بھارتی سماج کی موجودہ اخلاقی صورت حال: ایک تجزیہ

کامیاب معاشرے کے لیے تہذیبی، ثقافتی، جنسی، اقتصادی، معاشی و معاشرتی اخلاقیات ضروری

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے اور اسے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے، اپنی متنوع ثقافت، مذہبی روایات اور تاریخی اقدار کے لیے جانا جاتا ہے۔ تاہم، جیسے جیسے یہ اقتصادی، سماجی اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں ترقی کر رہا ہے ویسے ویسے اس کی اخلاقی صورت حال بھی تنزلی کا شکار ہوتی جا رہی ہے، نت نئے مسائل میں الجھتا جا رہا ہے، نئے چیلنجز سامنے آتے جا رہے ہیں۔ موجودہ دور میں بھارتی سماج کو کئی اخلاقی چیلنجوں کا سامنا ہے جو اس کی روایتی اقدار، ثقافت، تہذیب و تمدن، معاشرت اور جدیدیت کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کی عکاسی کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک کی سماجی بنیادیں ہمیشہ سے مضبوط رہی ہیں، یہاں کا خاندانی نظام بے مثل اور روایتی اقدار پر مبنی رہا ہے۔ خاندانی تعلقات، ماں باپ کی عزت، بڑوں کا احترام یہاں کا امتیازی وصف رہا ہے۔ لیکن جدیدیت، مادہ پرستی، شہری زندگی کے بڑھتے ہوئے رجحانات، اور مغربی تہذیب کے پراگندہ اثرات نے نوجوان نسل پر تباہی کے دہانے کھول دیے ہیں، اسی جدیدیت کی وجہ سے سماج کے اخلاقی اقدار میں بڑی تیزی سے گراوٹ آئی ہے، خاص طور پر نوجوان نسل میں اخلاقی بگاڑ اپنی حدوں کو پار کرچکا ہے، انفرادی حقوق کے نام پر، آزادی کے نام پر اور خود مختاری کے نام پر نئی نسل دیوالیہ پن کا شکار ہو رہی ہے۔
مذہبی اور ثقافتی روایات
شروع ہی سے ہمارا ملک مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا گہوارہ رہا ہے۔ ہر مذہب کی اپنی مخصوص روایات اور اخلاقیات ہیں جو سماجی زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔ تاہم، چند سال سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں ایک ہی مذہب، ایک ہی ثقافت اور ایک ہی زبان کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس کیفیت نے سماج میں ایک خلیج پیدا کردی ہے، ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کی تہذیب و معاشرت کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان معاشرتی اکائیوں کے درمیان تصادم بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک کی موجودہ اخلاقی صورت حال کا حال یہ ہے کہ انسانیت کو شرم سار کرنے والے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ایک جیتے جاگتے انسان کو اسی معاشرے کے دوسرے انسان پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں، یہ کونسی اخلاقیات ہیں جس کے ماننے والے ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں،سماج کے کمزور طبقات، دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ حیوانوں سے بدتر سلوک کر کے نیا عالمی ریکارڈ قائم کر رہے ہیں؟
اس کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں۔ لیکن ایک اہم سبب یہ ہے کہ یہاں برہمنی نظام قائم ہے جو ذات پات کی درجہ بندی پر مبنی معاشرتی ڈھانچہ بناتا ہے، خود ساختہ اعلیٰ ذاتوں میں برتری کا احساس پیدا کرتا ہے اور دلتوں کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اعلیٰ ذاتوں کے درمیان نفسیاتی برتری کا سبب بنتا ہے، ذات کی برتری اور فخر کا تصور، منظم اور مسلسل کیا گیا ہے اور یہی چیز اکثر تشدد میں بدل جاتی ہے۔ کبھی کسی دلت کو گھوڑے پر سوار ہونے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کہیں کسی دلت کو سڑک پر چپل پہن کر چلنے کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے، کہیں کسی دلت کو فقط مونچھیں رکھنے پر وحشیانہ طریقے سے ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ یہ تو آئے دن کا معمول ہے۔ دلتوں پر مظالم کا یہ سلسلہ سیکڑوں سال سے جاری ہے۔ آج ہمارا ملک دو حصوں میں بٹا ہوا ہے، ایک طبقہ وہ ہے جو ملک میں غالب ہے اور نفرت و بدامنی پھیلانا چاہتا ہے، ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے، ہندو راشٹر کا مطلب برہمنیت ہے، وہ ملک کو ایک رنگ میں رنگنا چاہتا ہے، ان کے پاس کسی قسم کی اخلاقیات نہیں ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ملک میں امن و امان، اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں اور محبت کی فضا پیدا کرنے چاہتے ہیں۔
اقتصادی ترقی اور اخلاقی چیلنجز
اقتصادی ترقی نے بھارتی معاشرے میں بے پناہ تبدیلیاں لائی ہیں۔ ٹکنالوجی نے انسانی زندگی کو آسان تو بنا دیا ہے، شہروں میں روزگار کے مواقع اور بہتر زندگی کے لیے دیہی علاقوں سے لوگ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ٹکنالوجی نے ایک طرف معاشی ترقی کی راہیں کھولیں ہیں لیکن دوسری طرف اس نے سماج کو اخلاقی پستی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ معاشرے میں اقتصادی فرق، عدم مساوات، معاشی عدم برابری، بدعنوانی اور اخلاقی زوال جیسے مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں۔ رشوت خوری آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، آئے دن نت نئے اسکینڈلز منظرعام پر آتے رہتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ رشوت خوری آج معاشرے میں ایک نیونارمل بن چکی ہے، ملک کا کوئی محکمہ ایسا نہیں بچا ہے جہاں اس بیماری نے اپنا سایہ نہیں پھیلایا ہو، حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب لوگ اس برائی کو برائی بھی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ ملک کی اقتصادی حالت نے بھی عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو امیر ہے اور اس نظامِ معیشت نے اسے مزید امیر بنادیا ہے، دوسرا وہ جو غریب و کمزور ہے، جسے اپنی زندگی گزارنے کے لیے سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔
جنسی اخلاقیات اور سماجی انصاف
بھارت میں جنسی اخلاقیات بھی ایک بڑا موضوع ہے۔ حالیہ برسوں میں جنسی تشدد، ہراسانی، خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ بھارت کو خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ عصمت دری یہاں پر سب سے عام جرائم میں شمار کی جاتی ہے، عصمت دری کے رپورٹ ہونے والے واقعات میں اضافے کے باوجود، بہت سے واقعات یا تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں یا ان کی شکایات واپس لے لی جاتی ہیں، جو اکثر خاندانی عزت کے نام پر ہوتے ہیں۔ بہت سی خواتین کو عصمت دری کے مقدمات کے لیے انصاف کے حصول میں بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے منصفانہ ماحول فراہم کرنے میں ناکام ہیں، طبی ثبوت اکثر غیر دستاویزی بنا دیے جاتے ہیں جو مجرموں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ خواتین کے حقوق، مساوات اور سماجی انصاف کے حوالے سے جیسے جیسے بیداری بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے خواتین کے خلاف جرائم میں بھی اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
ٹکنالوجی اور ڈیجیٹل اخلاقیات
ٹکنالوجی کے پھیلاؤ نے بھارتی معاشرت میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارموں نے جہاں معلومات تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے، وہیں جھوٹی خبریں، سائبر کرائم اور آن لائن ہراسانی جیسے خطرناک مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ جہاں انٹرنیٹ نے ساری دنیا کو اپنی مٹھی میں کر دیا ہے اور ساری انسانیت کو غیر محفوظ کر دیا ہے، انسانوں کی ساری پرائیویسی کو ختم کردیا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں اخلاقیات کی ضرورت اور ذمہ داری کا احساس بھی ایک اہم چیلنج بن چکا ہے۔ جھوٹی خبریں معاشرے میں فتنہ و فساد کا ایک آسان ذریعہ بن گئی ہیں۔ پورنوگرافی، ڈیپ فیک ویڈیوز، مارفڈ فوٹوز ایک عام پریکٹس بن گئی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمس اس وقت سب سے زیادہ جرائم کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ اس دنیا میں اخلاقیات ناگزیر ہیں۔
خلاصہ یہی ہے کہ بھارتی سماج کی موجودہ اخلاقی صورت حال پیچیدہ اور کثیر جہتی ہے۔ آج ہمیں مذہبی اخلاقیات میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے، سماجی و معاشرتی اخلاقیات کو عام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اقتصادی اخلاقیات کے بغیر سماج میں مساوات کا تصور نہیں کیا جا سکتا، روایتی اقدار اور جدیدیت کے درمیان توازن قائم کرنا، مذہبی اور ثقافتی روایات کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا اور اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کو برقرار رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سماج کو ان چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے خود احتسابی، شعور کی بیداری اور مثبت اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے اخلاقی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ لیکن ان سب کے باوجود ایک چیز جو سب سے اہم ہے اور وہی اخلاقیات کی شاہ کلید بھی ہے، وہ ہے خالق کائنات، مالک حقیقی اور آخرت کی اس کے سامنے جواب دہی کا تصور۔ جب تک دلوں میں یہ تصور پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک کسی بھی قسم کی اخلاقیات کا قائم ہونا ممکن ہی نہیں، جب تک انسان اپنے خالق حقیقی، مالک کائنات کے سامنے کھڑے ہونے کا یقین نہیں رکھتا ہے اس وقت تک کسی بھی قسم کی اخلاقیات کا پیدا ہونا ممکن نہیں ہے۔

 

***

 ٹکنالوجی کے پھیلاؤ نے بھارتی معاشرت میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارموں نے جہاں معلومات تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے، وہیں جھوٹی خبریں، سائبر کرائم اور آن لائن ہراسانی جیسے خطرناک مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ جہاں انٹرنیٹ نے ساری دنیا کو اپنی مٹھی میں کر دیا ہے اور ساری انسانیت کو غیر محفوظ کر دیا ہے، انسانوں کی ساری پرائیویسی کو ختم کردیا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں اخلاقیات کی ضرورت اور ذمہ داری کا احساس بھی ایک اہم چیلنج بن چکا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024