میں ترمیم بھی ہے۔ بی ایس این ایل کے نقصان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر "سرخ فیتہ” (یعنی حکومت کے کارندوں میں اس کے تئیں رشوت وغیرہ) اور فیصلہ سازی میں سست روی بھی ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ جدید ٹکنالوجی کے آلات خریدنے اور صارفین کو اعلیٰ خدمات فراہم کرنے کے لیے فیصلے لینے کی ضرورت تھی اس موقع پر بروقت فیصلے نہیں لیے گئے۔ ٹو جی، تھری جی، فور جی اور اب فائیو جی ٹکنالوجی کا استعمال ہونے لگا ہے، لیکن بی ایس این ایل ہمیں کہیں نظر آتا۔ کیا وجہ ہے کہ ایک وقت کا اول درجے کا ادارہ ہمیں ان خدمات میں کہیں نظر نہیں آرہا ہے؟ اس کی ایک وجہ حکومتی سطح پر سرخ فیتہ والا فتنہ ہے۔ اس فتنے نے اس کی تباہی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک دور وہ تھا جب مرکزی بجٹ سے باہر کیپٹل اخراجات کی سربراہی کر رہا تھا اور بی ایس این ایل کا سرمایہ خرچ بھارتی ریلوے سے بھی زیادہ ہوا کرتا تھا اور اب یہ افسوسناک صورتحال! کہاں ہندوستان کی سب سے بڑی آئیل مارکیٹنگ کمپنی انڈین آئل سے زیادہ منافع کمانا اور کہاں اسے بند کرنے کی باتیں؟ یہ سب کچھ یوں ہی اتفاقاً نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی تباہی میں کسی گہری سازش کی بو آتی ہے۔
ایس ڈی سنہا نے بی ایس این ایل کی اس افسوسناک صورتحال کا ذمے دار خانگی مواصلاتی اداروں اور حکومت کے سخت ہراجی قوانین (tendering) کو ٹھہرایا ہے۔ بی ایس این ایل آج بھی فکسڈ لائن خدمات میں سب سے مضبوط ہے اور اب بھی لینڈ لائن ٹیلی فون بازار میں سب سے زیادہ حصہ داری پر یہی قابض ہے لیکن یہ موبائل شعبے میں خانگی کھلاڑیوں سے پچھڑ گیا ہے اور ان کی طرف سے درپیش چیلنجوں کا یہ مقابلہ نہیں کرپا رہا ہے۔
ایس ڈی سکسینہ نے کہا کہ "کمپنی موبائل شعبے میں بھی بہت اچھی کارکردگی دکھا رہی تھی اور اس شعبے میں تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی اور مزید آگے بڑھنا بھی چاہتی تھی لیکن مخصوص ہراجی قوانین ٹینڈرنگ کی وجہ سے یہ تیزی سے سامنے نہیں جاسکی”۔ ان دنوں موبائل شعبوں میں طلب اتنی زیادہ تھی کہ ایک ماہ میں ایک کروڑ سے زیادہ صارفین کا اس شعبے میں اضافہ ہو رہا تھا اور ہم اس شعبے میں تیزی سے جانا چاہتے تھے لیکن ہر بار ہمیں حکومت کی جانب یہ کہا جاتا تھا کہ عام ہراجی قوانین یعنی ٹینڈرنگ کے راستے ہی سے گزرا جائے، جب یہ قانون دیگر خانگی اداروں پر لاگو نہیں تھا اور ٹکنالوجی بھی بہت تیزی سے بدل رہی تھی‘‘ اور ہم اس وجہ سے آگے نہیں بڑھ پا رہے تھے۔ "جب بھی کوئی بولی ٹینڈر لگائی جاتی، حکومت اس کو مسترد کر دیتی۔ اگر اس طرح ادارے کے ہاتھ پیر باندھ کر کھیلنے کے لیے کہیں گے تو کیسے وہ کھیل پائے گا؟ یہی سب سے آسان طریقہ ہے کسی ادارے کو ختم کرنے کا”۔ سال 2016 میں جب فور جی ٹکنالوجی کے اسپیکٹرم کی نیلامی ہوئی تو اس میں بی ایس این ایل کو شامل نہیں ہونے دیا گیا، ایسا نہیں ہے کہ اس ادارے کے سربراہوں نے حکومت کو توجہ نہیں دلائی تھی، بلکہ انہوں نے حکومت کو سترہ خطوط لکھ کر ادارے کو نیلامی شامل کرنے کی استدعا کی لیکن حکومت کی کان پر جوں تک نہیں رینگی نتیجے میں 1.65 لاکھ سے زیادہ ملازمین کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے، کیوں کہ مرکزی حکومت کئی ایک ایسی تجاویز پر غور کر رہی ہے جس میں اس ادارے کو مکمل طور پر بند کردینا بھی شامل ہے اور زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اس کو جلد یا بدیر بند کردے گی۔ اطلاعات کے مطابق وزارت خزانہ نے مواصلاتی محکمہ کی جانب سے پیش کردہ ستر ہزار کروڑ روپے کی بحالی کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور اس کے بجائے حکومت نے بی ایس این ایل اور ایم ٹی این ایل دونوں کو بند کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
***
بی ایس این ایل کے 1.65 لاکھ سے زیادہ ملازمین کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے کیوں کہ مرکزی حکومت کئی تجاویز پر غور کر رہی ہے جس میں اس ادارے کو مکمل طور پر بند کردینا بھی شامل ہے اور زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اس کو جلد یا بدیر بند کردے گی۔۔۔ وزارت خزانہ نے مواصلاتی محکمہ کی جانب سے پیش کردہ ستر ہزار کروڑ روپے کی بحالی کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور اس کے بجائے حکومت نے بی ایس این ایل اور ایم ٹی این ایل دونوں کو بند کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مارچ تا 11 مارچ 2023