بہار کا’ کھیلا‘ ۔ اصلی چانکیہ نے جعلی چانکیہ کو چِت کردیا
ذاتپات کی بنیاد پر مردم شماری کے ذریعہ پسماندہ طبقات کی صف بندی
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
انتخاب جیتنے کے لیے مرکزی حکومت سی اے اے اور این آر سی جیسے ہنگاموں کو کافی سمجھتی ہےلیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ
بہار میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے اعدادوشمار سامنے آنے کے بعد 2024سے قبل پھر سے منڈل اور کمنڈل کی جنگ چھڑ سکتی ہے
چانکیہ مگدھ (بہار) کے راجہ چندر گپت کا اتالیق تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے سب سے وفادار اتالیق امیت شاہ کو ان کی عیاری و مکاری کے سبب بھکتوں نے چانکیہ کے خطاب سے نواز دیا ۔ گجرات کے اس چانکیہ کا ڈنکا یوں تو سارے ملک میں بجتا ہے لیکن جب اس کا سابقہ بہار کے چانکیہ نتیش کمار سے پیش آتا ہے تو اصلی اور نقلی کا فرق ظاہر ہوجاتا ہے۔ پچھلے دنوں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پردیپ کمار سنگھ نے یہ پیشنگوئی کی کہ بہار میں بھی مہاراشٹر کی طرح کا کھیل ہوگا اور حکومت بدل جائے گی ۔ پردیپ کمار کے خیال میں ریاستی ارکان اسمبلی اور پارلیمان کا نتیش کمار سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور وہ بہت جلد بی جے پی میں شامل ہونے والےہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایم ایل اے اور ایم پی غلط پارٹی میں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ایساسمجھنے والے پردیپ کمار کون ہوتے ہیں؟ انہیں نتیش کمار کے اس اعلان سے بھی پریشانی ہے کہ تیجسوی یادو بہار کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ ان کے مطابق کوئی بھی ایم پی اور ایم ایل اے تیجسوی کو وزیر اعلی نہیں مانے گا۔ لیکن کیوں نہیں مانے گا، اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
وطن عزیز میں ہر کسی کو شیخ چلی کی مانند خواب دیکھنے کی آزادی ہے اور اس کا فائدہ اٹھاکر پردیپ سنگھ جیسے بی جے پی والوں نے بہار کے وزیر تعلیم چندر شیکھر یادو کے رام چرت مانس پر بیان کے بعد مونگیری لال کے حسین سپنے دیکھنے شروع کردیے جبکہ بی جے پی اس کو بھول بھال کر خاموش ہوگئی۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ پردیپ سنگھ کے خواب سے بیدار ہونے سے قبل بہار میں نتیش کمار نے نیا کھیل کردیا ۔ انہوں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق نائب صدر راجیو رنجن کو ان کے حامیوں سمیت جنتا دل یونائیٹڈ میں شامل کرلیا ۔ جے ڈی یو کے قومی صدر للن سنگھ اور ریاستی صدر امیش سنگھ کشواہا کی موجودگی میں سابق رکن اسمبلی راجیو رنجن نے گھر واپسی کی اوراس کے بعد وہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر گئے۔اس موقع پر للن سنگھ نے کہا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے بھٹک کر بڑکا جھوٹا پارٹی(بی جے پی) میں چلے گئے تھے، لیکن اپنا گھر اپنا ہی گھر ہوتا ہے، چاہے اس میں کچھ دقت ہی کیوں نہ ہو۔
نتیش کمار نے وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے بی جے پی سے رشتہ توڑا ہے اس لیے للن سنگھ نے ان کا موازنہ نریندر مودی کے منصوبوں سے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار تمام طبقات اور ذاتوں کے ساتھ انصاف کے ساتھ مسلسل ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے مطابق مرکزی حکومت نے بہار سرکار کےمنصوبوں کی نقل کی ہے۔ للن سنگھ نے پوچھا کہ ہر گھر میں بجلی، ہر گھر میں نل کا پانی، سائیکل اور ڈریس اسکیم کس نے شروع کی؟ اپنے سوال کے جواب میں وہ بولے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے 2015 میں ہر گھر نل کا جل منصوبے کا آغاز کیا جبکہ مرکز نے 2019 میں اسے شروع کیا۔ سال 2018 میں نتیش کمار نے ریاست کے ہر گھر کو بجلی فراہم کردی ۔جے ڈی یو کے قومی صدر نے کہا کہ فی الحال ریاست میں 22 سے 24 گھنٹے بجلی مل رہی ہے اب وزیر اعظم نریندر مودی بتائیں کہ کیا ان کی کوئی اسکیم پایہ تکمیل کو پہنچی ہے؟ اس کے ساتھ للن سنگھ نے 2014 کے ہر سال دو کروڑ نوکریاں اور سب کے کھاتے میں فی کس پندرہ لاکھ روپے دینے کا وعدہ یاد لاکر اجولا اور آیوشمان منصوبے کا حال پوچھا۔وہ بولے جو گیس چار سو روپے فی سلنڈر ملتی تھی اب بارہ سو روپے میں مل رہی ہے، غریب کیسے گیس خریدے گا؟سچ تو یہ ہے کہ ان سوالات کا بی جے پی کے پاس جواب نہیں ہے لیکن نتیش کمار کا ماسٹر اسٹروک ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ہے۔ یہ کارڈ اگر چل گیا تو بہار سے بی جے پی کا معاملہ صاف ہو جائے گا۔
مودی سرکار کو این آر سی سے جتنی محبت ہے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری سے اتنی ہی نفرت ہے۔ بہار کی موجودہ حکومت نے اس رائے شماری کا آغاز کرکے مودی سرکار کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ حکومتِ بہار کی ذات پر مبنی مردم شماری کا پہلا مرحلہ سات جنوری سے شروع ہوکر اکیس جنوری تک چلا۔ اس فیصلے سے بوکھلا کرہندوتوا تنظیموں نے تین الگ الگ عرضیاں سپریم کورٹ میں دائر کردیں۔ اس معاملہ میں نالندہ ضلع کی ’ہندو سینا‘ کے ایک شخص نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے بہار حکومت کے چھ جون 2022 کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کردیا۔ ریاستی حکومت کے ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں کی سماعت سے عدالت عظمیٰ نے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے بہار حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی مختلف عرضیوں پر کہا کہ عرضی گزاروں کو متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کے اپنے فیصلے میں بہار حکومت کو جو راحت دی وہ نتیش سرکار کی بہت بڑی جیت ہے ۔
سپریم کورٹ نے دائر کی گئی مفاد عامہ کی عرضی یعنی پی آئی ایل کو پبلسٹی انٹرسٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم یہ ہدایات کس طرح جاری کر سکتے ہیں کہ کسی خاص ذات کو کتنا ریزرویشن دیا جائے؟ ججوں نے کہا کہ ہم ایسی ہدایات جاری نہیں کر سکتے۔ ان عرضیوں پر غور نہیں کیا جا سکتا۔ بنچ نے حکم دیا کہ تمام عرضیوں کو واپس لی ہوئی تصور کرتے ہوئے مسترد کیا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ قانون میں مناسب اقدام تلاش کرنے کی آزادی دی جاتی ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کا پہلا مرحلہ اکیس جنوری کو ختم ہوچکا ہے۔ دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے شروع ہوگااور اکتیس مئی تک بہار حکومت نے اس مردم شماری کے کام کومکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے ۔ پنچایت تا ڈسٹرکٹ سطح پر سروے میں مقام، ذات پات، افرادِ خاندان کی تعداد، ان کے پیشے اور سالانہ آمدنی کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں گی۔ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے بعد معاشی موقف کا سروے کیا جائے گا۔ بہار کے بعد اگریہ سلسلہ پورے ملک کے ان صوبوں میں شروع ہو جائے جہاں بی جے پی اقتدار میں نہیں ہے تو وہ اس کو روک نہیں سکے گی ۔
رائے شماری کا یہ جِن سب سے پہلے مہاراشٹر میں اس وقت بوتل سے باہر آیا جب صوبائی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی۔ اس میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق مرکزی حکومت سے او بی سی کمیونٹی کا ڈیٹا طلب کیا گیا ۔ ضلع پریشد اور ضلع پنچایت انتخابات میں او بی سی سماج کے لیے ستائیس فیصد ریزرویشن دینے کے لیے یہ اعدادو شمار طلب کیےگئے تھے۔ اس عرضی کے حوالہ سے مرکزی حکومت نے اپنے جواب میں کہا تھاکہ 2011 کی مردم شماری کے پیش نظر حکومت کے پاس ہر ذات کی گنتی کے بارے میں کوئی ٹھوس ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ حکومت نے تسلیم کیا تھاکہ سال 2011 میں کی جانے والی سماجی معاشی اور ذات پر مبنی مردم شماری غلطیوں سے پُر ہے۔مرکزی حکومت نے واضح کیا کہ سابقہ مردم شماری کا ڈیٹا کسی سرکاری استعمال کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی اسے عام کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ریاستی حکومتیں اسے ذات سے متعلق معاملے میں استعمال نہیں کر سکتیں۔ مرکز کا کہنا ہے کہ اس اعدادو شمارمیں نقائص ہیں، نیز، کئی ذاتوں کا ایک ہی نام سے اندراج مختلف مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
مرکزی حکومت چونکہ اس معاملہ میں پردہ پوشی کرنا چاہتی تھی اس لیے اس نے 2021 کی مردم شماری میں بھی ذات کے حصے کو شامل کرنے کی مخالفت کردی ہے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہے اس کی وجہ سے ڈیٹا میں گڑبڑی ہو سکتی ہے۔ملک میں مردم شماری کے حوالے سے طویل بحث کے دوران مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے اپنا موقف واضح کیا اور مردم شماری میں او بی سی ذاتوں کی گنتی کو ایک طویل اور مشکل کام بتاتے ہوئے کہا کہ 2021 کی مردم شماری میں ذاتوں کی گنتی نہیں کی جا سکے گی۔ مودی حکومت کا یہ موقف ان تمام سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے لیے ایک دھچکا تھا جو ذاتوں کی مردم شماری کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور قائد حزب اختلاف تیجسوی یادو ان رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے پی ایم مودی سے ملاقات کر کے ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کیا تھا۔ یہیں سے بی جے پی اور جے ڈی یو کے درمیان ایک دراڑ پڑی جس کے نتیجے میں آگے چل کر ان کی مشترکہ سرکار ٹوٹی اور نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ ویسےیہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کا فیصلہ پچھلی سرکار کےٹوٹنے سے قبل گزشتہ سال دو جون کو کابینہ میں ہوگیا تھا۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو اپنی سابقہ حلیف جماعت بی جے پی کی جانب سے ابتدا میں مخالفت کا سامنا تھا اس کے باوجود انہوں نے یہ تجویز پیش کی اور بالآخراقتدار کی خاطر بی جے پی نے بھی اس سے اتفاق کرلیا۔ اپوزیشن راشٹریہ جنتادل تو اس کی شروع سے حامی رہی ہے ۔ اس طرح بہار میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری سے اتفاق ہوگیا ۔مذکورہ فیصلے سے بہار کو اس بابت پہلی ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا ۔وطن عزیز میں عرصہ دراز سے پسماندہ طبقات کا ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری پر اصرار ہے تاکہ ملک کی آبادی میں ہر طبقہ کی حصہ داری واضح ہوجائے اور ان کا تناسب سامنے آئے۔ اس حقیقت کے سامنے آنے کے خیال سے سنگھ پریوار کی نانی مر جاتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ کس طرح مٹھی بھر نام نہاد اعلیٰ ذات والوں نے بیشتر سرکاری عہدوں اور وسائل پر قبضہ کررکھا ہے ۔ اس سے ان کے فریبی ہندوتوا کا بھی پول کھل جائے گا کہ جن پسماندہ طبقات کا وہ مذہب کے نام پرجذباتی استحصال کرکے انہیں مسلمانوں سے لڑاتے ہیں ان کو کس طرح تمام شعبہ ہائے حیات میں حاشیہ پر پھینک دیا گیا ہے۔
بی جے پی اعلی ذات والوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والی پارٹی ہے ۔ اس کے بیشتر اہم اور بڑے عہدوں پر وہی طبقہ مسلط ہے۔ وہ پسماندہ طبقات کے ووٹ سے حکومت کرتی ہےاس لیے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی کھلی مخالفت نہیں کرتی لیکن در پردہ اس میں ٹال مٹول کرتی ہے ۔ 2019 میں قومی انتخاب کے پیش نظر مودی سرکار نے 2018 میں پسماندہ طبقات کی مردم شماری کا وعدہ کیا تھا لیکن اب عدالتِ عظمیٰ میں حلف نامہ داخل کرکے اپنے وعدے سے مکر گئی ہے ۔2024 کے انتخاب سے قبل اس مسئلہ پر ملک بھر میں مرکزی حکومت کے خلاف تحریک چل سکتی ہے اور اس سے پسماندہ طبقات میں ناراضی پھیل سکتی ہے۔ بی جے پی کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ اگر ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ہوجاتی ہے تو اس کا دوسرے طبقات کے ووٹ بینک پر اثر پڑسکتا ہے ۔1980میں منڈل کمیشن نے یہ انکشاف کیا تھا کہ ملک میں او بی سی باون فیصد ہیں۔ پچھلے چالیس سالوں میں ان کی آبادی کا تناسب یقیناً بڑھا ہوگا کیونکہ نام نہاد اونچی ذاتوں کے اندر بچوں کی شرح کم ہے۔
بی ایس پی کے مؤسس کانشی رام نے نعرہ لگایا تھا کہ ’جس کی جتنی سنکھیا(تعداد) بھاری اس کی اتنی حصے داری ‘ فی الحال یہ نعرہ زبان زدِ عام ہوچکا ہے اور سنگھ پریوار کے لیے سوہانِ روح بنا ہواہے۔ پسماندہ طبقات کا مطالبہ ہے کہ جب آبادی میں تناسب طے ہوجائے گا تو سرکاری اسکیمات وغیرہ میں بھی حصہ داری سے ان طبقات کو فائدہ ہوسکےگا ۔ پسماندہ طبقات کی آبادی کے تناسب سے سرکاری ملازمتوں کے علاوہ تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں حصہ داری نہ ملنے پر وہ ناراض ہوجائیں گے اور اس کا اثر بی جے پی کے سیاسی اور انتخابی امکانات پر پڑے گا ۔ پسماندہ ذاتوں پر مشتمل علاقائی جماعتیں اس کا اصرار کرتی ہیں اور یو پی میں زور وشور سے یہ مطالبہ ہو رہاہے۔ دوسری علاقائی جماعتیں بھی اس مطالبہ کی حامی ہیں کیونکہ ان کا پسماندہ طبقات میں خاصا اثر و رسوخ اور ووٹ بینک پایا جاتا ہے ۔ علاقائی جماعتیں اپنے ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کے لیے پسماندہ طبقات کے مطالبہ کو آگے بڑھاتی ہیں لیکن بی جے پی حکومت اس مطالبہ کو پورا کرنے سے گریز کررہی ہے ۔
بہار میں بی جے پی نے ذات کی بنیاد پر مردم شماری کے حوالے سے جو موقف اختیار کرلیا ہے اس سے دیگر ریاستوں میں انحراف انتخاب کے اندر بھاری پڑسکتا ہے۔مرکزی حکومت اس خطرے سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے پہلے تو این آر سی کی آڑ میں اسےستمبر 2019 میں ٹال دیا، مارچ 2020میں کورونا کا بہانہ بنایا گیا حالانکہ ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوا۔امریکہ اور چین میں کورونا کے اثرات ہندوستان سے زیادہ شدید تھے اس کے باوجود وہاں مردم شماری ہوئی۔ کورونا کی ابتدا میں احمد آباد کے اندر نمستے ٹرمپ کا ڈرامہ ہوا۔ دو لہروں کے درمیان بہار کا الیکشن ہوگیا لیکن اگر کوئی ایک کام نہیں ہوا تو وہ مردم شماری تھا۔ اس سے شک ہوتا ہے کہ ایسا سیاسی وجوہات کی بنا پر کیا گیا۔ مارچ 2021 میں دوسری بار، ستمبر 2021 میں تیسری اور دسمبر 2022میں چوتھی بار اس کو ملتوی کیا گیا۔ بالآخر 30 جون 2023 تک کے لیے اسے پانچویں بار ملتوی کرتے ہوئے یہ بہانہ بنایا گیا کہ انتظامی حدود کے تعین کے تین ماہ بعد ہی مردم شماری کا آغاز ہوسکتا ہے یعنی اب 2023 سے قبل اس کی تکمیل مشکل ہے۔
مودی سرکار کے لیے یہ شرم کا مقام ہے کہ 1881 کے بعد سے ہندوستان میں ہر دس سال کے وقفہ سے یہ عمل ہوتا رہا ہے اور فروری 2011 میں پندرہویں بار مردم شماری ہوئی تھی۔ پچھلے ڈیڑھ سو سال کی تاریخ میں پہلی بار اس میں تاخیر ہورہی ہے۔ اکیاسی سال قبل 1941 میں دوسری عالمی جنگ عظیم چل رہی تھی اس کے باوجود وقت ہر ڈیٹا جمع کرلیا گیا مگر اس کو مجتمع کرنے میں تاخیر ہوئی تھی۔ 1961 میں چین کے ساتھ جنگ ہوگئی اور1971 میں بنگلہ دیش کی خاطر پاکستان سے جنگ ہوئی مگر مردم شماری کا کام نہیں رکا۔1881 میں جب پہلی بار مردم شماری ہوئی تھی تو اس وقت ملک کی آبادی 25.38 کروڑ تھی۔ 2011 میں یہ آبادی 121 کروڑ تھی ۔2001 سے2011 کے بیچ ملک کی آبادی اٹھارہ فیصد بڑھی اور 2023 میں آبادی کے 141 کروڑ ہونے کا امکان ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2023 میں ہندوستان کی آبادی چین سے تجاوز کرجائے گی۔2050 تک چین کی آبادی صرف 131 کروڑ تو ہندوستان کی 166 کروڑ تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔
مردم شماری میں تاخیر سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں مثلاً ہر دس سال میں ہونے والی تبدیلیوں کا موازنہ مشکل ہوجائے گا کیونکہ درمیانی اعدادو شمار موجود نہیں ہوں گے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے مشکلات پیش آئیں گی۔ اس ٹال مٹول سے کئی عملی دشواریاں بھی پیش آرہی ہیں مثلاً فی الحال اس التوا کے سبب دس کروڑ سے زیادہ لوگ مفت اناج کی فراہمی سے محروم ہیں ۔2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر 2013 میں اسی کروڑ لوگوں کو اس کا مستحق قرار دیا گیا تھامگر ممکنہ اضافہ کے سبب 2020 میں یہ تعداد 92.2 کروڑ تک پہنچنے کا اندازہ ہے اور یہ نئے لوگ سرکاری سہولت استفادہ نہیں کرپارہے ہیں ۔ اقوام متحدہ بھی سماجی اور معاشی مدد کے لیے اس پر زور دیتی ہے کیونکہ اسی ڈیٹا کی بنیاد پر پنچایت اور تعلقہ کی سطح پر ترقی کے منصوبے بنتے ہیں لیکن جس سرکار کو عوامی فلاح وبہبود سے کوئی سروکار ہی نہ ہو وہ بھلا وقت پر مردم شماری کیوں کرائے؟ انتخاب جیتنے کے لیے یہ حکومت سی اے اے اور این آر سی جیسے ہنگاموں کو کافی سمجھتی ہےلیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بہار میں اعدادوشمار کے بعد 2024سے قبل پھر سے منڈل اور کمنڈل کی جنگ چھڑ سکتی ہے اور اس لڑائی میں ترشول کی کامیابی ناممکن ہے۔
***
***
نتیش کمار کا ماسٹر اسٹروک ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ہے۔ یہ کارڈ اگر چل گیا تو بہار سے بی جے پی کا معاملہ صاف ہو جائے گا۔ مودی سرکار کو این آر سی سے جتنی محبت ہے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری سے اتنی ہی نفرت ہے۔ بہار کی موجودہ حکومت نے اس رائے شماری کا آغاز کرکے مودی سرکار کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ حکومتِ بہار کی ذات پر مبنی مردم شماری کا پہلا مرحلہ سات جنوری سے شروع ہوکر اکیس جنوری تک چلا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023