
بھارت پر روہنگیا پناہ گزینوں اور درانداز بنگلہ دیشیوں کے غیر قانونی اور جبری انخلا کا الزام
حقوق انسانی کی تنظیموں کی تشویش، آئینی اور قانونی طرز عمل اپنانے کی اپیل
شہاب فضل، لکھنؤ
بین الاقوامی میڈیا میں ملک کی شبیہ مجروح، زرد صحافت سے کنارہ کشی اختیار کرنا لازمی
بھارت سے کچھ روہنگیا پناہ گزینوں کے جبری انخلا اور ملکی و بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو خاطر میں لائے بغیر انہیں میانمار یا بنگلہ دیش کی سرحد میں زبردستی دھکیلنے کے حالیہ واقعات نے ملکی و عالمی حقوق انسانی تنظیموں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے 8 مئی کو اس سلسلہ میں ایک اپیل کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر روہنگیا پناہ گزینوں کو یہاں کے قوانین کے مطابق غیر ملکی قرار دیا جاتا ہے تو انہیں قانونی راستے کے ذریعے ان کے اصل وطن بھیجنے کا اختیار حاصل ہے اور اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ حقوق انسانی کے لیے سرگرم رہنے والے سینئر وکلاء کولن گونزالویز اور پرشانت بھوشن نے عدالت سے یہ فریاد کی کہ میانمار میں روہنگیا اقلیت کو نسل کشی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انہیں انسانی بنیادوں پر بطور پناہ گزیں بھارت میں رکنے کا حق حاصل ہے مگر عدالت نے کچھ روہنگیا افراد کو زبردستی ملک سے بے دخلی کی باتوں کو سوشل میڈیا کی غیر مصدقہ خبر قرار دیتے ہوئے انہیں کوئی فوری راحت دینے سے انکار کر دیا۔ اس سلسلہ میں مزید سماعت 31 جولائی کو متوقع ہے۔
دوسری جانب بین الاقوامی اور کچھ ملکی میڈیا نے ان خبروں کی تصدیق کی ہے، جس پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس کارروائی کو ‘غیر انسانی’ قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، ساتھ ہی حکومت سے اپیل بھی کی ہے کہ وہ روہنگیا پناہ گزینوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہ کرے اور انہیں میانمار کے تعذیبی حالات میں واپس نہ بھیجے۔
چنندہ آزاد میڈیا اداروں نے روہنگیا پناہ گزینوں کے رشتہ داروں اور متعلقین سے براہ راست بات کرکے اس بات کی تصدیق کی کہ دہلی سے تقریباً 43 روہنگیا پناہ گزیں (بعض میڈیا اداروں نے یہ تعداد 40 بتائی ہے) جن میں بچے، خواتین اور عمر رسیدہ بیمار افراد شامل تھے، انہیں بایومیٹرک تصدیق کے نام پر جمع کیا گیا، انہیں انڈمان و نکوبار لے جایا گیا، وہاں سے بھارتی بحریہ کے جہازوں سے بحر انڈمان پار کرایا گیا اور پھر میانمار-تھائی لینڈ سمندری سرحد پر تننتھاری خطہ میں لائف جیکٹ پہناکر انہیں سمندر کے حوالے کر دیا گیا تاکہ وہ میانمار سرحد میں واقع ایک جزیرہ تک اگر پہنچ سکیں تو پہنچ جائیں۔ میڈیا رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ یہ افراد ساحل پر زندہ تو پہنچ گئے مگر وہ غیر یقینی حالات کا شکار ہیں۔ اسی طرح آسام کے علاقے میتیا میں واقع حراستی مرکز سے تقریباً 102 روہنگیا پناہ گزینوں کو جمع کرکے بذریعہ بس تری پورہ کے راستے بنگلہ دیش سرحد پر لے جا کر بنگلہ دیش بھیج دیا گیا۔ دہلی میں روہنگیا پناہ گزینوں کے ساتھ جو کارروائی ہوئی وہ چوبیس گھنٹے کے اندر پوری کرلی گئی۔ بنگلہ دیش بھیجے جانے والے پناہ گزینوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔
بنگلہ بولنے والے مسلمان بھی نشانہ پر
پہلگام سانحے کے بعد روہنگیا پناہ گزینوں کے ساتھ ہی بنگالی مسلمانوں کے خلاف بھی ملک کی مختلف ریاستوں میں اسی طرح کی کارروائیاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ راجستھان میں بنگالی بولنے والے 148 مسلمانوں کے خلاف انہیں بنگلہ دیشی شہری قرار دے کر کارروائی کی گئی اور انہیں کسی جائز قانونی کارروائی کے بغیر زبردستی ملک سے نکالنے کے لیے بھارت-بنگلہ دیش سرحد لے جایا گیا۔ سماجی تنظیم پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) نے ان دونوں کارروائیوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
پی یو سی ایل کے بیان کے مطابق سیکر اور کوٹ پتلی اضلاع سے 148 بنگالی مسلمانوں کو حراست میں لے کر جودھ پور میں بی ایس ایف کے حوالے کیا گیا اور پھر وہاں سے انہیں مغربی بنگال میں بین الاقوامی سرحد پر لے جایا گیا۔ پی یو سی ایل نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما کے 10 مئی کے ایک بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تیس سے چالیس غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو باہر نکالا گیا ہے۔
اس سلسلہ میں پی یو سی ایل نے ریاست اروناچل پردیش بنام یونین آف انڈیا کے ایک مقدمہ میں سپریم کورٹ کے 1996 کے ایک فیصلے کا بطور خاص حوالہ دیا جس میں عدالت نے کہا تھا کہ بھارت میں سبھی لوگ چاہے وہ شہری ہوں یا نہ ہوں، انہیں قانون کے سامنے برابری کا حق حاصل ہے۔ تنظیم نے بین الاقوامی قانون کا بھی ذکر کیا جس کا بھارت پابند عہد ہے۔ اس کے مطابق قانونی عمل اپنائے بغیر بھارت نے اجتماعی طور سے لوگوں کو جبری طور سے باہر نہ نکالنے کا پیمان کیا ہے۔
پی یو سی ایل نے مزید کہا کہ اسے راجستھان کے 6 حراستی مراکز میں قانونی خلاف ورزیوں کے ثبوت ملے ہیں اور متعدد بے قصوروں کی رہائی میں اس نے مدد کی ہے۔ تنظیم نے ایسی تمام کارروائیوں کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ قانونی طور و طریقے اپنائے، متاثرین کے لیے قانونی امداد تک رسائی ممکن بنائے اور تارکین وطن کو غیر قانونی کارروائیوں کا نشانہ بنانے سے گریز کرے۔
ڈیپورٹیشن اور ڈھکے چھپے انداز میں ملک بدری میں فرق ہے
ڈیپورٹیشن اور ڈھکے چھپے انداز میں پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے میں بہت فرق ہے۔ ڈیپورٹیشن میں قانونی عمل اپنایا جاتا ہے اور متعلقہ فرد کو ایک ملک، دوسرے ملک کے حکام کے حوالے کرتا ہے۔
حقوق انسانی کی تنظیمیں، ادارے اور سماجی جہدکار روہنگیا اور درانداز بنگلہ دیشیوں کے تعلق سے بھارت کی حالیہ پالیسی تبدیلیوں پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کی اپیلوں پر بعض اوقات عدالتوں سے راحت مل جاتی ہے اور بعض اوقات ہمدرد حکومتوں سے بھی تعاون مل جاتا ہے، لیکن بھارت میں روہنگیا پناہ گزینوں کا معاملہ چونکہ ایک پیچیدہ سیاسی رخ رکھتا ہے اس لیے موجودہ ماحول میں انہیں یہاں سکون میسر نہیں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کونسل (یو این ایچ آر سی) نے روہنگیا پناہ گزینوں کو بھارت میں شناختی کارڈز جاری کیے ہیں لیکن حکومت ہند انہیں تسلیم نہیں کرتی۔ بھارت نے پناہ گزینوں کے تحفظ سے متعلق کسی بین الاقوامی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں لیکن ملک کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب اس نے انسانی بنیادوں پر پناہ گزینوں کو یہاں رہنے کے لیے جگہ دی اور روایتی بین الاقوامی قانونی اصولوں کا احترام کیا۔
بھارتی حکومت سے عظیم جمہوری روایات کا پاس رکھنے کی اپیلیں
بین الاقوامی تنظیم رفیوجیز انٹرنیشنل کے مطابق ملک میں یو این ایچ آر سی کے ساتھ تقریباً 22500 روہنگیا پناہ گزیں رجسٹرڈ ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 21 (زندگی کا حق) ایسے پناہ گزینوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ حالانکہ بنیادی حقوق عام طور سے شہریوں کا احاطہ کرتے ہیں لیکن زندہ رہنے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے چاہے وہ ملکی ہو یا غیر ملکی۔
میانمار میں 2017 میں نسل کشی سے بچنے کے لیے روہنگیا اقلیت کے لوگوں نے لاکھوں کی تعداد میں وہاں سے جان بچا کر بنگلہ دیش اور بھارت کی مختلف ریاستوں میں پناہ لی۔ ملحوظ خاطر رہے کہ بھارت میں جب شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) نافذ ہوا تو اس کے خلاف مظاہرے اسی بنیاد پر ہوئے کہ اس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی بنیادوں پر تعذیب کی بنا پر ترک وطن کرکے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائیوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی تھی لیکن مسلمانوں کو اس قانون کے دائرہ میں شامل نہیں کیا گیا، چنانچہ خاص کر روہنگیا مسلمانوں کے لیے بھارت میں حالات نا ساز گار ہوتے گئے۔
حقوق انسانی کے جہدکاروں کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے فریاد کریں یا پھر حکومت ہند سے اپیلیں کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں حکومت ہند کا رویہ سخت معاندانہ ہے، چونکہ یہ مسئلہ حکومت وقت کے لیے سیاسی طور سے موزوں ترین ہے اس لیے اس پر سیاسی روٹیاں سینکی جارہی ہیں اور یہ بیانیہ عام کر دیا گیا ہے کہ ملک کی سلامتی کے لیے روہنگیا پناہ گزیں خطرہ ہیں لہٰذا انہیں ملک سے باہر نکال دینا چاہیے۔
ملک میں عام شہریوں کے ذہنوں کو بھی پراگندہ کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کے مسئلہ پر جب بھی کوئی ہمدردانہ اپیل سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جاتی ہے یا تعذیبی کارروائیوں کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوتی ہیں تو ان پر منفی تبصروں، گالی گلوج اور مذہب کے حوالے سے طنز و تضحیک پر مبنی پوسٹوں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔
روہنگیا پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ انہیں بودھ اکثریت والے ملک میانمار میں مسلمان ہونے کے باعث نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس سے بچ کر وہ بھاگے ہیں۔ وہ بھارت کی حکومت سے ہمدری کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح سے کئی دیگر ملکوں کے لوگ بھارت میں شہریت کے بغیر بطور پناہ گزیں رہ رہے ہیں انہیں بھی حکومت اپنی شاندار آئینی و جمہوری روایات کا پاس کرتے ہوئے اپنے ملک میں رہنے دے۔ سپریم کورٹ میں اپنی اپیل میں روہنگیا پناہ گزینوں نے یہی فریاد کی ہے کہ بھارتی حکومت غیر قانونی طریقہ سے ان کے لوگوں کو نسل کشی والے حالات میں نہیں دھکیل سکتی۔ آئین و قانون سے چلنے والا ایک عظیم جمہوری ملک ہونے کے ناطے بھارت کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی ہمدردی سے کام لے اور انسانی اصولوں کا احترام کرے تاکہ دنیا کے دیگر ممالک کے لیے بھی یہ ایک نظیر بنے اور دنیا کے کسی بھی کونے میں نسل کشی کی حوصلہ شکنی ہو’’۔
روہنگیا پناہ گزینوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں گونج
پیپلز یونین فار سِول لبرٹیز (پی یو سی ایل) نے اپنے ایک طویل بیان میں بھارت سے 43 روہنگیا پناہ گزینوں کو لائف جیکٹ پہنا کر سمندر میں چھوڑنے کے عمل کو ‘‘غیر قانونی و غیر انسانی’’ اور ملکی و بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ پی یو سی ایل کے مطابق ان پناہ گزینوں کو بایومیٹرک ڈیٹا جمع کرنے کے نام پر دہلی کے مختلف تھانوں میں لے جایا گیا اور پھر انہیں مبینہ طور پر اندرلوک واقع ایک ڈٹینشن سنٹر میں رکھا گیا، جہاں سے انہیں بذریعہ طیارہ پورٹ بلیئر لے جایا گیا۔ پی یو سی ایل کی صدر کویتا سریواستو نے اس نام نہاد ‘پُش بیک’ پالیسی کو آئینی اور بین الاقوامی انسانی ضوابط و اصولوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔
اس پورے واقعہ کو پہلے پہل منظر عام پر لانے والے میڈیا اداروں میں سے ایک مکتوب میڈیا ڈاٹ کام کے ڈپٹی ایڈیٹر شاہین عبداللہ نے بتایا کہ ہم نے اس پورے واقعہ پر ایک تفصیلی رپورٹ 10 مئی کو اور اس کے بعد ایک ویڈیو رپورٹ نشر کی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ بین الاقوامی میڈیا میں شواہد کے ساتھ رپورٹیں شائع ہونے کے بعد اب شاید سپریم کورٹ کچھ نرمی اور ہمدری کا مظاہرہ کرے۔
انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ فروری میں حکومت کو یہ ہدایت دی تھی کہ روہنگیا بچوں کو اسکولوں میں پڑھنے کا موقع دیا جائے، چنانچہ اب کچھ بچوں کے داخلے دہلی کے اسکولوں میں ہوئے ہیں۔ روہنگیا تارکین وطن کے جبری انخلا کے سلسلہ میں تازہ اپیل پر سپریم کورٹ شاید اب اپنے موقف میں کچھ نرمی لائے اور انہیں زبردستی ملک سے نکالنے کی کارروائی کو روکنے کی ہدایت دے۔
نیویارک ٹائمز، الجزیرہ، ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ، دی ڈپلومیٹ اور العربیہ نے اس واقعہ کی تفصیلی رپورٹنگ کی ہے۔ ان اطلاعات پر میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ٹام اینڈریوز نے کہا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو بحری جہازوں سے لے جا کر سمندر کی لہروں کے حوالے کرنے کا عمل انسانی وقار کے خلاف ہے۔ میں ان پیشرفتوں کے بارے میں مزید معلومات طلب کر رہا ہوں۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے روہنگیا پناہ گزینوں کی غیر انسانی اور جبری ملک بدری پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق حکام کی طرف سے ان کو یہ کہا گیا کہ انہیں کسی محفوظ ملک منتقل کیا جا رہا ہے۔ جب یہ پناہ گزیں تیر کر ساحل پر پہنچے تب ان کو پتہ چلا کہ وہ دوبارہ اسی ملک میں واپس پہنچ گئے ہیں جہاں سے وہ جان بچا کر فرار ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ بات درست ہے تو یہ بھارت کے آئینی اور انسانی اصولوں سے ایک افسوس ناک اور شرم ناک انحراف ہے۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے مزید کہا کہ ہم حکومت کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ بھارت نے اقوام متحدہ کے کنونشن اگینسٹ ٹارچر کے منشور پر دستخط کیے ہیں جو ‘ریفیولمنٹ’ یعنی کسی شخص کی ایسی جگہ جبری واپسی کی ممانعت کرتا ہے جہاں اس کی جان کو یا آزادی کو خطرہ لاحق ہو۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے روہنگیا کو نسل کشی کا شکار قرار دیا ہے۔ ایسے میں انہیں میانمار واپس بھیجنا بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور اخلاقی ذمہ داریوں سے فرار ہے۔ انہوں نے حکومت ہند سے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کی جبری ملک بدری کے سلسلہ کو روکا جائے، ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے اور اس ظلم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کہٹرے میں لایا جائے۔ پروفیسر سلیم نے کہا کہ ہم عدلیہ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھارت کے آئین کی دفعہ 21 کے خلاف ہونے والی اس کاروائی کا از خود نوٹس لے اور مظلومین کو تحفظ فراہم کرے۔
آسام کے وزیر اعلیٰ نے ‘پُش بیک’ پالیسی کی وکالت کی
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما نے 10 مئی کو گوہاٹی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن اور روہنگیا پناہ گزیں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے، انہیں ‘پُش بیک’ پالیسی کے تحت واپس بھیجا جا رہا ہے۔ ان کے بقول حکومت نے واپس دھکیلنے کی یہ پالیسی اپنائی ہے۔ دوسری جانب بنگلہ دیشی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ آسام کی حکومت اور بارڈر سکیورٹی فورس نے سیکڑوں ایسے لوگوں کو بنگلہ دیش بھیجا ہے جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں۔ ان میں سے 78 کو سندربن کے راستے بنگلہ دیش میں دھکیلا گیا۔ ان میں فارینرز ایکٹ 1946 کے تحت سزا یافتہ غیر ملکی بھی شامل ہیں جو بھارت میں سفری دستاویز کے بغیر داخل ہوئے یا ویزا کی مدت سے زیادہ دن تک یہاں مقیم پائے گئے۔
انسانی حقوق کے علم برداروں کا کہنا ہے کہ روہنگیا یا بنگلہ دیشی کے نام پر بے جا کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور بھارتی حکومت کو تعذیبی کارروائیوں سے بچ کر یہاں آنے والے پناہ گزینوں اور دیگر غیرملکی شہریوں میں فرق کرنا چاہیے۔ بنگلہ بولنے والے سبھی مسلمان لازمی طور سے بنگلہ دیشی نہیں ہیں، اس لیے ملک کی مختلف ریاستوں میں انہیں اجاڑنے اور ان کے ساتھ غیر انسانی ناروا سلوک پر روک لگنی چاہیے۔ اسی طرح روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ چونکہ بالکل مختلف ہے اور وہ نسل کشی سے بچنے کے لیے بھارت آئے ہیں اس لیے ان کے ساتھ ہمدردی کا سلوک ہونا چاہیے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025