بلقیس بانو کیس: جسٹس بیلا ترویدی نے مجرموں کی جلد رہائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت سے خود کو الگ کیا
نئی دہلی، جنوری4: سپریم کورٹ کی جج جسٹس بیلا ایم ترویدی نے بدھ کو بلقیس بانو کیس میں 11 مجرموں کو سزا میں معافی دینے کے گجرات حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے ایک گروپ کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا۔
جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس ترویدی پر مشتمل بنچ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) لیڈر سبھاشنی علی، صحافی ریوتی لاول، لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما اور ترنمول کانگریس کی رکن اسمبلی مہوا موئترا کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔
جسٹس رستوگی نے کہا کہ جسٹس ترویدی نے مجرمین کی جلد معافی کو چیلنج کرنے والی بانو کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا تھا، اس لیے وہ اس کیس کی سماعت سے بھی گریز کریں گی۔
13 دسمبر کو جسٹس ترویدی نے بانو کی درخواست پر سماعت کرنے سے خود کو الگ کر لیا تھا کیوں کہ لائیو لاء کے مطابق وہ 2004 سے 2006 تک گجرات حکومت میں قانون سکریٹری کے طور پر تعینات تھیں۔
سپریم کورٹ نے منگل کو کہا کہ بانو کی درخواست کو اہم معاملے کے طور پر لیا جائے گا اور دیگر درخواستوں کو اس کے ساتھ ٹیگ کیا جائے گا۔ اب اس کیس کی سماعت عدالت کا ایک مختلف بنچ کرے گا۔
عدالت نے کہا کہ ہم اگلی تاریخ پر تمام معاملات کی فہرست بنائیں گے اور تمام درخواستوں کے ساتھ ٹیگ کریں گے۔ عدالت نے کہا ’’اس وقت تک تمام درخواستیں مکمل ہو جانی چاہئیں۔‘‘
مئی میں جسٹس رستوگی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا تھا کہ گجرات حکومت کے پاس معافی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کیوں کہ اسی ریاست میں جرم ہوا تھا۔ اس نے گجرات ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو پلٹ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مہاراشٹر حکومت کے پاس معافی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، کیوں کہ اس مقدمے کی سماعت ممبئی میں ہوئی تھی۔
اپنی درخواست میں بانو نے دلیل دی کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات کے پیش نظر مہاراشٹر حکومت کو ہی معافی کی درخواست پر سماعت کرنی چاہیے تھی۔