بھارتی مسلمانوں کی شناخت اور ورثہ سنگین خطرے سے دوچار

مسلمان بیدار، متحد اور اپنے حقوق کے لیے سرگرم رہیں: قاسم رسول الیاس

نئی دلی: (دعوت نیوز ڈیسک)

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر رکن ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش بڑھتے ہوئے خطرات اور ان کے مذہبی، تعلیمی و تہذیبی اداروں کو لاحق مسلسل حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے جماعت اسلامی ہند کے صدر دفتر، جامعہ نگر دہلی میں ’’بھارتی مسلمانوں کو درپیش چیلنجز‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے کے لیے ایک منظم منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے۔ ہم جن چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں اگرچہ وہ نئے نہیں ہیں لیکن ان کی شدت اور وسعت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ آج ہماری بقا، ہمارے ورثے اور ہمارے ایمان کو براہ راست خطرات لاحق ہیں۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ مسلمان عرصہ دراز سے مسائل کا سامنا کرتے چلے آ رہے ہیں، لیکن یہی جدوجہد ان کے اندر دینی شعور اور مزاحمتی جذبے کو زندہ رکھنے کا باعث بنی ہے۔ ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے واضح کیا کہ مسلمانوں کو صرف جسمانی حملوں کا سامنا نہیں، بلکہ فکری یلغار، قانونی چالوں اور ادارہ جاتی مداخلت کا بھی سامنا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہندوستانی مسلمانوں کی جان، مال، عزت اور عقیدہ سب نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ شریعت اور مسلم پرسنل لا پر حملے ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے جدید تعلیمی ادارے بھی انتظامی دباؤ اور آر ایس ایس سے وابستہ افراد کی مداخلت کا شکار ہیں۔‘‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت مذہبی اداروں کو قانون سازی اور انتظامی اقدامات کے ذریعے بتدریج کمزور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ میں ترمیمات اور عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون 1991 کو غیر مؤثر بنانے کی کوششیں اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
انہوں نے کہا ’’یہ ایک منظم کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی اوقاف سے محروم کر دیا جائے، جن میں مساجد، عیدگاہیں، قبرستان اور درگاہیں شامل ہیں۔ جنوری 2025 میں منظور شدہ نیا وقف بل قانونی پردے میں مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کی ایک تدبیر معلوم ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے آسام میں این آر سی کے نفاذ کے نتائج پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ اس عمل سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں مسلمان شامل تھے۔ انہوں نے کہا ’’انیس لاکھ افراد کی شہریت پر سوال اٹھایا گیا جن میں چھ لاکھ مسلمان تھے۔ خاندان بکھر گئے، بنیادی انسانی حقوق پامال ہوئے اور وقار مجروح ہوا۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ مسلمانوں کی تاریخ کو نصاب سے نکالنا اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو سماجی اور فکری طور پر مٹا دینا ہے۔ انہوں نے کہا ’’اسکول کے نصاب میں مسلم کردار کو حذف کر کے ہندوانہ اساطیر کو تاریخ کے طور پر شامل کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ایسی فلمیں بنائی جا رہی ہیں جو مغل دور اور اورنگ زیب جیسے بادشاہوں کو بدنام کر کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کی گئی ہیں۔‘‘
وقف بل پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قانون ملک گیر سطح پر بے چینی اور احتجاج کا سبب بنا ہے۔ انہوں نے کہا ’’یہ پہلا موقع ہے جب پورے ملک میں اس بل کے خلاف اتنے وسیع پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں اس قانون کو لے کر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ وقف قوانین 1923، 1954 اور 2013 کی تمام سابقہ شکلوں میں مسلم علماء و دانشوروں سے مشورے لیے گئے تھے۔ 2013 میں وزارت اقلیتی امور نے کئی نشستیں منعقد کیں اور مرکزی وقف کونسل کی سفارشات کی روشنی میں بل کو تیار کیا گیا۔ انہوں نے موجودہ حکومت پر شدید تنقید کی کہ اس نے کسی سنجیدہ مشاورت کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اگرچہ پارلیمنٹ میں شدید مخالفت کے بعد بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) کے سپرد کر دیا گیا، مگر کمیٹی کی تشکیل اور اس کا رویہ حقیقی مشاورت سے خالی تھا۔
انہوں نے بتایا کہ 31 رکنی JPC میں 20 ارکان حکم راں اتحاد سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدا میں کسی مسلم تنظیم کو شامل نہیں کیا گیا۔ صرف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر تنظیموں کے دباؤ کے بعد کچھ مسلم اداروں کو بلایا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو 211 صفحات پر مشتمل ایک جامع عرضداشت پیش کی، جس میں قانونی، تاریخی اور آئینی بنیادوں پر مفصل اعتراضات درج کیے گئے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد جیسے حکومت نواز عناصر JPC پر اثرانداز ہو رہے ہیں اور یہ پورا عمل ایک طے شدہ منصوبے کے تحت آگے بڑھ رہا ہے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے مسلمانوں سے پُر زور اپیل کی کہ وہ بیدار، متحد اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم رہیں۔ انہوں نے کہا ’’یہ صرف زمین یا جائیداد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہماری شناخت، ہمارے ورثے اور ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو آنے والی نسلیں سوال کریں گی کہ ہم نے اس وقت آواز کیوں نہیں اٹھائی؟‘‘
یہ خطاب ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک بھر میں وقف بل اور دیگر متنازعہ قوانین کے خلاف مسلمانوں کی تنظیمیں قانونی اور عوامی سطح پر احتجاجی مہم چلا رہی ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025