!بی جے پی کو کرناٹک میں لوک سبھا کی نشستوں کی فکر

اگرمودی کا کرشمہ اور ہندوتوا کافی نہیں تو اس کا متبادل کیا ہے؟

محمد طلحہ بھٹکل

کیا سینگول کام کررہاہے؟ کیا مودی بنارس چھوڑ کر تمل ناڈوآرہے ہیں؟
مودی کا کرشمہ اور ہندوتوا الیکشن جیتنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ پیغام کھلے عام آر ایس ایس کے ترجمان دی آرگنائزر نے دیا ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے پٹنہ میں کانگریس سمیت چودہ پارٹیوں کی ایک اہم میٹنگ ہوئی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا ماننا ہے کہ اگر ہم متحد ہوجائیں تو بی جے پی کو شکست دے سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے لیکن عارضی ہے۔ اگر آپ کے پاس بی جے پی کے لائحہ عمل کا متبادل منصوبہ نہیں ہے تو آپ کا اتحاد اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی فتح بھی عارضی ہوگی۔ اب اگر ہم بی جے پی کے ایکشن پلان کی بات کریں، تو وہ اب تمل ناڈو میں اپنی موجودگی دکھانے جا رہی ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے، جو نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے افتتاح کے بعد تمل ناڈو گئے تھے، پارلیمنٹ میں سینگول نصب کرنے کے بدلے میں لوک سبھا کی کم از کم بیس سیٹیوں پر جیت دلانے کا تمل عوام سے مطالبہ کیا ہے۔ یہی نہیں، انہوں نے مستقبل میں تاملوں کو وزیر اعظم بنانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
بی جے پی اس بات سے واقف ہے کہ کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اگلے لوک سبھا انتخابات پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ بی جے پی یہ محسوس کر رہی ہے کہ کرناٹک میں پچھلی تاریخ دہراتے ہوئے وہ اٹھائیس لوک سبھا حلقوں میں سے پچیس سیٹیں حاصل نہیں کر سکتی، امت شاہ سمیت بی جے پی کے رہنما جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں کھوئی ہوئی سیٹیں ایک اور جنوبی ہند ہی کی ریاست تمل ناڈو میں تلاش کر رہے ہیں۔ کرناٹک میں ہونے والی ہار کی پابجائی تمل ناڈو سے کرنے کے لیے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔
انا ملائی، ایک سابق آئی پی ایس افسر ہیں جو اب تمل ناڈو بی جے پی کی صدر ہیں، وہ پارٹی میں نظریاتی وابستگی کے ساتھ شامل ہوئے ہیں جو شمالی ہند کے زعفرانی ٹولے سے آگے بڑھ کر پارٹی کی وفاداری اور خدمت میں لگے ہوئے ہیں، حالانکہ تامل ناڈو میں ابھی بی جے پی کو اتنی طاقت نہیں ملی ہے کہ وہ وہاں اسمبلی کی ایک نشست بھی جیت سکے۔ تمل ناڈو میں امیت شاہ کی تقریر اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ امیت شاہ نے کہا کہ این ڈی اے گروپ کی پارٹیوں کو اپنے ممبران چن کر پارلیمنٹ میں بھیجنا چاہیے۔
بی جے پی کے انتالیس ایم پیوں کے ساتھ جنوبی ہند کی بڑی ریاست تمل ناڈو کے لیے امیت شاہ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ اگلے انتخابات میں کم از کم نصف ممبران اسمبلی کا تعلق این ڈی اے سے ہونا چاہیے۔ سینگول کے نصب کرنے کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ تمل عوام کو وہاں سے جیتے ہوئے کسی فرد کو وزیر اعظم کے روپ میں دیکھنے کے لیے تیار رہنے کی "خوش خبری” بھی سنائی ہے۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات کانگریس کے حق میں رہے، اس لیے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کو ہلکے میں نہیں لیا جا سکتا۔ آرگنائزر نے مشورہ دیا کہ بی جے پی کے لیے حالات کا جائزہ لینے کا یہ صحیح وقت ہے۔ بی جے پی کے لیڈر کہہ رہے ہیں کہ اگلے لوک سبھا انتخابات میں کرناٹک میں موجودہ پچیس سیٹوں میں سے نصف کو برقرار رکھنا بھی بی جے پی کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ رہی بات تمل ناڈو میں بی جے پی کی سیاست کی تو گزشتہ اسمبلی انتخابات میں یہاں اسے صرف 3.66 ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس پس منظر کے ساتھ بی جے پی آخر بیس ارکان اسمبلی جیتنے کا خواب کیسے دیکھ سکتی ہے؟ کیا وزیر اعظم نریندر مودی بنارس لوک سبھا حلقہ چھوڑ کر تمل ناڈو میں الیکشن لڑیں گے؟ یہ دل چسپ بات ہے کہ مودی یا کوئی اور، جے للیتا اور کروناندھی کے خلا کو پر نہیں کر سکتے اس کے لیے زعفرانی پارٹی کیا کرے گی؟
بی جے پی، جو مرکز میں ہیٹ ٹرک حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے، اسے پچھلی بار تین سو سے زیادہ سٹیں دلانے والے مودی کے چہرے کی بھی اب کوئی وقعت نہیں رہی، یہ بات خود آر ایس ایس نے اپنے ترجمان ’آرگنائزر‘ میں کہی ہے۔ جیسا کہ مودی نے کرناٹک الیکش کے لیے کئی بار ریاست کا دورہ کیا، کئی ریلیاں نکالیں اور بجرنگ بلی کی جئے کے نعرے لگانے کے باوجود یہاں بی جے پی کے ہاتھ کچھ نہیں لگا۔ اب تک بی جے پی نے تیس سے زیادہ حلقوں میں جمع پونجی کھو دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے جنوبی ہند کے گیٹ وے پر شٹر لگا دیا ہے۔ اب اس کی نظر تمل ناڈو پر لگی ہوئی ہے۔ گجرات لابی نے زعفرانی پارٹی کو کرناٹک میں جھٹکا دیا ہے۔ اس کا دباؤ اب تمل ناڈو کے بی جے پی ممبران پر پڑ رہا ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ سینگول پکڑ کر تمل ناڈو سے جیتنے والے کو وزیر اعظم بنانے کے خواب دکھا رہے ہیں۔ اسمبلی کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب میں صدر جمہوریہ کو بلائے بغیر، تمل پجاریوں کو خصوصی طیارے کے ذریعہ دہلی بلوایا گیا، اور مودی سینگول کے آگے سجدے میں گر پڑے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ پجاریوں کے ذریعہ نصب کردہ سینگول کا اپنے آپ کو دراوڑ کہنے والے تملوں پر کتنا اثر پڑےگا؟
1968 کے بعد تمل ناڈو میں کوئی قومی پارٹی اقتدار میں نہیں آئی۔ پچھلے باسٹھ سالوں سے تمل ناڈو کی سیاست انا دورائی، ایم جی رامچندرن، جے للیتا اور کروناندھی کے ارد گرد گھومتی رہی ہے۔ یہ بات دل چسپ ہے کہ بی جے پی، جے للیتا اور کروناندھی جیسے قد آور لیڈروں کے بغیر تمل ناڈوکی سیاست میں گھسنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی نے انامالائی جیسے آئی پی ایس افسر کو برطرف کر کے پارٹی میں شامل کیا ہے تو کوئی نہ کوئی دور رس منصوبہ ضرور ہوگا۔
جنوبی ہند کی ریاستوں میں تمل ناڈو، کرناٹک، کیرالا، آندھرا پردیش اور تلنگانہ سمیت 129 لوک سبھا حلقے ہیں، جن میں سے بی جے پی نے اکیلے کرناٹک میں پچیس سیٹیں جیتی تھیں اب وہ ساوتھ مشن کو تمل ناڈو منتقل کر رہی ہے۔
شروع میں جب بی جے پی ہندوتوا ایجنڈے کے ساتھ آئی تھی تو اس وقت کے دانشوروں کا دعویٰ تھا کہ ہندوستان میں ہندوتوا کا ایجنڈہ نہیں چلے گا اور وہ بی جے پی کی حکمت عملیوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ جن لوگوں نے ہندوتوا کو نظر انداز کیا ان میں سے زیادہ ترلوگ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن بی جے پی نے ہندوتوا ایجنڈے کے ساتھ ریاستوں اور مرکز میں بھی بھاری اکثریت سے اقتدار قائم کر لیا۔ اب وہ سینگول اور وزیر اعظم کے عہدے کا لالچ دے کر تمل ناڈو میں داخل ہو رہے ہیں۔
اس وقت بی جے پی کی حکمت عملیوں کو نظر انداز کرنے کا انجام اب سامنے آ رہا ہے اور اب جنوب میں بھی بی جے پی کی حکمت عملی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
بی جے پی ہندوتوا کے ایجنڈے کو جمانے کے لیے مسلم دشمنی اور پاکستان کا نام سامنے رکھتی تھی۔ بد قسمتی سے تمل ناڈو میں مسلمانوں کے خلاف نفرت والا ایجنڈا نہیں چل سکتا اور ڈراویڈ ریاست میں ہندوتوا اور رام مندر بھی نہیں چل سکتا اس لیے بی جے پی سینگول اور وزیر اعظم کے عہدہ کا لالچ دے رہی ہے۔
سینگول ڈنڈا 27 فیصد ہندوؤں متحد کر سکتا ہے، وزیر اعظم کے عہدے کا لالچ دراوڑیوں کو قائل کرنے کی اسکیم کا حصہ ہے۔ اب اگر فی الوقت یہ اسکیم کام نہیں کر رہی ہو تو بھی مستقبل میں کچھ نہ کچھ کر سکتی ہے۔
اب ایک نظر اعداد وشمار پر بھی ڈال لیں۔ ڈی ایم کے نے پہلے ہی 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے کانگریس کے ساتھ نشستوں کی تقسیم کا معاہدہ کیا ہے۔ انتالیس حلقوں میں سے نو سیٹیں کانگریس کو دی گئی ہیں۔ ڈی ایم کے نے باقی تیس سیٹیں اپنی سات دیگر جماعتوں کے ساتھ تقسیم کرنی ہیں۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں دراویڈ منیترا کژگام نے بیس حلقوں میں مقابلہ کیا اور تمام میں کامیابی حاصل کی، جب کہ کانگریس نے نو حلقوں سے مقابلہ کیا اور آٹھ حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی کے اتحاد اکھل بھارت انا دراوڑ منیترا کژگام نے ایک سیٹ جیتی، جب کہ بی جے پی نے پانچ سیٹوں پر الیکشن لڑا لیکن نتیجہ صفر رہا۔ پچھلی بار ڈی ایم کے-کانگریس اتحادکو 53.53 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔
***

 

***

 شروع میں جب بی جے پی ہندوتوا ایجنڈے کے ساتھ آئی تھی تو اس وقت کے دانشوروں کا دعویٰ تھا کہ ہندوستان میں ہندوتوا کا ایجنڈہ نہیں چلے گا اور وہ بی جے پی کی حکمت عملیوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ جن لوگوں نے ہندوتوا کو نظر انداز کیا ان میں سے زیادہ ترلوگ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن بی جے پی نے ہندوتوا ایجنڈے کے ساتھ ریاستوں اور مرکز میں بھی بھاری اکثریت سے اقتدار قائم کر لیا۔ اب وہ سینگول اور وزیر اعظم کے عہدے کا لالچ دے کر تمل ناڈو میں داخل ہو رہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جولائی تا 08 جولائی 2023