آسیہ تنویر
بھارت کا قابل فخر سپوت جس کی محنت، جستجو اور کارناموں کے آگے ہر ایوارڈ ہیچ ہے
کہتے ہیں کہ زندگی میں کچھ ایسا کر جاؤ کہ تمہارے نام سے بڑا تمہارا کام ہو جو تمہاری پہچان بن جائے، جہاں ہر ایوارڈ تمہارے سامنے ہیچ نظر آئے، تاریخ تمہارے نام کے بغیر ادھوری اور نامکمل نظر آئے۔ایسا ہی ایک نام ”برڈ میان آف انڈیا“ ڈاکٹر سالم علی کا ہے جن کی 126ویں یوم پیدائش کے موقع پر بھی انہیں خراج تحسین پیش کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ حکومتِ ہند ان کی یوم پیدائش کو ”برڈ واچر ڈے“ کے طور پر مناتی ہے۔ان کے قابلِ قدر کارناموں کی تعریفیں کرتے ہوئے وزیر اعظم طلباء کو بھارت کے اس حقیقی رتن کے نقش قدم پر چلنے کی تحریک دیتے ہیں۔ پرندوں سے لگاؤ رکھنے والے ان کا نام عزت و تکریم سے لیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ان کی محنت اور لگن کی عزت افزائی ہوتی ہے ان کی خدمات پر انہیں بے شمار اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ ان کی کتابوں کو آرنتھیولوجی (پرندوں کا مطالعہ) میں بنیاد مانا جاتا ہے اور آج بھی سوشل میڈیا پر لوگ انہیں حقیقی بھارت رتن کہتے ہوئے کسی بھی ایوارڈ کی حد سے اعلی قرار دیتے ہیں۔ سالم علی نے پہلی مرتبہ نہ صرف بھارت میں بلکہ تمام برصغیر میں پرندوں کا گہرائی سے مرحلہ وار مشاہدہ، مطالعہ اور سروے کا آغاز کیا۔ وہ ایک ماہر نیچرل ہسٹری (فطری تاریخ) بھی تھے۔
ڈاکٹر سالم علی نے ایک ایسے وقت میں پرندوں پر اپنی تحقیق کا آغاز کیا جب پیشہ ور آرنتھیولوجسٹ شاید ہی کہیں پائے جاتے تھے۔ ان کے شوق کا آغاز بچپن میں ان کے ماموں کے ذریعے شکار کیے گئے ایک گردن پر پیلی دھاریوں والے پرندے کے نام کی تلاش سے ہوا۔ جب انہوں نے اس پرندے کا نام اپنے ماموں سے پوچھا تو ان کے ماموں نے انہیں بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی (BNHS) کے سکریٹری ڈبلیو ایس میلارڈ کے پاس بھیجا جو ایک پان انڈیا وائلڈ لائف ریسرچ آرگنائزیشن ہے۔ بی این ایچ ایس کے سکریٹری نے پرندوں کے ساتھ اس چھوٹے سے دس سالہ لڑکے کی دلچسپی کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کو وہاں کے پرندوں کا پورا مجموعہ دکھایا۔چڑیوں کو حنوط کر کے محفوظ کرنے کے طریقے سکھائے۔اس کے علاوہ چڑیوں سے متعلق تمام جانکاری دی۔یہیں سے ڈاکٹر سالم علی کا دنیا کے سرفہرست ماہر حیوانیات میں سے ایک بننے کا ان کا ناقابل یقین راستہ شروع ہوا۔
سالم علی 12 نومبر 1896 کو ممبئی میں معزالدین اور زینت النساء کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ ایک سال کی عمر میں اپنے والد اور تین سال کی عمر میں اپنی والدہ سے محروم ہوگئے۔ ان کے بہن بھائیوں کے ساتھ، سالم علی کی پرورش ان کے ماموں امیرالدین طیب جی نے کی۔ سالم علی اپنی بہنوں کے ساتھ بائبل میڈیکل مشن گرلز ہائی اسکول، گرگام ممبئی میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ان کا سینٹ زیویئر اسکول ممبئی میں داخل کرایا گیا۔ان کے ماموں امیرالدین طیب جی رتبے والے اور رعب دار شکاری تھے۔کندھے پر بندوق تانے وہ ہفتوں جنگلوں اور میدانوں میں شکار کی تلاش میں گھوما کرتے تھے۔ان کی بندوق دیکھ کر سالم علی کے دل میں اپنے پاس بھی بندوق رکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ ماموں تو سالم علی پر جان چھڑکتے تھے۔ انہوں نے فوراً ایک ایئر گن مہیا کردی ۔بھانجے نے اپنے ماموں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہت جلد اپنا نشانہ پکا کر لیا۔ اب ان کے بچپن کی دو پہریں گھومنے، پھرنے پرندوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کی عادات کا جائزہ لینے اور ان کی تفصیلات حاصل کرنے میں گزرتیں۔سالم علی کو انگریزی ادب میں بھی گہری دلچسپی تھی۔ان کے انگریزی میں لکھے گئے مضامین کئی کتابوں میں شائع ہونے۔تیرہ چودہ سال کی عمر میں سالم علی کو مسلسل سر درد کی شکایت پر آب و ہوا کی تبدیلی کا مشورہ دیا گیا۔اسکول سے چھٹی دلا کر سالم علی کو ان کے بڑے بھائی کے پاس سندھ بھیج دیا گیا۔وہ اپنے دوسرے بھائی کے پاس برما بھی گئے۔ برما کی آب و ہوا سے سالم کو بہت فائدہ ہوا۔ساتھ ہی ان کے شوق کو نئی جہت ملی۔وہاں کے جنگلات میں سیر کرنے کے بہانے ان میں بھٹک کر پرندوں کا گہرائی سے مشاہدہ کرنے کا خوب لطف اٹھایا۔
ممبئی لوٹ کر انہوں نے اپنی آگے کی پڑھائی کا دوبارہ آغاز کیا۔1917 میں سالم علی نے بی ایس سی بیالوجی (حیاتیات) میں مکمل کی۔1918 میں یعنی 22 سال کی عمر میں ان کی شادی تہمینہ بیگم سے ہوئی۔سالم علی کو اپنے خوابوں کے مطابق اسی بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی کے میوزیم میں ملی جہاں مسٹر میلارڈ نے سالم علی کو بچپن میں چڑیوں سے متعلق بہت کچھ بتایا تھا۔اس میوزیم میں وہ گائیڈ کی طرح کام کرنے لگے۔اس دوران انہیں ایک سنہری موقع ملا۔وہ ایک سال ٹریننگ کے لیے جرمنی چلے گئے جہاں انہوں نے چڑیوں کو حنوط کرکے طویل عرصے تک محفوظ کرنے جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت حاصل کی۔ جرمنی سے واپسی کے بعد غیر متوقع طور پر اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے،لیکن یہی وقتی مشکل سالم علی کو قدرت سے اور زیادہ قریب تر کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔سالم علی اور ان کی بیوی تہمینہ نے اس مشکل وقت میں ہمت سے کام لیا ۔وہ ممبئی کے ایک محلہ ماہیم منتقل ہوگئے پیڑوں کی جھرمٹ کے بیچ یہ مکان ایک سنسان جگہ پر موجود تھا۔نئے گھر کے اطراف و اکناف کا ماحول سالم علی کو قدرت کے اور قریب لے آیا۔ وہ علی الصبح نکل جاتے اور شام تک چڑیوں کا مشاہدہ کرتے ۔چڑیوں کی مختلف قسم، نسل اور ان کی عادات کا مشاہدہ کرنے کے لیے ان کے پاس کافی وقت تھا۔وہ صبح سے شام تک ان کا مشاہدہ کرنے اور نتائج اخذ کرنے میں وقت گزارتے۔چلتے وقت ان کی نظریں آسمان کی طرف درختوں اور پہاڑوں پر جمی رہتیں۔اس طرح چلنے پر کئی بار ٹھوکریں کھائیں۔کئی بار پانی سے بھرے گڑھوں میں گرگئے لیکن اپنی جہت اور لگن سے کبھی باز نہ آئے ۔سالم علی اپنی دھن کے پکے تھے، کوئی بھی ٹھوکر کتنی بھی مشکلیں ان کو ان کے عزائم سے باز رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔چڑیوں کا مشاہدہ کرنا اور ان کی عادات سے نتائج حاصل کرنے کے لیے ہفتوں مہینوں کا کام نہیں بلکہ سالہا سال کی محنت اور لگن چاہیے تھی۔اگر لگن اور استقامت کے ساتھ ساتھ تسلسل میں وقفہ بھی آجائے تو نتائج مشتبہ ہونے کا قومی امکان رہتا ہے۔
اسی طرح کے ایک سفر میں انہیں بیا(مرغ جُلا)weaver bird کے گھونسلے نظر آئے۔پوری لگن سے وہ ان گھونسلوں کے مشاہدے میں لگ گئے۔مہینوں تک وہ بیا کے آدھے ادھورے گھونسلوں کا راز دریافت کرنے میں میں لگے رہے۔انہوں نے پایا کہ گھونسلا بنانے کی ذمہ داری نر بیا پر ہوتی ہے۔مادہ بیا خوبصورت گھونسلوں میں سے ایک کا انتخاب کرتی ہے اور اس میں انڈے دیتی اور سیتی ہے۔نر بیا اس دوران دوسرا گھونسلا بنانے میں لگ جاتا ہے۔اسی طرح ایک ہی افزائش کے موسم میں نر بیا کے دو یا اس سے زائد گھونسلے ہوتے ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ جس دور میں سالم علی بیا کا مشاہدہ کر رہے تھے اس وقت عالمی ماہرین طیور یہ مان چکے تھے کہ بیا نامی پرندوں کی نسل سو سال قبل ہی معدوم ہوچکی ہے۔کماؤ کی پہاڑیوں سے سالم علی اس پرندے کو ڈھونڈ لائے تھے ۔بیا پر سالم علی کی یہی تحقیقق انہیں دنیا بھر میں شہرت دلا گئی ۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد1947 سالم علی نے سو سال قدیم ادارے بی این ایچ ایس کو دوبارہ قائم کیا جو فنڈز کی کمی کی وجہ سے بند ہوگیا تھا اور جواہر لال نہرو سے اپنے تعلقات کی بنا پر حکومت سے اس کی منظوری بھی حاصل کرلی۔ انہوں نے ہندوستانی آرنیتھولوجی میں شان دار خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ سالم علی نے بھرت پور برڈ سینکچری (کیولادیو نیشنل پارک) بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کو برباد ہونے سے روکا جو اب سائلنٹ ویلی نیشنل پارک ہے۔1930 میں انہوں نے اپنی تحقیقات شائع کرنا شروع کیں۔1941 میں”دی بک آف انڈین برڈز“ لکھی۔اس کتاب میں چڑیوں سے متعلق تمام معلومات اور تصاویر جمع کیں ۔1948 میں سڈنی ڈلن رپلے کے ساتھ مل کر سالم علی نے دس جلدوں پر مشتمل تاریخی کتاب”برڈز آف انڈیا اینڈ پاکستان“ کی مشترکہ تصنیف لکھی، جس کا دوسرا ایڈیشن ان کی وفات کے بعد مکمل ہوا۔ سالم علی کو متعدد اعزازات، جیسے جے پال گیٹی انٹرنیشنل ایوارڈ، انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کا گولڈن آرک، اور برٹش آرنیتھولوجی یونین کا گولڈن میڈل (غیر برطانویوں میں سب سے پہلے) جیسے کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ انہیں 1958 میں پدم بھوشن اور 1976 میں پدم وبھوشن سے نوازا گیا جو بالترتیب ہندوستان کا تیسرا اور دوسرا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے۔ سالم علی پہلے غیر برطانوی شہری تھے جنہوں نے 1967 میں برٹش آرنیتھولوجسٹ یونین کا گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ان کا انتقال 20 جون 1987 کو ممبئی میں ہوا۔ 1985 میں یعنی اپنی وفات سے دو سال پہلے انہوں نے اپنی آب بیتی”دی فال آف اسپارو“(The Fall of Sparrow ) لکھی۔ان کی مشہور تصنیفات میں سے ایک تصنیف (برڈز آف انڈیا اینڈ پاکستان) Birds of India and Pakistan دس جلدوں پر مشتمل ہے جو بر صغیر ہند و پاک میں پائے جانے والے پرندوں کی معلومات کے متعلق ہے۔ ڈاکٹر سالم علی 1987 میں پروسٹیٹ کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ 2016 میں ہندوستان میں پرندوں کی ایک نئی نوع دریافت ہوئی جس کا نام Himalayan Forest Thrush ہے۔ اس نوع کا سائنسی نام ڈاکٹر سالم علی کے نام پر Zoothera salimalii رکھا گیا۔
چڑیوں کی معلومات حاصل کرنے میں ڈاکٹر سالم علی کبھی ایک جگہ ٹک کر نہیں رہے۔حیدرآباد، نیلگری کی پہاڑیاں، سندھ کے جنگلات دہرہ دون، بہاولپور، افغانستان، کیلاش مانسرور، کچھ اور بھرت پور جیسے علاقوں میں کافی وقت گزارا۔چڑیوں کی تلاش میں سالم علی کو پہاڑوں، درّوں، بیہڑ جنگلوں، ریگستانوں، گھاٹیوں میں بھی جانا پڑا ۔وہ ایسی ایسی جگہوں پر بھی گئے جہاں جانے کی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔شاید ہی برصغیر کا کوئی ایسا کونا بچا ہوگا جہاں سالم علی نہ گئے ہوں۔عظیم ہندوستان کے پرندوں کی تاریخ کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے کا کارنامہ ان کی حیات کےبعد بھی اور شاید اس دنیا میں پرندوں کی موجودگی تک کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔
***
جس دور میں سالم علی بیا کا مشاہدہ کررہے تھے اس وقت عالمی ماہرین طیور یہ مان چکے تھے کہ بیا نامی پرندوں کی نسل سو سال قبل ہی معدوم ہوچکی ہے۔کماؤ کی پہاڑیوں سے سالم علی اس پرندے کو ڈھونڈ لائے تھے ۔بیا پر سالم علی کی یہی تحقیقق انہیں دنیا بھر میں شہرت دلا گئی ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022