بھارتی معیشت سست روی کا شکار۔ نومورا کی تشویشناک رپورٹ
مہنگائی اور زیادہ شرح سود سے صارفین کی قوت خرید متاثر۔شہری متوسط طبقے کے اخراجات میں کٹوتی، سرمایہ کاری کا رجحان کمزور
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
سرکاری پالیسیوں پر سوالیہ نشان ’سائیکلنگ گروتھ سلو ڈاون‘ کب ختم ہو گا؟
بھارت اس وقت معاشی ترقی کے ایک نرم مرحلے سے گزر رہا ہے۔ جاپانی بروکریج کمپنی نومورا نے کہا ہے کہ بھارتی معیشت میں سائیکلک گروتھ کے دوران نرمی کا دور شروع ہو چکا ہے اور آر بی آئی کا 7.2 فیصد کی جی ڈی پی کی شرح نمو کا اندازہ انتہائی خوش فہمی پر مبنی ہے۔ نومورا نے کہا کہ اسے مالی سال 2024-25 کے لیے جی ڈی پی میں 6.7 فیصد اور مالی سال 2025-26 میں 6.8 فیصد کے اپنے تخمینوں کے حوالے سے بڑھتے ہوئے منفی اثرات نظر آ رہے ہیں۔ نومورا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معیشت کی حالت بہتر نہیں ہے اور مخصوص نمو کے اشاریے جی ڈی پی کے اضافہ میں مزید کمی کا اشارہ دے رہے ہیں۔ مالی سال 2024-25 کے لیے آر بی آئی کا 7.2 فیصد کا تخمینہ حد سے زیادہ خوش گمانی پر مبنی ہے۔ آر بی آئی نے اس ماہ کے آغاز میں مالی سال 2024-25 کے لیے شرح نمو کے تخمینے کو 7.2 فیصد پر رکھا ہے مگر تجزیہ کار اس ڈیٹا میں کمی کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ نومورا نے کہا کہ شہری کھپت سے منسلک اشاریے حالیہ دنوں میں کمزور ہوئے ہیں۔ مسافر گاڑیوں کی فروخت میں کمی، ہوائی آمد و رفت میں کمی اور روزمرہ کے استعمال میں آنے والی اشیاء بنانے والی کمپنیوں کے ڈیٹا بھی شہری طلب میں کمی کو ظاہر کر رہے ہیں۔ بروکریج نومورا نے کہا ہے کہ ہمارا ماننا ہے کہ شہری طلب میں کمزوری جاری رہنے کا اندیشہ ہے۔ نومورا نے کمپنیوں کے تنخواہوں کے اخراجات میں کمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دستیاب ڈیٹا کے مطابق، ستمبر سہ ماہی میں حقیقی تنخواہ اور مزدوری اخراجات افراط زر کے ساتھ 0.8 فیصد کم ہوئے ہیں۔ نومورا نے مزید کہا کہ اپریل تا جون سہ ماہی میں یہ شرح 1.2 فیصد تھی، مالی سال 2023-24 میں 2.5 فیصد اور مالی سال 2022-23 میں 10.8 فیصد رہی۔ ممکنہ طور پر برائے نام تنخواہ میں اضافے اور ورک فورس میں کمی کے ملاپ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔
تازہ خبروں کے مطابق، نومورا کے ماہرینِ معاشیات نے اندازہ لگایا ہے کہ بھارت کی معیشت ممکنہ طور پر سائیکلک سلوڈاؤن (cyclical slowdown) میں داخل ہوچکی ہے۔ بھارت میں شرح نمو کے اندازے کمزور ہوتے نظر آرہے ہیں، اور طلب میں بحالی کی توقع فی الحال مفقود ہے۔ زیادہ مہنگائی اور شرح سود میں اضافے نے صارفین کے اخراجات کو متاثر کیا ہے اور معاشی اصولوں کی بنا پر شرح نمو پر دباؤ ہے۔ سرمایہ کاروں کا رجحان بھی دھیما اور سست ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔سائیکلک سلوڈاؤن دراصل معاشی سرگرمیوں میں کمی کا وہ دور ہے جو عموماً خاص وقفوں سے آتا ہے اور کم از کم درمیانی مدت تک جاری رہتا ہے۔ یہ کاروباری سائیکل میں تبدیلیوں پر منحصر ہوتا ہے۔ سائیکلک سلوڈاؤن سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اکثر معیشت کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے عبوری حکومتی اخراجات، مالی وسائل کی دستیابی، قرض کے بازار کی وقتی بحالی اور مناسب ضابطوں میں ضرورت کے مطابق تبدیلی کی جاتی ہے۔واضح رہے کہ نومورا ایک عالمی مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ہے جو سرمایہ کاری، تجارت اور اثاثہ جات کے انتظام جیسی خدمات پیش کرتی ہے۔ یہ ایشیا، یورپ، اور امریکہ کے بازاروں میں سرگرم ہے۔ نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری جی ڈی پی کی شرح 6.7 فیصد سے نیچے جا سکتی ہے کیونکہ بھارت میں سرمایہ کاروں کا رجحان مضبوط نہیں ہے۔ ملک میں مہنگائی اور معاشی عدم استحکام کی ذمہ دار حکومت کی معاشی پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے ملک بحران جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔گزشتہ تین دہائیوں میں بھارت کی ترقی کی کہانی صارفیت کے اضافے پر مشتمل رہی ہے۔ کروڑوں افراد نے خط افلاس سے اوپر آکر نئی مصنوعات خریدنے اور جائیدادیں بنانے میں کامیابی حاصل کی جس نے ایک بہتر اور تیزی سے ترقی پذیر معیشت کی عکاسی کی۔ تاہم، گزشتہ دس سالوں میں ملک میں صارفیت کا رجحان الٹ سمت میں چل پڑا ہے، جو ہماری معیشت کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک سی ای او نے یہاں تک کہا ہے کہ ملک میں متوسط طبقہ (middle class) سکڑ رہا ہے۔حالیہ صنعتی سروے اور حکومت کے سرکاری اعداد و شمار سمیت مختلف ذرائع سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دس سال قبل کے مقابلے مزدوروں کی قوت خرید کم ہو گئی ہے، جس کی وجہ تنخواہوں میں کمی اور مزدوروں کی پیداواریت میں کمی ہو سکتی ہے۔ آر بی آئی کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر ورَل اچاریہ نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں اڈانی کے علاوہ دیگر بڑے صنعت کاروں نے بھی بڑی تیزی سے ترقی کی ہے اور چار اہم شعبوں سیمنٹ، پٹرولیم، کیمیکلز اور مینو فیکچرنگ میں اجارہ داری قائم کر لی ہے۔ 2015 میں ایک فرد سو روپے کی خریداری کرتا تھا تو صنعت کار کو اس کا اٹھارہ فیصد ملتا تھا، جبکہ اب سو روپے کی خریداری پر اسے اڑتیس فیصد کا منافع حاصل ہو رہا ہے۔
صارفین کی مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیاں (consumer companies) بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں کیونکہ شہری متوسط طبقے نے اپنے اخراجات میں کٹوتی کی ہے، خاص طور پر گزشتہ دو سہ ماہیوں میں۔ افراط زر اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح بھیانک سطح پر ہے۔ آر آئی ایل ریٹیل آرم اور ہندوستان یونی لیور جیسی بڑی کمپنیاں بھی اس صورتحال سے متاثر ہوئی ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں زیادہ شرح سود، اجرتوں میں کمی اور روزگار کی بدتر حالت نے شہری طلب کو بری طرح متاثر کیا ہے، جبکہ دیہی صارفین کی آمدنی میں کچھ بہتری کا امکان ہے۔رپورٹ کے مطابق گلوبل کاروباروں کو 1.4 بلین صارفین سے توقعات وابستہ ہیں، لیکن ایندھن میں اضافہ اور چین کی معیشت میں سلوڈاؤن کی وجہ سے یہ حالات مشکل ہیں۔ ریلائنس ریٹیل یونٹ، جو بھارت کی سب سے بڑی ریٹیل کمپنی ہے، اس کی آمدنی جولائی تا ستمبر سہ ماہی میں 3.5 فیصد کم ہو گئی ہے کیونکہ فیشن اور لائف اسٹائل کے بازار میں اس کے پروڈکٹس کی طلب کمزور ہے۔ یونی لیور انڈیا یونٹ نے دیہاتوں میں ایک تہائی فروخت کا رجحان درج کیا ہے، جیسا کہ کمپنی کے سی ای او روہت جاوا نے رپورٹ میں کہا ہے۔اب شہری طلب میں اضافے کے لیے مزید کئی سہ ماہیوں کی ضرورت ہو سکتی ہے کیونکہ حالیہ سہ ماہی میں شہری طلب کا رجحان کمزور پڑ گیا ہے۔ طلب میں اس کمی کا اثر مختلف شعبوں پر نمایاں ہے۔ وزارت مالیات نے بھی اس رجحان کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسافر گاڑیوں کی فروخت میں ستمبر تک بڑی کمی درج کی گئی ہے۔ اسی طرح ہوائی سفر میں گزشتہ سہ ماہی میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ بھارت کی فیکٹریوں میں نرمی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے اور کمپنیاں اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کر رہی ہیں۔ نومورا کے دو ماہرین معاشیات، سونل ورما اور اورو دیپ نندی نے اپنی 28 اکتوبر کی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ کمزوری جاری رہے گی۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024