بی ایچ یو کا معاملہ

اعلیٰ تعلیم کے اداروں پر سنگھ کے قبضے کی ایک تازہ جھلک

0

ڈاکٹر فہیم الدین احمد

اعلیٰ تعلیم کے ادارے کسی بھی قوم کی علمی، تہذیبی اور سماجی ترقی کے بنیادی مراکز ہوتے ہیں۔ ان اداروں کی آزادی، غیر جانبداری اور میرٹ پر مبنی فیصلہ سازی نہ صرف اداروں کی ساکھ کے لیے اہم ہوتی ہے بلکہ پورے ملک کی ترقی اور سالمیت کے لیے بھی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن ہندوستان میں گزشتہ چند برسوں سے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر نظریاتی دباؤ اور مداخلت کی شکایات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ مثال بنارس ہندو یونیورسٹی کی سامنے آئی جہاں حال ہی میں ہونے والے بعض معاملات اس رجحان کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ نظریاتی وابستگی اور گروہی ترجیحات ادارے کی انتظامیہ پر حاوی ہوتی جارہی ہیں۔
گزشتہ دنوں میں بی ایچ یو میں دلت طالب علم شیوم سونکر کا معاملہ میڈیا کی سرخیوں میں رہا۔ شیوم نے یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی پروگرام کے داخلہ امتحان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کی تھی لیکن اس کے باوجود اسے داخلے سے محروم رکھا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے نشستوں کی تقسیم میں بدنظمی یا گروہی ترجیحات کے باعث یہ تنازعہ پیدا ہوا۔ 17 دن تک جاری رہنے والے شدید احتجاج کے بعد بالآخر یونیورسٹی انتظامیہ کو شیوم کو داخلہ دینے کی یقین دہانی کرنی پڑی۔ یہ معاملہ نہ صرف ایک فرد کا تھا بلکہ اس سے ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اقلیتوں، دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی واضح تصویر سامنے آئی۔
تعلیمی اداروں کی غیر جانبداری کو برقرار رکھنا ایک مہذب معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن بی ایچ یو جیسے مایہ ناز ادارے میں نظریاتی اور سیاسی مداخلت کی خبروں سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ ہندوستان کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی حالات تشویش ناک ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں بی ایچ یو سمیت کئی اہم اداروں میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں جہاں مذہبی یا نظریاتی بنیادوں پر فیصلے کیے گئے۔
یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ نظریاتی تعصب تعلیمی اداروں کی بنیادی شناخت اور تعلیمی آزادی کو مجروح کررہا ہے۔ تعلیمی ادارے وہ جگہیں ہیں جہاں مختلف خیالات، نظریات اور مذاہب کے افراد کو کھلی فضا میں بحث و مباحثے اور علمی سرگرمیوں کا موقع ملنا چاہیے۔ لیکن نظریاتی بنیادوں پر فیصلہ سازی، طلبہ اور اساتذہ کی اظہار رائے پر پابندی اور مخصوص گروہوں کی ترجیحی تقرریاں ان اداروں کے بنیادی مقاصد کو پامال کرتی ہیں۔
مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں اس قسم کی مداخلت صرف نظریاتی بنیادوں پر تقرریوں تک محدود نہیں بلکہ طلبہ کے بنیادی حقوق کی پامالی اور خواتین کے تحفظ میں انتظامیہ کی ناکامی بھی بار بار سامنے آئی ہے۔ بی ایچ یو میں طالبات کی حفاظت بھی ایک مستقل مسئلہ بن چکی ہے۔ متعدد بار جنسی تشدد اور ہراسانی کے واقعات پر احتجاج کرنے والی طالبات کو الٹا انتظامیہ کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔ یہ صورتحال کسی بھی مہذب اور ترقی پسند معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور حکومت اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے لے۔ تعلیمی اداروں میں نظریاتی یا سیاسی مداخلت کی روک تھام کے لیے واضح اور مؤثر پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اداروں کی انتظامیہ مکمل طور پر آزاد اور غیر جانبدار رہے۔ تعلیمی فیصلے اور تقرریاں صرف اور صرف میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر ہوں۔طلبہ تنظیموں، اساتذہ یونینوں اور سول سوسائٹی کو بھی اس مسئلے پر مسلسل آواز بلند کرنی ہوگی۔ تعلیمی اداروں کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے سول سوسائٹی کی فعال شرکت ناگزیر ہے۔ تعلیمی اداروں میں انسانی حقوق، سماجی انصاف اور میرٹ کی بحالی کے لیے اجتماعی جدوجہد اور عوامی دباؤ بھی بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
اگر ہمیں علمی، سماجی اور تہذیبی طور پر ترقی یافتہ قوم بننا ہے تو اس کے تعلیمی اداروں کو ہر طرح کے نظریاتی اور سیاسی اثرات سے پاک رکھنا ہوگا۔ اس کے لیے اجتماعی طور پر حکومت، تعلیمی اداروں اور عوام کو مل کر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو نظریاتی میدان جنگ بنانے کے بجائے علم و تحقیق کے مراکز کے طور پر فروغ دینا ہی ملک کی ترقی کا واحد راستہ ہے۔

!شر انگیز بیانات: آئینی حدود کی پامالی
!وقف کی آڑ میں ملک کو انتشار اور بدامنی کی طرف دھکیلنے کا منصوبہ
گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت میں وقف جائیدادوں اور ان سے متعلق قانونی ترمیمات کو لے کر حکومت اور حکم راں جماعت بی جے پی کے بعض نمائندے جس جارحانہ طرز عمل اور اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس کے اثرات اب عوام کے درمیان نفرت، خوف اور کشیدگی کی شکل میں صاف طور پر نظر آنے لگے ہیں۔ حال ہی میں بی جے پی کے ایم پی نشیکانت دوبے اور نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکھڑ کے عدالتوں کے متعلق بے ہودہ اور اشتعال انگیز تبصرے اس بات کی واضح علامت ہیں کہ اب سیاسی قیادت نے بھی وہ حدود پھلانگنا شروع کردی ہیں جن کا احترام کسی بھی مہذب سماج میں لازم سمجھا جاتا ہے۔ یہ صورت حال ملک کے سماجی تانے بانے کے لیے نہایت خطرناک ہے۔
یہ معاملہ محض سیاسی اختلاف یا روایتی مذہبی تنازع کا نہیں رہا، بلکہ اب اس کے اثرات ادارہ جاتی سطح پر گہری چوٹیں لگا رہے ہیں۔ جس طرح سے وقف املاک کو نشانہ بنا کر سیاسی مفاد کے لیے مذہبی منافرت کو فروغ دیا جا رہا ہے، وہ بھارت کے وفاقی ڈھانچے، آئینی اقدار اور سیکولر شناخت پر براہ راست حملہ ہے۔ بی جے پی اور اس کے حامی قائدین کی جانب سے وقف قانون کے تحت مسلمانوں کے جائز حقوق کو محدود کرنے اور مسلمانوں کو ملک کے دوسرے شہریوں کے مقابلے میں کمتر درجے پر لا کھڑا کرنے کی کوششوں نے معاشرے کے اندر بے چینی اور عدم اعتماد کو جنم دیا ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران متعدد واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی جانب سے پُرامن احتجاج کو بھی بغاوت اور ملک دشمنی کے زمرے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ نشیکانت دوبے اور جگدیپ دھنکھڑ جیسے اعلیٰ عہدے داروں کا عدالتوں پر نا زیبا تبصرہ یہ واضح کر دیتا ہے کہ ان کے نزدیک آئین اور قانون کی بالادستی اور عدالتی احترام کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ بیانات بھارت کی جمہوریت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔
آج بھارت ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں معمولی سی بے احتیاطی بڑے المیے کو جنم دے سکتی ہے۔ سری لنکا، میانمار اور روانڈا کی تاریخ سے سبق لیتے ہوئے بھارت کے باشعور شہریوں اور سنجیدہ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ اس سازش کو سمجھیں اور اس کے سد باب کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
ملک کی عدلیہ پر براہ راست حملے اور نفرت انگیز بیانات کو کسی بھی حالت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے بھارت کی سپریم کورٹ اور دیگر اعلیٰ عدالتوں کو چاہیے کہ وہ خود اس معاملے پر نوٹس لیں اور آئینی اختیارات کے تحت ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کریں جو بھارت کے سماجی اور آئینی ڈھانچے کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
عملی سطح پر ملی قیادت، سِول سوسائٹی، دانشور طبقے اور قانونی ماہرین پر لازم ہے کہ وہ عوامی بیداری کی مہم چلائیں، عوام کو اس صورتحال کے سنگین مضمرات سے واقف کروائیں اور فرقہ وارانہ سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ایک وسیع اتحاد قائم کریں۔ صرف جذباتی ردعمل یا احتجاج تک محدود رہنے کے بجائے قانونی چارہ جوئی، عدالتی سطح پر مضبوط موقف، اور سیاسی و سماجی بیداری کی حکمت عملی کو ترجیح دی جائے۔
حکومت کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ مختصر مدتی سیاسی فائدے کے لیے اٹھائے گئے یہ اقدامات ملک کے لیے طویل مدتی نقصانات کا باعث بن سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے رویے پر نظرثانی کرے اور ملک کی سماجی یکجہتی، آئینی احترام اور عدالتی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ ورنہ آنے والے دنوں میں ملک خانہ جنگی جیسے سنگین حالات کی طرف بڑھ سکتا ہے، جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور اس کی سیاسی قیادت پر ہوگی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025