بہار میں ایس آئی آر: عوام کو اب بھی راحت نہیں

سپریم کورٹ میں تفصیلی سماعت نہیں ہو سکی

0

نوراللہ جاوید، کولکاتا

ایس آئی آر کا مقصد بڑے پیمانے پر اخراج نہیں بلکہ شمولیت ہونا چاہیے: جج کا ریمارک
عدالت عظمیٰ کا دوسری مرتبہ آدھار کارڈ اور ووٹر آئی ڈی کارڈ کوقبول کرنے کا مشورہ۔صرف آدھار اور راشن کارڈ ہی نہیں کوئی بھی دستاویز جعلی ہو سکتی ہے
25؍جولائی کو الیکشن کمیشن نے بہار میں ایس آئی آر کے تحت درخواست جمع کرنے کا عمل مکمل کر لیا ہے۔ آج سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹ کا ڈرافٹ شائع کرنے سے روکنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا کہ وہ آدھار کارڈ اور ووٹر آئی ڈی کو تسلیم کرنے پر غور کرے۔ عدالت کی اس ہدایت کے بعد یکم اگست کو ووٹر لسٹ کا حتمی مسودہ شائع ہونے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اور جس طرح الیکشن کمیشن نے آدھار کارڈ اور ووٹر آئی ڈی کے تعلق سے اپنے حلف نامہ میں جو موقف اختیار کیا ہے، اس سے کم ہی امید ہے کہ وہ ایک بار پھر سپریم کورٹ کے مشورے پر غور کرتے ہوئے آدھار اور ووٹر آئی ڈی کی بنیاد پر لوگوں کے نام ووٹر لسٹ میں شامل کرے گا۔
تاہم عدالت نے اپنے ایک جملے کے ذریعے الیکشن کمیشن کے سامنے بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے۔ بنچ میں شامل جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ایس آئی آر کا مقصد ’’اجتماعی اخراج‘‘ کے بجائے ’’اجتماعی شمولیت‘‘ ہونا چاہیے۔
اس سے قبل جسٹس سدھانشو دھولیا اور باگچی کی تعطیلاتی بنچ نے زبانی طور پر تبصرہ کیا تھا کہ شہریت کا تعین الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے اور یہ مرکزی حکومت کا استحقاق ہے۔ بنچ نے کمیشن سے بہار ایس آئی آر کے عمل میں آدھار، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ پر غور کرنے کی بھی تاکید کی تھی۔ اس تاکید کے باوجود کمیشن نے نہ صرف آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ کو بطور دستاویز قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ اپنے حلف نامہ میں کہا ہے کہ ان دستاویزات کے جعلی ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں، اور ایس آئی آر کا مقصد جعلی ووٹروں کا اخراج ہے، اس لیے انہیں قبول نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ میں 28 جولائی کو ایس آئی آر پر سماعت ہونی تھی۔ لیکن جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جومالیہ باگچی پر مشتمل بنچ کو چیف جسٹس کے ساتھ ایک انتظامی میٹنگ کرنی تھی، اس لیے تفصیلی سماعت نہیں ہو سکی۔
اس دوران عرضی گزاروں نے کہا کہ جب تک اس معاملے میں سماعت مکمل نہیں ہو جاتی، اس وقت تک ووٹر لسٹ شائع کرنے سے روک دیا جائے۔ اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کے سینئر ایڈووکیٹ گوپال شنکر نارائنن نے بنچ پر زور دیا کہ وہ مسودہ فہرست کے نوٹیفکیشن کو روک دے، کیونکہ اگر شیڈول کے مطابق یکم اگست کو ووٹر لسٹ جاری ہوتی ہے تو چار سے پانچ لاکھ ووٹروں کو تکلیف ہوگی اور ایک مرتبہ ووٹر لسٹ سے خارج ہونے کے بعد شمولیت کے لیے ووٹروں کو کئی اقدامات کرنے ہوں گے۔
تاہم بنچ نے کہا کہ آپ نے گزشتہ سماعت میں ایس آئی آر پر پابندی عائد کرنے کی درخواست ہی کی تھی۔ عرضی گزاروں کے وکیل نے کہا کہ چونکہ 28 جولائی کو سماعت ہونی تھی، اس لیے روک لگانے کی درخواست نہیں کی گئی تھی۔ بنچ نے اس معاملے کی جلد سماعت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اگر ایس آئی آر میں کوئی غیر قانونی قدم پایا جاتا ہے تو عدالت بالآخر پورے عمل کو ختم کر سکتی ہے۔
آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ کو تسلیم نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کی دلیل رہی ہے کہ ان دستاویزات کے غلط ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ تاہم جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جومالیہ باگچی کی بنچ نے کہا کہ ای سی آئی کے ذریعہ درج کردہ دستاویزات میں سے کوئی بھی جعلی ہو سکتا ہے اور صرف آدھار اور انتخابی تصویری شناختی کارڈ (ای پی آئی سی) کو قابل قبول دستاویزات کی فہرست سے خارج کرنے کی وجہ کیا ہے؟ یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔
مگر آدھار کارڈ کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ووٹروں کے اخراج کا امکان ہے، جب کہ آپ کا مقصد شمولیت ہونا چاہیے۔ جہاں کہیں بھی جعلسازی ہو وہاں کیس ٹو کیس کی بنیاد پر حل کیا جائے۔ زمین پر کوئی بھی دستاویز جعلسازی کا شکار ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب جسٹس سوریہ کانت نے فریقین کو یاد دلایا:
’’اگرچہ ہم ایس آئی آر پر روک نہیں لگا رہے ہیں، مگر اس سے ہماری طاقت ختم نہیں ہوتی۔ ہم پر بھروسا کریں۔ جیسے ہی ہمیں پتہ چلے گا کہ کچھ غلط ہے ہم سب کچھ ختم کر دیں گے۔ آپ تیار رہیں۔‘‘
سپریم کورٹ میں تازہ سماعت کے بعد دو چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں:
پہلی یہ کہ الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق یکم اگست کو ووٹر لسٹ کا مسودہ جاری ہوگا۔ ظاہر ہے کہ آج کی کارروائی سے 45 لاکھ ووٹروں کے لیے مایوس کن ہے، جنہیں الیکشن کمیشن نے یہ کہتے ہوئے خارج کرنے کا اشارہ دیا ہے کہ ان میں سے کئی لوگ وفات پا چکے ہیں، بڑی تعداد میں نقل مکانی کر چکی ہے اور کچھ کے نام کئی جگہ درج ہیں۔

الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ 24 جولائی تک 91.32 فیصد یا 7.21 کروڑ ووٹروں نے فارم جمع کیے ہیں، جبکہ ایک لاکھ ووٹروں کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔
ماہرین ان اعداد و شمار کو مبہم قرار دیتے ہوئے کئی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ پہلا سوال 64 لاکھ ووٹروں کے نام حذف کیے جانے پر ہے جو کہ کل ووٹروں کا 8 فیصد ہیں اور وہ بھی اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل۔
ماہرین کے مطابق 64 لاکھ ووٹروں کو جو پہلے دو الگ الگ زمروں میں تقسیم کیے گئے تھے اب ایک ساتھ ضم کر دیا گیا ہے:
پہلا زمرہ: ناقابل شناخت ووٹر
دوسرا زمرہ: نقل مکانی کرنے والے ووٹر
25 جولائی کو جاری الیکشن کمیشن کے حتمی اعداد و شمار کے مطابق ایک ماہ تک جاری گھر گھر مہم میں 64 لاکھ ووٹروں کی شناخت کی گئی جن کے نام ووٹر لسٹ سے خارج کیے جائیں گے۔
ان میں تقریباً 22 لاکھ فوت شدہ ووٹرز، تقریباً 7 لاکھ وہ جو ایک سے زیادہ مقامات پر رجسٹرڈ ہیں اور تقریباً 35 لاکھ وہ جنہوں نے مستقل طور پر ہجرت کر لی ہے یا ان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔
آخری زمرے کے 35 لاکھ ووٹروں سے متعلق ماہرین کی رائے ہے کہ مردہ اور ڈپلیکیٹ ووٹروں کو ہٹانا ضروری ہے مگر سوال یہ ہے کہ 24 جولائی کو الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ صرف ایک لاکھ ناقابل شناخت ووٹرز ہیں۔ اب آخری پریس ریلیز میں یہ تعداد 35 لاکھ تک پہنچا دی گئی ہے۔
اس کی وجہ سے ایس آئی آر کی شفافیت پر سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں جنوری 2025 میں مکمل ہونے والی "خصوصی خلاصہ نظرثانی” میں صرف 1.91 لاکھ ہجرت کرنے والے ووٹروں کی نشاندہی کی گئی تھی، جبکہ موجودہ ایس آئی آر میں یہ تعداد 18 گنا بڑھا کر 35 لاکھ کر دی گئی ہے۔
ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ جنوری کا عمل ناکام تھا یا جولائی کی مشق غیر ضروری حد تک جارحانہ ہے؟
عدالت نے جو بات کہی ہے کہ آپ کا مقصد بڑی تعداد میں لوگوں کے نام خارج کرنا ہے یا شمولیت پیدا کرنا—یہ بنیادی سوال ہے۔
چونکہ آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ کو بطور دستاویز قبول نہ کرنے کی صورت میں نقصان سب سے زیادہ کمزور، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو ہوگا جن کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ یا میٹرک کا سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا۔
2023 میں کیے گئے بہار کے ذات سروے کے مطابق 80 فیصد دلتوں کے پاس زمین کے دستاویزات نہیں ہیں اور مسلمانوں میں میٹرک یا گریجویشن مکمل کرنے والوں کی شرح محض 15 فیصد ہے۔
ان طبقات کے پاس صرف آدھار کارڈ ہوتا ہے۔
تاہم بنچ نے اپنی کارروائی کے دوسرے حصے میں یہ کہتے ہوئے امید باقی رکھی ہے کہ اگر کچھ غلط پایا گیا تو عدالت اس پورے عمل کو منسوخ کر سکتی ہے۔
ظاہر ہے کہ عدالت کا یہ سخت تبصرہ اور دوسری مرتبہ آدھار، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ کو تسلیم کرنے کی ہدایت، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری مزید بڑھا دیتا ہے
اگرچہ اس مختصر وقت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں جس میں موجودہ مشق کی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن نے اپنے حلف نامے میں 2003 کی مشق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی گنتی کی مدت ایک ماہ تھی، اس لیے موجودہ مشق میں جلد بازی کا الزام ’’غلط تصور‘‘ ہے۔ تاہم، اس میں دعوؤں اور اعتراضات کی مدت یا ڈرافٹ رولز کب شائع ہوئے یا ڈرافٹ رولز کے حوالے سے اٹھائے گئے دعوؤں اور اعتراضات کو ختم کرنے میں کتنا وقت لگا اور حتمی فہرستیں کب شائع ہوئیں— ان کے بارے میں مزید کوئی تاریخیں فراہم نہیں کی گئیں۔
گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نے حلف نامہ جمع کراتے ہوئے تین بڑے دعوے کیے: پہلا دعویٰ یہ کیا کہ آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کو بطور دستاویز تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرا دعویٰ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کو شہریت جانچنے اور اس کے ثبوت کے طور پر دستاویزات طلب کرنے کا اختیار ہے۔
گزشتہ سماعت میں درخواست گزاروں کے وکیل نے اس نکتے پر زور دیا تھا کہ کمیشن ایس آئی آر کی صورت میں شہریت کی جانچ کر رہا ہے جب کہ شہریت کی جانچ کا اختیار صرف مرکزی حکومت کے پاس ہے۔ حلف نامے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 326 کے تحت شہریت کی جانچ پڑتال کا اختیار حاصل ہے جو آئینی طور پر لازمی ہے اور آر پی (عوامی نمائندگی) ایکٹ 1950 کی بنیاد پر واضح کیا گیا ہے۔ یہ اختیار براہِ راست آرٹیکل 324 کی دفعات سے نکلتا ہے جو آرٹیکل 326 اور ایکٹ کے سیکشن 19 ڈی آر کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اس جواب پر ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر ) نے سپریم کورٹ میں اپنے جوابی حلف نامے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے بہار میں جاری انتخابی فہرستوں کے اسپیشل انٹینسیو ریویو (SIR) کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولنگ باڈی کی یہ دلیل کہ اس کے پاس شہریت کا تعین کرنے کا اختیار ہے ناقابلِ عمل ہے اور یہ سابقہ عدالتی فیصلوں کی نفی کرتا ہے۔ یہ مشق رائے دہندگان کے ساتھ ایک سنگین دھوکہ دہی ہے۔
اے ڈی آر نے جو اس مقدمے میں سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں میں شامل ہے، کہا کہ کمیشن کا آدھار کارڈ کو دستاویز کے طور پر مسترد کرنا مضحکہ خیز ہے۔ اے ڈی آر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف 1995 کے لال بابو حسین کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔ اس کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ "شہریت کے ثبوت کا بوجھ ان افراد پر ہوگا جو نئے سرے سے ووٹر لسٹ میں اندراج کرانا چاہتے ہیں۔ شہریت کا ثبوت ان افراد پر نہیں ہے جن کے نام ووٹر لسٹ میں پہلے سے موجود ہیں۔”
اس کے علاوہ اندرجیت باروا بمقابلہ الیکشن کمیشن آف انڈیا (1985) کے فیصلے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ موجودہ ووٹر لسٹ میں اندراج شہریت کا اولین ثبوت ہے۔ اگر ووٹر لسٹ میں درج کسی نام پر کسی کو اعتراض ہے تو اعتراض کرنے والے کو ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ مگر الیکشن کمیشن نے ایس آئی آر میں ان لوگوں پر بھی شہریت ثابت کرنے کا بوجھ ڈال دیا ہے جن کے نام پچھلی ووٹر لسٹ میں موجود تھے جو کہ عدالت کے سابقہ فیصلوں کے خلاف ہے۔
دوسرا اہم اعتراض یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے بہار اور ملک کے دیگر حصوں کی انتخابی فہرستوں میں غیر ملکی شہریوں یا غیر قانونی تارکین وطن کے نام شامل ہونے کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کی تعداد سے متعلق کوئی ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن نے 2003 میں آخری مرتبہ کی گئی ایس آئی آر کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے حلف نامے میں کہا کہ اس وقت صرف چار دستاویزات مانگے گئے تھے مگر اس بار گیارہ دستاویزات طلب کیے جا رہے ہیں۔ اس پر اے ڈی آر نے کہا کہ جس طریقے سے مشق کی جا رہی ہے وہ ووٹروں کے ساتھ ایک سنگین دھوکہ دہی ہے۔
اس میں بوتھ سطح کے افسروں کی جانب سے فارم بھرنے، فارم کے بعد اقرار نامے کی پرچیاں فراہم نہ کرنے اور فارم بھرنے میں کی گئی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اے ڈی آر نے اپنے حلف نامے میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ الیکشن کمیشن نے 2003 کی مشق کا حوالہ تو دیا جو بہار میں کی گئی آخری گہری نظر ثانی تھی لیکن اس سے متعلق احکامات اور رہنما خطوط اپنے حلف نامے کے ساتھ منسلک نہیں کیے۔ اے ڈی آر نے یہ بھی پوچھا کہ جنوری میں تیار کی گئی انتخابی فہرستوں کو کیوں مسترد کیا جا رہا ہے۔

 

***

 سپریم کورٹ نے بہار میں جاری ایس آئی کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ووٹر لسٹ کا مقصد کسی کو خارج کرنا نہیں بلکہ تمام اہل شہریوں کو شامل کرنا ہے۔ جسٹس سوریہ کانت نے خبردار کیا کہ اگر یہ عمل بدنیتی پر مبنی ثابت ہوا تو اسے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ کمیشن عام شناختی دستاویزات جیسے آدھار، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ کو کیوں رد کر رہا ہے، جب کہ یہی کاغذات عوام کے پاس سب سے زیادہ ہیں۔ کمیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ جعلی ہو سکتے ہیں، مگر عدالت نے اسے غریبوں کے ساتھ ناانصافی کہا۔ رپورٹ کے مطابق اس بار 64 لاکھ ووٹرز لسٹ سے نکالے گئے، جن میں 35 لاکھ کی شناخت تک واضح نہیں ہے جب کہ پچھلے سال جنوری میں یہ تعداد صرف 1.91 لاکھ تھی۔ یہ 18 گنا اضافہ بدنیتی کا اشارہ دیتا ہے۔ خارج شدہ افراد میں زیادہ تر پسماندہ، دلت اور اقلیتی طبقات کے ہونے کا خدشہ ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025