بھارتی معاشرہ اور یوم نسواں تقریبات

صنف نازک کا حقیقی مقام اسلامی نظام میں پنہاں

0

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

8 مارچ کو ہمارے ملک کے بشمول پوری دنیا میں خواتین کا قومی دن منایا جاتا ہے جس میں مختلف تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ سرکاری ادارے، تعلیمی ادارے، این جی اوز، کارپوریٹ ادارے اور مقامی کمیونٹیوں کے ذریعے متعدد سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔ یہ تقریبات صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مکالمے اور عمل کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ ہیں۔ اس دن اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرہ میں خواتین کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے اور حکومتی سطح پر تعلیم، صحت عامہ کی صورتحال، سماجی ذمہ داریاں اور ان کی ادائیگی اور گورننس جیسے شعبوں میں کامیابی حاصل کرنے والی خواتین کو تحائف پیش کیے جاتے ہیں اور معاشرے میں ان کی شراکت داری کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب ثقافتی پروگراموں میں مختلف نوعیت کی نمائشیں، پرفارمنس، فنون لطیفہ، ادب اور دستکاری میں خواتین کی کامیابیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ وہیں تعلیمی اداروں،اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے جیسے موضوعات پر لیکچرز، پینل ڈسکشنس،مباحثے، مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔سِول سوسائٹی کے تحت مختلف این جی اوز اور خواتین کے گروپ گھریلو تشدد، خواتین کے حقوق اور صنفی بنیاد پر امتیازات جیسے مسائل پر آگاہی مہم چلاتے ہیں۔نیز کارپوریٹ کے ذریعہ بہت سی تنظیمیں اپنی خواتین ملازمین کے لیے تقریبات کی میزبانی کرتی ہیں، سی ایس آر کی سرگرمیوں میں مشغول ہوتی ہیں، اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے منصوبوں کی حمایت کرتی ہیں۔اس کے علاوہ کمیونٹی کے اجتماعات،غیر رسمی ملاقاتیں،خواتین کےتجربات کا اشتراک اور سپورٹ نیٹ ورکس بنانے جیسی سرگرمیاں بھی انجام دی جاتی ہیں۔ان تمام سرگرمیوں کا مقصد اجتماعی طور پر معاشرہ میں خواتین کی شراکت داری کا احترام پیدا کرنا اور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل دینا ہوتا ہے جس میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کو بھی مساوی حقوق،ماحول اور مقام مل سکے۔ ساتھ ہی یہ دن موجودہ صنفی تفاوت اور خواتین کو درپیش مختلف قسم کے چیلنجوں کاحل بھی تجویز کرتا ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ8مارچ کی مناسبت دراصل تحریک نسائیت سےملتی ہے۔اس تحریک کو عرف عام میں تحریک نسواں Feminismبھی کہا جاتا ہے۔ یہ عالمی یوم خواتین دراصل تحریک نسائیت کے مکاتبِ فکر سے وابستہ ہے جس میں متعدد طبقات ہیں انہی میں سے ایک سوشلسٹ نسائیت بھی ہے۔
(1) سوشلسٹ نسائیت: اس سے مراد وہ نسائی حلقے (Feminists)ہیں جو کارل مارکس اور اینجلز کے نظریات پر کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مرد اور عورت دو طبقات ہیں، بعدازاں سارے طبقات صنف (Gender)پر رضا مند ہوئے۔ معاشرے میں دوسری طبقاتی کش مکش کی طرح یہ بھی ایسے ہی متحارب طبقات ہیں۔ اس طرح عورت اپنے مفادات کے حصول کے لیے مرد کے مقابلے پر کھڑی ہے اور مرد عورت کے مدمقابل ہے۔عورت کو نظام سرمایہ داری نے غلام بنا رکھا ہے۔ وہ اس کی وجہ سے دوہری مشقت میں ہے۔ ایک مشقت وہ ہے جو وہ فیکٹری میں مزدور بن کے کرتی ہے اور رات کو گھر واپس آ کر شوہر اور گھر کے لیے کرتی ہے۔ یوں وہ پیداوار اور عمل پیداوار میں ایک کل پرزے کے طور پر کام کرتی ہے۔عورت خاندان کی صورت میں ایک پدر سری (Patriarchal) نظام میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس کی تقدیر کے فیصلے باپ، بیٹا، بھائی یا شوہر کی صورت میں مرد کرتا ہے۔لہٰذا اس کی آزادی، خود مختاری کا ذریعہ یا راستہ اس پدرسری سماج، یعنی خاندان کا خاتمہ ہے۔
(2) لبرل اور ریاڈیکل نسائیت: سرمایہ داری کی نمائندہ تحریک ہے،اس کے مطابق عورت اور مرد برابر کی صنف (Gender)ہیں۔ ان میں مساوات ضروری ہے۔ اسے صنفی مساوات(Gender Equality) کہا جاتا ہے۔ہر ملک کے قانون، معاشرتی، مذہبی اور تہذیبی ضابطوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ عورت بھی مرد کے مساوی فیصلہ سازی میں کردار ادا کرے۔ بجٹ سازی میں صنفی تصورات (Gender Concepts)کے مطابق کام کیا جائے تاکہ وسائل، پراجیکٹس اور ان کی فیصلہ سازی میں عورت برابر کی سطح پر شریک رہے۔عورت کا جسم اس کی ملکیت ہے۔ کسی کو اس کے جسم پر کسی نوعیت کا تصرف حاصل نہیں ہے۔ کوئی مذہب، قانون، اخلاق یا معاشرہ کسی عورت سے یہ تصرف کسی شادی، نکاح، طلاق ، اکٹھے رہنے یا نہ رہنے کے نام پر یا کسی بھی طرح حاصل نہیں کر سکتا۔ عورت کو اپنے جسم کے مکمل اور جملہ استعمالات میں خود مختاری حاصل ہے۔
یعنی یہ دن، اس میں انجام دی جانی والی سرگرمیاں،ایشوز ،جائزے،رپورٹیں اور درپیش چیلنجز واضح کرتے ہیں کہ جس معاشرہ کا ہم حصہ ہیں اس میں ایک جانب خواتین کو آگے بڑھنے،ترقی کے حصول میں مدد کرنے اور ان کی تکریم کےجذبات کو وسیع و مستحکم کرنے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری جانب اس کڑوی حقیقت کو بھی بیان کرتی ہیں کہ معاشرہ میں خواتین کو وہ عزت و تکریم حاصل نہیں جو ان کا حق ہے۔یعنی یہ دن ایک ایسے بیانیے کوپروان چڑھاتا ہے جو درحقیقت اندرون خانہ موجود ہی نہیں ہے، اس کے باوجود خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ سب کچھ حاصل ہوجائے جو مطلوب ہے۔کیونکہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جہاں انسانوں کی تکریم موجود ہوتی ہے،ان کے حقوق ادا کیے جاتےہیں،وہاں کامیابیاں،نصرتیں،ترقی،بلندی اور ارتقا سب کچھ پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ برخلاف اس کے صورتحال بدتر ہوتی ہے،اور معاشرہ اپنے باطن کو چھپانے کے لیے ظاہر میں لیپاپوتی کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی خواتین کے ساتھ بے شمار بد سلوکیاں بڑھتی جارہی ہیں اور ہم ہیں کہ مخصوص فکر و نظر کے ساتھ مخصوص دنوں تک ہی محدود ہیں۔
وہیں ہندو معاشرے کو ‘ذات پات کی مذہبی زنجیروں’ میں جکڑنے والی قدیم ترین کتاب ‘منو دھرم شاستر’ کے چند اقتباسات، اس کے مختلف چیاپٹرس اور اس میں درج دفعات کی روشنی میں بیان کیے جارہے ہیں۔جس سے اندازہ ہوگاکہ منودھرم شاستر کی روشنی میں عورت کو کس نظر سے دیکھا گیا ہے اور عورت جودرحقیقت نسل کی پروش میں معاون ہوتی ہے،خاندان،گروہ،قبائل اور معاشرہ وجود میں لاتی ہے، اس معاشرہ کو عورت سے وابستہ کرتے ہوئے کس طرح تقسیم کیا گیا ہے۔ اور درحقیقت راست یا بلاواسطہ،عورت اس مرکزی حیثیت میں رہتے ہوئےاپنا کیا مقام حاصل کرتی ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ اگرچہ منودھرم شاستر قدیم ترین ہیں، اس کے باوجود موجودہ ہندوستان میں ان شاستروں پرآج بھی اپنے مکمل وجود کے ساتھ چلتا پھرتا نظام قائم ہے۔اِسی منوسمرتی کے چیاپٹر نمبر پانچ ،آٹھ،نو اور دس میں خواتین سے متعلق چنددفعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آیا جس ہندوستانی معاشرہ میں ہم بستے ہیں اور عصر حاضر میں عورت کے حوالہ سے جن مسائل پر گفتگو کی جاتی ہے اس میں کیا ربط اور تعلق ہے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ ہندوستانی معاشرہ ہر سال آٹھ مارچ کو یوم خواتین منانے کے باوجود،مقاصد کے حصول کی طرف پیش رفت کرسکتا ہے اور موجودہ مسائل کا مستقل حل تلاش کرسکتا ہے؟تو آئیے منودھرم شاستر میں دیکھتے ہیں کہ کیا کہا گیا ہے؟ لکھا ہے کہ:’لڑکی ہویا جوان عورت یا عمر رسیدہ عورت ہو، اسے کچھ بھی آزادانہ طور پر یا اپنی مرضی سے نہیں کرنا چاہیے خواہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ ہو(5:145)۔بچپن میں اپنے باپ،جوانی میں شوہر اور شوہر کی موت کے بعد بیٹوں کے اختیار میں رہے،اسے کبھی خود مختار نہیں ہونا چاہیے(5:146)۔اسے اپنے باپ، خاوند،بیٹوں سے الگ ہونے کی ہرگز کوشش نہیں کرنا چاہیے۔انہیں چھوڑنے سے وہ اپنے اور خاوند دونوں خاندانوں کے لیے باعث تحقیر بنے گی(5:147)۔اس کا باپ یا باپ کی اجازت سے بھائی جس کے ساتھ بھی بیاہ دیں وہ موت تک اس کی خدمت کرے گی؛اس کے مرجانے کے بعد اس کی یاد کی بھی ہرگز توہین نہیں کرے گی(5:149)۔وفادار بیوی اپنے خاوند کی ہمیشہ دیوتا کی طرح پوجا کرتی ہے خواہ وہ خیر سے تہی، (دوسری جگہوں پر)لذت کا متلاشہ اور اچھی خوبیوں سے محروم ہی کیوں نہ ہو(5:152)۔عورت کو اپنے خاوند سے جدا کسی یگیہ،برت یا عہد سے گریز کرنا چاہیے،محض اس عمل پر کاربند رہنے سے ہی وہ سورگ میں اٹھالی جائے گی(5:153)۔چاہے تو پھولوں،پھلوں اور خوردنی جڑوں پر گزارتے اپنا جسم گھلالے، لیکن اپنے شوہر کے مرنے کے بعد کسی دوسرے شخص کا نام تک نہ لے(5:155)۔مرنے تک مشکلات پر صبر کرے اور خود پر قابو رکھے، عفت مآبی میں اس فرض کی ادائیگی میں کوشاں رہے جو ایک خاوند والی بیویوں کےلیے بیادن کردیا گیا ہے(5:156)۔وہ عورت جو کمتر ذات کے شوہر کو چھوڑ کر نسبتاً اونچی ذات والے مرد کے ساتھ رہنے لگتی ہے،دوبیاہ کرنے والی کہلاتی ہے، دنیا میں اسے حقارت سے دیکھا جاتا ہے(5:161)۔زندگی میں مرجانے پر اس مقدس قانون کا جاننے والا برہمن کھشتری اور ویش اپنی طریقہ پر چلنے والی ہم ذات بیوی کو موت کے بعد اگنی ہوتر کی مقدس آگ دے گا اور مقدس رسوم اداکرے گا(5:165)۔اپنے سے پہلے مرجانے والی بیوی کو مقدس آگ دکھانے کے بعد وہ چاہے تو دوبارہ شادی کرکےمقدس آگ روشن رکھ سکتا ہے(5:166)۔
کسی اونچی ذات کے مرد کی طرف راغب ہونے والی عورت پر کوئی جرمانہ نہ ہوگا؛لیکن جو نچلی ذات کے مرد کی طرف مائل ہوتی ہے اسے گھر میں پابند کردیا جائے گا(8:357)۔اونچی ذات کی عورت سے مباشرت کرنے والا نچلی ذات کا مرد جسمانی سزا کا مستحق ہوگا؛برابر ذات کا مرد،عورت کے باپ کی خواہش پر،زر،زن شوئی ادا کرے گا(8:358)۔کسی دوسری کنیا کے ساتھ جبراً جنسی فعل کرنے والی کنیا کو دوصدپن جرمانہ ہوگا؛وہ زر،زن شوئی کا دوگنا ادا کرے گی اور اسے دس کوڑوں کی سزا ہوگی (8:361)۔لیکن اگر کوئی عورت کسی کنیا سے جنسی فعل کرتی ہے تو اس کا سرمونڈا جائے گا یا ہاتھ کی انگلیوں میں سے دو کاٹ دی جائیں گی؛پھر گدھے پر سوار قصبے میں پھرایا جائے گا(8:362)۔کسی کی حفاظت میں ہو یا اس کے برعکس، دوجمنی عورت سے مباشرت کے ارتکاب کرنے والے شودر کو مندرج ذیل قانون کے مطابق سزادی جائے گی:اگر عورت کسی کی حفاظت میں نہیں تو شودر عضو سےمحروم ہوجائے گا اور اس کی املاک ضبط ہوگی؛لیکن اگر وہ کسی کی حفاظت میں ہے تو شودر کی ہرچیز، حتیٰ کہ جان بھی جاسکتی ہے(8:366)۔حفاظت میں برہمنی کے ساتھ مباشرت کرنے والا ایک سال قید کے بعد اپنی جائیداد سے محروم ہوجائے گا؛ کھشتری کو ایک ہزارپن جرمانہ ہوگا اور اس کا سر گدھے کے پیشاب سے مونڈ دیا جائے گا(8:367)۔کھشتری یا ویش کسی ایسی برہمنی سے مباشرت کرتے ہیں جو حفاظت میں نہیں تو وہ ویش کو پانچ سو پن اور کھشتری کو ایک ہزار جرمانہ کریں(8:368)۔لیکن اگر یہ برہمنی نہ صرف حفاظت میں بلکہ کسی ممتاز شخص کی بیوی بھی ہے تو ان کی سزا شودر کی سی ہوگی یا خشک گھاس کی آگ میں جلادیا جائے گا(8:369)۔محفوظ عورت کی طرف اس کی مرضی کے خلاف رجوع کرنے والے برہمن کو ایک ہزار پن کا جرمانہ ہوگا؛ لیکن اگر عورت کی رضا مندی شامل ہوتو جرمانہ پانچ سو پن ہوگا(8:370)۔برہمن کو موت کی سزا کی بجائے سر مونڈنے کی سزا کا حکم دیا گیا ہے لیکن دوسری ذاتوں کے مردوں کو موت کی سزا بھگتنا ہوگی(8:371)۔کسی برہمن نے خواہ تمام ممکنہ جرائم کیے ہوں اسے موت کی سزا نہیں دی جائے گی؛ بادشاہ ایسے مجرم کو ملک بدر کردے گا ،اس کی ساری جائیداد خود رکھ لے گا لیکن اس کے جسم کو ضرب نہ پہنچائے گا(8:372)۔برہمن کے قتل سے بڑاجرم کرہ ارض پر کوئی نہیں؛چنانچہ کسی بادشاہ کو برہمن کے قتل کا خیال بھی ذہن میں نہیں لانا چاہیے(8:373)۔غلام سات طرح کے ہیں جو یوں ہیں: وہ جسے پکڑا گیا ہو، وہ جو روزانہ کی خوراک کے بدلے کام کرتا ہو، وہ جو خانہ زاد ہو، وہ جو خریدا یا دیا گیا ہو، وہ جو وراثت میں ملا ہو، اور وہ جسے بطور سزا کے غلامی میں دیا گیا ہو۔ (8:407)۔بیوی ،بیٹے اور غلام کی کوئی جائیداد نہیں ہوتی، وہ جوکچھ کماتے ہیں ان کے مالک کا ہے(8:408)۔برہمن پورے اعتماد کے ساتھ اپنے شودر غلام کے سامان پر قبضہ کرسکتا

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025