بی جے پی کے لیے جنوبی ہند ایک معمہ

ہندوتو نظریات کو ملک بھر میں پھیلانے کا طویل مدتی منصوبہ

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

حالیہ تلنگانہ انتخابات میں حکومت بنانے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی کو ایک بار پھر منہ کی کھانی پڑی۔ چند دن قبل کرناٹک میں بھی اسے بڑی ہزیمت اٹھانی پڑی تھی جہاں وہ برسرِ اقتدار تھی لیکن وہاں کے عوام نے اسے اقتدار سے اتار دیا۔ اس سے قبل بی جے پی نے تمل ناڈو میں اے ڈی ایم کے سے ناطہ توڑ لیا۔ آندھرا پردیش میں تلگو دیشم پارٹی اس سے ملنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اسے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آیا اس سے اشتراک کرے یا نہ کرے، کیوں کہ اس کا در پردہ اشتراک وائی ایس آر کانگریس سے قائم ہے اور وہ جنا سینا سے بھی اشتراک کرنا چاہتی ہے۔ اسے سجھائی نہیں دے رہا ہے کہ وہ کیا کرے۔ ویسے آندھراپردیش میں اس کا کوئی خاص اثر پہلے سے بھی موجود نہیں ہے، بہر حال وہ مخمصے میں پڑی ہوئی ہے کہ وہ کس سے اتحاد و اشتراک کرے۔ اس نے کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں ذلت آمیز شکست کے بعد آنے والے پارلیمانی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جنتا دل سیکولر سے اتحاد کرلیا ہے۔ جنوبی ہند کی ان تین ریاستوں میں اس کا منصوبہ تین مختلف سمتوں میں دکھائی دیتا ہے، ایک طرف وہ کرناٹک میں علاقائی پارٹی سے اتحاد کر رہی ہے، دوسری طرف تمل ناڈو میں اتحاد توڑ رہی ہے، تیسری طرف آندھراپردیش میں وہ ایک ایسی پارٹی سے اتحاد کرنا چاہتی ہے جس کا کوئی اثر نہیں ہے، چوتھی جانب تلنگانہ میں کسی سے اتحاد کرنا نہیں چاہتی۔ وہ جنوبی ہند کی ریاستوں سے متعلق مخمصے میں پڑی ہوئی ہے کہ کیا موقف اختیار کرے۔ وہ کئی دہائیوں سے اپنی فرقہ پرست، ہندتو نظریات کو پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے، لیکن اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اگر اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان ریاستوں میں اس کے دو منصوبے نظر آتے ہیں، ایک طویل مدتی منصوبہ اور ایک قلیل مدتی منصوبہ۔
طویل مدتی منصوبہ یہ ہے کہ جنوبی ہند کی ساری ریاستوں میں اس کے ہندتو نظریات کو پھیلایا جائے، ہر ریاست میں اس کی حکومت کسی علاقائی پارٹی کی مدد کے بغیر قائم ہو۔ یہ اس کی طویل مدتی منصوبہ بندی ہے۔ اس کی قلیل مدتی منصوبہ بندی یہ ہے کہ فوری طور پر اسے چند سیٹیں حاصل ہو جائیں، اس کا ووٹ کا تناسب بڑھے تاکہ قومی سطح پر اس کا موقف مضبوط ہو، اسی لیے وہ علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کرتی ہے۔ لیکن اس قلیل مدتی منصوبے پر عمل آوری کے لیے وہ صحیح فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے کہ کس سے اتحاد کرے کس سے نہ کرے۔ کبھی اس منصوبے کے تحت اسے کچھ کامیابی مل جاتی ہے لیکن طویل مدتی منصوبہ پر عمل درآمد نہیں کر پا رہی ہے۔
کرناٹک میں اس کے پاس 25 پارلیمانی سیٹیں ہیں، وہاں اس کا موقف بہت مضبوط ہے، لیکن اسمبلی انتخابات میں ہار کے بعد ان سیٹیوں کو باقی رکھنا مشکل نظر آرہا ہے، اسی لیے اس نے یہاں جنتا دل ایس سے اتحاد کرلیا ہے۔ بی جے پی اپنے منصوبے کے مطابق اپنا موقف مضبوطی سے برقرار رکھنا چاہتی ہے، چوں کہ جنتا دل ایس کمزور پڑ چکی ہے، اگر اس کو ساتھ لیا جاتا ہے تو اس کے چیدہ چیدہ ووٹ حاصل ہو جائیں گے، اور جو ووٹ اسمبلی انتخابات میں اس کے ہاتھ سے نکل گئے تھے اس کی بھرپائی جنتا دل ایس کے ووٹوں سے پوری ہو جائے۔ یہاں اس کا موقف واضح سمجھ میں آ رہا ہے۔ ویسے بی جے پی اپنے علاقائی حلیفوں سے اتحاد کرتی ہی اس لیے ہے کہ ان کا ووٹ شیئر اسے حاصل ہو جائے اور کچھ عرصے کے بعد اس علاقائی پارٹی کو اپنے میں ضم بھی کر لیتی ہے۔ اس اتحادی پارٹی کو اس قدر کمزور کر دیتی ہے کہ اس کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے اپنی بقاء کی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ جس کسی سے بھی وہ اتحاد کرتی ہے اس پر یہ آہستہ آہستہ قبضہ کرتی چلی جاتی ہے، یہی وجہ ہے اس کا اتحاد پختہ نہیں ہوتا، وہ مستقل اتحاد کا منصوبہ نہیں بناتی، جب تک اس سے فائدہ حاصل ہوتا رہتا ہے وہ اس کے ساتھ ہوتی ہے، اور جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس سے کام لے لیا گیا ہے تو اس سے اتحاد ختم کرلیتی ہے۔ اس کے پاس کوئی مستقل دوست اور کوئی مستقل دشمن نہیں ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں بہار میں جے ڈی یو اور مہاراشٹر میں شیو سینا ہے۔ اب اس کا شکار جے ڈی ایس ہونے والی ہے۔ مذکورہ بالا ریاستوں میں بی جے پی کا کچھ نہ کچھ وجود پایا جاتا ہے، لیکن تمل ناڈو اور آندھراپردیش میں اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہ وہاں اپنے وجود کو قائم کرنا چاہتی ہے، اپنے اثر کو بڑھانا چاہتی ہے۔ اسی بات کے پیش نظر وہ یہاں کی علاقائی پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے۔ اسی منصوبے کے تحت اس نے اے ڈی ایم کے سے اتحاد کیا۔ جیسے ہی جئے للیتا آنجہانی ہوئی اس نے سوچا کہ اپنے آپ کو مضبوط کرنے کا یہ اچھا موقع ہے۔ اس نے سوچا کہ جئے للیتا مرنے کے بعد اے ڈی یم کے کمزور ہوگئی ہے لہٰذا موقع کا فائدہ اٹھایا جائے اس سے اتحاد کرکے اس کا سارا ووٹ شیئر اپنی طرف موڑ لیا جائے، اسی کوشش میں وہ اے ڈی یم کے کو کمزور کرنے لگی، لیکن اس کے منصوبوں کے خلاف پلانی سوامی کھڑے ہو گئے، نتیجے میں بی جے پی کا منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔
حقیقت یہ ہے کہ ان علاقائی پارٹیوں کی پشت پر کوئی نہ کوئی طبقہ موجود ہوتا ہے، جیسے آندھراپردیش میں کمّا طبقہ تلگو دیشم کی پشت پر کھڑا ہے، وائی یس آر کانگریس کی پشت پر ریڈی اور دیگر بی سی طبقات کھڑے ہیں۔ کرناٹک میں لنگایت طبقہ بی جے پی کی پشت پر کھڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو کرناٹک میں کامیابی ملی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے تلنگانہ، آندھراپردیش اور تمل ناڈو میں کوئی سیاسی طور پر مضبوط طبقہ اس کی پشت پر نہیں ہے۔ وہ اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کوئی ایک سیاسی طور پر مضبوط طبقہ اس کے ساتھ آ جائے۔ لیکن ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
علیحدہ تلنگانہ کی حمایت کرنے کے باوجود اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ وہیں کچھ عرصہ سے وہ تمل ناڈو میں علیحدہ کوئمبتور کا مطالبہ کرنے والوں کی حمایت میں کھڑی ہوئی ہے اور ان کی مدد کر رہی ہے، تاکہ ایک طبقہ اس کی طرف آ جائے لیکن اس میں بھی اسے کامیابی حاصل ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اسی طریقے سے وہ آندھراپردیش میں کاپو طبقے کی حمایت حاصل کرنے کوششوں میں لگی ہوئی ہے، اسی کوشش کے تحت اس نے مشہور اداکار چرنجیوی کو اپنے ساتھ لانے کوشش کی لیکن وہ نہیں آئے۔ ان کے بھائی جنا سینا پارٹی کے سربراہ پون کلیان کو ساتھ لیا ہے لیکن کاپو طبقہ بی جے پی کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بنیادی طور پر جنوبی ہند کی ریاستوں میں فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی ہندتو نظریات کو قبول کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ جو ہندو یہاں بستے ہیں وہ مذہبی طور پر تو ہندو ہوتے ہیں، وہ ہندو مذہب کے پیروکار ہوتے ہیں لیکن ہندتو کے حامل نہیں ہوتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں خواندگی کی شرح زیادہ پائی جاتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ ان علاقوں میں بی سی، ایس سی اور ایس ٹی طبقے کی اکثریت ہے، ان میں ایس سی و ایس ٹی بنیادی طور ہندو نہیں ہیں، ہندو مذہب سے ان کا تعلق نہیں ہے، ان میں اکثر بودھ مذہب کے پیروکار ہیں یا عیسائی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ان علاقوں میں مذہبی منافرت کم پائی جاتی ہے، اس کے برعکس یہاں مذہبی رواداری و بھائی چارگی زیادہ پائی ہے۔ یہی وجہ ہے یہاں ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ امن اور معاشی طور پر خوش حالی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے ان علاقوں میں بی جے پی کی دال نہیں گل رہی ہے۔
***

 

***

 بی جے پی کا طویل مدتی منصوبہ یہ ہے کہ جنوبی ہند کی ساری ریاستوں میں اس کے ہندتو نظریات کو پھیلایا جائے، ہر ریاست میں اس کی حکومت کسی علاقائی پارٹی کی مدد کے بغیر قائم ہو۔ یہ اس کی طویل مدتی منصوبہ بندی ہے۔ اس کی قلیل مدتی منصوبہ بندی یہ ہے کہ فوری طور پر اسے چند سیٹیں حاصل ہو جائیں، اس کا ووٹ کا تناسب بڑھے تاکہ قومی سطح پر اس کا موقف مضبوط ہو، اسی لیے وہ علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کرتی ہے۔ لیکن اس قلیل مدتی منصوبے پر عمل آوری کے لیے وہ صحیح فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے کہ کس سے اتحاد کرے کس سے نہ کرے۔ کبھی اس منصوبے کے تحت اسے کچھ کامیابی مل جاتی ہے لیکن طویل مدتی منصوبہ پر عمل درآمد نہیں کر پا رہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023