بلقیس بانو کیس کے مجرموں نے ’’پیرول پر باہر رہتے ہوئے‘‘ گواہوں کو دھمکیاں دیں: رپورٹ
نئی دہلی، اگست 22: انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ان گواہان کو، جنھوں نے 2002 کے بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس سے متعلق شکایات درج کروائی تھیں، انھیں 11 میں سے کم از کم چار مجرم اس وقت دھمکیاں دیتے تھے جب وہ ’’اکثر پیرول پر باہر‘‘ ہوتے تھے۔
بلقیس بانو 19 سال کی تھیں اور وہ حاملہ تھیں جب 2002 کے گجرات فسادات کے دوران ان کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ احمد آباد کے قریب فسادیوں نے ان کی تین سالہ بیٹی سمیت ان کے خاندان کے چودہ افراد کو قتل کر دیا تھا۔
15 اگست کو، ان 11 افراد کو، جنھیں اس کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، گودھرا جیل سے رہا کر دیا گیا جب حکومت گجرات نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت ان کی درخواست منظور کر لی۔
اپنی رہائی سے پہلے مجرموں نے ’’ہاؤس وارمنگ تقریب‘‘ اور ’’بیٹے کی شادی‘‘ جیسی وجوہات کی بنا پر پیرول کی درخواست کی تھی۔ عدالتوں نے اکثر درخواستوں کو یہ دیکھنے کے بعد مسترد کر دیا ہے کہ کچھ مجرموں کو کئی بار مہینوں کی مدت کے لیے پیرول دیا گیا ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب گواہوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں مجرموں کی طرف سے دھمکیاں دی گئی تھیں، جن میں کچھ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق 2021 میں ایک گواہ عبدالرزاق منصوری نے گجرات کے وزیر داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ کو پانچ صفحات پر مشتمل ایک خط لکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ملزمان ’’جیل سے باہر اپنے وقت کو سیاسی تقریبات میں شرکت کے لیے استعمال کر رہے تھے، اپنے کاروبار کو بڑھا رہے تھے، بنگلے بنوا رہے تھے اور گواہوں دھمکیاں دے رہے تھے۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ گواہان مسلسل مجرموں کے خوف میں رہ رہے ہیں۔
منصوری نے داہود پولیس میں ایک مجرم سیلیش چمن لال بھٹ سے ملنے والی دھمکیوں کے بارے میں شکایت کی تھی، جس نے مبینہ طور پر پیرول پر رہتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھی شرکت کی تھی۔
منصوری نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان کا اسٹیٹ ریزرو پولیس تحفظ چھین لیا گیا ہے، جس سے وہ مزید کمزور ہو گئے ہیں۔
تاہم وزیر داخلہ نے کہا کہ انھیں بلقیس بانو کیس میں کسی بھی گواہ کی طرف سے کوئی خط موصول نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا ’’میں یہ بھی نہیں جانتا کہ کیا مجرم اپنی پیرول کے دوران کسی پارٹی تقریب کا حصہ تھے۔ ان کی پیرول کی منظوری کا معاملہ جیل حکام کا ہے نہ کہ وزیر کا۔‘‘
ایک اور گواہ فیروز گھانچی نے 23 جون 2020 کو پنچ محل کے رینج آئی جی کو ایک خط لکھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ملزمین بار بار پیرول حاصل کرنے کے لیے ’’جھوٹی اور دکھاوے پر مبنی‘‘ وجوہات کا استعمال کر رہے تھے اور وہ ’’جیل کے بجائے گاؤں میں زیادہ وقت گزار رہے تھے …‘‘
منصوری اور گھانچی کی طرح، بہت سے گواہوں نے مجرموں کے خلاف شکایات لے کر پولیس سے رجوع کیا تھا۔ تاہم ان میں سے صرف ایک پہلی معلومات کی رپورٹ کا باعث بنی۔
6 جولائی 2020 کو رادھیک پور پولیس نے دو مجرموں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت ایک خاتون کی عزت کو مجروح کرنے، ڈرانے، دھمکیاں دینے اور اُکسانے پر مقدمہ درج کیا۔ یہ شکایت ایک گواہ سبرابین پٹیل نے کی تھی، جس نے کہا تھا کہ تین آدمیوں نے اسے اور دو دیگر کو دھمکیاں دی تھیں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق پٹیل کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل لبانا نے کہا ’’اس معاملے میں متعدد شکایات موصول ہوئی ہیں جہاں مجرموں نے درخواست دہندہ، پٹیل کے خلاف آئی پی سی کی اسی طرح کی دفعات کے تحت جرم بھی درج کیا ہے۔ مقدمات لمکھیڑا کی ایک عدالت میں چل رہے ہیں اور گواہوں سے جرح کی گئی ہے۔‘‘
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 30 جولائی 2017 کو شکایت کنندگان گھانچی آدم بھائی اسماعیل بھائی اور گھانچی امتیاز بھائی یوسف بھائی نے کہا کہ ایک مجرم، گووند نائی نے انھیں سمجھوتہ کرنے کی دھمکی دینے کی کوشش کی اور کہا کہ ایسا نہ کرنے پر وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔