ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد
یہ دعوتی گفتگو کا ایک ماڈل ہے جس میں بھارت میں پائے جائے والے دو اہم مسائل کو قرآن کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے ۔ہر محب وطن سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس گفتگو پر دھیان دے گا۔تجربہ نے ثابت کیا ہےکہ اس گفتگو کو مسلم دشمنوں میں بھی پیش کیا گیااور جس کو اچھی طرح سے سنا گیا۔اس گفتگو کو ایک مسلمان ، مسلم محب ِ وطن کے طورپر ایک غیرمسلم محب ِوطن کے سامنے پیش کرسکتا ہےجس میں توحید،وحدتِ انسانیت اور آخرت کے عقائد کو پیش کیا گیا ہے۔
ذیل کی سطورمیں ایک دعوتی گفتگو کو پیش کیا جارہا ہے جو داعیان حق کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔عام طورپر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مسلمان دیش بھگت نہیں ہوتے جو ”بھارت ماتا کی جئے“ نہیں کہتے اور نہ ”وندے ماترم“ پڑھتے ہیں ۔وہ اپنے آپ کو پہلے مسلمان کہتے ہیں اور بعد میں بھارتی ۔
اس کے جواب میں مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے خالق کی بندگی کرتے ہیں اور خالق کے حکم سے والدین کی خدمت اور احترام کرتے ہیں لیکن ہم اپنی ماں کے آگے سجدہ نہیں کرتے اور نہ ہی ماں کی بندگی کرتے ہیں ۔ایک مسلم کے لیے سب سے مقدم خالق کائنات ہے جس کی مرضی سے ہم پیداہوئے ہیں ۔ہم نے نہ والدین کا انتخاب کیا ہے اور نہ ہی اس ملک کا جس میں ہم پیدا ہوئے ہیں ۔یہ سراسر ہمارے خالق کی مرضی ہے ۔اس لیے ہم پہلے اپنے خالق کا شکر ادا کرتے ہیں اس کے بعد والدین کے بھی مشکور اور ممنون ہیں۔قرآن میں فرمایا گیا ہے: وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۔ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تُو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک کرے جسے تُو (میرے شریک کی حیثیت سے)نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر۔میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم کو بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ (سورۃ العنکبوت ۸)
دنیا میں جس سے بھی ہم کو فائدہ پہنچتا ہے ہم اس کے مشکور وممنون ہوں گے لیکن بندگی صرف اللہ کی کریں گے۔جس چیز سے بھی ہم کو فائدہ پہنچتا ہے وہ بھی اللہ ہی کی پیداکردہ ہے۔گائے سے ہم کو دودھ ملتا ہے لیکن ہم جانور کو ماں کا درجہ نہیں دے سکتے جس کو ہمارے خالق نے ہمارے لیے پید ا فرمایا ہے ۔ہم کو اس خالق کی بندگی کرنی چاہیے جس نے ہم کوبھی پیدافرمایا اور گائے کو بھی ۔اللہ نے سورج کو پیدافرمایا ہے۔ہم کو سورج کے خالق کی بندگی کرنی چاہیے نہ کہ سورج کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔ (سورۃ فصلت ۳۷)
ہم وطن سے بھی محبت کرتے ہیں جس طرح ماں سے محبت کرتے ہیں لیکن ہم نہ وطن کی بندگی کرتے ہیں اور نہ ماں کی بندگی کرتے ہیں ۔ہم محبِ وطن ضرورہیں لیکن ہم وطن پرست نہیں ہیں یعنی ہم وطن کی پرستش نہیں کرتے ۔ہم خدا پرست ہیں اور محب وطن بھی ۔مسلم کے معنی ہیں خداکا مطیع و فرماں بردار ہونا ۔خدا کا مطیع و بردار ہونا مجھے ایک راست باز اور ذمہ دار شہری بناتا ہے جو ہم وطنوں کا خیرخواہ ہو۔اچھا مسلمان ہونا ایمان دار شہری بناتا ہے جس سے کسی دوسرے شہری کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔ اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ بندگی صرف اور صرف خالق کی کی جائے ۔یہ وہ خالق ہے جس نے اس کرۂ ارض کو بنایا اور اس کو ان گنت نعمتوں سے بھردیا ۔بھارت بھی اسی کرۂ ارض کا حصہ ہے جس کاجغرافیہ چند حکم رانوں نے طے کیا تھا ۔
اسلام میں سب سے بڑا گناہ یہ ہےکہ خالق کے وجود کا انکارکیا جائے یا خالق کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک کیا جائے۔وطن سے محبت کے کیا معنی ہیں؟وطن سے محبت کا مطلب وطن کی پرستش نہیں ہے ۔ حقیقی وطن سے محبت یہ ہے کہ ہم اپنے وطن اور ہم وطنوں کے خیر خواہ ہوں ۔یہ حب الوطنی نہیں ہےکہ اسی وطن کے کچھ شہریوں پر مذہب کی بنیاد پر ظلم کیا جائے۔ یہ بھی حب الوطنی نہیں ہے کہ اپنے ہی ہم وطنوں کا سیاسی و معاشی استحصال کیا جائے اور رشوت کا بازار گرم کرکے یہاں کے شہریوں کو غربت و افلاس کے دلدل میں جھونک دیاجائے۔ اس روش کے ساتھ زبان پر تو دیش بھگتی ہوسکتی ہے لیکن دراصل یہ ملک سے غداری ہے ۔
مسلمان بھی اتنے ہی محب وطن ہوسکتےہیں جتنے کوئی اور ہوسکتےہیں ۔انگریزوں سے ملک کی آزادی کی جنگ کا آغاز تو مسلمانوں نے کیا تھا جس میں بعد میں دوسرے بھی شریک ہوتے گئے ۔آزادی کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں مسلمانوں نے پیش کیں ۔ملک کی تقسیم مذہبی منافرت اور چند سیاسی لیڈروں کے فیصلوں کا نتیجہ ہے جس کے ذمہ دار بھارت کے عوام نہیں ہیں ۔ جیسے دوسرے لوگ چاہتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی یہ چاہتے ہیں کہ بھارت دنیا میں وشو گرو (World Leader)بنے ۔ سوال یہ ہےکہ بھارت کے وشو گرو بننے میں کیا رکاوٹیں ہیں ؟
بھارت کے وشو گرو بننے میں دواہم رکاوٹیں ہیں ۔ایک رکاوٹ یہ ہےکہ بھارت واسیوں کے درمیان اتحاد کا فقدان ہے۔ بھارت کے لوگ مختلف ذاتوں اور مذاہب میں بٹے ہوئے ہیں ۔مختلف ذاتوں میں تفریق اور چھوت چھات ایک بڑا مسئلہ ہے اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر مسلسل نفرت کی آگ بھڑکائی جاتی رہی ہے۔یہ دواسباب ہیں جس کی وجہ سے بھارت کے اندر شہریوں میں اتحاد و یگانگت پیدانہیں ہورہی ہے۔ بھارت کی سیاسی قیادت ملک کی ترقی کے بجائے فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعہ سیاسی فوائد حاصل کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ایسے ماحول میں ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے؟جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ چین جو معاشی طورپر مغلیہ دور میں بھارت سے بہت پیچھے تھا آج معاشی ترقی میں امریکہ کا ہم پلہ بنتا جارہا ہے۔
بھارت کی ترقی میں دوسری اہم رکاوٹ ہے رشوت خوری کا بے انتہا بڑھتا ہوا مرض ۔بھارت وسائل سے مالامال ملک ہے۔ بھارت کی آباد ی کا بیشتر حصہ جواں سال ہے۔بھارت کی آدھی آبادی ۲۵سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جو بھارت کی ترقی میں اہم رول ادا کرسکتی ہے۔انسانی وسائل کے لحاظ سے بھارت دنیا میں پہلا مقام رکھتا ہے۔قدرتی وسائل کے ساتھ انسانی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجودبھارت Global Hunger Index میں ۱۲۵ممالک میں ۱۱۱واں مقام رکھتا ہے جو بہت ہی افسوس ناک ہے۔یہ صورتحال بھارت کے تمام پڑوسی ممالک کے مقابلے میں سب سے بدتر ہے۔بھارتی باشندوں سے بھاری ٹیکس کی وصولی کے باوجود ترقی کے نام پر فنڈز کا بیشتر حصہ رشوت کی نذر ہوجاتا ہے ۔اس کا سب سے بڑا حصہ سیاست دانوں کی تجوریوں میں چلا جاتا ہے ۔ساری دنیا میں بھارت کم رشوت والے ممالک کی ۱۸۰ ممالک کی فہرست میں بہت پیچھے ۹۳نمبر پر ہےاور بھارت کا اسکور۱۰۰میں ۳۹ہے جو بہت کم ہے ۔۱۰۰نمبر کا مطلب ہے رشوت سے مکمل پاک ملک ۔رشوت سے پاک ہونے میں سب سے پہلارینک ڈنمارک کا ہے جس کا اسکور ۹۰ہے۔فن لینڈ اور نیوزی لینڈ دوسرے نمبرپرہیں جن کا اسکور ۸۷ہے ۔ بھارت میں بہت بڑے پیمانے پر رشوت کی وجہ سے غریب ،غریب تر اور امیر ،امیر تر بنتے جارہے ہیں ۔بھارت کا ٹاپ ایک فیصد مالدار طبقہ بھارتیوں کی جملہ دولت کے ۴۰فیصد کا مالک ہے۔ اس لیے غربت کے انڈیکس میں بھارت ۱۶۳ممالک میں ۱۱۶ نمبر پر ہے۔
سوال یہ ہےکہ مادی و انسانی وسائل کی کثرت کے باوجود بھارت کی اس بھیانک صورتحال کا حل کیا ہے؟ یقیناً حل موجود ہے۔ پہلا مسئلہ یعنی بھارت کے شہریوں میں عدم اتحاد کا حل یہ کہ ان بنیادی حقائق کا ادراک کیا جائے جس سے بھارتی شہریوں کے دلوں میں اتحاد و یگانگت کا احساس ابھرے تاکہ بھارت کی آبادی کا بڑا حصہ احساس ِ کمتری،خوف اور ناانصافی سے دوچارنہ ہو۔ سماجی برتری اور کمتری کے احساسات ختم ہوں ۔تمام شہری ہر طرح کی ناانصافی و غیر برابری کے خوف سے آزاد ہوکر ملک کی ترقی میں اپنی توجہ کو مرکوزکرسکیں ۔انسان ہونے کی حیثیت سے پہلی فکری بنیاد یہ ہے کہ سارے انسانوں کا خالق ایک ہے اور اس کی نظر میں سارے انسان پیدائش کے اعتبارسے یکساں ہیں ۔پیدائش کی بنیاد پر کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں ہے۔کوئی انسان برائی کو لے کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ ہر بچہ ہر گنا ہ اور الزام سے پاک اور معصوم پیدا ہوتا ہے۔ اس کرۂ ارض پر انسان بار بار نہیں آتا بلکہ اس کو پہلی اور آخری بار امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے۔اگر کئی بار جنم کی بات صحیح ہوتی تو ہر ایک کو یہ یاد رہتا کہ وہ پچھلے جنم میں کیا تھا اور موجودہ جنم اس کے لیے جزا ہے یا سزا۔بغیر حساب و مقدمہ کہ جزا و سزا کیسے دی جاسکتی ہے؟یہ عقیدہ اتنا خطرناک ہے کہ دنیا میں ہر معذور اور مفلس شخص کو ایک مجرم کی طرح دیکھا جائے گا جو پچھلے جنم میں انجام دیے گئے برے کاموں کا انجام بھگت رہا ہے۔ اس عقیدے کے مطابق دنیا میں کمزورلوگ عزت اور مدد کے مستحق نہیں بلکہ ملامت کےمستحق ٹھیریں گے۔اگر ایک آدمی پچھلے جنم کی بداعمالیوں کے نتیجے میں اس جنم میں کتا یا بلی بنا دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ اس کتے یا بلی کو وہ کونسے نیک اعمال کرنے ہیں جس سے وہ اگلے جنم میں انسان بن سکے۔کیا جانوروں میں اخلاقی حس موجود ہے جس کی بنا پر اچھے اور برے جانوروں کی ہم تقسیم کرسکتے ہیں جس طرح انسانوں میں کرسکتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ قادرِ مطلق خالق نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایاہے۔خالق کائنات نے انسانوں کو بے انتہا وسائل دے کراس کے اندر اخلاقی حس اور شعور و تعقل کی قوتوں کو رکھ کر انتہائی موزوں جسم کے ساتھ پیدا فرمایا ہے ۔ اس نے دوسری مخلوقات کو انسانوں کے تصرف کے لیے پیدافرمایا جبکہ انسان کو خاص مقصدکے ساتھ پیدا فرمایا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی عقل کا امتحان لیا جائے کہ وہ اپنے خالق کو بغیر دیکھے اپنی عقل کے استعمال سے آفاق و انفس میں اس کے وجود کی نشانیوں کو دیکھ کر اس کو پہچانتے ہیں یا نہیں ۔اور جب خالق کو پہچان لیں تو اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں یا نہیں ۔نعمتوں کا شکر اس طرح ادا کریں کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں ۔اس امتحان کو آسان بنانے کے لیے خالقِ کائنات نے پیغمبروں کو انسانوں ہی میں سے منتخب کرکے ان کو اپنا پیغام دے کر مبعوث کیا ۔دنیا میں امتحان لینے کے دو انداز اختیارکیےگئے ہیں ۔ نعمتوں پر شکر ادا کیا جائے اور مصیبتوں پر صبر کیا جائے ۔ اس حقیقت کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے انسان نعمتوں پر تکبر کرتے ہیں اور مصیبتوں پر مایوس ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ بعض لوگ خودکشی کرلیتےہیں ۔
انسانوں کے درمیان باہم یگانگت پیداکرنے والی دوسری حقیقت یہ ہے کہ سارے انسانوں کو ایک ماں باپ کے جوڑے سے پیداکیا گیا ہے(سورۃ النساء۔۱)۔سار ے انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں جو زمانے کے گزرنے کے ساتھ مختلف رنگ و نسلوں میں تقسیم ہوگئے ہیں (سورۃ الحجرات ۱۳)۔ صورت ،رنگ و نسل فخر کی چیزنہ ہو بلکہ انسانوں کی سوچ ،سیرت اور ان کا عمل وجہ امتیاز بنے ۔تیسری چیز جو بھائی چارہ کی بنیاد ہے وہ ہے ہماراآپس میں ہم وطن ہونا ۔بھارت میں ہمارا پیدا ہونا اگر قابل فخر ہوتا تو اس پر بھی ہمیں سب سے قبل اپنے خالق کا شکر اداکرنا چاہیےجس کے فیصلے سے ہم بھارت میں پیداہوئے اور اسی کی مرضی سے ہم آپس میں ہم وطن بنے۔ایک خالق کی مخلوق ہونا ،ایک ماں باپ کی اولاد ہونا اور خالق کی مرضی سے ہماراآپس میں ہم وطن بننایہ تین بنیادیں ہمارے اندر ایک مضبوط اتحاد پیدا کرسکتے ہیں ۔اس اتحاد کا نتیجہ یہ ہوگاکہ ہم ایک دوسرے کی جان ،مال اور عزت کی محافظ بنیں اور ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کریں ۔یہ سوچ ایک مضبوط اور ترقی یافتہ بھارت کو بنانے میں اہم بنیاد بنے گی۔
دوسری چیز جو بھارت کو کمزورکررہی ہے وہ ہے بھارت میں رشوت کا وسیع کاروبار جو سیاست کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔سیاسی رہنما الیکشن میں کامیابیوں کے لیے کروڑوں روپیے خرچ کرتے ہیں اور کامیابی کے بعد اس خرچ کا کئی گنا رشوت کی صورت میں وصول کرتے ہیں ۔بڑے سرمایہ کار پارٹی فنڈزمیں بھاری رقومات اس امید سے دیتے ہیں کہ ان کو بڑے بڑے ٹھیکے ملیں گے ۔ اس وجہ سے ترقیاتی کاموں کامعیار بہت گھٹ جاتا ہے۔رشوت ایک ایسی دیمک ہے جو ملک کو اندر سے کھارہی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کا علاج کیا ہے؟اس کا علاج یہ ہےکہ آدمی کے اندر ذمہ دارنہ سوچ پیداہو جو جواب دہی کے احساس سے پیدا ہوتی ہے ۔یہ جواب دہی دنیا کی عدالت تک محدود نہ ہوبلکہ ایک ایسی عدالت کے قائم ہونے کا یقین ہو جس کا جج اس کائنات کا خالق ہے جس سے کوئی راز مخفی نہ رہتا ۔اس کی عدالت میں خود انسان کے اعضاء گواہی دیں گے کہ انسانوں نے دنیا میں ان سے کیا کام لیا ہے۔یہ احساس انسان کے اندر ایسی مضبوط اخلاقیات پیداکرتا ہے کہ وہ تنہائی میں بھی ناجائز کام کرنے سے ڈرنے لگے گا۔ انصاف کی خاطر دنیا میں ہم ضلع کی سطح پر عدالت میں رجوع کرتے ہیں ۔وہاں انصاف نہ ملنے کی صورت میں ریاست کی سطح پر ہائی کورٹ میں مقدمہ لے جاتے ہیں ۔اگر ریاست کی سطح پر انصاف نہ ملے تو سپریم کورٹ میں اپنا معاملہ لے کر جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں بھی انصاف نہ ملے تو انسان کیا کرے؟انسان کی فطرت اور اس کا ضمیر چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ انصاف ملنا چاہیے۔ انسان کو جس فطرت پر بنایا گیا ہے کیا اس کا مطالبہ پورانہیں کیا جائے گا؟ یقیناً ایک عدالت ہونی چاہیے جہاں سارے چھپے رازفاش ہوں ۔اصل مجرم وہاں پر بے نقاب ہوں اور معصوم لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں دنیا جو جھوٹی سزائیں دی گئیں ہیں ان کو اخروی عدالت میں انصاف ملے۔اس دنیا میں انسان ایک جنت کی تلاش میں سرگرم رہتا ہے جہاں اس کی لامحدود خواہشات پوری ہوں ۔لیکن انسان کو ایسی جنت اس دنیا میں نہیں مل سکتی ۔انسان اسی دنیا میں اپنی جنت بنانے کے خواہش میں دوسرے انسانوں کی زندگی کو جہنم بنا رہا ہے۔
انسان کی لامحدود خواہشات آخرت میں جنت کی صورت میں پوری ہوسکتی ہیں لیکن ایک شرط کے ساتھ ۔وہ شرط یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کو دنیوی زندگی میں اس کو بغیر دیکھے پہچانے اور اسی کی بندگی اختیارکرے۔خالق نے دنیا میں اپنے آپ کو پرد غیب میں رکھ کر انسانوں کے لیے ان گنت نعمتوں کو انسانوں کے لیے اس کرہ ارض میں رکھ دیا ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی عقل سے اپنے منعمِ حقیقی کو پہچانے ۔ہرنعمت کی ایک قیمت ہوتی ہے۔اس قیمت کو چکائے بغیر انسان چھوٹ نہیں سکتا ۔قیمت یہ ہے کہ انسان اپنے محسن ِ حقیقی کو پہچانے اوراس کی عبادت واطاعت کی صورت میں شکر ادا کرے۔ ایک وقت اور ایک مقام ہونا چاہیے کہ جب اور جہاں ان نعمتوں کا حساب لیا جائے ۔جو لوگ شکر کی صورت میں ان نعمتوں کی قیمت اداکریں گے ان کے لیے جنت ہےجہاں انسان کو ابدی زندگی حاصل ہوگی جہاں ان کو وہ نعمتیں ملیں گی جو انسان کے تصورسے ماوراء ہوں گی ۔ اور جو اپنے خالق کو پہچاننے میں ناکام ہوں گے اور جنہوں نے دنیا کو خوانِ یغما سمجھ کر جانورں کی طرح شتر بے مہار زندگی گزاری ہوگی اور ان جیسے انسانوں پر ظلم کیا ہوگا اور ناجائز طریقوں سے مال کمایا ہوگا ان کو ابدی جہنم میں ڈالا جائے گا۔یہ احساس ہی انسانوں کو ایک ذمہ دار شہری بنائے گاجو تنہائی میں بھی ناجائز کام کرنے اور رشوت لینے سے ڈریں گے۔صرف یہی احساس انسان کو حقیقی نیکی کا خوگربنائے گا۔
جب بھارت کے لوگ آپس میں جھوٹے نسلی تفاخر سے بچ کر آپس میں بھائی بھائی بن کررہیں گے اور باطل طریقوں سے مال کھانے کے بجائے ایک دوسرے کے حقوق کے محافظ بنیں گے اور اخروی جواب دہی کے احساس کے ساتھ زندگی گزاریں گے تو دنیا میں بھارت بہت جلد ایک ترقی یافتہ ملک بن کر وشو گرو بن سکتا ہے۔ بھارت کے وشو گرو بننے کا سفر اس طرح سے طے ہوسکتا ہے کہ :
۱)ہم آپسی نفرت ،عدم مساوات ،عدم اتحاداور افتراق (Disunity)کے دلدل سے نکل کر اتحاد (Unity)کی طرف سفر کریں۔
۲) اور غیرذمہ دارانہ اور غیر اخلاقی رویے (Immorality)کو چھوڑکر اپنےآپ کو خالق کے سامنے جواب دہ سمجھ کر رشوت ستانی کے کلچر سے باز آکر اخلاقیات (Morality)کو اختیارکریں ۔Unity and Moralityہی میں بھارت کی نجات اور ترقی ہے جس کی بنیادوں کو اس مضمون میں پیش کیا گیا ہے۔
یہ دعوتی گفتگو کا ایک ماڈل ہے جس میں بھارت میں پائے جائے والے دو اہم مسائل کو قرآن کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے ۔ہر محب وطن سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس گفتگو پر دھیان دے گا۔تجربہ نے ثابت کیا ہےکہ اس گفتگو کو مسلم دشمنوں میں بھی پیش کیا گیااور جس کو اچھی طرح سے سنا گیا۔اس گفتگو کو ایک مسلمان ، مسلم محب ِ وطن کے طورپر ایک غیرمسلم محب ِوطن کے سامنے پیش کرسکتا ہےجس میں توحید،وحدتِ انسانیت اور آخرت کے عقائد کو پیش کیا گیا ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جولائی تا 03 اگست 2024