بھارتی سماج میں مثالی بستی کا تصور

محبت و اخوت اور پرامن بقائے باہم کے اسلامی اصول سبھی کے لیے قابل قبول

سید سرفراز احمد،سید اظہر الدین

موثرحکمت عملی اور پیہم جدوجہد کے ذریعہ مثالی معاشرہ کا ہدف حاصل کرنا ناممکن نہیں
تلنگانہ کے ضلع ورنگل میں ’چنتل ‘نامی محلہ کو مثالی بستی بنانے کا کامیاب تجربہ
ایک مثالی بستی کے قیام کا کام جتنا مشکل ترین لگ رہا ہے اتنا ہی آسان بھی ہے مشکل صرف اس لیے لگتا ہے کہ اس اہم کام کے لیے وقت اور سرمایہ دونوں درکار ہیں لیکن یہ کام بس تھوڑی سی توجہ کے ساتھ نہایت ہی آسان ہوسکتا ہے کیونکہ اگر اہل ثروت سامنے آئیں اورجامع منصوبہ بندی کے ذریعہ اس کام کو انجام دیں تو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ نیز دینی و ملی تنظیمیں آگے بڑھ کر اس کام کو غنیمت جانیں اور معاشرے میں مختلف سرگرمیوں کو انجام دیتے ہوئے اسلامی اصولوں کی پابندی کی جائے تو نہایت ہی بہترین حکمت عملی کے ساتھ ایک مثالی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔
علم سماجیات کے مطابق انسان ایک سماجی حیوان ہے وہ تنہا زندگی نہیں گذار سکتا اور نہ یہ تصور ممکن ہے، ایک سماج کی تشکیل افراد کے گروہ سے ہوتی ہے جس کی درجہ بندی غیر منظم طریقے سے فطری طور پر ہوجاتی ہے جس میں ہرطرح کے افراد نظر آتے ہیں ۔جس سماج میں ہم زندگی گذارتے ہیں اس میں ہمیں سماجی برائیوں کے ساتھ ساتھ سماجی خدمت گذار بھی نظر آتے ہیں کوئی عمدہ صفات سے متصف ہوتا ہے تو کوئی انہی صفات سے عاری نظر آتا ہے ،بے شمار معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ اخلاقی فقدان یا اسکے برعکس بعض مثبت پہلو بھی نظر آتے ہیں غرض یہ کہ کسی ایک عام سماج کو ہم ’ملاوٹی سماج ‘کہہ سکتے ہیں جب تک کہ اس سماج کی اصلاح و پاکیزگی نہ کی جائے ۔ ایک بہتر سماج کی تشکیل اسی وقت ممکن ہوسکتی جب ہر فرد کی اصلاح کا سامان فراہم کیا جائے کیونکہ افراد سے سماج کی تشکیل عمل میں آتی ہے اگر کسی ایک فرد کی بھی اصلاح نہ کی جائے تو عام لوگ اسکو سماجی برائیوں کا نام دے دیتے ہیں اور وہ ایسی برائیاں بھی ہوسکتی ہیں جو دین فطرت میں گناہوں کا درجہ رکھتی ہیں کیونکہ دین ایک مکمل نظام حیات ہے جو انسان کو زندگی کے ہر شعبہ میں بہتر رہنمائی کرتا ہے خواہ وہ مسئلہ شریعت کا ہو ،خاندانی نظام کا جائیداد کا ہو ،معاملات کا خدمت خلق کا ہو ،حقوق انسانی کا سیاسی نظام کا ہو یا تعلیمی نظام کا غرض کسی پاکیزہ معاشرے کی تشکیل دین کاایک اٹوٹ حصہ ہے جو ایک مسلمان کے لیے آخرت کی فلاح کا ضامن ہے ۔
اگر ہم موجودہ معاشرے کا تقابل ہندوستان کے ماضی سے کریں گے تو ایک مثبت تبدیلی ضرور نظر آئے گی وہ یہ کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور اجاگر ہوا ہے، تعلیم کے میدان میں سبقت ہورہی ہے، تجارت میں عروج حاصل ہورہا ہے، دین اسلام کی تعلیمات کو پہلے کی بہ نسبت فہم و فراست کے ساتھ حاصل کیا جارہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی برائیوں کا سیلاب بھی امڈتا ہوا نظر آرہا ہے جس میں درہم برہم خاندانی نظام،قتل کے سنگین واقعات،سود خوری کا بڑھتا رجحان،خودکشی کے بڑھتے واقعات،بے راہ روی جسمیں ارتداد کے دل تڑپادینے والے واقعات، دھوکہ دہی،وراثتی معاملات میں خلفشار،شراب نوشی ،جہیز کی لعنت،نشے کی لت اوراسکے علاوہ مزید چھوٹی بڑی برائیاں عام ہوتی جارہی ہیں جو مسلم سماج میں پہلے نظر نہیں آتی تھیں یا اگر نظر آتی بھی تھیں تو انتہائی کم درجہ کے طور پر آتی تھیں ابھی موجودہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہوتی جارہی ہےاسکی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ٹکنالوجی نے موجودہ دور میں جتنے مواقع فراہم کیے ہیں اتنا ہی اس کا غلط استعمال کیا جارہا ہے دوسری اہم وجہ دین سے بے رغبتی اور تربیت کا فقدان ہے کیونکہ ایک طرف اسلامی تعلیمات کو حاصل کرنے کا رجحان بھی ہے تو دوسری طرف عملی طور پر اسکا فقدان بھی پایا جاتا ہے تیسری اہم وجہ ہے کہ ان برائیوں سے چھٹکارا دلوانے کے لیے کوئی متبادل مواقع موجود نہیں ہیں جس سے مسلم سماج کی اکثریت معاشی پسماندگی اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتی جارہی ہے اہم سوال یہ ہے کہ ان سب مسائل کا حل کیا ہے؟
اگر ہم زمانہ جاہلیت کا مطالعہ کرتے ہیں پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کا معاشرہ برائیوں کے سلسلے میں حد سے تجاوز کرچکا تھا لوگ رنگین دنیا میں مست تھے حقیقی خدا کا تصور نظروں سے اوجھل تھا ایسے پراگندہ ماحول کی پاکیزہ تشکیل کے لیے اللہ تعالی نے محمد عربی ﷺ کی بعثت فرمائی جس طرح مکہ کی سرزمین پر محمد عربی ﷺ نے عیش و آرائش والی زندگی کو درکنار کرتے ہوئے صعوبتوں اور آزمائشوں کو جھیلا وہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک پیغام بن چکا ہے لاکھوں رکاوٹوں کے باوجود محمد عربی ﷺ نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جو امت کے لیے رہتی دنیا تک مشعل راہ ہے لیکن آپکی مدنی زندگی نے شہر مدینہ کو ایک اسلامی معاشرہ کی مثالی ریاست کا نہ صرف تصوردیا تھا بلکہ اس تصور کو شرمندہ تعبیر بھی کیا جسکی اصل بنیاد پانچ چیزوں پر منحصر تھی جسمیں دینی، سیاسی، تعلیمی، سماجی اور معاشی امور شامل ہیں آپ کی مدینہ آمد ہوتے ہی سب سے پہلے مسجد نبوی تعمیر کی گئی تھی جو مسلمانوں کی دینی سرگرمیوں کا مرکز تھی ۔ عبادات کے ساتھ ساتھ سیاسی نقطہ نظر سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ جو مشرکین مکہ کے ساتھ ہوا تھا اسی مسجد نبوی میں کیا گیا تھا جوبہت زیادہ سیاسی اہمیت کا حامل تھااسی طرح دیگر اہم معاہدے بھی تھے جو مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ اسی مسجد میں کیے جاتے تھےشہر میں قائم ہونے والا پہلا اسکول بھی مسجد نبوی کے احاطے میں قائم کیا گیا تھایہاں تقریباً 70 سے 80 طلباء تھے، جنہیں محمد عربی ﷺ کی براہ راست نگرانی میں تعلیم و تربیت دی جاتی تھی ان تربیت یافتہ طلباء کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد ابتدائی حکومت میں مختلف ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں خاص طور پر انہیں دینی فرائض کی ادائیگی کی تربیت دی گئی اور اسی مقصد کے لیے عرب کے مختلف گوشوں میں بھیجا گیا دراصل مکہ اور مدینہ تجارتی اعتبار سے بہت مشہور شہر ہیں لیکن مکہ میں فصل کی پیداوار نہیں ہوتی تھی لیکن مکہ تجارت کے لیے مقبولیت رکھتا تھا وہیں شہر مدینہ کی ارض پاک زراعت کے لیے ہموار تھی لیکن غلبہ یہودیوں کا تھا کچھ مسلمان بھی تجارت کرتے تھےمحمد عربی ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد مدینہ کے مختلف معاملات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا اور وہ تجارت جو اسلامی اصولوں کے عین مطابق تھی اس کو جاری رہنے دیا جتنی بھی اشیاء یا مصنوعات مدینہ میں تیار کی جاتی تھیں وہ تقریباً یہودیوں کے ہاتھ میں تھیں حتی کے شراب بھی یہودی بناتے تھے تجارت بھی کرتے تھے جن سے خرید کر دوسرے تاجرین بھی شراب کا کاروبار کرتے تھے لیکن جیسے ہی شراب کو حرام یا غیر قانونی قرار دیا گیا مقامی مسلمان(انصار) نے اس تجارت کو اپنے سے الگ کرلیا اور آہستہ آہستہ شراب کی تجارت بند ہونے لگی حتی کہ غیر مسلموں نے بھی شراب کی تجارت چھوڑ دی تھی ۔
مدینہ کے یہودی جو تجارت کے ماہر تھے وہ یہودی ساہوکاروں کے پاس سے مسلمان سود پر قرض لیا کرتے تھے ،وہ ادا کرنے سے قاصر تھے تب یہودی ساہوکاروں نے ان مسلمانوں کی اراضیات کو اپنے قبضہ میں لینا شروع کیا جو مسلمان ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ آئے تھے وہ تجارت کے ماہر تھے انہوں نے کم سرمایہ سے تجارت کا آغاز کیا اور ہوا یوں کہ وہ یہودیوں کی تجارت پر آہستہ آہستہ غلبہ پاتے گئے ان کی سچائی اور دیانتداری کے اثرات مارکٹ پر مرتب ہونے لگے ۔محمد عربی ﷺ نے مسجد نبوی کے قرب وجوار میں ایک نئی مارکٹ کے قیام کا اعلان کیا یہ ایک متبادل راستہ تھا جو یہودیوں کے جھوٹ فریب اور ظلم والی تجارت سے بچانے کا اہم راستہ تھامحمد عربی ﷺ نے نئے بازار کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری اپنی مارکیٹ ہے یہاں کوئی تم پر ظلم نہیں کرے گا اور نہ ہی تمہارے ساتھ امتیازی سلوک کرے گا یہاں کوئی جابرانہ ٹیکس نہیں لگایا جائے گا ۔اس اعلان سے سبھی تاجر بہت خوش ہوئے کیونکہ یہودی مسلم تاجروں پر طرح طرح کے حد سے زیادہ ٹیکس لگاتے تھے اور ان پر مختلف جرمانے بھی عائد کرتے تھے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نبی محمد عربی ﷺ نے شہر کے نئے بازار میں مسلمان تاجروں اور عام تاجروں کے لیے ٹیکس کے برخواست کرنے کا اعلان کیا تھا اورنبی عربیﷺ کا فرمان تھا کہ جو شخص ہماری مارکیٹ میں اپنی مصنوعات لاتا ہے وہ اللہ کی راہ میں لڑنے والے کی طرح ہے۔
محمد عربی ﷺ خود ایک کامیاب ترین اور تجربہ کار تاجر تھے آپ کو یہ اندازہ تھا کہ تاجرین کو ٹیکس فری تجارت کے مواقع فراہم کیے جائیں گے تو تاجرین اس مارکٹ کا رخ کریں گے کیونکہ انہیں نقصان کا اندیشہ کم اور نفع زیادہ ہوگا تھوڑے ہی عرصہ میں محمد عربی ﷺ کی قائم کردہ مارکٹ کو ایک مرکزی مقام حاصل ہوگیا حقیقت یہ ہے کہ یہ بازار شفاف اور پاکیزہ طریقوں کی مکمل پیروی کرتا تھا ، ٹیکس اور بھتہ خوری سے پاک تھا اور اسی دوران یہودیوں کا بازار تاجروں کے لیے اپنی کشش کھو بیٹھا تھا ۔ وقت کے ساتھ انہوں نے بھی اپنی تجارت کو نئی مارکیٹ میں منتقل کرنا شروع کردیا محمد عربی ﷺ کا یہ معمول تھا کہ وہ وقفہ وقفہ سے بازار کا جائزہ لیتے اگر کہیں ملاوٹ یا دھوکہ دہی نظر آتی تو اسکو ٹوکتے اور روکتے اسی طرح مدینہ کی نئی مارکٹ سماجی و معاشی استحکام کا پر کشش مرکز بن چکی تھی۔ مارکٹ کے اصول و ضوابط بنائے گئے تھے سڑکوں کو وسیع کیا گیا تاکہ سامان سے لدے ہوئے اونٹ با آسانی مارکٹ میں داخل ہوسکیں مارکٹ آنے والے سامان کی جانچ کی جاتی تھی کہ کہیں کچھ ملاوٹ نہ کی گئی ہو۔ مختصر یہ کہ آپﷺ نے عملی طور پر یہ نمونہ پیش کیا تھا کہ ایک اسلامی معاشرے کی فلاحی ریاست کس طرح تعمیر ہوسکتی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستانی سماج میں ایک مثالی بستی کا تصور ممکن ہے؟جواب یہ ہے کہ ’’ہاں ممکن ہے ‘‘۔وہ اس طرح کہ ہمارے ملک کا آئین مذہبی یا دینی تشہیر اور تعلیمات کو عام کرنے کی پوری آزادی دیتا ہے اور جو کام اخلاقی دائرے میں کرنے کی اجازت اسلام دیتا ہے وہ ہمارے ملکی قانون کے دائرے میں بھی آتے ہیں نیز ہم جس نہج پر مثالی بستی کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس کو ہمارے ملک کا ہرمہذب شہری (خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو) پسند کرے گا لہذا یہ تصویر صاف ہے کہ اس کام میں کوئی بھی رکاوٹ نہیں ہوگی ۔ ایک مثالی بستی کے قیام کا کام جتنا مشکل ترین لگ رہا ہے اتنا ہی آسان بھی ہے مشکل صرف اس لیے لگتا ہے کہ اس اہم کام کے لیے وقت اور سرمایہ دونوں درکار ہیں لیکن یہ کام بس تھوڑی سی توجہ کے ساتھ نہایت ہی آسان ہوسکتا ہے کیونکہ اگر اہل ثروت سامنے آئیں اوراس کام کو منظم انداز میں جامع منصوبہ بندی کے ذریعہ انجام دیا جائے تواس میں مشکل نہیں ہوگی ۔نیز دینی و ملی تنظیمیں آگے بڑھ کر اس کام کو غنیمت جانیں اور معاشرے میں مختلف سرگرمیوں کو انجام دیتے ہوئے اسلامی اصولوں کی پابندی کی جائے تو نہایت ہی بہترین حکمت عملی کے ساتھ ایک مثالی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔
دین ایک نظام زندگی کا نام ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر خواہ وہ دینی ہو یاسیاسی سماجی ہو یا معاشی اور فنی ہو یا تعلیمی ہر شعبہ حیات میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے خود محمد عربی ﷺ کی سیرت کا حقیقی آئینہ ہمارے پاس موجود ہے لہذا ہمیں عملی نمونہ معاشرے کے سامنے پیش کرنا ہوگا اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ وہ صرف وعظ ونصیحت سے موجودہ صورتحال بدل سکتا ہے تو وہ ایک خام خیالی میں مبتلا ہے کیونکہ موجودہ معاشرے میں بےشمار برائیاں عام ہیں ان برائیوں کے تدارک کے لیے اسوہ حسنہ پر عمل پیراہونا انتہائی ناگزیر ہے جیسا کہ عام طور پر ہمارے یہاں مساجد کو صرف فرض عبادات تک محدود کردیا گیا ہےہم کو اس تصور سے باہر نکلنا ہوگا جس طرح محمد عربی ﷺ نے مدینہ میں مسجد نبوی کودینی تعلیمی سیاسی معاشی و سماجی نقطہ نظر کا مرکز بنایا تھا ہم کو بھی چاہیے کہ ہماری بستی کی مسجد کو ایک ایسا مرکز بنایا جائے جس میں معاشرے کے تمام مسائل پر کھل کر گفتگو ہوسکے اور ان مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوشش ہو سود کی لعنت سے بچانے کے لیے بلاسودی رقمی امداد کا مرکز قائم ہو، تعلیم کے لیے مدارس اسلامیہ و عصری علوم کی درس گاہیں قائم ہوں، ذوق مطالعہ کو پروان چڑھانے کے لیے کتب خانہ کا قیام ہو ،
نجی معامالات اور خاندانی مسائل کے لیے کونسلنگ سنٹر کا یا شرعی ادارہ کا قیام ہو، تعلیم بالغان کا قیام ہو اور سیاسی شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف کمیٹیوں کی تشکیل دی جائےتاکہ متحدہ طور پر عوامی مسائل حل کرنے والے نمائندہ افراد کا انتخاب ہوسکے اسی طرح نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں اور مساجد سے تربیت کا سامان مہیا کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں فحاشی ،نشے کی لت، جہیز کی لعنت اور بے راہ روی سے بچ سکیں جمعہ کے خطبوں میں مذہبی تعلیمات کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی برائیوں اورسیاسی شعور پر سیر حاصل گفتگو کی جائے یقین جانیے ان سب کے بعد معاشرے میں ایک تبدیلی ضرور آئے گی اگر کوئی یہ گمان رکھتا ہو کہ یہ حقیقت سے پرے صرف ایک خواب ہے تو ایسا نہیں ہے کیونکہ عملی طور پر پورے ملک میں تحریک اسلامی کے تحت مختلف مثالی بستیاں قائم کی گئی ہیں۔جس میں آسام ،اڑیسہ اور بھی دیگر ریاستوں کے ساتھ ریاست تلنگانہ بھی شامل ہے جہاں ایک مثالی بستی کے تصور کو شرمندہ تعبیر کیا گیا ہے۔ تلنگانہ کے ضلع ورنگل کے مستقر پر چنتل نامی ایک محلہ (بستی) ہے جو پچھلی دہائیوں میں ایک پسماندہ علاقہ تھا ۔اس بستی میں کئی سالوں سے تحریک اسلامی کا کام جاری ہے پچھلے سالوں میں اس بستی کا انتخاب کرتے ہوئے اس کو مثالی محلہ بنانے کا ہدف طئے کیا گیا یہاں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں کی الگ الگ انجمنیں تشکیل دی گئیں اس بستی کی عوام میں دینی، سیاسی،معاشی،سماجی،تعلیمی شعور اجاگر کیا گیا اور اس کے لیے عملی اقدامات بھی کیے گئے مذہبی طور سے اس علاقہ کی مساجد سے منتخب خطبات کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کا کام کیا جاتا ہے قرآن سے شغف پیدا کرنے کے لیے گھر گھر مہم چلائی جاتی ہےنیز علیحدہ طور پر ہفتہ واری اجتماعات منعقد کیے جاتے ہیں۔ دینی مدرسہ چلایا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ محلہ کے بچوں کے لیے صباحی مدارس کو قائم کیا گیا خاندانی تنازعات یا مسائل کے حل کے لیے محلہ کی مسجد میں کونسلنگ سنٹر قائم کیا گیا معاشی اعتبار سے بلاسودی سوسائیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں ایک لاکھ تک کا قرض دیا جاتا ہے تاکہ امت کے تاجرین سود جیسی لعنت سے محفوظ رہ سکیں۔ خواتین کی انجمنیں تشکیل دی گئیں اور انہیں خود مختار بنانے کے لیے ٹیلرنگ سنٹر کے علاوہ دیگر دست کاری کی مہارت پیدا کرنےکے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں جس کے آٹھ بیاچس مکمل ہوچکے ہیں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو تعاون بھی دیا جاتا ہے وہیں پر سماجی طور پر مختلف طریقوں سے خدمت خلق کے کاموں کو انجام دیا جاتا ہے اجتماعی فطرے کے ذریعہ مستحقین کو عید کی خوشیوں میں شامل کیا جاتا ہے زکوة اورصدقات کے ذریعہ بھی امداد فراہم کی جاتی ہے فری میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں بقر عید کے اجتماعی چرم کی رقم سے غرباء میں شادی بیاہ کے لیے امدادی رقم اور علاج و معالجہ کے لیے بھی تعاون کیا جاتا ہے اور بیواؤں میں وظائف تقسیم کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ برادران وطن سے تعلقات کو مضبوط بنانے کی غرض سے ان میں سماجی خدمات انجام دی جاتی ہیں عید ملن کے مواقع پر برادران وطن کے لیے مسجد میں طعام کا نظم کیا جاتا ہے جس کا اہم مقصد اسلامی تعلیمات کو عام کرنا اور ان لوگوں کو اسلام سے قریب کرنا ہے۔ مرکزی وریاستی حکومت کی اسکیمات سے عوام میں شعور بیدار کیا جاتا ہے اور رہنمائی بھی کی جاتی ہےاگر تعلیمی طور پر جائزہ لیا جائے تو وسیع پیمانے پر ان کاموں کو انجام دیا جاتا ہے جو محلہ ماضی میں مختلف زاویوں سے پسماندہ تھا آج وہاں کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے جو پوری شعوری کیفیت کے ساتھ بیدار بھی ہے امت میں مطالعہ کا رجحان پیدا کرنے کے لیے مساجد میں لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا کیرئیر کونسلنگ کے لکچرس منعقد کیے جاتے ہیں طلباء کو اسکالر شپس دی جاتی ہے ابھی تحریک اسلامی نے مولانا جلال الدین عمری اسکالر شپ کے آغاز کا اعلان کیا ہے جس سے طلباء کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل پوری کی جائے گی اگر سیاسی طور پر جائزہ لیا جائے تو محلہ کے افراد کا اجتماعی فیصلہ ہوتا ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے افراد بھی موجود ہوتے ہیں جو آج کے اس دور میں ناممکن سی بات ہے اس کے علاوہ محلہ میں بلدیہ کے مسائل ہوں تو اس کو متحدہ کوشش کے ذریعہ حل کروایا جاتا ہے ابھی تحریک اسلامی کی جانب سے بستی دواخانہ کے قیام کی کوشیں جاری ہیں جسکا آنے والے دنوں میں آغاز کیا جائے گا غرض یہ کہ چنتل محلہ میں ہر طرح کے رفاہی کاموں کو انجام دیا جارہا ہے جسکی برق رفتار کاوشوں نے ایک پسماندہ بستی کو تعلیم یافتہ بلکہ سماجی برائیوں سے شفاف بنادیا ہے آج اگر کوئی مسافر تعاون کی حیثیت سے اس بستی کا رخ کرتا ہوتو وہ وہاں سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا آج یہی محلہ مثالی بستی کے طو پر دیکھا جاسکتا ہے جس کو اسوہ نبی کی مدنی زندگی کے اصولوں کی بناء پر تعمیر کیا گیا ہے ابھی جماعت اسلامی ہندجو پورے ملک میں جدوجہد کے پچھتر سال کو یادگار کے طور پر منارہی ہے اسی مناسبت سے چھبیس جنوری کو بھی ایک خصوصی پروگرام ورنگل میں مرتب کیا گیا کیونکہ تحریک اسلامی یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ دین اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اسی پر چل کر دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کی جاسکتی ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ تحریک اسلامی کے کاموں کو قبول کرے آمین۔

 

***

 تلنگانہ کے ضلع ورنگل کے مستقر پر چنتل نامی ایک بستی ہے جو پچھلی دہائیوں میں ایک پسماندہ علاقہ تھا ۔اس بستی میں عرصہ دراز سے تحریک اسلامی کا کام جاری ہے پچھلے سالوں میں اس بستی کا انتخاب کرتے ہوئے اس کو مثالی محلہ بنانے کا ہدف طئے کیا گیا۔ اس ضمن میں یہاں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں کی الگ الگ انجمنیں تشکیل دی گئیں اس بستی کی عوام میں دینی،سیاسی،معاشی،سماجی،تعلیمی شعور اجاگر کے لیے متعدد عملی اقدامات بھی کیے گئے ۔ اس کام کو مزید تقویت دینے اور مثالی بستی کے پیغام کو عام کرنے کے لیے اسی بستی میں 26 جنوری کو ’پلٹو اپنے رب کی طرف‘ کے ‏زیر عنوان ایک کانفرنس منعقد ہونے جارہی ہے۔ زیر نظر تصویر میں مولانا رحمت اللہ شریف سابق امیر حلقہ آسام رفقاء جماعت کے ہمراہ کانفرنس کی تشہیری مہم میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023