بہار اسمبلی انتخابات: ای سی آر یا پھر این آر سی ؟

! ووٹ سے پہلے شناخت کی جنگ ۔ مسلمان نشانہ

0

دعوت نیوز بیورو، بہار

صرف 25دن میں 7.8کروڑ ووٹروں کی جانچ کا متنازع فیصلہ
یہ امید کی جا رہی تھی کہ بہار میں اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان قبل از وقت کیا جا سکتا ہے، کیونکہ بہار اسمبلی کی میعاد 22 نومبر 2025 کو ختم ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب صاف اور واضح تھا کہ اکتوبر یا پھر نومبر کے پہلے ہفتے میں اسمبلی انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ اس اعتبار سے بہار اسمبلی انتخابات میں محض ساڑھے تین مہینے کا وقت باقی ہے۔ اس دوران الیکشن کمیشن نے 25 جون سے بہار میں ووٹر لسٹ کا گہرائی سے جائزہ لینے (Special Intensive Revision of Electoral Roll)، جسے عرفِ عام میں "ایس آئی آر” کہا جا رہا ہے، کا فیصلہ کیا۔ کمیشن نے اس کا اعلان 24 جون کو 19 صفحات پر مشتمل نوٹیفکیشن کے ذریعے کیا اور 25 جون سے کمیشن نے جائزہ لینے کا عمل شروع کر دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی دلیل ہے کہ بہار میں آخری مرتبہ 2003 میں ووٹر فہرست کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا تھا اور گزشتہ 22 برسوں میں کافی تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ شہروں کی طرف ہجرت اور غیر قانونی تارکینِ وطن کی شناخت کے لیے یہ عمل ضروری ہے۔
الیکشن کمیشن کے نوٹس کے مطابق 2003 کے بعد ووٹر لسٹ میں شامل ہونے والوں کو اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی۔ جولائی 1987 سے قبل پیدا ہونے والوں کو اپنی تاریخ پیدائش یا جائے پیدائش کے دستاویزات دینے ہوں گے۔ یکم جولائی 1987 سے 2 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہونے والوں کو اپنی تاریخِ پیدائش اور اپنے والدین میں سے کسی ایک کی تاریخ پیدائش کا دستاویز دینا ہوگا اور 2 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کو اپنی تاریخ / جائے پیدائش کے ساتھ ساتھ اپنے والدین دونوں کے بھارت کے شہری ہونے کا دستاویز پیش کرنا ہوگا۔
کمیشن کے اس فیصلے پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ نیتی آیوگ 2023 کے تخمینے کے مطابق بہار کی تقریباً 88 فیصد آبادی اب بھی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ دیہی علاقوں میں شرحِ خواندگی 61.8 فیصد ہے جو قومی اوسط 73 فیصد کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ ایسے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا بہار کی 8 کروڑ آبادی کا محض 25 دنوں میں اس قدر گہرائی سے جائزہ لینا ممکن ہے؟
عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعہ 21(3) الیکشن کمیشن آف انڈیا کو یہ اختیار دیتی ہے کہ اگر کمیشن ضرورت محسوس کرے تو وہ کسی بھی انتخابی حلقے یا اس کے ذیلی علاقے کی انتخابی فہرست میں خصوصی نظرثانی کی ہدایت جاری کر سکتا ہے۔
اسی طرح رجسٹریشن آف الیکٹرز رولز 1960 کے قاعدہ 25 میں کہا گیا ہے کہ "ہر حلقے کے لیے فہرست کو سیکشن 21 کی ذیلی دفعہ (2) کے تحت مکمل، مختصر یا جزوی طور پر نظرثانی کیا جا سکتا ہے۔”
لہٰذا سوالات کمیشن کے اختیارات پر نہیں بلکہ وقت اور طریقۂ کار پر اٹھائے جا رہے ہیں کہ کمیشن نے اتنے کم وقت میں اتنا بڑا فیصلہ کیوں کیا ہے جبکہ 7.8 کروڑ ووٹروں سے دستاویزات طلب کرنا اور ان کا جائزہ لینا کوئی آسان کام نہیں ہے؟
اس کے علاوہ کمیشن کی نیت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی پہلی سیاست داں تھیں جنہوں نے اس اعلان کے محض ایک دن بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ این آر سی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس کا مقصد لاکھوں ووٹروں کو انتخابی عمل سے باہر کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ اقدام بہار اسمبلی انتخابات سے قبل کیا جا رہا ہے لیکن الیکشن کمیشن اسے بعد میں مغربی بنگال میں بھی نافذ کرے گا اور دیہی علاقوں میں جہاں شرح خواندگی کم ہے وہاں کے ووٹروں کو ووٹر لسٹ سے خارج کر دیا جائے گا۔
ممتا بنرجی کے بعد انڈیا اتحاد میں شامل کانگریس، راشٹریہ جنتا دل اور بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی الیکشن کمیشن کی نیت پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔
کمیشن کے اس اعلان پر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ 2003 میں ووٹر لسٹ میں شامل ہونے والوں سے شہریت کا ثبوت کیوں مانگا جا رہا ہے؟
الیکشن واچ ڈاگ باڈی "ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز” (ADR) کے بانی رکن جگدیپ ایس چھوکر کہتے ہیں:
"چونکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرح کی آخری نظرثانی 2003 میں کی گئی تھی، اس لیے جن لوگوں نے 2003 سے پہلے اندراج کرایا ہے وہ بھارت کے شہری تسلیم کیے جائیں گے، جبکہ بعد میں رجسٹرڈ ہونے والوں کو مشتبہ تصور کیا جا رہا ہے۔” اسی لیے ان سے دستاویزات اور ثبوت طلب کیے جا رہے ہیں۔ یہ وہ ووٹرز ہیں جنہوں نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات سمیت متعدد انتخابات میں ووٹ ڈالے ہیں — کیا یہ ووٹ اب مشکوک ہو گئے ہیں؟
کمیشن 2004 سے اب تک کیا کر رہا تھا؟ 21 سالوں سے اس نے کوئی نظر ثانی نہیں کی اور اب یہ کہہ رہا ہے کہ 2003 کے بعد جن کا ووٹ رجسٹرڈ ہوا ہے، انہیں مؤثر طور پر ڈی-رجسٹرڈ کیا جائے گا۔
ووٹر فہرست کو حذف کرنے کا ایک قانونی طریقہ ہوتا ہے اور اس عمل کو اختیار کیے بغیر ایسا قدم اٹھایا جا رہا ہے جو کہ — جہاں تک میں دیکھتا ہوں — غیر قانونی ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ 2004 کے بعد پیدا ہونے والے ووٹروں سے برتھ سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ والدین کی بھارتی شہریت کا ثبوت بھی مانگا گیا ہے۔ سماجی کارکن یوگیندر یادو کا کہنا ہے کہ دو کروڑ سے زائد ووٹرز، جو 2004 کے بعد پیدا ہوئے ہیں، اب انہیں ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے لیے اپنے والدین کی شہریت کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب آدھار کارڈ کو شہریت کا ثبوت نہیں مانا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ بہار میں کتنے افراد ایسے ہیں جن کے پاس پاسپورٹ، میٹرکولیٹ سرٹیفکیٹ، ذات سرٹیفکیٹ یا سرکاری ملازمت ہے؟ اور وہ بھی اتنے کم وقت میں! یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ ایک مہینے میں الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کا عملہ گھر گھر جا کر فارم تقسیم کرے گا، فارم جمع کرے گا اور پھر کمپیوٹر پر اَپ لوڈ کرے گا۔
‘ستارک ناگرک سنگٹھن’ اور ‘نیشنل کمپین فار پیپلز رائٹ ٹو انفارمیشن’ سے وابستہ سماجی کارکن انجلی بھاردواج کہتی ہیں:
"جب بھی الیکشن کمیشن یا حکومت کسی کو شہری ثابت کرنے کے لیے اضافی دستاویزات کا مطالبہ کرتی ہے — جیسا کہ اس معاملے میں ہو رہا ہے — تو اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگوں کا اخراج ہوتا ہے۔”
بڑے پیمانے پر اخراج کا قوی امکان ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ لاکھوں لوگ اپنے ووٹ کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔
انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اپنے اداریے میں الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر سوالات اٹھاتے ہوئے لکھا ہے:
"بہار میں اسمبلی انتخابات سے محض تین ماہ قبل انتخابی فہرستوں کی خصوصی نظرثانی کا فیصلہ نہ صرف متجسس اور الجھا ہوا ہے بلکہ یہ ایک سیاسی تنازعے کا بھی سبب بن رہا ہے۔”
اخبار لکھتا ہے کہ کم از کم اس لیے بھی یہ فیصلہ غیر معمولی ہے کہ الیکشن کمیشن نے 24 جون کے سرکلر سے محض چھ ماہ قبل — یعنی جنوری میں — بہار میں ووٹر لسٹ کی سالانہ خصوصی خلاصہ نظرثانی مکمل کی تھی۔
سوال یہ ہے کہ ان چھ مہینوں میں ایسا کیا بدل گیا کہ کمیشن کو اب "گہرائی سے” نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوئی؟
موجودہ ریکارڈ کے مطابق بہار میں 7.8 کروڑ سے زیادہ اہل ووٹرز ہیں۔ اسی طرح کی آخری نظرثانی 2003 میں کی گئی تھی جسے اب کٹ آف تاریخ کے طور پر طے کر دیا گیا ہے — شہریت کے ممکنہ ثبوت کی بنیاد پر۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے 2003 کے بعد ووٹر کے طور پر اندراج کرایا ہے انہیں پیدائشی سرٹیفکیٹ سمیت متعدد دستاویزات سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے اہل ہیں۔ گویا یہ عمل این آر سی سے مشابہ ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر کمیشن کے فیصلے پر سب سے زیادہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
شمالی بہار کے دور دراز علاقوں میں کسی بھی دستاویز کو پیش کرنا گویا مغربی ایشیا میں دیرپا امن کی تلاش کے مترادف ہے۔ یہ ووٹر اتنے غریب ہیں کہ ہجرت بھی نہیں کر سکتے۔ آج بھی غربت زدہ بہار میں بمشکل 75 فیصد پیدائشیں رجسٹرڈ ہیں۔
لہٰذا 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کے لیے پیدائشی سرٹیفکیٹ اور والدین کے شہریت کے کاغذات پیش کرنا ایک کروڑ مسائل کو جنم دے گا۔
الیکشن کمیشن کے غیر معمولی لاجسٹک مسائل کے علاوہ، سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کمیشن مانسون کو بھی نظر انداز کر رہا ہے۔ بارشوں نے بہار کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کئی اضلاع میں پہلے ہی شدید بارشوں کے لیے اورنج الرٹ جاری ہے۔ گزشتہ برس اگست میں سیلاب نے کھڑی فصلیں تباہ کر دی تھیں۔
ایسے میں مانسون کے دوران، کاغذات جمع کرنے، گھر گھر جا کر ووٹ کی تصدیق کرنے اور ووٹر کی اہلیت ثابت کرنے کا عمل — غربت زدہ بہار کے رائے دہندگان کے لیے — ایک بہت بڑا بوجھ ہوگا۔
اگرچہ الیکشن کمیشن بار بار شفافیت کی یقین دہانی کرا رہا ہے، مگر اس فیصلے کی سب سے زیادہ زد میں مسلم ووٹرز آ سکتے ہیں۔ کیونکہ بہار میں دلتوں کے بعد مسلمانوں میں شرحِ ناخواندگی سب سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے انٹرنیٹ تک رسائی بھی محدود ہے۔
بہاری مسلم نوجوان، خصوصاً سیمانچل کے اضلاع میں جہاں مسلم آبادی 45 فیصد سے زائد ہے، بڑی تعداد میں روزگار کے سلسلے میں دیگر ریاستوں میں مقیم ہیں۔ ان کے لیے صرف ووٹر لسٹ میں نام شامل کرانے کی خاطر واپسی ایک اضافی بوجھ بن جائے گا۔
سیمانچل کے حوالے سے بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں عرصے سے یہ دعویٰ کرتی آئی ہیں کہ یہاں بنگلہ دیشی شہریوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے — حالانکہ یہ محض پروپیگنڈہ ہے۔
ایسے ماحول میں، جب تعصب اور مسلم دشمنی کی جڑیں گہری ہو چکی ہیں اور سرکاری عملہ بھی "مسلم فوبیا” سے متاثر ہے، سوال یہ ہے کہ کیا وہ مسلم ووٹر لسٹ کے معاملے میں انصاف سے کام لیں گے؟
یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا احساس سیاسی جماعتوں کو ہے کہ مسلم ووٹروں کے نام بڑی تعداد میں کاٹے جا سکتے ہیں — اور اس کا براہِ راست نقصان اپوزیشن جماعتوں کو ہوگا۔
تاہم اگر مقامی سطح پر تعلیم یافتہ طبقہ ملی شعور کا مظاہرہ کرے اور ہر ووٹر کی کاغذی کارروائی میں مدد کرے تو افسران کے ممکنہ تعصب کا مؤثر طور پر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

 

***

 ووٹر لسٹ کی چھان بین یا خاموش این آر سی؟
2003 کے بعد ووٹر بننے والوں سے شہریت کے ثبوت طلب
2004 کے بعد پیدا ہونے والوں سے برتھ سرٹیفکیٹ کے ساتھ والدین کی شہریت کے کاغذات بھی لازمی
دیہی علاقوں میں کم خواندگی، ناقص دستاویزی رسائی — لاکھوں ووٹروں کے اخراج کا خطرہ
ممتا بنرجی، کانگریس، آر جے ڈی اور سماجی تنظیموں نے اسے این آر سی سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا
مسلمانوں، خاص طور پر سیمانچل کے غریب ووٹرز نشانے پر — نقل مکانی ، ناخواندگی اور دوری کی مار


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025