بھولے بھالے اور غریب عوام اسلاموفوبیا سے متاثر

یورپی ممالک میں دائیں بازو کی اسلام مخالف تحریکات میں تیزی،تشویشناک

اسد مرزا

’’حالیہ عرصے میں یورپ کے مختلف ممالک میں دائیں بازو کے سیاست دانوں کے لیے عوام کی بڑھتی ہوئی حمایت اور یورپ کے مختلف ممالک میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے معاملوں کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت یورپ بہت تیزی سے دائیں بازو کی قوم پرست تحریکوں کا نشانہ بن رہا ہے۔‘‘
اٹلی کی وزیر اعظم مسز جارجیا میلونی اکثر جرأت مندانہ بیانات دینے کی وجہ سے خبروں میں رہتی ہیں، لیکن انہوں نے حال ہی میں اپنی ایک تقریر میں اسلامی ثقافت کا مذاق اڑایا اور کہا کہ یورپ میں اس کے لیے اور مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کے تبصرے اس وقت آئے جب انہوں نے روم میں اپنی انتہائی دائیں بازو کی جماعت برادرز آف اٹلی کے زیر اہتمام ایک سیاسی کانفرنس کی میزبانی کی جس میں برطانوی وزیر اعظم رشی سنک اور Tesla کے مالک ایلون مسک نے بھی شرکت کی۔مسز میلونی نے یہ بھی کہا کہ’’مجھے یقین ہے کہ اسلامی ثقافت اور ہماری تہذیب کی اقدار اور حقوق کے درمیان مطابقت کا مسئلہ ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اٹلی میں اسلامی ثقافتی مراکز کو سعودی عرب کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے جہاں شریعت نافذ ہے۔ یورپ میں،جو کہ ہماری تہذیب کی اقدار سے بہت دور ہے اور دراصل اسلامائزیشن کے عمل کا ایک حصہ ہے!‘‘
دریں اثنا ان کی ایک پرانی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں وہ یہ کہتی نظر آرہی ہیں کہ اسلامی ثقافت یورپی تہذیب سے پوری طرح مطابقت نہیں رکھتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اٹلی میں شریعت کا نفاذ نہیں ہونے دیں گی۔ اور یہ بات میرے ذہن سے نہیں نکلتی کہ اٹلی میں زیادہ تر اسلامی ثقافتی مراکز کو سعودی عرب کی جانب سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔‘‘اس ویڈیو میں میلونی نے سعودی عرب کے سخت شرعی قوانین پر بھی تنقید کی۔انہوں نے کہا کہ ’’سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جوشرعی قانون اور شریعت کو نافذ کرتا ہے اور جہاں زنا کے لیے پھانسی ، ارتداد اور ہم جنس پرستی کے لیے سزائے موت دی جاتی ہے۔‘‘
اس کانفرنس میں اپنی تقریر کے دوران رشی سنک نے کہا کہ وہ پناہ گزینوں کے نظام میں عالمی اصلاحات پر زور دیں گے اور انتباہ دیا کہ پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا خطرہ یورپ کے کچھ حصوں پر ’حاوی‘ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے دیگر ممالک کو خبردار کیا کہ کچھ ’دشمن‘ جان بوجھ کرلوگوں کو ہمارے ساحلوں تک لا رہے ہیں تاکہ ہمارے معاشروں کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔‘
رشی سنک نے مزید کہا’’اگر ہم اس مسئلے سے نہیں نمٹتے ہیں تو ان لوگوں کی تعدادضرور بڑھے گی۔ یہ ہمارے ممالک اور ان لوگوں کی مدد کرنے کی ہماری صلاحیت کو مغلوب کر دے گا جنہیں درحقیقت ہماری مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔اگر اس کے لیے ہمیں اپنے قوانین کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت پڑے تو ہمیں کرنا چاہیے۔‘‘
دریں اثنا، ٹیسلا کے بانی ایلون مسک بھی اس عوامی تقریب میں شامل ہوئے جبکہ وہ ایسی تقریبات میں موجود رہنے سے گریز کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی تقریر میں وضاحت کرتے ہوئے کہا’’آبادی کے سکڑنے سے نمٹنے کے لیے صرف امیگریشن کا مقابلہ کرنا کافی نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا’’ثقافتوں میں مختلف اقدار موجود ہیں۔‘‘ہم نہیں چاہتے کہ اٹلی ایک ثقافت کے طور پر ختم ہو جائے، ہم ان ممالک کی معقول ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں جہاں یہ پناہ گزین اتنی بڑی تعداد میں آرہے ہیں اٹلی اور دیگر ممالک میں بھی‘‘
اگر ہم مسز میلونی کی سیاسی کانفرنس کا تجزیہ کریں تو انہوں نے اور دیگر شرکاء نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے بہت حد تک اسلاموفوبیا کی بو اور اس سے متعلق خوف میں اضافہ بالکل واضح طور پر نظر آتا ہے۔ حال ہی میں مسز میلونی نے G-20 کے سربراہی اجلاس میں جس گرم جوشی سے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی تھی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اور یہاں پر ان دونوں کو باندھنے والا دھاگا ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام مخالف جذبات۔
اگر ہم ایلون مسک کی تقریر کا جائزہ لیں تو یہ صاف ہوجائے گا کہ ان کی کمپنی ٹویٹر جسے اب X کہا جاتا ہے وہ بھی اسلاموفوبیا کو بڑھانے میں کافی بڑا کردار ادا کررہی ہے۔حال ہی میں ٹویٹر پرشائع ہونے والے مواد کی تحقیق سے یہ سامنے آیا ہے کہ ٹویٹر بھی اسلاموفوبیا کے فروغ میں کافی خطرناک کردار ادا کررہا ہے۔ٹویٹر پر شائع ہونے والے مواد کی جب تحقیق کی گئی تو پایا گیا کہ ٹویٹر پر مذہب، دہشت گردی، جرائم اور ہندوستانی تاریخ جیسے متنازعہ موضوعات پر بحث کرنے والے ٹوئٹر صارفین کے ٹویٹس میں املا کی بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں۔ یہ اس وقت کے غصے میں کی گئی غلطیاں نہیں ہوتی ہیں،بلکہ محتاط تحریف کا مقصد نفرت انگیز مواد کے لیے ٹویٹ کو آگے بڑھانا اور اسے حذف کیے جانے سے روکنا ہے۔ مثال کے طور پر، نومبر 2022میں پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ جس میں بے ترتیب جرائم کی خبروں کی ایک سیریز سے مسلم ناموں والے لوگوں کو الگ کیا گیا تھا، اس میں مجرموں کو "مسلمان” نہیں کہا گیا تھا بلکہ اس کے بجائے ’’اولا کے بندے‘‘ (اولا کا گروپ/اولا کا گینگ) کا جملہ استعمال کیا گیا تھا) لفظ "Ola” جو ہندوستانی ٹیکسی کی خدمت کا حوالہ دیتا ہے جبکہ اسےلفظ ’’اللہ‘‘ کی جگہ استعمال کیا گیا تھا، نعوذ باللہ ۔ یہ ٹویٹ سی ای او ایلون مسک کے ٹویٹر پر 44 بلین ڈالر کے قبضے کے بعد پوسٹ کیا گیا تھا۔ ٹویٹ کے مصنف کے فی الحال 7,00,000 کے قریب فالوورز ہیں۔
لوگوں کے ایک گروپ کو ان کے مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانے کے لیے اس ٹویٹ کی رپورٹ کرنا اب نفرت انگیز ٹویٹ کی رپورٹ کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے جس میں محض "مسلمانوں” کا حوالہ دیا گیا ہے، کیونکہ شکایت کو دیکھنے والے ٹویٹر کے ماڈریٹر کو نہ صرف استعمال کیے جانے والے ہندی جملے سے واقف ہونا پڑے گا، بلکہ "Ola” کا دوہرا معنی بھی جاننا پڑے گا ۔ مزید برآں، اگر اعتدال کا عمل خودکار ہے، تو مشین غالباً کسی صارف کو ٹیکسی سروس کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے دیکھے گی، جو کہ نفرت انگیز طرز عمل نہیں ہے۔
دریں اثنا تازہ اطلاعات کے مطابق فرانس کی حکومت نے مہاجرین کے خلاف ایک نئے اور سخت قانون کا اعلان کیا ہے جسے 20دسمبر کو فرانسیسی پارلیمنٹ نے پاس کردیا اور اس کے پاس ہونے کے بعد دائیں بازو کی رہنما لی پین نے اسے ان کی پارٹی کے لیے ایک نظریاتی فتح قرار دیا۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ سارے بیانات کسی نئے بیانیے کے تحت ہی آرہے ہیں ، بلکہ یہ اس بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت کی نشان دہی کررہے ہیں جو کہ یورپ کے مختلف ممالک نے دائیں بازو کے مختلف رہنماؤں اور ان کی سیاسی جماعتوں کو حاصل ہورہی ہے۔ اٹلی کے علاوہ فرانس میں حالیہ عرصے میں فرانس کی مسز لی پین، ہالینڈ میں گیرٹ وائلڈرز کی مقبولیت اور ان کی سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں حاصل ہونے والی بڑھتی ہوئی نشستوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت یورپ بڑی سطح پر اسلاموفوبک نظریات کا حامی ہوتا جارہا ہے۔ ان ممالک میں آسٹریا ، ہنگری اورجرمنی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔
ساتھ ہی سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ یورپ میں جو دائیں بازو کی سیاست کو فروغ مل رہا ہے اس کے اصل عوامل وہاں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، قیمتوں میں اضافہ اور ضروری اشیاء مثلاً گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہیں جو کہ متوسط اور کم متوسط طبقات پر بہت سخت اثر چھوڑ رہے ہیں، کیونکہ ان میں سے زیادہ تر افراد ان بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں اور اس وجہ سے وہ دائیں بازو کے سیاسی فلسفے کی زد میں آکر دائیں بازو کے رہنماؤں کی حمایت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو کہ صاف طور پر برسراقتدار جماعتوں کی مخالفت کرتے ہیں اس بنا پر کہ وہ عوام کو ایک بہتر زندگی جینے کے لیے سہولیات مہیا کرانے میں ناکام ہیں۔ یعنی وہ سینٹرسٹ سیاسی جماعتوں کی نا اہلی کو اپنی سخت گیر مہم کا نشانہ بناتے ہوئے اس میں اسلام مخالف جذبات کو بھی شامل کرلیتے ہیں کیونکہ انہیں ان معاشی ناکامیوں کے لیے کوئی جواز بھی پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دائیں بازو کی جماعتیں حکومت مخالف جذبات کو اسلام مخالف جذبات میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرتے ہیں جیسا کہ مختلف یوروپی ممالک میں دیکھنے میں آرہا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024