بی بی کا مقدر شکست یا کھائی!

اہل فلسطین ; کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

مسعود ابدالی

جنگ بندی قبول کریں تو کھلی شکست اور نہ کریں تو کھائی نیتن یاہو کا مقدر ہوگی
دوغلے پن کی انتہا، بائیڈن نے مزید ایک ارب ڈالر مالیتی اسلحہ اسرائیل کو بھیجنے کے لیے کانگریس سے منظوری طلب کرلی
اس جنگ نے اسرائیلی وزیر اعظم کو انتہائی غیر مقبول بنا دیا ہے اور اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ بند ہوتے ہی نئے انتخابات کروانے ہوں گے جس میں نتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کی شکست یقینی ہے۔
گزشتہ ہفتے مقبوضہ فلسطین میں تین تہوار منائے گئے۔قیام اسرائیل کی 76ویں سالگرہ جو فلسطینیوں کے لیے ایک بھاری آفت کی برسی تھی۔ غزہ پر حالیہ حملے کے فوراً بعد شائع ہونے والے کالم میں ہم نے قبضے کی واردات کا تفصیلی ذکر کیا تھا جب برطانوی فوج کی مدد سے 12 لاکھ فلسطینیوں کو کھلی چھت (Open Air) کے اس عظیم الشان جیل خانے میں ٹھونس دیا گیا جسے دنیا غزہ کے نام سے جانتی ہے۔ قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں کی دو کروڑ مربع میٹر اراضی ہتھیا لی گئی۔ فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948 کو مکمل ہوا جسے یہ مظلوم یوم النکبہ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہودی لیڈر ڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کر دیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔ اس وقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونسٹ لیڈر جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔ پاکستان کے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسرائیل کوئی ریاست نہیں بلکہ فلسطینیوں کے قلب میں گھونپا گیا سامراجی خنجر ہے‘۔
قیام اسرائیل اور یوم النکبہ سے تین دن پہلے 12 مئی کو فلسطین پر قبضے کے دوران مارے جانے والے جارح سپاہیوں کی یاد میں یوم ذکر (Yum HaZikaron) یا میموریل ڈے منایا گیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نتن یاہو کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ جیسے ہی فوجی قبرستان میں داخل ہوئے ’اسرائیلی بچوں کا قاتل مردہ باد‘ اور ہمارے قیدی واپس لاو، کے فلگ شگاف نعروں سے ان کا اسقبال ہوا۔ مظاہرین نے اسرائیلی پرچموں پر 7:10 لکھا ہوا تھا یعنی ’بی بی بقراطی چھوڑو اور 7 اکتوبر کی ذمہ داری قبول کرو‘۔
اس ہفتے جنوب میں رفح اور شمال میں جبالیہ اسرائیلی بمباروں کا خاص ہدف رہا۔ یہ دونوں مقامات کھنڈروں پر بسی خیمہ بستیاں ہیں یعنی برباد و خراب حالوں کو پامال کرکے دادِ دلاوری وصول کی گئی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق روزانہ 74 مقامات پر بمباری کی جارہی ہے۔ ڈرون کے ذریعے میزائیل اور راکٹ حملے اس کے علاوہ ہیں۔ بمباری کا دائرہ غرب اردن تک بڑھا دیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے شمالی غربِ اردن کے علاقے جنین پر بمباری کی گئی۔ جنین بھی ایک خیمہ بستی ہے جہاں 37 مربع کلومیٹر رقبے میں 50 ہزار نفوس آباد ہیں یعنی 13سو افراد فی مربع کلو میٹر۔ اس گنجان آبادی پر وحشیانہ بمباری سے جو تباہی آئی اس کی تفصیل یہاں لکھنے کی ہم میں ہمت نہیں۔
ر فح کے حوالے سے صدر بائیڈن مسلسل بے نقاب ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی حملے کے ساتھ ہی امریکی صدر نے اعلان کیا کہ اسرائیل کو مہلک بموں کی فراہمی معطل کردی گئی ہے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے بائیڈن صاحب یہ بھی کہہ گئے کہ اگر اس پابندی کو معطل کرنے کے لیے کانگریس نے کوئی بل منظور کیا تو وہ اسے ویٹو کردیں گے۔ لیکن ابھی اس گھن گرج کی بازگشت باقی ہی تھی کہ اسرائیل میں امریکہ کے سفیر جیک لیو نے غبارے میں سوئی چبھو دی۔اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بہت صراحت سے وضاحت فرمائی کہ ’امریکہ اسرائیل تعلقات اور عسکری تعاون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، بس High Payload بموں کی ترسیل ’موخر‘ کردی گئی ہے۔ ساتھ ہی جناب بائیڈن نے ایک ارب ڈالر مالیت کا اضافی اسلحہ فوری طور پر اسرائیل بھیجنے کے لیے کانگریس سے منظوری طلب کرلی۔ اس کھیپ میں ٹینک کے گولے، بلڈوزر و بکتر بند گاڑیاں اور توپ کے گولے شامل ہیں۔جب کسی صحافی نے صدر کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیون سے پوچھا کہ ر فح میں اسوقت آباد تمام کے تمام 12 لاکھ شہری خیموں میں مقیم ہیں اور ان بے آسرا و بے اماں نہتوں پر بمباری کو نسل کشی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ تو موصوف نے بہت ڈھٹائی سے کہا غزہ میں انسانی جانوں کا زیاں افسوسناک ہے ۔اسرائیل کو احتیاط کرنی چاہیے لیکن اسے نسل کشی نہیں کہا جا سکتا۔ یہی موقف عالمی عدالت انصاف (ICJ) میں اسرائیل کے اٹارنی جنرل جیلاد نوم نے اختیار کیا۔ جنوبی افریقہ کے دلائل کے بعد جب انہیں طلب کیا گیا تو فاضل وکیل نے کہا ‘غزہ میں “افسوسناک” جنگ ہو رہی ہے، انسانی جانوں کا زیاں ایک المیہ ہے لیکن اسے نسل کشی نہیں کہا جا سکتا۔
دوسری جانب بھرپور تشدد کے باوجود امریکہ اور یورپ کی طلباء تحریک میں مزید شدت آرہی ہے اور طلباء کامیابیاں بھی سمیٹ رہے ہیں۔ جامعہ ہیوسٹن میں میکڈونالڈ نے اپنے ریستوران بند کردیے جبکہ اسٹار بکس کافی کی دکان بھی بڑھتی نظر آرہی ہے۔ یہ امریکہ میں جلسہ ہائے تقسیم اسناد کا موسم ہے۔ تقریباً ہر جگہ طلباء نے اسٹیج پر فلسطینی پرچم لہرائے اور فلسطین کفیہ گلے میں ڈال کر اپنی اسناد وصول کیں۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے قریب جامعہ ورجنیا دولت مشترکہ (VCU) میں طلباء کے اعتراض کے باوجود ریاستی گورنر کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔ گورنر صاحب کی نگاہوں کو راحت پہنچانے کے لیے احتجاجی کیمپ بھی اکھاڑ دیے گئے لیکن نوجوانوں نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔جیسے ہی گورنر صاحب تقریر کے لیے کھڑے ہوئے طلباء آزاد فلسطین کا نعرہ لگاتے ہوئے ہال سے باہر چلے گئے۔ ٹیکس کے گورنر ایبٹ اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔ ان کے حکم پر ریاست کی تمام سرکاری جامعات میں مظاہروں کو کچلنے کے لیے نیم فوجی دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔ ان ساری کوششوں کے باوجود دارالحکومت واشنگٹن کی جامعہ آسٹن میں جلسہ تقسیم اسناد کے دوران اسٹیج پر فلسطینی پرچم لہراتے رہے۔
خود صدر بائیڈن کو اس وقت مشتعل طلباء کا سامنا کرنا پڑا جب 19 مئی کو وہ تقسیمِ اسناد کے لیے ریاست جارجیا کے معروف مورہاوس کالج پہنچے۔ امریکی صدر جیسے ہی تقریر کے لیے پوڈیم پر آئے فضا نہر یا بحر فلسطین، Genocide Joe اور غزہ خونریزی بند کرو کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس دوران صدر بائیدن متانت سے مسکراتے رہے۔ انہوں نے نعرہ زن طلباء کو مخاطب کرکے کہا کہ وہ حق اظہار رائے کی حمایت کرتے ہیں۔ آپ کی بات سنی جا رہی ہے۔ امریکی صدر نے زور دے کر کہا کہ غزہ میں مکمل اور فوری جنگ بندی امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔
جامعات میں مظاہروں اور اظہار رائے پر پابندیوں سے خود امریکہ کے سنجیدہ عناصر کو بھی تشویش ہے۔ گزشتہ ہفتے ریاست اوہایو کی Franciscan University of Steubenville کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے امریکی عدالت عظمیٰ کے قدامت پسند جج جسٹس سموئیل الیٹو نے کہا کہ امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘خوبصورت کیمپس کے باہر امڈ آنے والے بحران نے ہمارے بنیادی اصولوں کو گہن لگا دیا ہے اور اظہار رائے کی آزادی کی حمایت خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے، خاص طور سے ان مقامات پر جہاں اسے وسیع تر قبولیت ملنی چاہیے۔ جسٹس الیٹو، نو رکنی بینچ کے پانچ قدامت پسند ججوں میں سے ایک ہیں۔ انہیں 2006 میں صدر بش نے سپریم کورٹ کا جج نامزد کیا تھا طلباء تحریک کو سب سے بڑی کامیابی بلجیممیں نصیب ہوئی جہاں جامعہ بلجیم(UGent) نے اسرائیل کے تین تحقیقاتی اداروں Holon Institute of Technology ، MIGAL Galilee Research Institute اور Volcani Center سے تعاون ختم کر دیا۔ ان تینوں مراکز کا زرعی تحقیق کے حوالے سے اعلیٰ مقام ہے۔ جامعہ کے ریکٹر، رک وان ڈی وال (Dr Rik Van de Walle) نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ادارے انسانی حقوق کے باب میں جامعہ بلجیمکی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔(حوالہ ٹائمز آف اسرائیل)
سیاسی وسفارتی محاذ پر بھی اسرائیل کو دباو کا سامنا ہے۔ سوئیڈن کے دوسرے بڑے شہر گٹنبرگ (Gothenburg) کے رئیس شہر (مئیر) نے کونسل میں ایک تجویز پیش کی ہے جس کے تحت اسرائیل سمیت جبری قبضے پر قائم ریاستوں کی مصنوعات گٹنبرگ میں فروخت نہیں ہوسکیں گی۔ بلدیاتی کونسلروں کے نام خط میں مئیر ڈینئیل برنمر (Daniel Bernmar) نے کہا کہ گٹنبرگ کے شہری، قبضہ گردوں کو تجارت کے مواقع دینے کے لیے تیار نہیں۔ (حوالہ: الجزیرہ)
اسپین کے وزیر خارجہ مینول الباریز نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کے لیے اسلحہ لے کر جانے والے جہاز ایندھن یا کسی دوسری سہولت کے لیے اسپین کی کسی بندرگاہ پر نہیں رک سکتے ۔
غزہ تشدد کے خلاف کھیل کے میدانوں سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ بینکاک (Bangkok) میں ایشین فٹبال کنفیڈریش کے حالیہ اجلاس کے دوران فیفا FIFA سے اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ خیال ہے کہ فیفا کے آئندہ اجلاس میں اس تجویز پر رائے شماری ہوگی۔
رفح حملے پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے یورپی یونین کے سربراہ امورِ خارجہ جوف بوریل نے کہا کہ اسرائیل رفح آپریشن فوراً ختم کردے۔ اگر کارروائی جاری رہی تو یورپی یونین کے اسرائیل سے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی تشویش کا اظہار نیٹو، G-7 اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی کیا جب اپنے اسرائیلی ہم منصب کے نام ایک مشترکہ خط میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہالینڈ، جنوبی کوریا، ڈنمارک، سوئیڈن، جاپان اور فن لینڈ کے وزرائے خارجہ نے رفح کارروائی روک کر انسانی امداد کے لیے مصر کا راستہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم یہ خط وصول ہونے پہلے ہی اسرائیلی وزیر خارجہ صاف صاف کہہ چکے تھے کہ ‘دنیا جو چاہے کہتی پھرے، دہشت گردوں کے مکمل استیصال سے پہلے اسرائیل جنگ بند کرنے والا نہیں’اب قیامِ امن کی آوازیں اسرائیل سے بھی اٹھ رہی ہیں۔ ہفتہ 18 مئی کو اہل غزہ سے یکجہتی کے لیے یروشلم میں اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) کے باہر زبردست مظاہرہ ہوا۔ لوگ بینر لیے کھڑے تھے جن پر عبرانی میں لکھا تھا ‘بچوں کو بھوکا مارنا سنگین جنگی جرم ہے’۔ عین اسی وقت اسرائیل کے تیسرے بڑے شہر حیفہ میں سابق فوجیوں نے مظاہرہ کیا۔اس موقع پر جنگ بند کرو، ہمارے قیدی واپس لاو، نئے انتخابات کرواکر اور کرپشن کے الزام میں جیل کی ہوا کھاؤ کے نعرے لگائے گئے۔
اعتدال پسند قوم پرست رہنما اور اسرائیلی مادر وطن پارٹی کے سربراہ ایوگدر لائیبرمین (Avigdor Lieberman) نے وزیراعظم نتن یاہو، وزیر دفاع یوف گیلینٹ اور فوج کے سربراہ جنرل حرزی حلوی کو غزہ مسئلہ کا سرغنہ قرار دیتے ہوئے، تینوں Losers سے فوری استعفی کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ اور یورپ کے ساتھ اسرائیل سے اٹھنے والی آوازیں بہت زیادہ موثر ثابت نہیں ہو رہی ہیں کہ یہ وزیر اعظم نتن یاہو کی سیاسی زندگی و موت کا معاملہ ہے۔ اس جنگ نے اسرائیلی وزیر اعظم کو انتہائی غیر مقبول بنا دیا ہے اور اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ بند ہوتے ہی نئے انتخابات کروانے ہوں گے جس میں نتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کی شکست یقینی ہے۔ بی بی کے خلاف کرپشن کے کئی مقدمات زیر سماعت ہیں جن سے بچاو کے لیے موصوف نے بر بنائے عہدہ حکم التوا (Stay order) لے رکھا ہے۔ وزیر اعظم کی بد دیانتی کے ایسے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں کہ بی بی ایوان وزیر اعظم چھوڑتے ہی زینتِ زنداں ہو جائیں گے۔ لبنان کے منارہ ٹیلی ویژن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بی بی کے لیے defeat or abyss (شکست اور کھائی) والی صورت حال ہے۔ یعنی اگر جنگ بندی قبول کرتے ہیں تو یہ ان کی کھلی شکست ہے جبکہ جنگ جاری رہنے کی صورت میں کھائی ان کا مقدر ہے’
متکبر و مجرم پیشہ ٹولے کے عبرتناک انجام کی نوید کانوں کو بھلی تو لگی لیکن قطرے سے گُہر بننے کے سفر میں اہل غزہ اور فلسطینیوں پر جو گزر رہی ہے اسے دیکھنے اور پڑھنے کی تاب نہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 طلباء تحریک کو سب سے بڑی کامیابی بلجیم میں نصیب ہوئی جہاں جامعہ بلجیم(UGent) نے اسرائیل کے تین تحقیقاتی اداروں Holon Institute of Technology ، MIGAL Galilee Research Institute اور Volcani Center سے تعاون ختم کردیا۔ ن تینوں مراکز کا زرعی تحقیق کے حوالے سے اعلیٰ مقام ہے۔جامعہ کے ریکٹر، رک وان ڈی وال (Dr Rik Van de Walle) نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ادارے انسانی حقوق کے باب میں جامعہ بیلجیم کی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔(حوالہ ٹائمز آف اسرائیل)


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024