بلقیس بانو: ہمارے عزم جواں کے آگے ،پرانے ظالم نہیں ٹکیں گے
مجرموں کی گردن پر مشیت ایزدی کا شکنجہ تنگ ہو رہا ہے
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
خواتین پہلوانوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کی سرپرستی ایک اور سنگین جرم
مثل مشہور ہے ’آسمان سے گرے تو کھجور میں اٹکے‘، مودی سرکار کا حال یہ ہے کہ ڈگری سے نکلے تو فائل میں پھنسے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرح کے لوگ اپنے گھر میں ڈگری کے ساتھ اسے وصول کرتے ہوئے گاون پہنے اپنی تصویر بھی آویزاں کرتے تھے۔ اس روایت سے انحراف کرنے والے بھی لوگ موجود تھے مگر مودی جیسا خود پسند اور تصاویر کا دلدادہ اگر ایسانہ کرتا تو وہ اس کی نرگسیت کی تردید ہوجاتی۔ وزیر اعظم کی ڈگری اگر اصلی ہوتی تو ہر سرکاری دفتر میں لگائی جاتی اور تصویر موجود ہوتی تو ہر بھکت کے گھر میں ٹنگی ہوئی نظر آتی لیکن فی الحال آئی ٹی سیل بھی اس کو فوٹو شاپ کرنے کی جرأت نہیں کررہا ہے کیونکہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ ڈگری معاملہ میں کیجریوال کو ڈرانے کے لیے ہائی کورٹ کے ذریعہ جرمانہ لگوایا تو سپریم کورٹ سے بلقیس بانو کے مجرمین کی فائل کا جن باہر نکل آیا اور اس نے سرکار کی نیند اڑا دی۔ فی الحال تو مسلمانوں کو سبق سکھانے کا دعویٰ کرنے والے وزیر داخلہ کو سپریم کورٹ پھٹکار لگا رہا ہے تبھی تو اس کے خوف سے بدمعاشِ زمانہ رکن پارلیمنٹ برج بھوشن کے خلاف ایف آئی آر درج ہوجاتی ہے، اور اس سے نکلتے ہیں تو عتیق احمد و اشرف کے قتل اور اسد و غلام کے انکاونٹر کی رپورٹ طلب کرلیتا ہے۔
بلقیس بانو معاملے میں عدالت عظمیٰ نے جب یہ کہا کہ جن گیارہ مجرمین کو تم لوگوں نے رہا کیا ہے ان کی فائل عدالت میں جمع کروادو تو گجرات و مرکزی دونوں سرکاروں کی سٹیّ گم ہوگئی۔ اب تو یہ حال ہے کہ ’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘ یوں سمجھ لیں کہ ’کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے‘ والی حالت ہوگئی ہے۔ ایسے میں وہ سردار جی والی ویڈیو ’کہیں تو کہیں کیا اور بولیں تو بولیں کیا؟‘ کی یاد آتی ہے۔ بلقیس بانو کیس میں حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق قانون کے تحت یہ اقدام کیا ہے۔ یہ دعویٰ اگر واقعی درست ہے تو اسی سپریم کورٹ کو فائل دکھانے میں پس و پیش کیوں؟ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں بھی ڈگری جیسا گھپلا ہے۔ اس لیے نہ ڈگری اور نہ فائل، کچھ بھی نہیں دکھائیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ لوگ عوام سے بھی اسی طرح منہ چھپاتے پھریں گے۔ لوگ ان کو تلاش کرکے جب دروازے پر دستک دیں گے تو اندر سے آواز آئے گی’چہرا نہیں دکھائیں گے‘۔
موجودہ حکمرانوں کا منہ دن بہ دن کالا ہوتا جا رہا ہے اور کان بتدریج بہرے ہوتے جا رہے ہیں ورنہ جنتر منتر پر بیٹھنے والے پہلوانوں کی آواز صدا بصحرا نہیں ہو جاتی۔ خاتون پہلوانوں کی جانب سے لگائے جانے والے سنگین الزامات کے باوجود حکومت کا اپنے رکن پارلیمان برج بھوش کو تحفظ فراہم کرنا اس حکومت کی سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسلمانوں پر لو جہاد کا نعرہ کس کر ہندو خواتین کے تحفظ کا ڈھونگ کرنے والے پاکھنڈی مذہبی و سیاسی رہنماوں کو احتجاج کرنے والی پہلوان بیٹیاں دکھائی نہیں دیتیں جن کا استحصال کیا جاتا تھا۔ مسلمان اگر ان کے پروپگنڈے کے مطابق ہندو لڑکیوں کو ہاتھ لگانے سے قبل ان سے نکاح کرتے تھے مگر وہ مبینہ طور پر اس کے بغیر ہی انہیں رات کے وقت اپنے پاس بلاتا تھا۔ اس شخص کے خلاف بادلِ نا خواستہ ایف آئی آر تو داخل ہوگئی مگر بی جے پی نے ہنوز اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کو ایوان پارلیمنٹ تو دور پارٹی سے بھی نہیں نکالا گیا۔ یہ لوگ نہ صرف خواتین پہلوانوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کی سرپرستی کر رہے ہیں بلکہ بلقیس بانو کی عصمت دری کرنے والوں کے بھی بہی خواہ ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشیت ایزدی کا شکنجہ ان کی گردن کے ارد گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ فائل مانگ رہی ہے اور پولیس برج بھوشن پر ایف آئی آر درج کر رہی ہے۔
دو مئی کو عدالت عظمیٰ نے بلقیس بانو معاملے میں دوبارہ سماعت کرنے کی تاریخ دی تو حکومت کے ہاتھ پاوں پھول گئے۔ پہلے ریاستی حکومت نے اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے مرکزی حکومت کی توثیق کا سہارا لیا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ جس طرح احمد آباد میں ہائی کورٹ کو وہ لوگ مودی کے نام سے ڈرا دیتے ہیں اسی طرح سپریم کورٹ میں بیٹھے جج حضرات مرکزی حکومت کا نام سن کر ڈر جائیں گے لیکن اس کے جواب میں عدالت نے پھٹکار لگاتے ہوئے کہا تھا کہ مرکزی حکومت نے ریاست کے فیصلے کے ساتھ رضا مندی ظاہر کردی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریاستی حکومت کو اپنا دماغ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صوبائی حکومت کے پاس تو سرے سے دماغ ہی موجود نہیں ہے اس لیے ایک کٹھ پتلی سرکار سے دماغ کے استعمال کی توقع کرنا ہی غلط ہے۔ ممکن ہے کہ عدالت کو بھی اس بات کا احساس ہو مگر اپنے وقار کا خیال اظہار میں مانع ہو گیا ہو۔پچھلی مرتبہ یعنی 18؍ اپریل کو سپریم کورٹ میں گجرات حکومت نے رہائی سے متعلق فائل دکھانے کے حکم کی مخالفت کی تھی۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ ریاستی حکومت نے یہ رہائی صرف اور صرف سپریم کورٹ کے حکم کی بنیاد پر کی تھی۔ اگر ایسا ہے تو فائل دکھانے میں ہچکچاہٹ کیوں؟ مگر اس پر سپریم کورٹ نے مرکز اور گجرات حکومت کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے یکم مئی تک کا وقت دے کر دھرم سنکٹ میں ڈال دیا کہ آیا وہ رہائی سے متعلق دستاویزات طلب کرنے کے حکم پر نظرثانی کی درخواست دائر کریں گے یا نہیں؟ اب دونوں حکومتیں یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی ہیں کہ یہ نامعقول درخواست کرکے مزید رسوائی مول لی جائے یا اس ارادے سے پلہ جھاڑ لیا جائے؟ سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کیس کے 11 مجرموں کی رہائی پر مرکزی اور گجرات سرکار سے کئی سوالات کیے اور کہا کہ جرم کی سنگینی کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ایسا نہیں کیا گیا۔ ان مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی وجوہات طلب کرتے ہوئے بنچ نے قید کی مدت کے دوران انہیں پیرول پر رہا کرنے کے بارے میں بھی استفسار کیا۔
جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگارتنا کی بنچ کے مطابق اس معاملے میں رہائی ایک ایسی مہربانی ہے جو ان کے جرم سے میل نہیں کھاتی۔ بنچ نے زور دے کر کہا کہ ’ریکارڈ دیکھیے، ایک کو ہزار دن کے پیرول پر رہا کیا گیا جو کئی سال ہوتے ہیں۔ آپ کس پالیسی پر عمل کر رہے ہیں؟‘ فائل چھپانے کی اصل وجہ یہ ہے اس طرح کے خوفناک جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں میں سے ہر ایک کو ہزار دنوں سے زیادہ کی پیرول ملی ہے۔ ایک شخص تو پیرول پر بارہ سو دن اور دوسرے کو ڈیڑھ ہزار دنوں کے لیے رہا کیا گیا۔ پیرول پر رہائی کا یہ وقفہ تین سے پانچ سال پر محیط ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے جیل کے اندر وہ کم از کم مدت بھی نہیں گزاری جس کو بنیاد بناکر انہیں رہائی کی سہولت سے نوازا گیا۔ اس طرح حکومت نے قانون کو پامال کیا ہے اور ان مجرمین کو دوبارہ جیل بھیجنے کے ساتھ اس کمیٹی کو بھی سزا ملنی چاہیے جس نے اس فیصلے کو صادر کہا تھا اور ان لوگوں کی انتخابی کامیابی منسوخ ہونی چاہیے جنہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ اس کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے جن سیاسی رہنماوں نے ان کے اچھے سنسکار کی گواہی دی ان کو بھی جیل بھیجا جانا چاہیے۔
عدالت میں مجرمین کے وکیل سدھارتھ لوتھرا نے یہ تسلیم کیا کہ یہ سنگین جرم ہے لیکن ساتھ یہ بھی یاد دلایا کہ وہ لوگ پندرہ سال جیل میں رہے ہیں۔ یہ دلیل بنچ کو متاثر نہیں کرسکی۔ اس نے کہا کہ جب سماج کو بڑے پیمانے پر متاثر کرنے والے سنگین جرائم پر سہولت دینے پر غور کیا جائے تو اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھ کر قوت کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ جسٹس جوزف نے اچھےاخلاق کی بنا پر مجرمین کو سہولت دینے کے جواز کو الگ رکھنے کی تلقین کی۔ ان مجرمین پر پیرول سے واپسی میں تاخیر اور اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کی شکایات بھی ہیں۔ عدالت کے مطابق اس کے لیے بہت اونچے پیمانے ہونے چاہئیں۔ کسی کے پاس طاقت ہو تب بھی اس کا استعمال ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ بنچ کے ذریعہ بار بار طاقت اور قوت کا حوالہ اشارہ کرتا ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوا ہے۔ عدالت نے اپنا موقف واضح کرنے کے لیے ایک نہایت عام فہم مثال دی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ دفعہ 302 کا ایک معمولی مقدمہ نہیں بلکہ اجتماعی قتل اور اجتماعی عصمت ریزی کا کیس ہے۔ آپ گھوڑوں اور گدھوں کو ایک ساتھ نہیں ہانک نہیں سکتے، اسی طرح قتل عام کا تقابل ایک عام قتل سے نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ جس طرح سیب کا موازنہ سنترے سے نہیں کیا جا سکتا اسی طرح قتل عام کا موازنہ (انفرادی) قتل سے نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مودی یگ میں چونکہ سنترہ ناگپور کی اور سیب کشمیر کی علامت ہے اس لیے ہر طرح کا ظلم اور ناانصافی جائز ہوگئی ہے۔ جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتنا پر مشتمل بنچ سے اس معاملے میں مظلوموں کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ وہ پوچھ رہے ہیں کیا جرم کی سنگینی پر ریاست غور نہیں کرسکتی تھی؟ ان جج حضرات کا یہ تبصرہ نہایت اہم ہے کہ ایک حاملہ خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی اور کئی لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس کیس کا موازنہ سیکشن 302 (قتل) کے تحت عام کیس سے کیسے کیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے ججوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایسے جرائم عام طور پر معاشرے اور برادری کے خلاف کیے جاتے ہیں، غیر مساوی افراد کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت بھی یکساں سلوک میں یقین رکھتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ وہ مظلوم کے مقابلے میں ظالم کا ساتھ دینا چاہتی ہے جبکہ عدالت اس سے مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کی توقع کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کی بنچ کو یہ فکر ستاتی ہے کہ آج جو کچھ بلقیس کے ساتھ ہوا کل کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے تو اپنے آپ کو اس کشتی میں سوار کر کے کہا ’میں یا آپ، کوئی اور بھی ہوسکتا ہے‘۔ اس کے برعکس موجودہ حکمرانوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ تاقیامت اقتدار پر قابض رہیں گے، اس لیے جو مرضی میں آیا کرتے رہیں گے کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ اسی لیے حکومت کو عدالت نے یاد دلایا کہ طاقت کا استعمال عوام کی بھلائی کے لیے ہونا چاہیے۔ کورٹ کو کہنا پڑا ’آپ جو بھی ہوں، خواہ آپ کتنے ہی اونچے کیوں نہ ہوں، خواہ ریاست کے پاس صوابدید ہو۔ یہ عوام کی بھلائی کے لیے ہونا چاہیے۔ یہ (رہائی کا فیصلہ) ایک برداری اور سماج کے خلاف جرم ہے‘‘۔ اقتدار کے جنون میں گرفتار موجودہ حکومت اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ہر قسم کے جرم کا ارتکاب نہ صرف جائز بلکہ مستحب سمجھتی ہے۔ اس کی ایک مثال پلوامہ کا معاملہ ہے جس کی گونج ملک بھر میں سنائی دے رہی ہے۔
سابق گورنر جموں و کشمیر ستیہ پال ملک کے مطابق پلوامہ میں سرکار کی لاپروائی سے چالیس سی آر پی ایف کے جوان ہلاک ہوگئے مگر حکومت نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھا کر قومی انتخاب جیت لیا۔ اس قتل عام کے بعد چار سال کی طویل مدت گزر گئی لیکن نہ تو تفتیش ہوئی اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے بعد جس سرجیکل اسٹرائیک کا بے حد چرچا ہوا اور جس میں جو بادلوں کے سبب راڈار سسٹم کی ناکامی کا احمقانہ دعویٰ کیاگیا، وہ بھی تحقیق کا موضوع ہے۔ سارے ملک کو ’گھر میں گھس کر مارا‘ کا نعرہ دے کر بیوقوف بنا نے میں تو کامیابی ملی مگر یہی بات اقوام عالم کی نگاہ میں ایک مذاق بن گئی۔ دنیا بھر کے میڈیا نے اپنے نامہ نگاروں کو بالا کوٹ بھیج کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا مگر ’گودی میڈیا‘ مودی جی کی گود میں اچھلتا کودتا اور کلکاریاں مارتا رہا۔ بلقیس بانو کے معاملے میں عدالت نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ معافی دینے کی ٹھوس وجوہات بتانے میں ناکام ہو جائے تو عدالت کو اپنے نتائج اخذ کرنے کی آزادی ہو گی۔
اس موقف میں ایک دھمکی پوشیدہ ہے، شاید کہ اس سے حکومت کا دماغ ٹھکانے آئے۔
بلقیس معاملہ عدالت میں آیا تو سماعت کے شروع ہوتے ہی مجرمین کے وکیل نے جواب داخل کرنے کے لیے وقت مانگا۔ یہ چونکہ وقت گزاری کا پرانا گھسا پٹا حربہ تھا اس لیے درخواست گزاروں کی جانب سے اس کی کڑی مخالفت ہوئی۔اس رویہ پر تنقید کرتے ہوئے جسٹس ناگرتنا نے کہا ہم اس ٹال مٹول کی حکمت عملی سے واقف ہیں کہ اب ایک مجرم وقت مانگ رہا ہے چار ہفتوں کے بعد دوسرا مانگے گا۔ اس طرح دسمبر تک یہ معاملہ گھسٹتا رہے گا۔ اس پھٹکار کے بعد سرکاری وکیل نے ایک تاریخ متعین کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ عدالت کے تبصروں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے کو جلد از جلد نمٹا کر ان مجرمین کو دوبارہ جیل بھیجنا چاہتی ہے لیکن حتمی فیصلہ آنے سے قبل کچھ کہنا مشکل ہے۔ یہ فیصلہ چونکہ گجرات حکومت کے ساتھ مرکزی حکومت کو بھی رسوا کرے گا اس لیے سرکار اس کو روکنے یا بدلنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدل و انصاف کا پرچم بلند ہوتا ہے یا حکومت اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس موقع پر بلقیس بانو اور ان کے اہل خانہ خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ایک طرف ہاردک پٹیل ہے جو بلند بانگ دعووں کے بعد معمولی مقدمات سے ڈر کر بی جے پی کی پناہ میں چلا گیا اور دوسری جانب عزم و استقلال کا پہاڑ بلقیس بانو ہے جو موجودہ نظامِ جبر کے خلاف کمال پامردی سے ڈٹی ہوئی ہیں۔ بلقیس بانو کا عزم و حوصلہ حبیب جالب کے اس شعر کی چلتی پھرتی تفسیر ہے کہ ؎
ہمارے عزم جواں کے آگے ہمارے سیل رواں کے آگے
پرانے ظالم نہیں ٹکیں گے نئی بلائیں نہیں رہیں گی
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
بلقیس بانو معاملے میں عدالت عظمیٰ نے جب یہ کہا کہ جن گیارہ مجرمین کو تم لوگوں نے رہا کیا ہے ان کی فائل عدالت میں جمع کروادو تو گجرات و مرکزی دونوں سرکاروں کی سٹیّ گم ہوگئی۔ اب تو یہ حال ہے کہ ’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘ یوں سمجھ لیں کہ ’کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے‘ والی حالت ہوگئی ہے۔ ایسے میں وہ سردار جی والی ویڈیو ’کہیں تو کہیں کیا اور بولیں تو بولیں کیا؟‘ کی یاد آتی ہے۔ بلقیس بانو کیس میں حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق قانون کے تحت یہ اقدام کیا ہے۔ یہ دعویٰ اگر واقعی درست ہے تو اسی سپریم کورٹ کو فائل دکھانے میں پس و پیش کیوں؟ بات دراصل یہ ہے کہ یہاں بھی ڈگری جیسا گھپلا ہے۔ اس لیے نہ ڈگری اور نہ فائل، کچھ بھی نہیں دکھائیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ لوگ عوام سے بھی اسی طرح منہ چھپاتے پھریں گے۔ لوگ ان کو تلاش کرکے جب دروازے پر دستک دیں گے تو اندر سے آواز آئے گی’چہرا نہیں دکھائیں گے‘۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 مئی تا 13 مئی 2023