
!بھارتی جمہوریت میں بنگالی نژاد مسلمانوں پر کھلم کھلا جبر کی اجازت
زبان اور مذہب : بنگالی نژاد مسلمان کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں؟
نوراللہ جاوید، کولکاتا
کارپوریٹ لالچ قوم پرستی کے پردے میں! دہلی سے آسام تک شناخت کی سزا!!
این آر سی کے نام پر شہریت سے محروم کرنے کی سازش بے نقاب۔بنگال کے باشندے کو غیر ملکی ٹربیونل نے شہریت ثابت کرنے ک نوٹس جاری کردیا
اس ہفتے دہلی ، اڈیشہ اور آسام میں بنگالی نژاد مسلمانوں کی گرفتاری، بنگلہ دیش میں ڈھکیلنے اور انہدامی کارروائیوں کی خبریں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں زینت بنیں۔ قومی راجدھانی دہلی کے جنوبی علاقے میں واقع ’’جے ہند ‘‘ کالونی میں کئی دہائیوں سے آباد بنگالی اور آسامی شہریوں جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی کو سفاکانہ انداز میں اجاڑ دیا گیا ۔ اڈیشہ میں بنگلہ دیشی اور روہنگیائی دراندازوں کی شناخت کے نام پرگزشتہ دو مہینوں سے بنگالی مسلمانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔اس ہفتے میں اڈیشہ میں 440بنگالی مزدوروں کی گرفتاری کی خبر سامنے آئی ۔ان میں سے اکثر کے پاس بنگال کے دستاویز تھے۔ضلع کلکٹروں کی تصدیق کے بعد بھی انہیں رہاکرنے میں تاخیر سے کام لیا گیا ۔آسام میںتو بنگالی نژاد مسلمانوں کو اجاڑنے ، ریاستی ظلم و جبرمعمول کا حصہ بن چکا ہے۔مبینہ سرکاری زمینوں پر آبادمسلمانوں کو غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائی کے نام پر بے رحمی سے اجاڑ دیا جاتا ہے۔آسام میں این آر سی کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔این آر سی کو اقلیت اور پسماندہ بنگالی نسل کی شہریت کو چھیننے کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔اس کی زد میں صرف بنگالی نژاد مسلمان ہی نہیں بلکہ ریاست کے باہر رہنے والے بھی ہورہے ہیں ۔اتم کار برج مغربی بنگال کے کوچ بہار ضلع کے دنہاٹا بلاک 2 میں چودھری ہاٹ گرام پنچایت کے تحت سدیار کٹھیر گاؤں کے رہنے والےہیں ۔انہوں نے کبھی اپنے ضلع سے باہر قدم نہیں رکھا، بین الاقوامی سرحد کو عبور کرنے کی بات توبہت دور کی بات ہے ۔اس کے باوجود آسام این آر سی (شہریوں کے قومی رجسٹر) کے لیے بنائے گئے غیر ملکیوں کے ٹریبونل نے انہیں نوٹس جاری کرکے 15 جولائی تک شہریت کے دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے دستاویز جمع نہیں کئے تو ان کو غیرملکی قرار دیدیا جائے گا۔اہم سوال یہ ہے کہ این آر سی صرف آسام کے باشندے پر نافذ ہے۔تو بنگال کے باشندے کو نوٹس کیوں جاری کیا گیا ؟غیر ملکی ٹربیونل کس طرح سے کام کرتی ہے یہ اس کاثبوت ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر اتم کمار کی جگہ بنگال کے کسی مسلم باشندے کو نوٹس جاری کیاجاتا تو اس کے بنگلہ دیشی قرار دیدیا جاتا۔چوںکہ اتم کمار کا رتعلق بنگال کی دلت برادری را ج بنشی سے ہے۔راج بنشی بنگال کی سیاست میں اہم کردار کے حامل ہے اس لئے اس پر بی جے پی اور ترنمو ل کانگریس دونوںسیاست کررہی ہے۔
آسام میں تو بنگالی نژاد مسلمانوں کو اجاڑنے، اور ریاستی ظلم و جبر معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ مبینہ سرکاری زمینوں پر آباد مسلمانوں کو غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائی کے نام پر بے رحمی سے بے دخل کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری کمیونٹیوں کو شاذ و نادر ہی ایسی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور جب بنگالی نژاد مسلمانوں کی بات آتی ہے تو انتظامیہ، پولیس اور بسا اوقات میڈیا اہلکاروں کے لیے اس طرح کی کارروائیاں کسی جشن سے کم نہیں ہوتیں۔ جبری انخلا کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلم نوجوانوں پر فائرنگ کرنے میں بھی تاخیر نہیں کی جاتی۔ آسام کی کسی دوسری کمیونٹی کے ساتھ ایسی کارروائی ناقابلِ تصور ہے۔
بھارت میں پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے خلاف ہولناک کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں، مگر بنگالی نژاد مسلمانوں کے خلاف جبر اور متعصبانہ رویّہ اب ریاستی پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ بنگالی نژاد مسلمانوں کی شہریت پر شک و شبہ کا اظہار قوم پرستی کے اظہار کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اس پورے منظرنامے میں سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس نے بھی آنکھیں موند لی ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کی کھلے عام خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں، مگر عدالت ازخود نوٹس لینے کو تیار نہیں۔ ملک کا آئین ہر شہری کو ملک کے کسی بھی حصے میں آباد ہونے اور کام کرنے کا حق دیتا ہے، مگر آئین کے نام پر حلف اٹھانے والے، اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے بجائے، بنگالی نژاد مسلمانوں کو بنگلہ دیشی اور روہنگیا بتا کر مقامی آبادیوں اور برادریوں کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
ملک بھر میں بنگالی مسلمانوں کے ساتھ ظلم و جبر کے خلاف بنگال میں آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ ممتا حکومت نے تارکینِ وطن مزدوروں کے لیے ایک بورڈ بھی قائم کیا ہے۔ جے ہند کالونی میں بنگالی مزدوروں کی رہائش کو اجاڑے جانے کے خلاف وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کھل کر سامنے آئی ہیں اور اس کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کر چکی ہیں۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے اس معاملے میں ایک عرضی پر سماعت قبول کرتے ہوئے اڈیشہ حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔
آسام میں بنگالی نژاد مسلمانوں کی حالت انتہائی سنگین ہے۔اپوزیشن، حتیٰ کہ نام نہاد مسلم قیادت بھی ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کر رہی ہے۔ گزشتہ ایک مہینے میں گوالپوکھر، دھوبری جیسے مسلم اکثریتی اضلاع میں بڑے پیمانے پر انہدامی کارروائیاں ہوئی ہیں۔ جنگل کی زمین کے نام پر کئی دہائیوں سے آباد مسلمانوں کو چشم زدن میں اجاڑ دیا جا رہا ہے، مگر کہیں سے بھی آواز بلند نہیں ہو رہی ہے۔ ریاست کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے اگرچہ ان انہدامی کارروائیوں کی مذمت کی ہے، تاہم ان کے خلاف احتجاج یا قانونی چارہ جوئی سے گریز کیا ہے۔
آسام میں مقیم صحافی ربیک الاسلام، جو تسلسل کے ساتھ بنگالی نژاد مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و جبر کی رپورٹنگ کرتے ہیں، آسام کی مسلم اشرافیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"پسماندہ بنگالی نژاد مسلمانوں کی گھروں سے زبردستی بے دخلی اور انہدامی کارروائی پر مسلم اشرافیہ مکمل طور پر خاموش ہے۔”
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ مسلم اشرافیہ گوہاٹی اور اس کے آس پاس زمین خریدنے میں مصروف ہے۔ انہیں بوڈوز، ناگا، کوکیز، ژومیز اور میزوس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے لوگوں کے لیے کیسے کھڑا ہوا جاتا ہے اور حقوق کے لیے کس طرح لڑائی لڑی جاتی ہے۔
ہندی کے بعد بنگلہ بولنے والوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے بنگال کا وہ خطہ جس میں یہ آبادی مقیم ہے، قدرتی آفات کی تباہی و بربادی کا مستقل شکار رہا ہے۔ اسی وجہ سے غربت اور پسماندگی کی شرح یہاں سب سے زیادہ ہے، اور نقل مکانی بھی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے۔ ملک بھر میں مزدوری اور گھریلو کام کرنے والوں میں بنگالی اور آسام میں آباد بنگالی نژاد مسلمانوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ بنگال میں مسلمانوں کی شرح 27 فیصد ہے۔ آسام میں زیادہ تر بنگالی نژاد مسلمان اپنی ابتداء اس وقت سے بتاتے ہیں جب برطانوی نوآبادیاتی منتظمین نے بنگال کے کسانوں کو آسام کے زرخیز علاقوں میں آباد کیا تھا۔ تب سے یہ کمیونٹی آسام میں زینو فوبک جذبات کا مستقل نشانہ رہی ہے۔ نسل پرستی اور مذہبی تعصب، دونوں حوالوں سے یہ طبقہ ادارہ جاتی نفرت کا شکار رہا ہے۔
آسام میں بنگالی نژاد مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ کے قریب ہے، جو ریاست کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی بنتی ہے۔ ملک گیر پیمانے پر ان کی مجموعی تعداد تقریباً تین کروڑ ہے۔ اتنی بڑی تعداد کسی بھی جمہوری ملک میں اہمیت رکھتی ہے، مگر چونکہ ان میں سے اکثریت انتہائی غربت اور پسماندگی کا شکار ہے، اس لیے اقتدار کے گلیاروں میں ان کی کوئی آواز نہیں ہے، اور ان کے خلاف ظلم و جبر اور ریاستی تشدد بلاروک ٹوک جاری ہے۔ تاہم، طویل مدت تک کسی کمیونٹی کے ساتھ اس طرح کا بے رحمانہ سلوک ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ملک بھر میں بنگالی مسلمانوں کے خلاف بے رحمانہ سلوک کی لہر اور کلکتہ ہائی کورٹ کا تبصرہ
بنگالی شناخت ہمیشہ سے تعصب اور نفرت کا شکار رہی ہے۔ لسانی عصبیت اور نسل پرستی رفتہ رفتہ مذہبی امتیاز میں تبدیل ہو چکی ہے۔ حالانکہ بنگلہ دیش کی تشکیل میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، مگر "بنگلہ دیشی دراندازی” کے نام پر نفرت کی آبیاری گزشتہ پانچ دہائیوں سے جاری ہے۔ چنانچہ پلوامہ حملے کے بعد، جب ملک بھر میں غم و غصہ کی لہر تھی، تو نفرت کی سیاست کے علمبرداروں نے اس غصے کا رخ بنگالی نژاد مسلمانوں کی طرف موڑ دیا۔ نتیجتاً ممبئی، گجرات، راجستھان، دہلی اور اڈیشہ میں بڑے پیمانے پر بنگالی نژاد مسلمانوں کی شہریت کی جانچ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ممبئی پولیس نے تو ایک نابالغ بچے سمیت کئی افراد کو گرفتار کرکے بی ایس ایف کے حوالے کر دیا، جنہیں بنگلہ دیش کی سرحد میں ڈھکیل دیا گیا۔ بعد میں انہیں واپس لایا گیا۔ اڈیشہ میں بھی بڑی تعداد میں بنگالی مزدور، جن میں راج مستری اور تعمیراتی مزدور شامل ہیں، کو "بنگلہ دیشی درانداز” قرار دے کر حراست میں لیا جا رہا ہے۔ اس ہفتے 440 بنگالی مسلمانوں کی حراست کی خبر آئی۔ ان میں سے اکثر کا تعلق بنگال کے دیہی علاقوں—مرشدآباد، مالدہ، شمالی 24 پرگنہ، جنوبی 24 پرگنہ، بیر بھوم، ندیا اور شمالی دیناج پور—سے ہے۔ مقامی ضلع کلکٹروں نے ان کی شہریت کی تصدیق بھی کر دی ہے، اس کے باوجود انہیں رہا کرنے میں تاخیر کی جا رہی ہے۔
کثیر الاشاعت بنگلہ اخبار ’’آنند بازار پتریکا‘‘ نے اڈیشہ سے رہا ہو کر واپس آنے والوں کے انٹرویوز شائع کیے ہیں۔ ان افراد نے دورانِ حراست پولیس انتظامیہ کے سلوک کو انتہائی ظالمانہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان پر جبراً یہ اقرار کروایا جا رہا تھا کہ ان کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، اور انکار کی صورت میں پولیس کی بربریت میں شدت آ جاتی تھی۔
مغربی بنگال میں مائیگرنٹ ویلفیئر بورڈ کے چیئرمین اور راجیہ سبھا کے رکن سمیر الاسلام نے بتایا کہ ان کے دفتر کو ملک کی بی جے پی زیرِ اقتدار ریاستوں میں کام کرنے والے بنگالی مزدوروں کے فون بڑی تعداد میں موصول ہو رہے ہیں۔ ہر دن کسی نہ کسی مقام پر بنگالی مزدوروں کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایت موصول ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال ملک میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ایک منظم منصوبے کے تحت بنگالی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اڈیشہ اور دیگر ریاستیں "قومی سلامتی” کا حوالہ دے کر ان کارروائیوں کو جواز دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
مگر ان کارروائیوں میں شفافیت کی کمی، لسانی و مذہبی تعصب اور ادارہ جاتی نسل پرستی کے مظاہر، انسانی حقوق کی تنظیموں کے خدشات کو تقویت دیتے ہیں۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ یہ اقدامات آئینی بحران کو مزید سنگین کر سکتے ہیں۔ وفاقیت اور بنیادی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزیاں، بالآخر مغربی بنگال میں عدم اطمینان اور اشتعال میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔
کلکتہ ہائی کورٹ نے 10 جولائی کو مغربی بنگال کے ایک نوجوان مزدور کی مبینہ طور پر غیر قانونی حراست سے متعلق دائر عرضی پر سماعت کی۔ جسٹس تپبرتا چکرورتی اور ریتوبرتو کمار مترا پر مشتمل ایک ڈویژن بنچ، جگت سنگھ پور، اڈیشہ میں کام کرنے والے بنگالی نژاد سینور اسلام کے والد رازق کی طرف سے دائر کی گئی عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔
درخواست کے مطابق، سینور کو اڈیشہ پولیس نے ’’خصوصی شناختی مہم‘‘ کے دوران اٹھایا تھا اور اس کے بعد سے ہی وہ لاپتہ ہے۔ درخواست گزار کا دعویٰ ہے کہ گرفتاری کی کوئی باضابطہ اطلاع یا کیس کی تفصیلات خاندان کے ساتھ شیئر نہیں کی گئیں۔ یہ من مانی حراست اور آئینی حقوق سے انکار کے مترادف ہے۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ مہاجر مزدور اب کہاں ہیں؟ انہیں کس بنیاد پر حراست میں لیا گیا؟ کیا ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی گئی ہے؟
سینئر وکیل کلیان بنرجی، جو عرضی گزار کی حمایت میں پیش ہوئے، نے حالیہ واقعات کا حوالہ دیا جن میں بنگالی بولنے والے مزدوروں کو آسام سمیت دیگر ریاستوں میں زبان اور ظاہری شناخت کی بنیاد پر غیر ملکی قرار دے کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان گذارشات کا نوٹس لیتے ہوئے، بنچ نے تبصرہ کیا کہ یہ الزامات بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق سنگین سوالات اٹھاتے ہیں، اور انہیں صرف اس بنیاد پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ مبینہ غیر قانونی حراست مغربی بنگال کے باہر ہوئی ہے۔ ججوں نے کہا:
"یہ عدالت خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی۔”
عدالت نے آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت پٹیشن کی سماعت کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں رٹ جاری کرے، چاہے معاملہ کسی اور ریاست میں پیش آیا ہو۔
بنچ نے کہا کہ الزامات کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، پہلی نظر میں، ہماری رائے ہے کہ یہ رٹ پٹیشن قابلِ سماعت ہے، اور عدالت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔ حکام کو تمام متعلقہ دستاویزات پیش کرنے کی ہدایت کی جانی چاہیے تاکہ عدالت یہ طے کر سکے کہ آیا سینور کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔
اڈیشہ کے حکام کو باضابطہ ہدایات جاری کرنے سے قبل عدالت نے چھ نکاتی سوالات ترتیب دیے جن کا جواب دینا ضروری ہے:
1. کیا سینور کو حراست میں لیا گیا تھا یا وہ لاپتہ ہے؟
2. اگر حراست میں لیا گیا تو کیا یہ نظر بندی کسی عدالت کے حکم کے تحت تھی؟
3. اگر حراست میں لیا گیا تو اس کی کیا وجوہات ہیں؟
4. کیا سینور کو اس کی گرفتاری کی مخصوص وجوہات بتاکر حراست میں لیا گیا تھا؟
5. کیا سینور کی گرفتاری اڈیشہ پولیس یا ریاستی حکام کی جانب سے کی جا رہی کسی تفتیش کا حصہ ہے؟
6. کیا مغربی بنگال اور اڈیشہ کے حکام کے درمیان اس سلسلے میں کوئی خط و کتابت ہوئی ہے؟
بین الریاستی جواب کو آسان بنانے کے لیے، عدالت نے مغربی بنگال کے چیف سکریٹری کو ہدایت دی کہ وہ ایک نوڈل افسر مقرر کریں، جو اڈیشہ کے چیف سکریٹری کے ساتھ براہِ راست رابطہ قائم کرے، عدالت کے سوالات ان تک پہنچائے، اور تمام متعلقہ دستاویزات بنچ کے سامنے پیش کرنے کو یقینی بنائے۔
کلکتہ ہائی کورٹ کے اس بنچ کے تبصرے سے واضح ہوتا ہے کہ معاملہ کس قدر سنگین ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ عدالت اس پورے معاملے میں کیا فیصلہ صادر کرتی ہے۔
آسام میں غیر قانونی تجاوزات کے نام پر کارروائی
ہندوتوا قوم پرستی اور کارپوریٹ مفادات کے درمیان سازباز کوئی نئی بات نہیں۔ کارپوریٹ گھرانوں نے ہندوتوا قوم پرستی کی آڑ میں گزشتہ بارہ برسوں میں زبردست منافع خوری کی ہے۔ آسام میں "غیر قانونی تجاوزات” کے نام پر جو کارروائیاں کی جا رہی ہیں، ان کا مقصد جنگلات کا تحفظ نہیں بلکہ غیر قانونی طور پر کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔
دھوبری ضلع میں 1400 سے زائد مقامی مسلمانوں کو بے دخل کر دیا گیا ہے، جہاں تھرمل پاور پروجیکٹ لگائے جانے کی تجویز ہے۔ اطلاعات کے مطابق، اڈانی گروپ کو اس پلانٹ کے لیے زمین دی جا رہی ہے۔ یہ پاور پروجیکٹ دراصل ابتدائی طور پر ضلع کوکراجھار کے قبائلی اکثریتی علاقے میں تجویز کیا گیا تھا، لیکن مقامی آبادی کے شدید احتجاج کے بعد اسے دھوبری کے بلاپشی پاڑہ علاقے میں منتقل کر دیا گیا، جو کہ بنگالی نژاد مسلم برادری کی اکثریت والا علاقہ ہے۔
آسام حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہاں کے لوگ غیر قانونی طریقے سے آباد تھے اور انہدامی کارروائی سرکاری زمین خالی کرانے کے لیے کی جا رہی ہے۔ آسام ریونیو اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2016 سے اگست 2024 تک 10,620 سے زائد خاندانوں کو — جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی سرکاری زمین سے بے دخل کیا گیا ہے۔
اس ہفتے (ہفتہ کو) آسام کے گولپارہ ضلع میں "پیکان ریزرو جنگل” کے علاقے میں 140 ہیکٹر اراضی پر آباد 1080 خاندانوں کو بے دخل کیا گیا، جن میں سے زیادہ تر بنگالی نژاد مسلمان ہیں۔ صرف جون 2024 میں آسام کے چار اضلاع میں کم از کم پانچ بڑے انہدامی آپریشنز چلائے گئے، جن میں تقریباً 3500 خاندان متاثر ہوئے۔ 30 جون کو ضلع نلباڑی میں برکھیتری ریونیو سرکل میں تقریباً 150 ایکڑ چراگاہ کی زمین سے تجاوزات ہٹانے کے نام پر بے دخلی کی گئی، جب کہ لکھیم پور میں بھی 220 خاندانوں کو بے دخل کیا گیا۔
ان تمام کارروائیوں کے پیچھے ایک ہی مقصد کارفرما ہے: بنگالی نژاد مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنا۔ دھوبری میں پاور پلانٹ کے لیے زمین خالی کرائی گئی، مگر تاثر یہ دیا گیا کہ وہاں کے مکین غیر قانونی تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ واقعی غیر قانونی تھے تو انہیں برہم پتر کے کنارے آبادکاری کی اجازت کیوں دی گئی؟
آسام کی اس سفاکانہ پالیسی کے خلاف اب وہ حلقے بھی آواز بلند کر رہے ہیں جو ماضی میں آسام قوم پرستی کے علمبردار رہے ہیں۔ آسام کا کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ "آسام ٹریبیون”، جو عموماً حکومتی موقف کی تائید میں معروف ہے، نے حالیہ انہدامی کارروائی پر اپنے اداریے میں لکھا:
"گولپارہ ضلع میں حالیہ بے دخلی نے سینکڑوں خاندانوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ کارروائی منصفانہ عمل، انتظامی شفافیت اور ریاستی اقدامات کی انسانی قیمت پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔ 667 سے زائد خاندان، جن میں اکثریت بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی ہے _ اور جن میں بیشتر این آر سی میں درج شہری اور یومیہ مزدور ہیں_ بے گھر ہو چکے ہیں۔ بلڈوزر اور کھدائی مشینوں نے گھروں، اسکولوں اور حتیٰ کہ جل جیون مشن (JJM) کے منصوبے کو بھی زمین بوس کر دیا۔”
اداریے میں مزید کہا گیا کہ اگر یہ لوگ واقعی غیر قانونی قابض تھے تو انہیں سرکاری اسکیموں کا فائدہ کیسے ملا؟ انہیں بجلی کے کنکشن اور رہائش کیسے دی گئی؟ اگر بستی غیر قانونی تھی تو ریاستی انتظامیہ گزشتہ کئی دہائیوں تک خاموش کیوں رہی؟ اسکول اور بنیادی انفراسٹرکچر کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ یا تو ریاست نے آنکھیں بند کیں، یا کسی مرحلے پر ان بستیوں کو عملاً تسلیم کر لیا۔
"احتساب کے بغیر بے دخلی، حکمرانی نہیں بلکہ ذمہ داری سے فرار ہے۔ اگرچہ مقاصد قانونی ہو سکتے ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد غیر انسانی ہے۔ انسانی وقار اور قانونی دائرے کو ایک ساتھ رکھ کر ہی پائیدار پالیسی بن سکتی ہے۔”
آسام ٹریبیون کا یہ اداریہ بہت کچھ واضح کرتا ہے۔ آسام میں ہر سال آنے والے سیلابوں کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوتے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان کی بازآبادکاری کرے، لیکن اس کے بجائے وہ ان متاثرین کو ریاست کے لیے خطرہ قرار دے رہی ہے۔
گزشتہ ایک دہائی میں آسام کو لسانی اور مذہبی خطوط پر بری طرح تقسیم کیا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ گزشتہ صدی سے آباد بنگالی نژاد مسلمانوں نے اپنی زبان اور ثقافت کو آسامی شناخت میں اس قدر ضم کر دیا کہ اب وہ خود کو "بنگالی” کہنے سے کتراتے ہیں، اس کے باوجود انہیں آج بھی "آسامی” تسلیم نہیں کیا جا رہا۔
جب سے آسام کی قوم پرستی ہندوتوا کے ساتھ ضم ہوئی ہے، صرف بنگالی نژاد مسلمان نشانے پر آ چکے ہیں۔ 2021 میں بھی درانگ ضلع میں گورکھوتی بہومکھی کرشی پرکلپا (GBKP) منصوبے کے لیے ہزاروں مسلمانوں کو اجاڑا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا شرما نے اسے آسام کی زرعی نشاۃ ثانیہ کا آغاز قرار دیا تھا، لیکن آج وہ پورا پروجیکٹ ایک گھوٹالے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ 17 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، گیر گائے گجرات سے منگوائی گئیں، لیکن پروجیکٹ زمین پر کہیں موجود نہیں۔
یہ وہی پروجیکٹ تھا جس کے انہدامی آپریشن میں 12 سالہ شیخ فرید اور مین الحق پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے، اور ان میں سے ایک کی لاش کو سرکاری فوٹوگرافر نے روند دیا تھا۔ یہ پروجیکٹ صرف بے رحمی ہی نہیں بلکہ سیاسی مفاد پرستی اور بدعنوانی کی علامت بن چکا ہے۔
آج آسام کی قوم پرستی، ہندوتوا قوم پرستی کا نقاب پہن چکی ہے، اور اپنی اخلاقی روح کھو چکی ہے۔ ریاستی وسائل کارپوریٹ اداروں، خاص طور پر اڈانی گروپ کے حوالے کیے جا رہے ہیں، اور عوام کے بنیادی مسائل کو قوم پرستی کے پردے میں چھپایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آسام کی سول سوسائٹی آخر کب تک اس قوم پرستی کے فریب میں مبتلا رہے گی؟
***
آسام میں بنگالی نژاد مسلمانوں کی حالت انتہائی سنگین ہے۔اپوزیشن، حتیٰ کہ نام نہاد مسلم قیادت بھی ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کر رہی ہے۔ گزشتہ ایک مہینے میں گوالپوکھر، دھوبری جیسے مسلم اکثریتی اضلاع میں بڑے پیمانے پر انہدامی کارروائیاں ہوئی ہیں۔ جنگل کی زمین کے نام پر کئی دہائیوں سے آباد مسلمانوں کو چشم زدن میں اجاڑ دیا جا رہا ہے، مگر کہیں سے بھی آواز بلند نہیں ہو رہی ہے۔ ۔آج آسام کی قوم پرستی، ہندوتوا قوم پرستی کا نقاب پہن چکی ہے، اور اپنی اخلاقی روح کھو چکی ہے۔ ریاستی وسائل کارپوریٹ اداروں، خاص طور پر اڈانی گروپ کے حوالے کیے جا رہے ہیں، اور عوام کے بنیادی مسائل کو قوم پرستی کے پردے میں چھپایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آسام کی سول سوسائٹی آخر کب تک اس قوم پرستی کے فریب میں مبتلا رہے گی؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025