بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن!

مدھیہ پردیش، راجستھان، یو پی اور اتراکھنڈ میں قانون پر بھاری بلڈوزر؟

محمد ارشد ادیب

وزراء اعلی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ۔نا انصافی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی خاموشی معنی خیز!
یو پی میں محکمہ بنیادی تعلیم کی دو ٹیچروں پر عجیب و غریب کارروائی پر کیوں اٹھ رہے ہیں سوالات؟
بی جے پی کے زیر اقتدار شمالی ہند کی ریاستوں میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنتی جا رہی ہے۔ مدھیہ پردیش ہو یا راجستھان، اتر پردیش ہو یا اتراکھنڈ، اب سڑکوں پر ’انصاف‘ معمول بنتا جا رہا ہے۔ الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی ملزموں کے گھر زمین دوز کیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں مقامی انتظامیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے انصاف کے سارے تقاضوں کو روند ڈالا ہے ۔
مدھیہ پردیش کے ضلع چھتر پور میں حاجی شہزاد علی اور دیگر مسلمانوں کے خلاف پولیس کی کارروائی نے یو پی پولیس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے ناموس رسالت کی بے حرمتی کرنے والے ایک بابا کے خلاف جلوس نکالنے کی جرأت کی، جس کے دوران چند شر پسند عناصر نے پولیس تھانے پر پتھراو کر دیا۔ مقامی انتظامیہ نے جوابی کارروائی میں حاجی شہزاد علی کی عالی شان کوٹھی کو غیر مجاز قرار دے کر بلڈوزر سے مسمار کرا دیا۔ کوٹھی میں کھڑی مہنگی گاڑیوں کو ضبط کرنے کے بجائے کچل دیا گیا اور بعد میں انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا جبکہ دیگر ملزمین کی شہر کی سڑکوں پر پریڈ کرائی گئی اور نعرے لگوائے گئے’’ اپرادھ کرنا پاپ ہے پولیس ہماری باپ ہے‘‘ سینئر صحافی آس محمد کیف نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایکس پر لکھا’’مدھیہ پردیش کے وزیراعلی موہن یادو کو اس کارروائی میں بڑا سیاسی فائدہ نظر آتا ہے۔ مرکز بھی سمجھتا ہے کہ مقصد یو پی میں یادو-مسلم گٹھ جوڑ پر ضرب لگانا ہے۔ آس محمد کیف نے اس کارروائی کے خلاف مدھ پردیش کی کانگریسی لیڈرشپ کی خاموشی پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ واضح رہے کہ اس معاملے میں پارٹی صدر ملکارجن کھرگے اور پرینکا گاندھی نے ایکس پر بیان تو ضرور جاری کیا لیکن نہ تو شہزاد علی کا نام لیا اور نہ مسلمانوں کا ذکر کیا۔ واضح رہے کہ شہزاد علی کانگرس کے سرگرم لیڈر ہیں۔ اس کے باوجود مدھیہ پردیش کا کوئی بھی کانگریسی لیڈر ان کے حمایت میں سامنے نہیں آیا۔ چھتر پور واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل نے لکھا ’’چھتر پور میں بلڈوزر سے جو گھر گرایا گیا ہے وہ دیش پر کلنک ہے، جوڈیشری پر کلنک ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو اس کا از خود نوٹس لینا چاہیے تھا‘‘
بلڈوزر کارروائی میں یو پی سب سے اگے ہے۔ تاہم، اب دیگر ریاستوں میں بھی بلڈوزر بابا کے پیروکار پیدا ہو گئے ہیں۔ مدھیہ پردیش کا چھترپور ہو یا کھرگون۔ حال ہی میں راجستھان کے اودے پور میں بھی ایک ملزم کے گھر پر بلڈوزر کی کارروائی کی گئی۔ یو پی میں تو بلڈوزر کی اتنی کارروائیاں ہو چکی ہیں کہ کچھ لوگ اسی کو اصلی انصاف سمجھ بیٹھے ہیں۔
ریاست کے ضلع فتح پور میں سماج وادی لیڈر حاجی محمد رضا کو ہسٹری شیٹر قرار دے کر بیس کروڑ روپے مالیت کا شاپنگ کمپلیکس بلڈوزر سے منہدم کر دیا گیا۔ سماج وادی پارٹی کے لیڈر ائی پی سنگھ نے اس پر سوال اٹھاتے ہوئے ایکس پر لکھا "ملک میں اب عدالتوں کی ضرورت نہیں رہی۔ چھ مہینے میں ہسٹری شیٹر بنا دیا جاتا ہے پھر جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگا کر گھر یا تجارتی مراکز کو زمین دوز کر دیا جاتا ہے۔ انصاف مانگنے کے لیے عوام کس کے در پر دستک دیں؟‘‘۔ یاد رہے کہ حاجی محمد رضا پر پارلیمانی انتخابات کے دوران وزیراعظم کے خلاف نازیبا بیان بازی کے علاوہ کئی مقدمات درج ہیں جنہیں بنیاد بنا کر ان کے زیر تعمیر شاپنگ مال کو منہدم کر دیا گیا۔
الٰہ اباد کے سماجی کارکن جاوید محمد نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر خصوصی بات چیت کرتے ہوئے اپنے ذاتی تجربات شیئر کیے انہوں نے بتایا کہ بی جے پی کی لیڈر نپور شرما کے خلاف ان کے شہر میں ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا وہ اس احتجاجی جلوس میں موقع پر موجود بھی نہیں تھے اس کے باوجود ان پر پانچ مقدمات لگا کر جیل بھیج دیا گیا، تقریبا 21 ماہ بعد گشتہ مارچ میں انہیں ضمانت پر رہائی نصیب ہوئی، اس دوران الٰہ اباد میں ان کی اہلیہ کے نام پر درج گھر کو منہدم کر دیا گیا جس کے معاوضے کا کیس الٰہ اباد ہائی کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے۔ پچھلے ایک سال سے تاریخ پر تاریخ لگ رہی ہے لیکن سماعت کی تاریخ نہیں آ رہی۔ جاوید محمد نے مزید بتایا کہ ابھی بھی انہوں نے انصاف کی امید نہیں چھوڑی ہے وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے وکیلوں سے قانونی مشورہ کر رہے ہیں۔ جاوید محمد کی اہلیہ پروین فاطمہ نے اس سلسلے میں ایک مکتوب الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھیجا ہے جس میں اپنے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے آنریبل چیف جسٹس سے ٹائم باؤنڈ سماعت کرانے کی درخواست کی ہے۔ جاوید محمد کی بیٹی سمیہ فاطمہ کی طرف سے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو بھی ایک مکتوب لکھا گیا ہے جس میں انہدامی کارروائی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ملاقات کا وقت مانگا ہے تاکہ ان کی فیملی کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی ہے اس پر تبادلہ خیال کیا جا سکے اور انصاف کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں کانگرس کی مدد حاصل کی جا سکے۔ جاوید محمد کے وکیل کے کے رائے نے حال ہی میں الٰہ اباد میں منقدہ سمودھان سمیلن میں راہل گاندھی کے سامنے اس معاملے کا ذکر کیا تھا۔ جاوید محمد کے مطابق انہوں نے ہمیشہ ناانصافی کے لیے آواز اٹھائی ہے لیکن ان کے معاملے میں ایسا نہیں ہو سکا جس کا انہیں افسوس ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہار نہیں مانی ہے اور انصاف کی لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس سلسلے میں اے پی سی آر بھی ان کی مدد کر رہی ہے۔ اے پی سی ار کی قانونی ٹیم نے مدھیہ پردیش کے چھترپور اور راجستھان کے اودے پور معاملے میں سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے۔ جاوید محمد اس مہم کو آگے بڑھانے کے لیے کئی ارکان پارلیمنٹ سے دلی میں ملاقات کر چکے ہیں۔ان کے مطابق پارلیمنٹ کے ائندہ اجلاس میں اس مسئلے کی گونج سنائی دے گی۔
یو پی میں ریاستی اسمبلی کی دس سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق انتخابات سے قبل سیاسی پولرائزیشن کا کھیل شروع ہو گیا ہے۔ وزیراعلی یوگی نے ’’بٹو گے تو کٹو گے‘‘ کا بیان اسی تناظر میں دیا ہے۔
فتح پور، ایودھیا اور مین پوری میں مسلم لیڈروں کے خلاف انہدامی کارروائی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ سیاسی منافرت کا یہ کھیل زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے ۔
بجنور کے ایک سرکاری اسکول میں تنویر عائشہ نامی استانی پر بچوں کو تلک لگا کر آنے سے منع کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ محکمہ بنیادی تعلیم نے ٹیچر کو معطل کر کے تنخواہ میں اضافے کی کارروائی روک دی لیکن جب وہی استانی اسکول سے جانے لگی تو اسکول کے طلباء و طالبات انہیں روکنے کے لیے رونے لگے ۔جس کی ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہو چکی ہے ۔
یوپی کے ضلع رامپور میں ایک مسلم خاتون عاصمہ پروین نے معائنہ کے لیے اسکول آنے والے سی ایم او پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے۔ دراصل سی ایم او ایس پی سنگھ کشن پور اٹاریہ اسکول میں آنگن واڑی کا معائنہ کرنے گئے تھے اس دوران انہوں نے کمپوزٹ اسکول کا بھی جائزہ لیا۔ ان کے مطابق جب اسکول ٹیچر سے بچوں کی تعلیمی ترقی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’’سب گدھے، گھوڑے نہیں بن سکتے‘‘ سی ایم او نے ضلع تعلیمی کمیٹی کی میٹنگ میں جب اس واقعہ کا راز فاش کیا تو بی ایس اے نے ٹیچر کو معطل کر دیا۔ خاتون ٹیچر کا کہنا ہے کہ ان کا موقف جانے بغیر ان کے خلاف کارروائی کر دی گئی جبکہ سی ایم او نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ آپ تو بہت سندر ہو مجھے شیرنی بستر پر پسند ہے‘‘۔ فی الحال یہ معاملہ موضوع بحث بنا ہوا ہے اسکول کے سابق طلباء کے ساتھ مقامی افراد اسکول ٹیچر پر ایک طرفہ کارروائی پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ضلع کے اعلیٰ حکام نے اس معاملے میں سکوت اختیار کیا ہوا ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ اگلے ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024