بھارت سمیت دنیا بھر میں مہنگائی بڑھنے کا امکان

سن رسیدہ آبادی میں اضافہ۔ محنت کشوں کی آبادی میں کمی

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

مصنوعی ذہانت کی ترقی اور اس کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان عالمی معیشت میں تبدیلی لا رہا ہے
دنیا کے کئی ممالک میں سیاسی ومعاشی منظر بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ آبادی کی بڑھتی عمر، موسمیاتی تبدیلیاں، امیگریشن مخالف احتجاجات ، گلوبلائزیشن کی بدلتی ہوئی شکلوں اور ٹیکنالوجی کے ارتقاء کی وجہ سے سنٹرل بینکوں کو مستقبل میں کثیر جہتی دباو کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ سب سے زیادہ قابل توجہ امور مالیاتی ضابطوں اور قرضوں سے متعلق ہیں۔ جب کسی ملک میں تیز طرار لیڈر کو حکومت مل جاتی ہے تووہ سوچتے کم ہیں اور وہ بڑے چیلنجوں کے ساتھ بڑے منصوبے بھی بناتے ہیں جس پر وہ کھل کر خرچ بھی کرتے ہیں۔ حقیقی شرح سود کے طویل المدتی رجحان پر آنے کا امکان رہتا ہے جس سے قرض خدمات کی لاگتیں حکومت کے بجٹ کا بڑا حصہ ہضم کرجاتی ہیں۔ موجودہ روس، یوکرین اور فلسطین-اسرائیل جنگوں کے حالات کے مد نظر فوجی اخراجات کا امکان زیادہ ہی رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ تعلیم کے مد میں خرچ ہاتھ کھول کر کرنا ہوگا۔ ملک کی بڑی آبادی ہنر مند (Skilled) نہیں ہے۔ حکومتیں اپنی آبادی کو مصنوعی ذہانت( اے آئی) کے لیے تیار کرنا چاہیں گی کیونکہ مصنوعی ذہانت کی ترقی اور اس کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان عالمی معیشت میں تبدیلی لا رہا ہے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں سے منسلک اخراجات اور سبسیڈی بھی ضروری ہو جائے گی۔ سیاسی بے ضابطگیوں کی وجہ سے کاربن کے اخراج پر ٹیکس مشکل ہو جائے گا۔ یہ سب اضافی خرچ دکھاتا ہے کہ مرکزی بینکوں کو حکومت کی توسیع پسند احسانات کو سخت ضابطوں کے ذریعے متوازن رکھنا ہوگا۔ ہمارے ملک کی طرح دنیا کے اکثر ممالک قرض کے پھندے (Debt Trap) میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مالی اعتبار سے زیادہ اہم اخراجات کا کچھ حصہ بزرگوں کی نگہداشت کے لیے لگے گا۔ محنت کشوں کے فقدان کی وجہ سے تنخواہوں میں اضافہ ممکن ہے۔ یہ سب عوامل مہنگائی کو مزید بڑھائیں گے۔ بے شک عمر میں اضافہ سے بچتیں بھی بڑھتی ہیں اورعمر دراز لوگوں کی اکثریت والے ممالک میں امیگریشن سے محنت کشوں کی کمی پوری کی جاتی ہے لیکن آج حال یہ ہے کہ سن رسیدہ آبادی والے بیشتر ممالک امیگرینٹس کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ چارلس گڈہارٹ اور منوج پردھان جیسے ماہرین کا ماننا ہے کہ چین میں محنت کشوں کی عمر والی آبادی مسلسل کم ہورہی ہے۔اس طرح دوسرے ممالک میں بھی آبادی ضعیف ہو رہی ہے۔ اس سے لیبر فورس میں کمی آئے گی اور ترقی بھی کم ہوگی۔ مذکورہ بالا عوامل کا ہم اپنے ملک پر اطلاق کرسکتے ہیں۔
ڈی گلوبلائزیشن کے ٹرینڈ کی وجہ سے بیرونی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ لیکن کیا یہ عمل مالی خسارہ کو بھی بڑھاوا دے گا؟ اس کا انحصار اس امرپر ہے کہ کس طرح کے عوامل سامنے آتے ہیں۔ اگر ٹیرف میں اضافہ ہوتا ہے تو افراط زر (Inflation) میں بھی کافی اضافہ ہوگا اور مرکزی بینکوں کے لیے شرح سود میں اضافہ سے الگ رہنا محال ہوگا۔ محفوظ درآمدات کی قیمتوں میں اضافے سے غریب لوگ مزید غریب ہوتے جائیں گے اور طلب میں بھی کمی آئے گی۔ اس لیے مالی خسارہ کو زیادہ نہیں بڑھایا جائے گا۔ ڈی گلوبلائزیشن مقابلہ جاتی مارکٹ کو کم کرکے یکطرفہ منافع کو بڑھاوا دے گا اور اس طرح مرکز کی بینکوں کو زیادہ مالی خسارہ کو اجازت کے لیے تیار رہنا ہوگا کہ ڈی گلوبلائزیشن اس کے برعکس کرے گا۔ کو-کاربن اکانومی کی جانب رجوع کرنے سے تصویر اور بھی زیادہ پیچیدہ ہوگی۔ گرین ریگولیشن عام طور پر آلودہ وسائل پر فنڈنگ کرتے ہیں۔ کبھی کبھی بینک ایسے منصوبوں کو فنڈ فراہم نہیں کرتے۔ لیکن جب تک توانائی کے آلودہ ذرائع ایک ضروری پیدواری ان پٹ بنے ہوئے ہیں تب تک ان پر منحصر پیداوار ضرور مہنگی ہوگی۔ جب طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو فرموں کو آلودہ توانائی کو کام میں لانا ہوگا جس میں لاگت اور پیداوار کی قیمتیں مزید بڑھیں گی۔ افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے مرکزی بینک کے ضابطوں کو بہت سخت کرنا ہوگا جس کا مطلب ہوگا دھیمی شرح نمو۔ اس سے سبز توانائی کی طرف جانے سے لوگ ہچکچائیں گے۔ مذکورہ بالا جن نکات پر گفتگو ہوئی ہے ان میں زیادہ تر اونچی مہنگائی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں یا دنیا میں مصنوعی ذہانت کا استعمال
زیادہ ہوگا تو پیداوار میں اضافہ ممکن ہے کیونکہ زیادہ سستے سپلائی چین کی وجہ سے افراط زر کا دباو کم ہوسکتا ہے۔ حالانکہ یہ دور کی کوڑی ہے۔
واضح رہے کہ جون میں خردہ مہنگائی بڑھ کر 5.08فیصد پر پہنچ گئی تھی۔ یہ مہنگائی چار ماہ کے سب سے اوپری سطح پر ہے۔ اپریل میں یہ مہنگائی 4.85 فیصد رہی تھی۔ وہیں مئی میں مہنگائی 4.78 فیصد رہی تھی۔ قومی شماریاتی آفس (این ایس او ) نے 12 جولائی کو یہ ڈیٹا شائع کیا تھا۔ آر بی آئی کی مہنگائی کو لے کر 2-6فیصد کا رینج ہے۔ اسی طرح جون میں تھوک مہنگائی 16ماہ کی اوپری سطح پر پہنچ گئی تھی۔ 15جولائی کو جاری کیے گئے ڈیٹا کے مطابق جون میں تھوک مہنگائی بڑھ کر 3.36فیصدپر آگئی۔ فروری 2023 میں تھوک مہنگائی کی شرح 9.85فیصد رہی تھی۔ غذائی مہنگائی کے مقابلے میں 7.4فیصد سے بڑھ کر 6.68فیصد پر آگئی۔ ہمارے ملک میں آر بی آئی کے پاس ریپوریٹ مہنگائی کو قابو میں رکھنے کا ایک زبردست حربہ ہے۔ جب مہنگائی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو آر بی آئی ریپوریٹ بڑھا کر اکنامی میں منی فلو کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ریپوریٹ زیادہ ہونے پر بینکوں کو آر بی آئی سے ملنے والا قرض مہنگا ہوگا۔ اس کے بدلے بینک اپنے گراہکوں کو مہنگی شرح قرض پر دیتے ہیں اس سے ملک میں منی فلو کم ہوتا ہے۔منی فلو کم ہوتا ہے تو طلب میں کمی آتی ہے اور مہنگائی کم ہوجاتی ہے اس طرح جب معیشت کا خراب وقت آتا ہے تو ریکوری کے لیے منی فلو بڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے حالات میں آر بی آئی ریپوریٹ کم کردیتا ہے۔ اس سے بینکوں کو آر بی آئی سے ملنے والا قرض سستا ہوجاتا ہے اور گراہکوں کو بھی سستا قرض ملتا ہے۔ ویسے مہنگائی کا راست تعلق پرچیزنگ پاور سے ہے۔ مثلاً اگر شرح مہنگائی سات فیصد ہے تو حاصل شدہ سو روپے کی قیمت محض 93 روپے ہوگی۔ اس لیے مہنگائی کے مد نظر سرمایہ کاری کرنا اچھا ہے۔
آر بی آئی کے گورنر شکتی کانت داس نے 8اگست کو مانیٹری پالیسی (ایم پی سی) میٹنگ میں لیے گئے فیصلوں کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی آر بی آئی نے سروے رپورٹ بھی شائع کی جس کے مطابق جولائی میں شرح مہنگائی 8.2فیصد رہ سکتی ہے۔ سروے کے مطابق شرح مہنگائی میں 0.20فیصد کا اضافہ ممکن ہے۔ سروے میں مزید کہا گیا کہ آئندہ تین ماہ اور ایک سال میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ رپورٹس کے مطابق عام قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سروے ملک کے 19شہروں میں کیا گیا تھا اور یہ 10دنوں پر مشتمل سروے 2 اور 11 جولائی کے درمیان کیا گیا جس میں کل 6091جواب دہندگان نے حصہ لیا۔ شکتی کانت داس نے کہا کہ خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے مالی سال 2025کی پہلی سہ ماہی افراط زر کو کنٹرول کرنے میں پریشانی پیدا کی ہے۔ ہمارا ہدف مجموعی طور پر افراط زر ہے جس میں خوراک کے افراط زر کا وزن تقریباً 46فیصد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کھانے پینے کے اشیاء کی کھپت میں اس سے زیادہ حصہ کے ساتھ غذائی افراط زر کے دباو کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔
مہنگائی کی صورتحال کو لے کر ملک کے بڑے شہروں میں رہنے والے کنبے آنے والے سال میں معاشی صورتحال کے بارے میں کم پرامید ہیں۔ آر بی آئی کے کنزیومر کانفیڈنس سروے (سی سی ایس) کے مطابق عام معاشی حالات، روزگار اور قیمتوں کے حوالے سے کم امید کی وجہ مستقبل کی توقعات کا اشاریہ (ایف بی آئی ) جولائی 2024میں 4.1فیصد کم ہو کر 120.7فیصد ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ مئی 2024میں یہ 124.8فیصد تھا۔ دوسرے سروے میں روزگار کی موجودہ حالت اور اپنی آمدنی کے بارے میں لوگوں کے اندر تاثر میں کمی آئی ہے۔ اخراجات کے علاوہ دیگر اہم مورچوں پر لوگوں کا تجزیہ کمزور ہوا ہے۔ آر بی آئی نے کہا کہ اس کی وجہ سے جولائی میں کرنٹ سچویشن انڈیکس (سی ایس آئی) کم ہوکر 93.9پر آگیا جو دو ماہ قبل 97.1پر تھا کیونکہ مختلف پروڈکٹ گروپس میں قیمتوں میں اعتدال سے زائد افراط زر کا دباو نظر آرہا ہے۔
***

 

***

 مہنگائی کی صورتحال کو لے کر ملک کے بڑے شہروں میں رہنے والے کنبے آنے والے سال میں معاشی صورتحال کے بارے میں کم پرامید ہیں۔ آر بی آئی کے کنزیومر کانفیڈنس سروے (سی سی ایس) کے مطابق عام معاشی حالات، روزگار اور قیمتوں کے حوالے سے کم امید کی وجہ مستقبل کی توقعات کا اشاریہ (ایف بی آئی ) جولائی 2024میں 4.1فیصد کم ہو کر 120.7فیصد ہوگیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 اگست تا 31 اگست 2024