(دعوت نیوز نیٹ ورک)
مشہور سماجی کارکن رام پنیانی کی ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت
جمہوری حقوق کے دفاع کے لیے ہمیں اپنی مہمات کو مربوط کرنے کے لیے اتحاد اور پلیٹ فارمس بنانے ہوں گے
مشہور سماجی کارکن ، مصنف اور پیشے سے بائیو انجینئر رام پنیانی نے ’’آئین کو درپیش خطرات ، چیلنجز اور امکانات‘‘ کے عنوان سے ہفتہ روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھارت کے آئین کے وجود کو ہی خطرات لاحق ہیں، چوطرفہ آئین پر حملے کیے جارہے ہیں ۔معاشرہ اس قدر ’پولرائز‘ ہوگیا ہے کہ بہت کم لوگوں کو اس کا احساس ہورہا ہے۔جب کہ آئین کے کمزور ہونے سے ملک کے تمام ہی شہریوں کے حقوق متاثر ہوں گے۔مذہبی فاششٹ طاقتیں کبھی جمہوریت، آزادی اور حقوق پر یقین نہیں رکھتی ہیں ۔
پنیانی کہتے ہیں کہ ان دنوں ہندو راجے رجواڑے کی تعریفیں اور ان کی عظمت کے تقدس کے خوب گن گائے جارہے ہیں۔ عام لوگ اس کو صرف ہندو اور مسلمان کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ مسلم حکمرانوں کو کمتر دکھانے کی مہم کا حصہ ہے۔اگربات صرف یہیں تک محدود ہوتی تواس کو نظرانداز کردیا جاتا ۔دراصل راجے رجواڑے کے ذریعہ بھارتی جمہوریت اور یہاں کے آئین کو ناقص بتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آر ایس ایس کے سابق سربراہ کے ایس سدرشن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بھارت کے آئین کو ناقابل قبول بتاتے ہوئے کہا تھاکہ یہ غیر ملکی روایات اور قوانین سے ماخوذ ہے۔اس میں بھارتی تہذیب وکلچر کی نمائندگی نہیں ہے۔جب کہ بھارت کا آئین جمہوریت، آزادی، مساوات، یکساں مواقع اور تکثریت پر مبنی ہے۔آزادی اور مساوات کسی خاص قوم اور ملک کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ انسانیت کی میراث ہے ۔
رام پنیانی کہتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں کو غیر ملکی بتاکر مسلمانوں کو سزادینے کی کوشش سنگھ پریوار کی دقیانوسی سوچ کا نتیجہ ہے ۔اول یہ کہ مسلم حکمراں غیر ملکی نہیں تھے۔مسلم حکمرانوں نے نہ باہر بیٹھ کر حکومت اور نہ انہوں نے یہاں کی دولت لوٹ کر دوسرے ملکوں میں منتقل کی بلکہ انہوں نے اس ملک کا حصہ بن کر ملک کی ترقی میں اپنا رول ادا کیا اور اس کی خاک کا حصہ بن کر ختم ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ نوآبادیاتی حکومت کے خلاف جدو جہد کے دوران کسانوں، تعلیم یافتہ عام نوجوانوں اورمڈل کلاس کا ایسا طبقہ وجود میں آیا جو اب تک اقتدار سے دور تھا۔اسی دور میں ہندوستانی قوم پرستی کا عروج ہوا۔ ہندوؤں کے اعلیٰ طبقے، اشرافیہ اور مسلم زمینداروں نے جب محسوس کیا کہ وہ اس پورے منظر نامے غائب ہورہےہیں تو یہ سامنے آئے اور اپنے اپنے مذہب کی حفاظت کا نعرہ بلند کیا۔یہیں سے مذہبی قوم پرستی کی شروعات ہوئی۔ 1888 میں جاگیرداروں اور بادشاہوں نے مل کر یونائیٹڈ انڈیا پیٹریاٹک ایسوسی ایشن (UIPA) کی تشکیل کی۔ بعد میں متوسط طبقے اور اعلیٰ ذاتوں کی اشرافیہ اس میں شامل ہوئے۔ UIPA سے ہی ایک طرف مسلم لیگ ابھری اور دوسری طرف، ہندو مہاسبھا، دونوں نے مذہبی قوم پرستی کو جنم دیا۔ہندو مہاسبھا کے ساورکر کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہی 1925میں آرایس ایس کی تشکیل ہوئی۔اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہندوستان ایک ہندو قوم ہے جہاں عیسائی اور مسلمان غیر ملکی تھے۔ یہ قوم پرستی کے جامع تصورات کے بالکل برعکس تھا جو مہاتما گاندھی اور بھگت سنگھ سے لے کر ڈاکٹر امبیڈکر تک دوسرے لیڈروں نے بیان کیے تھے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ فرقہ پرست تنظیموں نے خود کو تحریک آزادی سے دور رکھا اور فرقہ وارانہ تشدد کو منظر عام پر لاتے ہوئے نفرت پھیلاکر انگریزوں کی مدد کی ۔اس کی وجہ سے ہی ہم نے اجتماعی طور پر ملک کی تقسیم کی صورت میں ایک بڑے سانحے کا سامنا کیا جس میں دونوں طرف شدید جانی ومالی نقصانات ہوئے، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور بے مثال تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔اس بات کو ذہن میں رکھنے میں مدد ملتی ہے کہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی نوآبادیاتی برطانوی پالیسی کوپھیلانے میں دونوں طرف کی فرقہ پرست تنظیموں نے بھرپور مدد کی۔ آر ایس ایس سے متاثر ایک ہندووچارک ناتھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا ۔ہندوستانی قوم پرستی پر ہندو قوم پرستی کا پہلا بڑا حملہ تھا۔
آر ایس ایس نے ہندو شناخت کی سیاست کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی شروعات کی۔ رام مندر کی تحریک نے ملک کو مذہبی خانوں میں تقسیم کردیا۔ اس کی وجہ سے 90کی دہائی میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جو گجرات فسادات تک پہنچ کر ختم ہوئے ۔صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا گیا۔ 80 کی دہائی کے اواخر سے، دوسری اقلیتی برادری، عیسائیوں کو بھی فرقہ وارانہ تشدد کے بھنور میں لایا گیا۔ان پر جبراً تبدیلی مذہب کرانے کا الزام عائد کیا ۔قبائلی علاقوں میں یہ تفرقہ انگیز تشدد 1999 میں پادری گراہم سٹینز اور ان کے دو معصوم بیٹوں کے ساتھ وحشیانہ قتل اور بعد ازاں 2008 میں کندھمال میں ہولناک قتل کا باعث بنا۔دراصل یہ سب آر ایس ایس کے نظریہ ساز گولوالکر کے فکر ونظر کے فساد کا نتیجہ تھا جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت قدیم زمانے سے ایک ہندو راشٹر ہے، مذہبی اقلیتوں کو اکثریت کے رحم و کرم پر رہنا چاہیے یا شہری ہونے کے ناطے ان کے حقوق سے مکمل طور پر انکار کیا جانا چاہیے۔
1998میں پہلی مرتبہ بی جے پی اقتدار میں آئی مگر اس کے پاس اکثریت نہیں تھی ۔اس لیے آئین کو براہ راست نشانے بنانے کے بجائے اس دور میں اسکول کی نصابی کتابوں کو فرقہ وارانہ بنایا گیا، تعلیم کو زعفرانی بنایا، اور ہندو پجاریوں کی تربیت جیسے علم نجوم اور پروہتیہ جیسے عقیدے پر مبنی مضامین کو اہمیت دی گئی۔2014سے بی جے پی مودی کی قیادت میں نہ صرف اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہے بلکہ پرچار اور بیانیہ طے کرنے کی پوری طاقت اس کے پاس ہے۔ تمام قومی اداروں میں تبدیلیاں کردی گئی ہیں، فرقہ وارانہ ذہنیت کے حاملیں کو اب اہم عہدوں پر فائز کیا جارہا ہے۔ انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ جیسے اہم ادارے کی سربراہی ایسے افراد کو سونپے جارہے ہیں جو ذات پات کے نظام میں یقین رکھتے ہیں ۔
سائنسی مزاج کو فروغ دینا ہمارے آئین کا رہنما اصول ہے، لیکن مودی حکومت ملک کی جھوٹی عظمت و رفعت قائم کرنے کے لیے آرتھوڈوکس، غیر واضح نظریے کو سائنس کے میدان میں مرکزی حیثیت دے کر فروغ دے رہی ہے۔اس کی وجہ سے سائنسی اور معروضی انداز میں سوچنے کی صلاحیت متاثر ہو گی۔ اب ہمیں بتایا جارہا ہے کہ قدیم ہندوستان کے پاس ہوا بازی سائنس اور پلاسٹک سرجری کی تمام ٹیکنالوجی موجود تھی ان سب کا مقصد سائنس اور ٹیکنالوجی کی نئی راہوں کو مسدود کرنا ہے۔جمہوریت میں اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ آزادی، مساوات ،یکساں مواقع اور بھائی چارے کے اقدار کو فروغ حاصل ہو۔مگر آئین کے بنیادی روحوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اقلیتوں اور ان کے تحفظات کو مکمل طور پر نظرانداز کرنا آئینی اقدار کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اس وقت ہم تاریخ کے اس اہم موڑ پر ہیں جہاں ہندوستانی آئین کا وجود ہی داؤ پر لگ گیا ہے۔ہمیں صحیح معنوں میں بیدار ہونے اور اس خطرے کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دلتوں، خواتین، مزدوروں، قبائلیوں اور خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق اور تحفظات پر مبنی کثیر الجہتی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے جمہوری حقوق کے دفاع کے لیے اپنی مہمات کو مربوط کرنے کے لیے اتحاد اور پلیٹ فارمس بنانے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت اور سیکولرازم کے لیے کھڑے ہونے والے تمام لوگوں کو یکجہتی کے ساتھ اکٹھے ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنی جمہوریت کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر مارچ کرنا ہوگا۔ ہمیں غیر فرقہ وارانہ سیاسی تشکیلات کے اتحاد پر زور دے کر فرقہ وارانہ طاقتوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے کام کرنے ہوں گے۔ فرقہ وارانہ سیاست، ہندو نیشنلزم، فاشسٹ اور بنیاد پرست حکومتوں کی طرح ہے جس میں ایک کی کچھ خصوصیات ہیں تو دوسرے کی کچھ خصوصیات ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 نومبر تا 03 نومبر 2022