بہار میں انتخابی فہرستوں کی خصوصی نظرِ ثانی فوری روکی جائے:جماعت اسلامی ہند

بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی غیر قانونی گرفتاریوں اور ملک بدری کا خاتمہ کیا جائے

نئی دلی: ( دعوت نیوز ڈیسک)

جماعت اسلامی ہند کی پریس کانفرنس ۔ مالیگاؤں بم دھماکہ مقدمہ کی عدالتی جانچ کا مطالبہ
جماعت اسلامی ہند نے مطالبہ کیا ہے کہ بہار میں انتخابی فہرستوں کی خصوصی گہری نظرِ ثانی (Special Intensive Revision – SIR) کو فی الفور معطل کیا جائے، بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو بغیر قانونی کارروائی کے حراست میں لینے اور ملک بدر کرنے کے عمل کو ختم کیا جائے اور 2008ء مالیگاؤں بم دھماکہ معاملے کی آزادانہ عدالتی جانچ کرائی جائے۔ نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے مرکز جماعت میں سلگتے ہوئے مسائل پر 2؍ اگسٹ کو منعقدہ پریس کانفرنس میں کہا کہ انتخابی فہرستوں کی اس خصوصی نظرِ ثانی کو اس وقت تک روکا جائے جب تک کہ اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ کسی عدالتی یا پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ نہ لیا جائے ورنہ اس کے بغیر یہ عمل غیر شفاف رہے گا۔
انہوں نے نشان دہی کی کہ الیکشن کمیشن کا آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ کو ووٹر رجسٹریشن کے لیے مستند دستاویز نہ ماننا اس کے غیر جانب دار ہونے پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ اس بات کی نشانی ہے کہ الیکشن کمیشنِ ہند حکومت کے زیرِ اثر آکر کسی خاص سیاسی نظریے کو آگے بڑھانے اور ایک مخصوص جماعت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
پروفیسر سلیم نے خبردار کیا کہ ایسے اقدامات سے ایک بڑے طبقے کے ووٹروں کو منظم طور پر فہرست سے خارج کیا جا سکتا ہے، بالخصوص غریب اور پسماندہ طبقات، اور ان میں بھی مسلمانوں پر سب سے زیادہ اثر پڑے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اطلاعات کے مطابق بعض مسلم اکثریتی اضلاع — ارریہ، کشن گنج، پورنیہ اور کٹیہار — میں انتخابی حکام ان ہی دستاویزات کو مسترد کر رہے ہیں جو دیگر اضلاع میں قبول کیے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول اس طرزِ عمل نے انتخابی فہرست کی نظرِ ثانی کو ایک فرقہ وارانہ رنگ دے دیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشنِ ہند بعض سیاسی گروہوں کے اشارے پر کام کر رہا ہے تاکہ ان ووٹروں کی تعداد کم کی جائے جو کسی خاص جماعت کے حامی نہیں سمجھے جاتے۔
الیکشن کمیشن کے رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ ووٹر فہرست کی نظرِ ثانی کا یہ عمل گویا شہریت متعین کرنے کی ایک کوشش ہے، جب کہ شہریت کا تعین وزارتِ داخلہ کا دائرۂ کار ہے، نہ کہ الیکشن کمیشن کا؟ انہوں نے زور دے کر کہا کہ شہریت کے تعین کا ایک طے شدہ قانونی طریقہ کار موجود ہے اور الیکشن کمیشن کو اسے انتخابی عمل کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے۔ پروفیسر سلیم نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ تمام اہل ووٹروں کے نام باضابطہ طور پر انتخابی فہرست میں شامل کیے جائیں۔
سِول رائٹس کے تحفظ کی انجمن (APCR) کے قومی سکریٹری ندیم خان نے بھی اس پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے گجرات، راجستھان، ہریانہ اور دہلی میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی غیر قانونی گرفتاری اور ملک بدری کے عمل کو فوراً روکنے کا مطالبہ کیا۔ ندیم خاں نے گڑگاؤں میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے جھوٹے طور پر انہیں بنگلہ دیشی قرار دے کر حراست میں لینے اور جسمانی اذیت دینے کے واقعات کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔
انہوں نے کہا "یہ ایک تشویش ناک رجحان بنتا جا رہا ہے کہ ہر بنگالی بولنے والے مسلمان کو بنگلہ دیشی قرار دے دیا جائے۔” ندیم خان نے زور دے کر کہا کہ یہ لوگ مغربی بنگال کے شہری ہیں اور ہندوستانی باشندے ہیں جنہیں پہلے گجرات اور راجستھان میں نشانہ بنایا گیا اور اب گروگرام و ہریانہ کے اطراف میں اسی قسم کی ہراسانی کا سامنا ہے۔
خان کے مطابق گروگرام میں تقریباً دو لاکھ بنگالی بولنے والے مسلمان مقیم تھے مگر مقامی پولیس کے ڈر اور ظلم و ستم کے باعث ان میں سے تقریباً نوّے فیصد کو اپنے آبائی صوبہ مغربی بنگال واپس جانا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ مغربی بنگال کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب تقریباً 27 فیصد ہے۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ تین ہزار سے زائد بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو زبردستی بنگلہ دیش بھیجا گیا لیکن وہاں کے حکام نے انہیں واپس لوٹا دیا کیونکہ ان کے پاس درست ہندوستانی شہریت کے دستاویزات موجود تھے۔ اسی طرح تقریباً 150 روہنگیا مسلمانوں کو بھی واپس دھکیلا گیا جن میں سے 40 کو مبینہ طور پر جزائر انڈمان کے قریب سمندر میں پھینک دیا گیا — جن میں سے بعض کو بعد میں بھارتی بحریہ نے بچا لیا۔ ان اقدامات کی سخت مذمت کرتے ہوئے خان نے لسانی، علاقائی اور مذہبی شناخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو فوراً ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
2008ء کے مالیگاؤں بم دھماکہ مقدمہ کے حالیہ فیصلے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے نائب امیر جماعتِ اسلامی ہند ملک معتصم خان نے کہا کہ اس فیصلے نے انصاف، یکسانیت اور احتساب کے کئی اہم سوالات کو بے جواب چھوڑ دیا ہے۔انہوں نے یاد دلایا کہ مہاراشٹر انسدادِ دہشت گردی دستہ (ATS) نے آنجہانی ہیمنت کرکرے کی قیادت میں ابتدائی تحقیقات میں ایک منظم دہشت گردانہ سازش کے پختہ شواہد پیش کیے تھے۔ تاہم، انہوں نے اس امر پر تشویش ظاہر کی کہ 2014ء کے بعد قومی تفتیشی ایجنسی (NIA) نے اس معاملے کو جس انداز سے آگے بڑھایا وہ سنگین عوامی تشویش کا باعث ہے۔
چند روز قبل این آئی اے کی خصوصی عدالت نے اس مقدمے کے تمام ملزمین — بشمول سابق بی جے پی ایم پی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت — کو بری کر دیا۔ ملک معتصم خان نے پورے تفتیشی عمل کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ آخر کیوں 17 برس میں اتنے سنگین معاملے میں ایک مضبوط اور ناقابلِ تردید مقدمہ نہیں بنایا جا سکا؟ "کیا ریاست اس فیصلے کے خلاف بھی اسی تیزی سے اپیل کرے گی جیسا کہ وہ مسلم ملزمین کے مقدمات میں کرتی ہے؟”
انہوں نے واضح کیا کہ یہ مسئلہ بری ہونے والے افراد کو نشانہ بنانے کا نہیں بلکہ عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کا ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور استغاثہ کی غیر جانب داری، پیشہ ورانہ معیار اور وقار سے جڑا ہے۔
خان نے مزید مطالبہ کیا کہ تفتیشی خامیوں کی ذمہ داری طے کی جائے اور اس امر کی مکمل چھان بین ہو کہ آیا کسی سیاسی یا نظریاتی جانب داری نے مقدمے کے نتائج پر اثر ڈالا ہے یا نہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 جولائی تا 16 اگست 2025